کیوں نہ عائشہ ممتاز کو لارڈ میئر بنا دیاجائے؟

کہایہ جاتا ہے کہ لاہور پاکستان کا دل ہے یہاں جوفلائی اوور اور انڈر پاسز بنائے جاتے ہیں ۔معیار کے مطابق تعمیر نہ ہونے کی بنا پر وہ جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جگہ جگہ کھڈے ٗ ناہموار ی کی بنا پر وہاں سے گزرنے والوں کو سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ تعمیر کے بعد اگر ان کی مناسب دیکھ بھال بھی کی جائے تو یہی فلائی اوورز اور انڈر پاسسز اپنی معیاد سے بہت عرصہ بعد تک بھی کارآمد رہ سکتے ہیں لیکن جو ادارے ( ایل ڈی اے ) تعمیر کی ذمہ داری نبھاتے ہیں اس کے متعلقہ افسران تکمیلی مراحل تک نہ تو تعمیراتی معیار چیک کرتے ہیں او رنہ ہی ٹوٹ پھوٹ کے بعد مرمت کی جانب توجہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلائی اوورز اور انڈرپاسز بھی چند سالوں بعد ہی بوسیدگی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں ۔لارڈ میئر( جو ایل ڈی اے کا بھی چیرمین کہلاتا ہے ) اس جانب توجہ نہیں دیتا جس کی وجہ سے تعمیر کردہ فلائی اوورز اور انڈر پاسز چند سال کے بعد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر اذیت کا باعث بنتے ہیں۔ تجازوات کا خاتمہ بھی لارڈ میئر کی اولین ذمہ داری میں ہے ۔ تجاوزات کو ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ ٹاؤن ایڈمنسٹریشن کبھی کبھار خواب غفلت سے بیدار ہوکر دکانوں کے سامنے بنے ہوئے دھڑے اور تجاوزات توڑ دیتی ہے لیکن اس عمل کے بعد پھر مدت دراز تک آنکھیں بن کرلی جاتی ہیں۔ چند ہفتے بعد ہی دکاندار دوبارہ متعلقہ اہلکاروں کو رشوت دے کر دھڑے بنالیتے ہیں۔اس ملی بھگت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر دکاندار نے اپنے سامنے فٹ پاتھ اور سڑک پر قبضہ کرکے روزانہ سو روپے کے عوض خوانچہ فروش کو چھابڑی لگانے کی اجازت دے کر آمدنی کا ذریعہ بنا رکھاہے۔گویا تجاوزات کا خاتمہ اور دوبارہ تعمیر بھی قومی سرمائے اور وقت کا ضیاع ثابت ہوتی ہے ۔ عائشہ ممتاز کی طرح میٹروپولٹن یا ٹاؤن ایڈمنسٹریشن میں کوئی ایسا ذمہ دار اور فرض شناس شخص نہیں جو دفتر سے نکل کر تجاوزات کو نہ صرف ختم کرے بلکہ روزانہ کی بنیاد پر اس کی نگرانی بھی کرے ۔ اس کے باوجود کہ عائشہ ممتاز ایک خاتون ہے اور صنف نازک سے ایسے انقلابی اقدام کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔لیکن اس نے جرات کا مظاہرہ کرکے فیلڈ میں نکل کر ہوٹلوں ٗ برگر شاپس اور گندگی کے ماحول میں بیکری کا سامان بنانے والوں کو نتھ ڈال کے رکھ دی ہے ۔اب لوگ عائشہ ممتاز کے نام سے ڈرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ اس کی نیک نامی کا ثبوت ہے کہ عید الاضحی کے دنوں میں فیس بک پر یہ لکھا ہوا نظر آیا کہ آج بے شک گدھے کے گوشت پر مہر لگا کر گائے بنا کر فروخت کردو کیونکہ عائشہ ممتاز عید کی چھٹیوں پر ہے ۔ یہ بھی ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں گدھے اور حرام گوشت کی اس قدر بہتات ہوچکی تھی کہ کوئی بھی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ جو گوشت خرید کر لایا ہے وہ ہلال گوشت ہے یا حرام۔ گدھوں ٗ کتوں اور مردہ جانوروں کا گوشت ہوٹلوں پرسپلائی ہونا ایک عام سی بات ہو چکی تھی ۔ عائشہ ممتاز بیچاری ایک ہے اور وہ بھی لاہور تک ہی محدود ہے لیکن جرائم پیشہ اور مکروہ دھندہ کرنے والے پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور حکومتی ایوانوں تک اثرو رسوخ بھی رکھتے ہیں۔ عہدوں کے پوجاری تو ہزاروں ہیں لیکن کوئی ایک بھی تجاوزات ٗ گندگی اور ملاوٹ کے خاتمے کے لیے عائشہ ممتاز کی طرح کام کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ایک مرتبہ میں برگر کی دکان پر پہنچا تو مجھے سب سے پہلا نام جو سننے کو ملا وہ عائشہ ممتاز کا تھا۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ یہ خاتون کون ہے اور کہاں رہتی ہے جس کی دہشت چنگیز خاں کی طرح ہر برگر فروش کی دکان پر سنائی دیتی ہے ۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ رنگیلے کی بیٹی ہے جو کام باپ نہیں کرسکا وہ اس نے کردکھایا ہے ۔بعد میں پتہ چلا کہ یہ اطلاع غلط تھی ۔برگر والے کہتے ہیں کہ عائشہ ممتاز ہمارے ناخن بھی چیک کرتی ہے اور وہ کہتی ہے جس پانی اور کپڑے سے برتن صاف کیے جائیں وہ صاف ستھرا ہونا چاہیئے۔میں نے پوچھا کیا وہ غلط کہتی ہے ۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ فروٹ چاٹ اور دھی بھلے والا ایک ہی بالٹی کے پانی سے صبح سے شام تک پلٹیوں کو گھنگال کے گاھکوں کو کھلاتا ہے ۔ حجام ایک ہی تولیے سے سارا دن لوگوں کی حجامتیں کرتے ہیں ۔ قصائیوں کے کپڑے اور ماحول انتہائی بدبودار ہوتا ہے ۔بیکریوں کا عالم یہ ہے کہ وہاں میدے کو ہاتھوں کی بجائے پاؤں سے لتھاڑاجاتاہے جہاں مکھیوں اور مچھروں کی بہتات ہوتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہاتھا کہ اگر مٹھائی کو بنتا ہوا دیکھ لیں تو کھانے کو کبھی دل نہ کرے ۔ اگر عائشہ ممتازان باتوں سے منع کرتی ہے تو وہ کیا برا کرتی ہے۔ہم اس قدر اخلاقی طور پر گر چکے ہیں کہ ہاتھوں میں کوڑے کا بھرا ہوا شاپر لے کر نکلتے ہیں اور سڑک کے درمیان میں پھینک کر رفو چکر ہوجاتے ہیں ۔یہاں برف بھی زنگ آلود پائپوں اور گندہ پانی سے جمتی اور بکتی ہے۔یہاں ادویات اور ٹیکے بھی زائد از معیاد کے بکتے ہیں۔پٹرول پمپوں پر کم مقدار اور ملاوٹ شدہ پٹرول ملتا ہے ۔ہر بار ایسے لوگوں کو لارڈ میئر بنادیا جاتاہے جو اپنے کمروں تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں اگر ایک بار عائشہ ممتاز (جس کی کارکردگی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے) کو لاہور کا لارڈ میئر بنا دیاجائے تو ممکن ہے مذکورہ بالابد انتظامی ٗ خرابیوں اور نااہلیوں پر قابو پایا جاسکے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785413 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.