مقبوضہ کشمیرــ: بھارت کے اٹوٹ انگ کے نعرے سے ہوا نکل گئی

تار یخی طور پر جموں و کشمیر کبھی بھی بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں رہا۔ اکتوبر 1947 میں ریاست کے مہاراجہ اور گور نر جنرل ماونٹ بیٹن کے مابین ’الحاق معا ہدے ‘کی کوئی حیثیت نہیں۔ ریاست کی ہائی کورٹ نے اپنے حالیہ تاریخی فیصلے میں اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ کبھی نہیں رہا۔ سات لاکھ فوج کے ساتھ بھارت کے 68سالہ غاصبانہ قبضہ کے خلاف تحریک آذادی کے 80 ہزار شہداء کی لاز وال قربانیاں ضرور رنگ لا ئیں گی ۔ بھارت کی داخلی صورتحال سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ آذادی کی منزل قریب آ رہی ہے۔

کشمیر کی تحر یک آذادی کو قانونی ا ور عدالتی محاذ پر ایک زبردست تائد ملی ہے۔ 16 اکتوبر کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس حسنین مسعودی اور جسٹس جنک راج پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کشمیر کی’ حیثیت ‘سے متعلق اپنے تاریخ ساز فیصلے میں واضح طور پر قرار دیا ہے کہ ’’ر یاست جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ کبھی نہیں رہا ۔ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصو صی حیثیت حاصل ہے جسے کسی صورت تبدیل نہیں کیا سکتا ۔‘‘

بھارت کے ’ اٹوٹ انگ‘ کے تنا ظر میں یہ ایک تا ریخ ساز فیصلہ ہے جسکے مقبو ضہ کشمیر پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ فیصلے سے پاکستانی موقف کو بھی تقویت ملے گی۔ بھارت کے اٹوٹ انگ کے دعوے کی قلعی خود ریاست کی عدالت نے کھول دی ہے۔

بھارت ریاست جموں و کشمیر کو اپنا ’اٹوٹ انگ ‘ قرار دیتا ہے۔ اگر ہم ریاست کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیں تو کشمیر کی ریاست کبھی بھی بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں رہی۔بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ ثابت کرنے کے لئے سب سے پہلے مہا راجہ ہری سنگھ کے ساتھ اپنے ایک معا ہدے کا حوالہ دیتا ہے ۔ لہذا اس معاہدے کی حقیقت کو سمجھنا لازم ہے تا کہ بھارت ’کے اٹوٹ انگ‘ کے دعوے کی سچائی کو پرکھا جائے۔

ٓؔ ’آذادی ہند ایکٹ1947‘ کے مطابق ہندوستان کے ریاستوں نے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنا تھا یا دونوں سے الگ خود مختار رہنا تھا۔ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی 68 فی صد جبکہ ہندوؤں کی آبادی 28 فی صد تھی۔ اسطرح ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ فطری طور پر ریاست کا الحاق پاکستان سے ہونا چاہئے تھا۔ لیکن ریاست کے اس وقت کے حکمران مہا راجہ ہری سنگھ کشمیر کے الحاق میں لیت و لعل سے کام لے رہے تھے۔ مہا راجہ اقتدار کے سنگھا سن کو چھو ڑنے پر تیار نہیں تھے۔ جبکہ کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کو بے تاب تھے۔

22 اکتوبر 1948 کو کشمیر کے عوام نے پشتون آذاد قبا ئل کے ساتھ مل کر مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف بغاوت کر دی ۔ مہاراجہ نے اس عوامی بغاوت کو فرو کرنے کے لئے بھارت کے گورنرجنرل لارڈ ماونٹ بیٹن سے فوجی مدد مانگی۔ انگریز گورنر جنرل نے مہا راجہ کی مدد کے لئے ایک ’’ شرط‘‘ رکھی کہ مہا راجہ اس ’فوجی مدد ‘ کے بدلے ریا ست کشمیر کا ’ ’الحاق‘‘ بھارت سے کرنے کا معاہدہ کرے۔ مہاراجہ ہری سنگھ گو رنر جنرل کی ’’ شرط‘‘ مان گیا۔ 26اکتوبر 1948 کو مہا راجہ نے اس ’الحاق معاہدے‘ پر دستخط کر دیئے۔ یوں اس معا ہدے کے مطابق بھارت کی فوج ریاست جموں کشمیر میں داخل ہوئی۔ جو آج تک واپس نہیں گئی ۔ اس طرح بھارت نے ریاست پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔کوئی ریفرنڈ م ہوا نہ کشمیری عوام کے معززین سے پو چھا گیا۔ یہی اس ’’ الحاق معاہدہ ‘‘ کی حقیقت ہے جسکی بنیاد پر بھارت ریاست کشمیر کو اپنا ’اٹوٹ انگ ‘ قرار دیتا ہے ۔ اب مہا راجہ ہری سنگھ اور ماوونٹ بیٹن کے درمیان ایک ایسے خفیہ معاہدے کو پوری ریاست کے عوام کی مرضی سے کیسے تعبیر کیا جا سکتا ہے جسکی انکو خبر ہی نہ تھی ؟

حقیقت یہ ہے کہ ریاست کے عوام تو پہلے ہی مہا راجہ کے خلاف بغاوت کر چکے تھے ۔ اب اگر مہا راج محض ذاتی اقتدار کی خاطر، ذاتی مفاد کے لئے انڈین آرمی کو ریاست میں اپنی مدد کے لئے بلاتا ہے اور معا وضے کے طور پر ریاست کشمیر بھارت کی جھولی میں ڈالتا ہے تو لاکھوں کشمیری عوام اس معاہدے کی پابندی کیوں کریں ؟ اس طرح ا لحاق کا معاہدہ مہا راجہ ہری سنگھ کا ذاتی فعل ہوا۔ اسے کشمیری عوام کی تائدو حمائت حاصل نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ 68 سال سے بھارتی فوج کے خلاف لڑ ر ہے ہیں۔ لہذا بھارت کا ’اٹوٹ انگ‘ کا دعویٰ با طل ثابت ہے۔

’اٹوٹ انگ‘ کے دعویٰ کو بھارت نے عالمی سطح پر خود بھی جھٹلایا ہے۔ جب انڈین آرمی کشمیر پہنچی تو پاکستان نے بھی کشمیری مسلمانوں کی مدد کے لئے اپنی فوج کشمیر میں اُتار دی۔ اسکے بعد یہ بھارت ہی تھا جو مکمل شکست سے بچنے کے لئے اقوام متحدہ میں کشمیر کا معا ملہ لیکر گیا تھا اور پھر اس عا لمی فور م پر وعدہ کیا کہ اقوا م متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے کے ذ ریعے کشمیری عوام اپنے الحاق کا فیصلہ خود کرینگے ۔ گویا اس طرح بھارت نے یہ حقیقت تسلیم کر لی تھی کہ کشمیر بھارت کا ـ’اٹوٹ انگ ‘ نہیں ۔ اگر چہ بھارت نے استصواب رائے کا وعدہ پورا نہیں کیا لیکن عالمی برادری کے سامنے اس وعدے سے عملاََ یہ مان گیا کہ کشمیر بھارت کا ’اٹوٹ انگ‘ نہیں ۔

پاکستان اور بھارت تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ پاکستان نے یہ ثابت کرنے کے لئے یہ تین جنگیں لڑیں کہ کشمیر کے عوام اپنی مرضی سے الحاق کا فیصلہ کرے اور بھارت نے یہ جنگیں اس لئے لڑیں کہ ریاست جموں و کشمیر اسکا ’اٹوٹ انگ‘ ہے ۔ کشمیر کے عوام نے ہزاروں جانیں قربان کیں، عصمتیں لٹائیں، ذندان بھر دیئے ، یہ ثابت کرنے کے لئے کہ کشمیر بھارت کا ’اٹوٹ انگ ‘ نہیں ۔ اور اب ریاست کی اعلیٰ عدالت نے بھی پاکستان اور کشمیری عوام کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے ۔

جمہوری ریاستوں میں انتخابات عوامی رائے اور انکی مرضی کا اظہار ہوتے ہیں۔ ’اٹوٹ انگ ‘ کے سلسلے میں بھارت ایک اور دلیل دیتا ہے کہ وہاں بار بار الیکشن ہوتے ہیں۔ لہذا کشمیری عوام کی انتخابی عمل میں شرکت بھارت کے ’ اٹوٹ انگ‘ کے دعوے کو سچ ثابت کرتی ہے۔ ان ’انتخابات ‘ اور ’عوامی نمائندوں ‘ کی وہی حقیقت ہے جو افغا نستان میں اشرف غنی حکومت اور انکے جملہ نمائند گان کی ہے۔ جو نہ تو عوام میں جا سکتے ہیں اور نہ ہی کھلے عام عوام کا سامنا کر سکتے ہیں ۔ فوجی بندوقوں کی سائے میں دار لحکومت کابل تک محدود ہیں۔ بل کل ا سی طرح کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کے ارکان بھی عوام میں اس آذادی اور اپنائیت کے ساتھ نہیں جاتے جس طرح آذاد جمہوری ریاستوں کے نمائیند ے جا تے ہیں۔ عوام نے تو ہر بار فراڈ الیکشن کا بائیکاٹ کیا ہے۔ بھارت الیکشن کا فلاپ ڈرامہ فوج کی سنگینوں کے سائے میں انجام دیتا ہے۔ اگر عوام آز اد ہیں اور ریاست میں جمہوریت ہے تو وہاں سا ت لاکھ فوج کیا کر رہی ہے؟ اسکے برعکس آز اد کشمیر میں پاکستان نے لاکھوں ا فواج رکھے بغیر عوام کو ہر طرح کی جمہوری آذادی دے رکھی ہے۔کیوں کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ بھارت نے کشمیر کے علاوہ اور کس ریاست میں اتنی ذیادہ فوج تعینات کی ہے ؟ یوں سات لاکھ افواج کے سہارے الیکشن کے ڈرامہ میں ’اٹوٹ انگ ‘کا دعویٰ بھی جائز نہیں۔

کسی بھی قوم کو آز ادی بغیر قربانیوں کی نہیں ملتی۔ کشمیر کے عوام کو اسکا احساس ہے 80 ہزار کشمیری شہداء کا لہو بھی ’ اٹوٹ انگ‘ کے بھارتی دعویٰ کے منہ پر زور دار ت؂طما نچہ ہے۔ اگر کشمیر کے عوام بھارتی غلامی کو قبول کر چکے ہوتے تو اتنی بڑی قربانی کبھی نہ دیتے۔ آز ادی کی طویل جدو جہد میں قید و بند کی صعو بتیں ، تار تار عصمتیں، ہزاروں شہادتوں اور قربانیوں کی داستانِ خونچکاں ۔۔۔ کشمیری عوام نے یہ سب بھارت کے ساتھ ’ اٹوٹ انگ‘ کے طور پر رہنے کے لئے ہر گز نہیں سہا بلکہ بھارتی استعمار کے پنجہء استبداد سے نجات کے لئے ان سب کو مقدس فرض جان کر برداشت کیا ہے تبھی ہر ظلم سہنے کے بعد وہ نئے جوش و جذ بے کے ساتھ بھارتی غلامی کے خلاف اٹھ کھڑے ہو تے ہیں۔ انکی ’’ منزل کشمیر بنے گا پاکستان‘ ‘ہے ۔

جموں و کشمیر کی اصل ’’ حیثیت ‘‘سے متعلق ریاستی ہائی کورٹ کا تا ریخی فیصلہ آ چکا ہے۔ ریاست کے لوگ پاکستان کا جھنڈا پورے ذوق و شوق کے ساتھ جگہ جگہ لگا رہے ہیں۔ اب اس مسلم اکثریتی ریاست کو ’اٹوٹ انگ‘ کا راگ گا گا کر بھارت اپنی غلامی میں ذیا دہ دیر تک نہیں رکھ پائے گا۔ کشمیری عو ام 68 سال سے بھارتی تسلط اور دہشت گردی کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انکی منزل الحاق پاکستان ہے۔ وہ بھارت کی غلامی سے نفرت کرتے ہیں۔

اٹوٹ انگ کا راگ الاپنا اب بھارت سرکار کے لئے دن بدن مشکل ہو رہا ہے کیوں کہ بھارت کے اندرونی تضادات اب کھل کر دنیا کے سامنے آ رہے ہیں ۔ وہ داخلی طور سلامتی کے حوالے سے سنگین خطرات کا شکار ہو رہا ہے۔ سکھ بھی بھارتی انتہا پسندی کی وجہ سے پھر سے ملک بھر میں سراپا احتجاج ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی حکومت بھی کشمیر کا مسئلہ ہر فورم پر پوری قوت کے ساتھ اٹھا رہی ہے۔ ’اٹوٹ انگ ‘ کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے ۔ریاست کشمیر کے لوگ اب کسی بھی وقت پورے جموں و کشمیر کو اپنے پرُ زور احتجاج سے ’’جام‘‘ کر سکتے ہیں۔ دنیا کو اس مسئلے کی شدت کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ لہذا اب مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہوناحل چاہئے کیوں کہ ریاست جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ۔
akbarkhan
About the Author: akbarkhan Read More Articles by akbarkhan: 10 Articles with 15109 views I am MBA Marketing and serving as Country Sales Manager in a Poultry Pharmaceutical Pakistani Company based at Karachi. Did BA from Punjab University... View More