برداشت
(Muhammad Muzzafar Uddin Zaman, )
سیاست کے سینہ میں دل نہیں
ہوتاسیاستدان کی اپنی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔سیاستدان کھلی کتاب کی طرح
ہوتاہے ۔اورعوام انکی زندگی کے ہر پہلو دلچسپی کا سامان ہوتاہے ۔عوام اپنی
پسندیدہ شخصیات کے ہر پہلو کو جاننا ضروری سمجھتے ہیں ،اور یہ عوام کا سب
سے دلچسپ موضوع ہوتاہے ۔ڈرائنگ روم سے لیکر چائے کے ہوٹل تک ہمارے معاشرے
میں سب سے زیا دہ تبصرہ سیاست پر ہوتاہے ۔یہاں کی عوام سیاست کے تمام پہلو
وں پر کھل کر تبصرہ کرنے کو اپنا جمہوری حق سمجھتے ہیں۔وزیر اعظم کا دورہ
امریکہ ہو یا بلدیاتی الیکشن ہر خبر پر تبصرہ کو عوام ضروری سمجھتے ہیں اور
جب میڈیا سب ست آگے کی دوڑ میں بریکنگ نیوز دینا شروع کرے تو مجال ہے کوئی
خبر کسی کے نظروں سے اوجھل ہو۔
عمران خان ایک بڑی جماعت کے سربراہ ہے ۔انکی شادی کا معاملہ ہویا طلاق کا
ہر خبر میڈیا کے لیے ایک ہاٹ ایشو بنا رہا ۔تمام میڈیا ہاؤس اپنے طور پر
بال کی کھال نکالنے لگے ۔ڈرائنگ روم سے لیکر بیڈ روم تک کی ہر خبر نشر ہوئی
۔طلاق کے بعد گذشتہ روز جب عمران خان پشاور پہنچے تو انہوں نے ایک پریس
کانفرس کی جس میں انہوں نے اپنی حکومت کی ناکامی کا اعترا ف کیا ۔پریس
کانفرنس کے بعد سوالات کے سیشن میں جب ایک صحافی عامر زمان نے خان صاحب سے
انکی ناکامی کے متعلق سوال کیا تو خان صاحب آپے سے باہر ہوگئے ۔اور صحافی
کو بے تکان سنادیا ۔عامر زمان نے سوال کیا کہ آپ اپنی حکومت کی ناکامی کا
اعتراف کررہے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ آپ مردم شناس نہیں ہے ۔چاہے وہ حکومتی
معاملا ت میں ہویا نجی زندگی کے بارے میں ۔
خان صاحب اس سوال پر اتنا گڑ بڑ ا گئے کہ بھر ی محفل میں اسکو بدتہذیب اور
بے شرم کہ ڈالا۔اور وہاں بیٹھ کر ادب واخلاقیات کا درس دینے لگے ۔یہی خان
صاحب کچھ عرصہ قبل تک کنٹینر پر کھڑے ہوکر دوسروں کو گالیاں دیتے رہے ۔
رہا خان صاحب کی نجی زندگی کا معاملہ تو غور کرے کہ خان صاحب نے کنٹینر پر
کھڑے ہوکر خود اپنی شادی کے بارے میں اعلان کیا کہ نیا پاکستان بن جائے تو
میں شادی کرلوں گا ۔اپنی شادی کے تصاویر خود انہوں نے میڈیا کو جاری کی
۔شادی کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ ٹی وی انٹرویو میں شریک ہوئے ۔اپنی اہلیہ
کو خیبر پختون خوا کی سیاست میں گھسیٹا ۔اور جب طلاق کا معاملہ آیا تو خود
انکے ترجمان نعیم الحق صاحب نے بیان جاری کیا ۔سوشل میڈیا پر خبریں ریلیز
کی ،جب صحافی نے ان سے سوال کیا تو نجی معاملہ قرار دیا ۔
خان صاحب ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربرا ہ ہے ۔اور لیڈر ہمیشہ دوسروں کی
رہنمائی کرتاہے ۔انکے چاہنے والے ہر معاملہ میں اپنے لیڈر کی پیروی کرتے
ہیں ۔کیا ہی اچھا ہوتا خان صاحب شائستہ لہجے میں انکو جواب دیتے جو انکے
فلاورز کے لیے ایک مثبت پیغام ہوتا۔
اسکے برعکس خاں صاحب کے سیاسی حریف میاں محمد نواز شریف کی بات کرے تو نگا
ہ خود بخود احترام سے جھک جاتاہے ۔کہ اس نازک معاملہ پر کیچڑ اچھالنے کے
بجائے اپنے کارکنوں کو ہر قسم کی بیان بازی سے روک دیا اور انکا نجی معاملہ
قرار دیا ۔اسی طرح عام انتخابات سے پہلے جب خان صاحب جلسہ میں گر کر زخمی
ہوئے تو میاں صاحب انکی عیادت کرنے پہنچے ۔انتخابات کے بعد میاں صاحب
کامیاب ٹھرے تو ایک بار پھر خان صاحب کے گھر گئے ۔
میاں صاحب نے ہمیشہ گالی کا جواب پھولوں سے اور ایک اچھے قائد کے طور پر
اپنا کردار ادا کیا ۔یہی ایک اچھے قائد کی نشانی ہے ۔ |
|