یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشان کرے گی
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
عمران خان اپنے دوسری اہلیہ
ریحام خان سے قطع تعلق کرنے کے بعد کل 3نومبر کو پشاور میں پہلی بار میڈیا
کے سامنے تشریف فرما ہوئے ان کے دئیں بائیں ان کے قریبی ساتھی اور ہمدرد
بیٹھے تھے۔ یکا یک کسی صحافی کے ایک سوال پر ان کا چہرہ بگڑ گیا، ماتھے پر
بل پڑگئے، آگ بگولہ ہوکر اس صحافی پر خوب برسے۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ اس
غریب ، نہ تجربہ کار اور نادان صحافی نے ان سے جو سوال کیا وہ کچھ مناسب نہ
تھا ، یہ سوال عمران کی حالیہ طلاق کی خبر سے متعلق تھا۔ جسے سنتے ہی عمران
ماضی قریب میں چلے گئے اور ان کا بلڈ پریشرایک دم شوٹ کرگیااور وہ اس صحافی
پر بری طرح برہم ہوئے، عمران خان کے اس غیر معمولی ردِ عمل کو اپنی آنکھوں
سے دیکھ کر میرے ذہن میں اطہر نفیس کے ایک شعر کا مصرع گردش کرنے لگا اور
میں بہت دیر تک اس شعر کو مکمل کرنے کی سعٔی میں رہا، مجھے یہ یاد نہیں
آرہا تھا کہ یہ پہلا مصرع ہے یا دوسرا۔البتہ مصرع مکمل طور پر ذہن کے سات
پردوں سے ہوتا ہوا زبان پر آئے بغیر نہ رہ سکا ۔میں نے اپنی یادداشت کو اس
جانب مرکوز کردیا لیکن شعر مکمل نہیں ہوپایا۔ میری یہ مشکل اس وقت حل ہوگئی
جب میرے ایک نیم شاعر دوست کا فون آگیا ، میں نے اپنی مشکل کا ذکر کیا ، اس
نے بتا یا کہ یہ اطہر نفیس کے شعر کا پہلا مصرع ہے۔ شعر کا دوسرا مصرع بھی
بتا دیا۔ اس طرح میری مشکل آسان ہوئی شعر یہ ہے
یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشان کرے گی
کیوں ڈھونڈ رہے ہو کسی دیوار کا سایَہ
یہ دھوپ عمران خان کو ہر رخ سے پریشان کرے گی۔ تحریک انصاف کے رہنما اس
معاملے سے جتنی بھی جان چھڑائیں ، غصہ کریں، ڈرائیں دھمکائیں، یہ کہیں کہ
یہ ان کا نجی مسئلہ ہے انہیں یہ دھوپ ہر رخ سے پریشان کرتی رہے گی۔ اس کا
یہ حل ہر گز نہیں جو کپتان نے اختیار کیا۔ اپنے آپ کو شانت کریں، ٹھنڈے دل
و دماغ سے نازک صورت حال سے نمٹنے کی حکمت عملی ترتیب دیں۔تھوڑی سی بے
احتیاطی اور غلطی معاملے کو بگاڑ دے گی یا مشکل میں ڈال دے گی۔ ان کی سیاسی
ساخت خراب ہوگی، ان پر تنقید کی جائے گی، یعنی ایک خرابی کئی خرابیاں پیدا
کردے گی۔ کپتان اس سوال کو زہر کا پیالا سمجھ کر پی جاتے اس عمل سے ان کی
موت ہرگز واقع نہ ہوتی ، جواب نہ دیتے۔ بے شمار لوگ پریس کانفرنسوں میں بعض
سوالوں کا جواب نہیں دیتے صاف کہہ دیتے ہیں کہ میں اس سوال کا جواب دینا
مناسب نہیں سمجھتا۔ ان کا جواب ہی غلط نہیں تھا بلکہ صحافی پر برس پڑنا اس
سے زیادہ غلط تھا۔ کپتان کے ساتھ جو ہوا کوئی نیا یا اچھوتا واقعہ نہیں ،
بے شمار لوگوں کی نجی زندگی میں ایسے لمحات آتے رہتے ہیں، کپتان کی تو یہ
دوسری شادی تھی لوگوں کی تو تین تین چار چار شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں، شادی
کا ناکام ہوجانا کوئی معیوب بات نہیں۔طلاق ہوجانا بھی غیر اسلامی اور غیر
اخلاقی نہیں، بے شمار طلاقے ہوتی ہیں، عمران خان اور ریحام کی طلاق ہوگئی
تو کیا قیامت آگئی۔ یہ شادی تو صرف نو ماہ قائم رہی ، جمائیما کے ساتھ تو
وہ نو سال رہے۔ غلطی ہوجاتی ہے، بڑے بڑے دانا لوگ بسا اوقات دھوکا کھا جاتے
ہیں، ٹریپ ہوجاتے ہیں، ان کی عقل پر پردے پڑجاتے ہیں، شادی کے بارے میں
ہمارا نقطہ نظر یہی ہے نہ کہ جوڑے آسمانوں میں بنتے ہیں، خان صاحب کی جوڑی
ریحام کے ساتھ اس مختصر وقت کے لیے بنی تھی ، ختم ہوگئی۔ وجوہات میں جانے
کی ضرورت نہیں، رفتہ رفتہ خود ہی سب کچھ سامنے آجائے گا۔ اگر ہمیں فوری
وجوہات معلوم ہوجائیں تو کیا ہوگا اور اگر ایک ماہ یا چھ ماہ بعد سامنے
آئیں گی تو کیا حاصل ہوگا۔ جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا۔ ایک خلش، دکھ، احساس ،
تکلیف دونوں فریقین کو زندگی بھر رہے گی، اسے کسی صورت دونوں کی زندگی سے
نکالا نہیں جاسکتا۔ یہی وہ دھوپ ہے جو دونوں کو زندگی پر پریشان کرتی رہے
گی۔ لیکن جب چڑیاں چک گئیں کھیت تو بچھتاوت کیا ہوت والی مثال ہوگی۔ دونوں
فریقوں میں سے یہ آواز کس کے دل کی ہے کچھ کہا نہیں جاسکتا
کچھ غم نہیں اُس سے بچھڑ جانے کا شاکرؔ
افسوس اتنا ہے میرا ہوکے بھی میرا نہ ہوا
سیاسی لیڈر عوام کے دلوں میں گھر کرلے، مقبولیت کی بلندیوں کو چھولے، لوگ
اس سے پیار کرنے لگیں، اسے اپنا رہنما و رہبر بنالیں، اس کے لیے اپنا تن من
دھن نچھاور کرنے کو ہر لمحہ تیار رہیں، وہ کہے کہ کھلے میدان میں دھرنا
دینا ہے تو وہ اپنے معصوم بچوں کے ہمراہ کئی دن اور کئی راتیں کھلے آسمان
کے نیچے، سخت گرمی میں سڑک پر گزاردیں۔ وہ عام شخصیت نہیں ہوتی، وہ خوش
ہوتا ہے تو لوگ اس کے ساتھ خوش ہوتے ہیں وہ تکلیف میں پڑ جائے تو اس کے
چاہنے والے اس کے غم میں ، اس کے دکھ تکلیف میں خود کو شریک کرنا چاہتے
ہیں۔اس لیے جو لوگ یہ عُذر پیش کر رہے ہیں کہ یہ کپتان کا ذاتی معاملہ ہے ،
نہیں ہر گز نہیں ، یہ اس کا ذاتی اس اعتبار سے ضرور ہے کہ نکاح کے بول
عمران اور ریحام نے اداکیے، نو ماہ کچھ دن ساتھ گزارے، لیکن لوگوں کے لیڈر
کو دکھ پہنچا ، تکلیف ہوئی، وہ پریشان نظر آرہاہے یہ دکھ ، یہ تکلیف اور
پریشانی اس کے کروڑوں چاہنے والوں کا دکھ ہے، ان کی تکلیف ہے۔ سیاست دان
عوام کے دلوں کی دھڑکن بن جاتے ہیں، وہ جب عوامی زندگی میں داخل ہوجاتے ہیں
تو معروف جمہوری اصولوں کے مطابق اس لیڈر کی کوئی بات کوئی معاملہ ان کا
ذاتی یا نجی نہیں رہتا، خوشی ہو یا غم ان میں شریک ہونے کا حق ان کے چا ہنے
والوں کو حاصل ہوجاتا ہے۔ اس کا طرز زندگی ملکیت ، دوسروں سے برتاؤ، تراش
خراش،گفتگو کرنا، ہنسنا، رونا، لباس ، طعام و خوراک اور خاندان کے بارے میں
معلومات حاصل کرنا عوام کا حق بن جاتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھ کر
لوگوں نے شلوار قمیض کے کلچرکو اپنایا، قائد اعظم سگار پیا کرتے تھے ، بے
شمار لوگوں نے ان کی اس عادت کو اپنایا، نواز شریف کھانے میں سری پائے کا
شوق رکھتے ہیں لوگوں نے اسے بھی اپنایا، اسی طرح بے شمار ایسی باتیں اور
عادتیں ہیں جو عوام اپنے لیڈر میں دیکھ کر اپنالیتے ہیں۔والدین کی بے شمار
باتوں کو ان کے بچے کاپی کیا کرتے ہیں، اساتذہ کو اپنا آئیڈیل بنا کر ان کے
بے شمار طالب علم ان کی متعدد باتوں کو اپنا لیتے ہیں۔سیاست دانوں کے بعض
جملے اور بعض نعرے اس قدر مشہور ہوجاتے ہیں کہ وہ برسوں عوام الناس کی زبان
پر رہتے ہیں۔
دنیا میں سیاست دانوں کی نجی زندگی کے حوالے سے، ان میں شادی، طلاق، بچے،
لڑائی جھگڑے غرض ان کی زندگی کا کوئی پہلو بھی ایسا نہیں ہوتا جس پر میڈیا
میں گفتگو نہ ہوتی ہو۔ تبصرہ نہ کیا جاتا ہو۔عالمی قوانین عوامی شخصیات کی
نجی زندگی سامنے لانے کی اجازت دیتے ہیں۔ امریکی نائب صدر راک فیلر نے اپنی
اہلیہ کو طلاق دی تو میڈیا نے اسے خوب اچھالا، ایک طوفان برپا کردیا،لیڈی
ڈیانا کو طلاق ہوئی تو خوب چرچے ہوئے، خود عمران خان نے بھرے مجمعے میں یہ
نہیں کہا تھا کہ ’میں شادی کرلوں‘ ، انہوں نے اپنی اس شادی کا اعلان پریس
کانفرنس میں صحافیوں کے سامنے ہی تو کیا تھا۔ اب اگر وہ مختصر ہی صحیح طلاق
کی تفصیل بتا دیتے تو بات آئی گئی ہوجاتی۔ وہ میڈیا میں ذاتی زندگی پر کھل
کر بات کرتے رہے ہیں۔بعض سمجھدار تجزیہ نگار اس مسئلہ پر ضرورت سے زیادہ
جذباتی نظر آتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ اس صحافی کو یہ سوال ایک ماہ بعد پوچھنا
چاہیے تھا، ایک تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ اس صحافی نے بہت اجلت میں سوال
کیا اسے یہ سوال چھ ماہ بعدکرنا چاہیے تھا۔بہت خوب موت آج ہوئی میت کو دفن
کرنے کے لیے ایک ماہ اور چھ ماہ کا وقت مقرر کیا جارہا ہے۔ ایک سینئرتجزیہ
نگارنے یہاں تک کہہ ڈالا کہ عمران نے صحافی کے سوال کے جواب میں بالکل صحیح
رویہ اختیار کیا، پاکستان کا کلچر باقی دنیا سے مختلف ہے اس لیے عمران خان
سے کیے گئے بیہودہ سوال پر ان کا ردِ عمل بھی مختلف ہی آنا تھا، سوال کرنے
والے صحافی کے منہ پر جواب میں تھپڑ بھی مارا جاسکتا تھا، ان کا کہنا تھا
کہ عمران خان سے علیحدگی سے متعلق سوال کا وقت صحیح نہیں تھا، یہ سوال چھ
مہینے بعد اور تمیز کے دائرے میں کیا جانا چاہیے تھا۔جب ایک تجزیہ نگار نے
اس شدت پسندانہ رائے پر اظہار خیال کیا تو جواب میں کہا گیا کہ اسے ایک
نہیں دو تھپڑ رسید کردینا چاہیے تھے۔ ایک سینئر صحافی دوسرے صحافی کے بارے
میں یہ رائے دے رہا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عمران قصداً اس صحافی کے سوال
کو پوری طرح سنے بغیر آپے سے باہر ہوگئے ہوں اور انہوں نے میڈیا کو اس
مسئلہ پر آئندہ کے لیے انڈر پریشر کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہو۔ کچھ بھی
ہوجائے عمران اس دھوپ سے بچ نہیں سکیں گے وہ خواہ کسی بھی دیوار کا سہا را
لیں ، جب جب جہاں جہاں صحافیوں کو موقع ملے گا وہ ان سے اس حادثے کے حوالے
سے ضرور سوال کریں گے۔ کیا عمران سے ان کی پہلی بیوی کے بارے میں سوال نہیں
کیا جاتا؟ صحافی تو اب بھی معاملے کی چھان بین پر پورا زور لگائے ہوئے ہیں
کہ کسی طرح اصل حقائق کا پتا لگاسکیں۔وہ کب اس میں کامیاب ہوں گے کچھ کہنا
قبل از وقت ہے۔ عمران کی ازدواجی زندگی کا دوسرا سفر مختصر رہا، جلد
علیحدگی ہوگئی ، عمران تو پہلے ہی اپنی پہلی ازدواجی زندگی سے ٹوٹ پھوٹ چکے
تھے، سیاست نے انہیں سہارا دیا ہوا تھا، اس صورت حال سے وہ اور بھی ٹوٹ
بھوٹ کر رہ گئے ہوں گے۔ معروف شاعر جونؔ ایلیا بھی اپنی ازدواجی زندگی میں
اسی
قسم کی صورت حال سے دوچار ہوئے تھے۔ اس پر انہوں نے اپنے غم اور دکھ کا
اظہار اس طرح کیا تھا ، یہی صورت حال عمران پر بھی صادر آتی ہے
عشق سمجھے تھے، جس کو وہ شاید
تھا بس ایک نا ر سائی کا رشتہ
میرے اور اُس کے درمیاں نکلا
عمر بھر کی جدائی کا رشتہ |
|