اطلاعات تک رسائی کا قانون

پاکستانی میڈیا ان دنوں شعیب اور ثانیہ مرزا کی شادی میں اس طرح مگن ہے جیسے بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔ اس شادی کے مختلف پہلوؤں پر جب ملک کے اچھے بھلے سنجیدہ ادیب اور دانشور بھی اپنی دانشوری کے پھول ٹی وی پروگرام میں بیٹھ کر کھلانے لگیں تو اس بات کا گمان ہوتا ہے کہ اس ملک میں اس سے بڑھ کر کوئی عوامی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ میڈیا نے پروپیگنڈے کا ایسا جال بن رکھا ہے کہ اس سے ہٹ کر مزید سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ سوات میں لڑکی کو کوڑے مارنے کی جعلی فلم نے ہزاروں خاندانوں کو بے گھر کیا، ہزاروں لوگ اس فلم کے نشر ہونے کے بعد مارے گئے۔ پاکستان کی معیشت تباہ ہوئی۔ اب اس فلم کے ہدایت کار، ڈرامہ ساز، اداکار پیسہ دینے والے، پیسہ لینے والے این جی او سب سامنے ہیں۔ لیکن اس سازش کرنے والوں پر کوئی مقدمہ نہیں ہے۔ ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ انہوں نے اس ملک کی تباہی کے لئے اس ڈرامے میں کیوں حصہ لیا۔ آج کے دور میں میڈیا کے ہتھیار سے معصوم انسانوں کو ذبح کیا جارہا ہے۔ عراق پر حملے سے پہلے سی این این پر ایک جعلی فلم میں ایک کتے کو گیس کے کیمیائی ہتھیار سے ہلاک ہوتے دکھایا گیا۔ پھر پروپیگنڈہ نے وہ رخ اختیار کیا کہ لاکھوں مسلمانوں کو عراق میں قتل کردیا گیا۔ اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں انتھروکس کے جراثیمی ہتھیاروں کے حملے کا ڈرامہ رچایا گیا۔ اخبارات کے دفاتر پر اس سلسلے میں کیسی کیسی کاروائیاں ہوئیں۔ لیکن کسی نے بھی بعد میں نہ پوچھا کہ یہ سب ڈرامہ کس لئے تھا۔ تیسری دنیا کے عوام خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ لیکن عالمی سازشی کھلاڑیوں نے برڈ فلو کا ڈرامہ رچا کر لاکھوں مرغیوں کو تلف کرا دیا۔ جو گوشت 120 روپے کلو مل رہا تھا اب ڈھائی سو روپے کلو مل رہا ہے۔ کیا صحافت یہی ہے؟ حکومتی ”کارکردگی“ کی تعریفوں اور ان کے سرکاری بیانات چھاپ دئے جائیں۔ کیا میڈیا کی یہی ذمہ داری ہے کہ جو کچھ اسے فراہم کیا جائے اسے بلا سوچے سمجھے نشر کردیا جائے۔ صحافت وہ ہے جس کے قلم کی قرآن نے قسم کھائی اور اس سے تعلیم دینے کی بات کی ہے۔ صحافت نہ کسی کے اشارے پر کسی کے خلاف مہم چلانے کا نام ہے نہ کسی کے تعلقات کی بناء پر کسی کی تعریفیں کرنے کا۔ آج میڈیا کو سنجیدگی سے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہئے۔ نئی آئینی ترامیم کی رو سے آئین میں آرٹیکل 19اے کی شمولیت سے عام شہریوں کو سرکاری دستاویزات تک رسائی حاصل ہو گئی ہے جو کہ ایک بنیادی حق ہے اور اب اگر کسی شہری کو یہ حق نہیں دیا جائے گا تو وہ ایسی صورت میں عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ 37برسوں کے بعد اس آرٹیکل کی شمولیت سے آزادی رائے کا اظہار شہریوں کا بنیادی حق بن گیا ہے۔ 18ویں ترمیم میں نیا آرٹیکل 19 شامل کیا گیا ہے۔ 19اے میں تحریر کیا گیا ہے ”معلومات تک رسائی کا حق ہر شہری کو عوامی اہمیت کے معاملات میں رسائی کا حق حاصل ہو گا۔ بشرطیکہ کسی معقول ریگولیشن یا قانون کے ذریعے اس پر پابندی نہ ہو۔

مذکورہ شق کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور صحافیوں سمیت شہریوں کو معاملات تک رسائی حاصل ہو جائے گی جس سے شفافیت آئے گی۔ اب شہریوں اور صحافیوں کو اپنے اس حق کو استعمال کرنا چاہئے ۔ عدالتوں میں اس سلسلے میں مقدمات ہونے چاہیے۔ ہماری صحافتی تاریخ ہمارے اکابرین کے کارناموں سے روشن ہے۔

قیام پاکستان کی تحریک میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا ظفر علی خان کی خدمات کو کون بھول سکتا ہے کہ ان سب لوگوں نے ذات کی قربانی دے کر حریّتِ فکر اور حرمتِ قلم کا پرچم بلند رکھا۔ کیا ہم ان لوگوں کی صحافت سے اپنی صحافت کا کوئی موازنہ کر سکتے ہیں؟ ہمیں اس مرحلے پر ضرور سوچنا چاہئے کہ ہم کب تک بڑی خبر کے چکر میں ملک اور قوم کا سودا کرتے رہیں گے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418886 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More