جینے کے لیے اکسانے والا

عجیب ہوتے ہیں ایسے لوگ جو دوسروں کو جینے پر اکساتے ہیں،اپنی جیب خالی رکھتے ہیں اور دوسروں کی مدد کرتے ہیں جو خلقِ خداکے دکھوں پر آرزدہ ، غمگین ، کڑھتے اور جلتے ہیں ، بے چین اور بے قرار ہوتے ہیں لیکن وہ بس کڑھتے جلتے اور بے چین نہیں ہوتے برسر میدان آتے ہیں مجبوروں کو جینے پر اکساتے ہیں ، وہ چیختے چلاتے ہیں ، پڑھتے ، بولتے اور لکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں ۔ ایسے فیصلوں کو انصاف کے ترازوں میں تولا جا سکتا ہے ۔ وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے کہ کوئی کیا کہے گا ۔ بس وہ تو سرتا پا بے آواز انسانوں کی آواز ہوتے ہیں ۔ کوئی بھی ان کی راہ کھوٹی نہیں کر سکتا کہ وہ سیدھے راستے پر ہوتے ہیں اور جو سیدھی راہ پر ہو اسے کوئی کیسے بھٹکاسکتا ہے اور پھر وہ کسی کی سنتے جو نہیں ہیں اس لیے کہ ان کے مقاصد میں برادری ، قبیلے ، رشتہ داروں کی نہیں بلا تخصیص سب کی رہنمائی سب کی خدمت ، کرنا ہوتا ہے ، سب کی آواز بننا ہوتا ہے ۔ ایسے لوگ کاغذ پرلکھے قوانین اور انسان کے بنائے ایسے اصولوں کے غلام نہیں ہوتے جن سے محروم کے حق کو اس سے دور کیا جاتا ہو ۔ آزاد کشمیر حکومت کے سینئر ترین سیکرٹری سردار نعیم شیراز کاکہنا ہے ایسے لوگ نام نہاد اصولوں اور رولز کے غلام نہیں ہوتے ۔ ان کا کہنا ہے جب ہم کام کرتے ہیں تو ہمارے سامنے رولز اور انصاف کے تقاضے ہوتے ہیں اکثر اوقات انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں رولز رکاوٹ ہوتے ہیں ۔ چنانچہ بیورو کریسی رولز کی یرغمال ہوتی ہے جس کی وجہ سے بارہا انصاف نہیں ہو پاتا ۔سردار عبد الرحمان انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کبھی بھی رولز کے غلام نہیں رہے یہی وجہ ہے کہ سردار عبد الرحمان کے ہاتھوں غیر معمولی کام ہوتے رہے۔ منگل 17 جون 2014کی رات میرے لئے مشکل ترین رات تھی ۔ ساڑھے آٹھ بجے اہلیہ کی فون کال نے مجھے رنجیدہ کر دیا ۔ اطلاع ہی ایسی تھی ۔ اس اطلاع نے مجھے ایک بار پھر سے یتیم کر دیا تھا ۔ سردار عبد الرحمان میرے صرف نسبتی والد ہی نہیں تھے بلکہ میرے مربی بھی تھے ۔ سردار عبد الرحمان 1947 ء میں صرف 16سال کی عمر میں ڈوگرہ راج کے خلاف تقریر کرنے کے جرم میں بھارتی فوج کی قید میں رہے ۔ رہائی کے بعد پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھا میٹرک کے بعد گورڈن کالج راول پنڈی سے گریجویشن کیا اور پھر آزاد کشمیر واپس آکر تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کیا 1954 ء میں مدرس کی حیثیت سے تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کرنے والے عبد الرحمان 1995 ء میں ناظم اعلیٰ تعلیمات کی ذمہ داری سے ریٹائر ہوئے ۔ 41 سال تک محکمہ تعلیم سے وابستگی کے دوران زیادہ تر معطل اور او ایس ڈی ہی رہے ۔ اس لیے کہ تفریق ، نا انصافی ، محرومی والے معاشرے میں وہ مساوات ، انصاف کے علمبردار تھے ۔ دوران سروس ہی وہ تفریق ، نا انصافی ، استحصال اور محرومی کے خلاف عوام کی آواز بن گئے تھے اس کے لئے انہوں نے تحریر و تقریر کا راستہ بھی اپنا رکھا تھا ۔ ان کے ہاتھ میں جب روزگار کی فراہمی کا اختیار آیا انہوں نے حکمرانوں اور بالا دست طبقے کی خوشنودی کے بجائے بلا تفریق عباس پور سے لے کر تاؤ بٹ تک لوگوں کو ان کا حق دیا ۔ حکمران ناراض ہوتے رہے ، عبد الرحمان معطل ہوتے رہے مگر وہ جھکے بکے اور نہ ہی ان کے پایہ استقلال میں لغزش آئی ۔ اس دوران ان کے ہاتھ سے ہزاروں افراد کی تقرری کے احکامات جاری ہوئے محکمہ تعلیم میں شامل ہونے والے یہ لوگ حکمرانوں اور اعلیٰ بیورو کریسی کی فہرستوں کا حصہ تھے اور نہ ہی عبد الرحمان کے علاوہ ان کی پشت پر کوئی تھا ۔ ان کا تعلق کسی ایک برادری ایک علاقے سے نہ تھا یہ وہ استحصال زدہ لوگ تھے جو معیار اور اہلیت رکھتے ہوئے بھی نام نہاد سرکاری فہرستوں کا حصہ نہ بن سکے تھے ۔ سردار عبد الرحمان حقیقی معنوں میں سرکاری ملازم نہیں تھے بلکہ وہ ایک انقلابی سیاسی شخصیت تھے ان کی زندگی کا ہر لمحہ لوگوں کی خدمت میں گزرا ۔ شیخ عبد القادر جیلانی نے ایسے لوگوں کے لیے کہا ہے '' اچھے لوگ بھینس کی طرح ہوتے ہیں جو سوکھی گھاس کھا کر بھی میٹھا دودھ دیتی ہے اور برے لوگ سانپ کی طرح ہوتے ہیں جو میٹھا دودھ پی کر بھی ڈس لیتے ہیں '' عبد الرحمان بھی ایسے لوگوں میں شامل تھے ۔ وہ فیاضی کا بے مثل نمونہ تھے اپنے گھر کی دال روٹی کی پرواہ کئے بغیر وہ اپنی تنخواہ مجبوروں اور بے سہارا افراد پر خرچ کر دیتے تھے کوئی ایسا شخص نہ ہو گا جس کا ہاتھ ان تک پہنچا ہو اور وہ خالی لوٹا ہو ۔ وہ '' ون ونڈو '' تھے جہاں لوگ فائلوں افسروں اور کلرکوں کے دفتروں کے چکر لگانے کے بجائے براہ راست اپنے کام کرواتے تھے ۔صدر آزاد کشمیر سردار یعقوب خان اظہار ہمدردی کے لئے گھر تشریف لائے تو یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ میں بھی عبد الرحمان کی طرح کام نہیں کر سکا ۔ بیوروکریسی اچھے کاموں کو بھی فائلوں میں الجھا دیتی ہے میں کوشش کرتا ہوں میرے دفتر میں فائل نہ رکے ۔ سردار عبد الرحمان '' سرعام '' تھے میں بھی ان کی طرح سرعام ہونے کی کوشش کر رہا ہوں ۔کیا کشمیر کا خطہ ایک جدید فلاحی ریاست بن سکتا ہے ۔ یہ سوال ہر شخص کی دلچسپی کا مو ضوع رہا ہے ۔ سردار عبدالرحمان بھی کشمیر کے لیے جدید فلاحی ریاست کا خواب دل میں بسائے ہوئے تھے ان کے خیال میں کشمیر کی جغرافیائی اکائیوں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ایسی ریاست کا روپ دھار سکے جو یورپ کے کسی ملک کی طرح ہو ، جہاں ہر شخص کی جان و مال ، عزت وقار کے تحفظ کی ذمہ دار ریاست ہو ۔ ایک ایسی ریاست جہاں پر امیر اور غریب کے بچے کو تعلیم صحت اور کیریئر بنانے کے یکساں مواقع میسر ہوں ۔ ان کے انہی خیالات کے باعث آزاد کشمیر کے قوم پرست نوجوان ان کے زیادہ قریب تھے ۔ ریٹائرڈ منٹ کے بعد متحدہ محاذ کے نام سے تنظیم قائم کی ۔ راولا کوٹ احاطہ کچہری میں دفتر قائم کیا اور تواتر کے ساتھ آخر دم تک دفتر میں بیٹھے رہے ۔ متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے انہوں نے عوامی مسائل کے حل کے لئے جدوجہد شروع کی ۔ آزاد کشمیر بالخصوص پونچھ میں لوگوں کو یونیورسٹی ، میڈیکل کالج اور نئے ہسپتالوں کے قیام کا شعور دیا ۔ متحدہ محاذ کا دفتر سیاسی ، سماجی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا ۔ نوجوانوں اور سیاسی امور سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے متحدہ محاذ کا دفتر اہمیت کا حامل تھا کیونکہ دفتر میں انہیں نئے خیالات اور حالات سے آگاہی کے علاوہ چائے بسکٹ سے تواضح اور اخبارات کے مطالعے کا موقع بھی ملتا تھا ۔

پاس اور فیل کے تصور نے معاشرے میں اچھائی کے ساتھ ساتھ مسابقت کی ایسی جنگ چھیڑ دی ہے جس میں اخلاقیات اور انصاف موجود نہیں ہے ۔ چنانچہ ترقی کی دوڑ میں حق تلفی اور ناانصافی کا عنصر غالب آ گیا ہے ۔ سردار عبدالرحمان کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ابتدائی تعلیم کے دوران بچوں کو فیل کرنے کے مخالف تھے ۔ محکمہ تعلیم میں ان کا اے ڈی آئی کی ذمہ داری کا دور کئی بزرگوں کو یاد ہے مجھے بتایا گیاہے کہ سردار عبدالرحمان نے اس دور میں اساتذہ کو سختی سے ہدایت کر رکھی تھی کہ پہلی سے آٹھویں تک کسی بچے کو فیل نہ کیا جائے اس کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کے ذریعے تعلیمی کمی پوری کی جائے ۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ سردار عبدالرحمان امتحان لینے گیء امتحان لیا اور آخر میں اعلان کر دیا سارا سکول پاس ہے ۔ سب کو پاس کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ابتدائی تعلیم میں تمام بچوں کا لیول ایک ہی طرح کا ہوتا ہے بس کوئی استاد کی زیادہ توجہ سے نمایاں ہو جاتا ہے ۔ بچے کو فیل کرنا اس کی حوصلہ شکنی کے علاوہ اس کی صلاحیتوں کے آگے رکاوٹیں پیدا کرنے کے مترادف ہوتا ہے ۔ کتابوں اور اخباروں کے ڈھیر میں پھنسے رہنے والے عبد الرحمان کے مطالعے کی میز پر رکھی چائے کی پیالی کبھی بھی خالی نہیں ہوئی ۔ ان سے ملنے آنے والا کوئی بھی شخص ان کے دستر خوان کی برکت سے محروم نہیں ہوا ۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو اور کئی دریچے تھے جہاں افکار اور خیالات کی بھرمار تھی ۔ ان پہلوؤں میں فیاضی ، خدمت اور حوصلہ افزائی کا عنصر غالب تھا چند ماہ قبل انہیں بتایا گیا کہ ان کے عزیز کو فوج میں کرنل کے رینک میں ترقی مل گئی ہے ۔ کچھ لمحے خاموش رہے، اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا اس وقت کرنل کا والد دنیا میں موجود ہے اور نہ ہی اس کی والدہ یہاں ہیں ہم کس کے ساتھ خوشی منائیں ؟ ایسا کریں کیک وغیرہ لے آؤ خود ہی مل کر خوشی مناتے ہیں ۔

سابق محتسب اعلی آزاد کشمیر سردار مختار خان ان دنوں میرپور میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے مسائل ، ضلع حویلی میں تقرریوں، راولاکوٹ شہر کی اکھڑی ہوئی سڑکوں کے معاملات میں الجھے ہوئے تھے۔ ، اگلے مہینے محتسب حضرات کی عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے سیول جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ گوناں گوں مصروفیات سے وقت نکال کر راولاکوٹ تشریف لائے۔ان کا کہنا تھا کہ سردار عبدالرحمن نے سرکاری افسر ہوتے ہوئے عوامی نمائندے کے طور پر لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے بے مثل کام کیا۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی کرکٹ ڈپلومیسی 2004 ء کے بعد پاکستان نے کشمیر کے سلسلے میں یکدم یو ٹرن لے لیا تھا۔ مجھے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھارت جانے کا موقع ملا ۔ نئی دہلی کے حیدر آباد ہاؤس میں جنرل پرویز مشرف اور من موہن سنگھ کے مذاکرات کے بعد مشترکہ بیان میں ، کشمیر کے بجائے دہشت گردی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑا مسئلہ قرار دیا گیا۔ ۔ پاکستان واپسی پر میں نے مشرف کے یوٹرن پر تنقیدی مضامین کی ایک سیریز لکھی ۔ بزرگوار عبد الرحمان نے یہ مضامین پڑھ لئے تھے مجھے بلایا اور کہا میں نے زندگی میں حق اور سچ بات کے اظہار میں کبھی بزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا مگر تمہیں احتیاط کرنا ہو گی ۔ اگرچہ کوئی ایسی صورت حال نہیں تھی کہ مجھے پریشانی ہو مگر مجھے احساس ہوا کہ وہ میرے لیے پریشان تھے ۔ بزرگوار عبد الرحمان چل بسے ہیں۔ بچے اب ہر روز سوال کرتے ہیں اب ہمین کلام اقبال کون سنائے گا؟ بزرگوار عبد الرحمان اب کسی کو شعر نہیں سنائیں گے ، یہ سچ ہے ۔اس سچ کے سامنے ہم مجبور ہیں۔اس مجبوری میں ان کے افکار، خیالات اور روایات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ میں ان تمام احساب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے رحمان فیملی کے ساتھ اس مشکل وقت میں اظہار ہمدردی کیا ۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50631 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More