مفتی سعید کا نریندر مودی کے حق میں شرمناک فتویٰ؟

 وزیر اعلیٰ جموں و کشمیرمفتی محمد سعید کے متعلق جموں و کشمیر میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ ایک پختہ سیاستدان ہے جو باتوں اور دعوؤں کے برعکس کام پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھتا ہے مگر عمر کی اس دہلیز پر پہنچتے پہنچتے ان کی پختگی بی،جے ،پی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے بعد ختم ہوتی جا رہی ہے ۔گذشتہ اسمبلی الیکشن میں پروفیسر عبدالغنی بٹ نے مفتی سعید کی تعریف کرتے ہو ئے یہ بلند بانگ دعویٰ کیا تھا کہ مفتی صاحب ہی نریندر مودی کی لہر کو روک سکتے ہیں ۔نیشنل کانفرنس کے دعوے کو تسلیم کیا جائے تو مفتی سعید ’’سنگھ پریوار‘‘ کاہی کاشت کردہ پودا ہے ۔مفتی سعید 2002ء کے الیکشن میں پہلی مرتبہ بحیثیت وزیر اعلیٰ ابھر کر سامنے آئے تھے ۔عسکریت سے پہلے انھیں مرحوم عبدالغنی ویری کے ہاتھوں مسلسل ناقابل یقین شکست سے دوچار رہنا پڑتا تھا اور ان کے جیت جانے کے امکانات ہمیشہ صفر کے برابر رہتے تھے ۔عسکریت کی تیز رفتار لہر کے قدرے تھم جانے کے بعد جب ان کی بیٹی محبوبہ مفتی ’’مجاہدین کشمیر‘‘کے ہمدردی کا لباس زیب تن کئے سامنے آئی اور عوام میں عسکری سپورٹ اور تعاون کی خبریں عام ہوگئیں تو کم وقت میں پی ،ڈی،پی نے کامیابی کا مرحلہ طے کرتے ہو ئے کانگریس کے ساتھ ایک ایسی حکومت بنائی جس نے ’’اخوان کا خاتمہ،مجاہدین کے رشتہ داروں کی تنگ طلبی ،غیر ضروری چھاپوں اور تلاشیوں سے احتراز کے آڑ میں عوام کے دل جیت لئے یہاں تک کہ نامی حریت لیڈران اور سماجی طور باحیثیت افراد ’’مفتی خاندان‘‘کے حق میں رطب اللسان سنائی دیئے اور یہ پیغام عام ہوا کہ مفتی سعید ’’مجاہدین کشمیر ‘‘کا نمائندہ ہے ۔خود بھی مفتی سعید نے اس تصور کو مستحکم کرنے کے لئے کچھ ایسے ہی بیانات دیدیے یہاں تک کہ یہ بھی فرما دیا کہ پہاڑوں پر رہنے والوں کو اب بندوق کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ اب ان کی نمائندگی کرنے کے لئے میں موجود ہوں ۔

ایک برس کی بی،جے،پی اور پی،ڈی،پی مشترکہ حکومت میں جو کچھ بھارت بھر میں اقلیتوں کے ساتھ ہوتا رہا ، جس طرح کے زہریلے بیانات بی ،جے،پی پارلیمنٹ ممبران دیتے رہے اور آخر کار دادری میں محمد اخلاق اور ادھم پور میں زاہد کی المناک شہادت کے بعد ہر سو آگ لگی ہوئی ہے ۔جس کے نتیجے میں ہندوستان بھر میں قلمکاروں ،مصنفوں،ادیبوں ،شاعروں اور سماجی کارکنان نے اپنے ایوارڈ واپس کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور مسلمانوں ہی کی طرح سیکولر ہندؤ ،سکھ اور،عیسائی بھی سنگھ پریوار کیی بھر پور مخالفت میں متحد اور متفق نظر آتے ہیں ،یہاں تک کہ بین الاقوامی سطح پر بھی مودی سرکار پر سخت دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ اچانک 3نومبر 2015ء کو مفتی محمد سعید نے نریندر مودی کے حق میں انتہائی شرمناک بیان دیکر گذشتہ سبھی دعوؤں کو آپ جھوٹا ثابت کردیا اور یہ بات صاف ہوگئی کہ مفتی صاحب نے اپنے دل کی بات زبان پر لائی چا ہیے بہ دیر ہی صحیح۔ میڈیا کے مطابق’’ طویل عرصے کے بعد ٹٹو گراونڈ سرینگر میں’’ سٹیزن پارک ‘‘کی سنگ بنیاد رکھنے کے موقعہ پر منعقدہ تقریب کے حاشے پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے ’’ نریندر مودی کو عدم رواداری کا حامی قرار دیدیا ‘‘۔ مفتی محمد سعید نے اتنا ہی نہیں کہا بلکہ ان کے بقول وزیر اعظم نریندرا مودی ایک دور اندیش سیاسی رہنما بھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیرا عظم کا نعرہ تعمیر و ترقی رہا ہے اور اسی بابت جموں وکشمیر کے عوام امید کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم کی طر ف سے یہاں بھی تعمیر و ترقی کے حوالے سے اہم اقدامات کا اعلان ہوگا۔ اس موقعہ پر وزیرا علیٰ مفتی محمد سعید کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نریندرا مودی جموں وکشمیر سے جڑے سبھی معاملات پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں اور اپنے دورے کے دوران وہ ان معاملات کے بارے میں ضرور اپنے خیالات اور اقدامات کو عوام کے سامنے رکھیں گے۔اْنہوں نے کہا کہ وزیر اعظم ہند نریندر مودی دور اندیش لیڈر ہیں اور یہ کہ ان کا نظریہ ملک کی ہمہ جہت ترقی ہے۔

مفتی سعید کے اس بیان کے جواب میں کشمیر کے کئی لیڈران کاسخت ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔حریت کانفرنس کے چیرمین سید علی شاہ گیلانی کا کہنا تھا کہ ’’ مفتی کے مودی اور آر ایس ایس کے متعلق قصیدے گھڑنے کو اس کی ذہنی اور جسمانی غلامی کا عکاس قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مفتی سعید اصل میں جموں کشمیر میں بھارتی فرقہ پرست آر ایس ایس کے لیے ایک پْل کا کام انجام دے رہے ہیں تاکہ جموں کشمیر کو وہ فرقہ پرستوں کی بھینٹ چڑھا سکے۔ گیلانی نے مفتی سعید کے اس بیان کہ ’’نریندری مودی طوفان کے آدمی ہیں اور وہ فرقہ پرست نہیں ہیں‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ واقعی وہ ’’طوفان‘‘ کے آدمی ہیں جس(طوفان) نے گجرات میں مسلمان خاندانوں کو پلوں میں نیست ونابود کردیا ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کواسلام دشمن، انسان دشمن اور امن دشمن قرار دیتے ہوئے گیلانی نے کہا کہ تقسیم ہند کے وقت عمومی طور اور اس کے بعد خصوصی طور بی جے پی اور آر ایس ایس نے فرقہ پرستانہ اور ہندوتوا ذہنیت کی بنیاد پر مسلمانوں کے وجود کو بھارت میں تسلیم نہیں کیا اور 1947ء میں ہی بھارت اور جموں میں جو قتل عام ہوا بی جے پی، آر ایس ایس اور شیو سینا نے مسلمانوں کو قتل کرنے میں ہراول دستہ کا رول ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ دادری، ہماچل اور ادھمپور جیسے واقعات بھی بی جے پی اور آر ایس ایس کی تازہ مثالیں ہیں جس میں انہوں نے تین مسلمان نوجوانوں کو تڑپا تڑپا کر شہید کردیا۔ حریت چیرمین نے کہا کہ آر ایس اور بی جے پی کی فرقہ پرستانہ ذہنیت کے متعلق بھارت میں بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں، مگر بدقسمتی سے مفتی محمد سعید اس ذہنیت کو کشمیر میں بھی پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا چہرہ ہم نے 1947ء میں جموں میں دیکھا ہے جب انہوں نے ہمارے 5لاکھ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا، یہاں تک کہ حاملہ عورتوں کے جسموں کو چاک کرکے ان کے بچوں کو زندہ آگ میں جلا دیاگیا۔ گیلانی صاحب نے کہا کہ مفتی محمد سعید نے بی جے پی اور آر ایس ایس کو کشمیرمیں ریلی منعقد کرانے میں مددگار بن کر اصل میں اپنی اصلیت کھول دی ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کے ہتھے چڑ گئے ہیں اور وہ کشمیر میں بھی مسلمانوں کے خلاف وہی کچھ کرانا چاہتے ہیں جس کا ہم نے اپنی سر کی آنکھوں سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہورہے مظالم کا مشاہدہ کیا ہے۔نریندری مودی کی مجوزہ ریلی پر تبصرہ کرتے ہوئے گیلانی صاحب نے کہا کہ یہ کوئی عوامی ریلی نہیں بلکہ ایک فوجی آپریشن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مودی جی کو کسی ’’پیکیج‘‘ کا اعلان کرنا تھا تو وہ گپکار یا بادامی باغ کنٹونمنٹ میں بھی اس کا اعلان کرسکتے تھے، مگر مفتی محمد سعید نے ’’حقِ نمک حلالی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری ریاست کو جیل خانے میں بدل کراپنے آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ مفتی کے سر پر آر ایس ایس اور بے جے پی کا ہاتھ تادیر قائم رہ سکے۔‘‘

مفتی محمد سعید کے اس بیان پر بھارت بھر میں سخت مخالفت کا سلسلہ جاری ہے ۔ اطلاعات کے مطابق مفتی سعید کے ذہن پر آج کل بھوت کی طرح ایک ہی مسئلہ سوار ہے اور وہ ہے ’’محبوبہ مفتی کو جموں و کشمیرکا وزیر اعلیٰ بنانا‘‘تاکہ ان کی موت کے بعدپی،ڈی،پی کے معاملات ’’شیخ خاندان کی طرح‘‘مفتی خاندان سے باہر جاکر کسی اور منچلے کے ہاتھ میں نہ جانے پائیں ۔مفتی سعید جس دم خم کے ساتھ وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھے تھے اور سیاست سے لیکر اقتصادیات تک ’’معجزانہ تبدیلیوں‘‘ کے خواب دکھلارہے تھے کے غبارسے جب سنگھ پریوار کے وفادار سپاہی نریندر مودی نے ہوا نکال دی یہاں تک کہ ’’پارلیمنٹ ممبر عبدالحمید قرہ‘‘نے بھی اقتدار کی کرسی کو لات ماردینے کی وکالت کی تو صورتحال نے گمبھیر صورت اختیار کرتے ہو ئے صاحبانِ اقتدار حضرات کو کچھ نیا کرنے پر آمادہ کردیا اور نریندر مودی کا دورہ کشمیر اسی ’’نئے‘‘کی ایک کڑی ہے تاکہ محمد اخلاق سے زاہد تک سبھی معصومین کے مظلومانہ قتل کو لوگ بھول جائیں ۔

کشمیر کے عوام کا المیہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہر نئے نعرے کی طرف فوراََ مائل ہو جاتے ہیں یہ دیکھے بغیر کہ اس کا فائدہ کیا ہے اور نقصان کیا؟ کشمیریوں کے استحصال کی تاریخ بہت پرانی ہے ،شیخ خاندان کا نام اس فہرست میں سب سے آگے ہے ۔تبدیلی کے نام پر’’مفتی خاندان‘‘کے شامل ہو نے کے بعد اب کئی برس بعد یہ حقیقت بھی منکشف ہو چکی ہے کہ اصل میں ان سبھی حضرات کی نگاہیں اقتدار کی کرسی پر لگی ہیں قوم کی مظلومیت اور بے بسی پر نہیں ۔ان کے ڈرامے کی نئی قسط میں کردار شیخ خاندان سے مختلف تو نہیں ہے ۔شیخ خاندان نے کشمیریوں کے جذبات کے نام پر طویل مدت تک استحصال ضرور کیا مگر مفتی خاندان نے اب استحصال کے لئے طریقہ کار میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ اصطلاحات میں بھی تبدیلی لائی ہے۔مفتی سعید کو نریندر مودی کے حق میں وکالت کرتے ہو ئے شرم محسوس کرنی چاہیے تھی کہ آخر نریندر مودی کے وزارت عظمیٰ کی کرسی کے منصب پر بیٹھ جانے سے ان میں کیوں اور کیسے تبدیلی آسکتی ہے ؟۔گجرات کے قتل عام کے خون کی چھنٹیں تو ان کے دامن پر ان کے موت کے بعد بھی لگی رہیں گی ۔مناصب کی تبدیلی سے کسی بھی شخص کی گناہوں کو تاریخ نہیں بھولتی ہے ۔ شیخ عبداﷲ مرحوم کوآج بھی کاشتکاروں کو جاگیر داروں کی زمینیں دینے والے شخص کے طور پر جانا تو جاتا مگر ساتھ ہی جموں و کشمیر کی پوری ریاست کو اقتدار کی کرسی کے عوض ہندوستان کی جھولی میں ڈالنے والے کے طور پر بھی تاریخ بلا کم و کاست یاد کرتی ہے ۔مفتی محمد سعید کے متعلق کشمیر میں یہ تاثر بہت پرانا نہیں ہے کہ انھوں نے کانگریس کو کشمیر لانے میں کلیدی رول ادا کیاتھا تاکہ کشمیر میں علاقائی تنظیموں کا رول سکڑ جائے اور اب کشمیر میں ’’ترقی کے نام پر‘‘بھارت کی مسلم دشمن تنظیم کی جڑیں پیوست کرنے کے لئے میدان فراہم کیا جا رہا ہے تو گویا مفتی سعید آپ ہی اپنی شبیہ بگاڑنے پر بضد ہے ۔انھیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جس طرح کشمیری قوم شیخ عبداﷲ کے رفاعی کاموں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بھی ان کے اصل رول کو نہیں بھولی توپھر کشمیر کا مورخ کل کو آپ کو بھی کیسے نظر انداز کردے گا اور پھر جب ایسے رول کی خواہش آپ کے دل میں رچ بس چکی ہو تو کسی نئے دشمن کی ضرورت ہی کیا ہے ؟یہ تو گویا آپ اپنی دشمنی ہے۔
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 93728 views writer
journalist
political analyst
.. View More