پیرطریقت‘ رہبر شریعت‘ مبلغ دین حضرت فقیر میاں جی عبدالغفورؒ

تحریر: عابدعلی گوہر

سردی اپنے عروج پر تھی۔ لوگ لحافوں میں دبلے ہوئے تھے ایک شخص مصلے پر عبادت میں مشغول تھا اور اس قدر محو تھا کہ اسے دنیا کی خبر تک نہ تھی۔ نور احمد نامی وہ شخص پنڈدادن خان میں پوسٹ ماسٹر کے عہدے پر فائز تھا۔ وہ سرکاری فرائض کی بجاآوری کے دوران بھی عبادت الہٰی میں مصروف رہتا۔وہ موضع کھوکھر دیر‘ تحصیل چکوال ضلع جہلم کے راجپوت خاندان کا چشم و چراغ تھا کہ قریبی مسجد سے اذان کی صدا بلند ہوئی۔ عین اسی لمحے گلستان نوری میں ننھی کلی کے کھلنے کی نوید سنی گئی۔ اس شخص نے سر بہ سجود ہو کر اﷲکریم کا شکر ادا کیا۔ یہ 10جنوری 1920 کی صبح نور تھی۔ بچے کا نام عبدالغفورتجویز کیا گیا۔ یہی وہ بچہ تھا جو کہ بعد میں میاں جی عبدالغفور کے طور پر مشہور ہوا۔ ابھی آپ چار یا پانچ سال کے تھے کہ والدہ انتقال کر گئیں۔ جس کے بعد آپ کے والد نے دوسری شادی مسماۃ سرار بیگم (جو آپ کے سگی خالہ تھیں) سے کی جن کے بطن سے غلام فرید‘ غلام صدیق‘ غلام فاروق‘ غلام شبیر اور دو بیٹیاں مسماۃ حمیدہ بیگم اور مسماۃ جمیلہ بیگم تولد ہوئیں ۔ شیخ غلام فاروق کے علاوہ باقی سب وفات پا چکے ہیں چونکہ ان کے والد سرکاری ملازمت کرتے تھے اس لئے جہاں جہاں تعیناتی ہوئی آپ بھی جاتے۔ کچھ عرصہ بعد آپ کے ماموں شیخ محمد سعید جو کہ اس وقت پنجاب اسمبلی کے سیکرٹری تھے آپ کو تعلیم کے لئے لاہور اپنے پاس لے گئے۔ چنانچہ ابتدائی تعلیم کچھ عرصہ گورنمنٹ مسلم ماڈل سکول گوالمنڈی سے حاصل کی۔ بچپن سے ہی آپ حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر اکثر حاضری کے لئے جاتے۔ دربار کی مسجد کی جھاڑ وکشی کرتے تھے۔ پانی بھرتے‘ حضرت داتاگنج بخش کے ساتز ان کا قلبی لگاؤ تھا۔ جس کے باعث ان کا فیض آپ کو عطا ہوا۔

کچھ عرصہ بعد والد کی تعیناتی سیالکوٹ ہو گئی۔ اس وقت ولی کامل حضرت شیخ عطاء اﷲ وہاں موجود تھے۔ شیخ عطاء اﷲ نے مسلمانوں کے بچوں کے لئے جناح افیشنسی نامی سکول قائم کیا تھا۔ میاں جی نے اس سکول سے میٹرک کیا۔ بعد ازاں آپ نے رائل انڈین آرمی میں شمولی اختیار کر کے دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیا۔اس وقت حلف لیتے وقت ملکہ کی وفاداری کا اعلان کیا جاتا تھا۔ آپ نے حلف لیتے وقت ملکہ معظمہ کے الفاظ کی جگہ مکہ معظمہ کے ساتھ وفاداری کے الفاظ استعمال کیے جس پر آپ کی شکایات ہوئیں۔ تو آپ نے ایسی دلیل دی کہ سب خاموش ہو گئے۔ اورحلف کو قبول کر لیا گیا۔ آپ کی دوسری جنگ میں تعیناتی انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ میں ہوئی۔ عالمی جنگ میں بحری سفر کے دوران جرمن حملہ کے دوران ان کا جہاز غرق ہو گیا لیکن اﷲتعالیٰ نے انہیں بہ حفاظت ساحل سمندر تک پہنچا دیا۔ آپ کو جنگی خدمات میں حکومت برطانیہ نے دو میڈلز سے بھی نوازا۔ زمانہ طالب علمی اور جوانی میں انہوں نے تحریک پاکستان میں بھی قائداعظم اور علامہ اقبال کے ساتھ نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ ہمیشہ پاکستان کو اﷲتعالیٰ کی ایک نعمت سمجھتے تھے۔ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد سول ملازمت اختیار کی اور 1957 میں ریٹائرڈ ہوئے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جب ان کے والد مندرہ میں بطور پوسٹ ماسٹر تعینات تھے تو قبلہ حضرت حاجی حافظ عبدالکریم صاحب (عیدگاہ شریف) سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ بیعت کے حوالے سے وہ کہتے تھے کہ انہوں نے ایک رات خواب میں ایک بزرگ کا دیدار کیا اور دیکھا کہ ایک باغیچہ ہے جس میں ایک تخت ہے اور ایک بزرگ تشریف فرما ہیں۔ بہت لوگ جمع ہیں۔ اس مجمع میں سے آپ کا نام پکارا جاتا ہے۔ یہ خواب ابتدائے جوانی میں دیکھا تھا۔ آپ آگے بڑھتے ہیں اور ان کے دست حق پر بیعت کر لیتے ہیں۔ حضرت قبلہ میاں جی بتاتے ہیں کہ یہ خواب ابتدائے جوانی میں دیکھا تھا۔ جہاں بھی انہیں کسی بزرگ کا پتہ چلتا ہے وہاں تشریف لے جاتے ہیں لیکن وہاں وہ خواب کا پورا منظر سامنے نہ پا کر سمجھ لیتے کہ یہ وہ جگہ نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ آپ کا تجسس بڑھتا گیا۔

آخر میں راولپنڈی میں تعیناتی کے دوران آپ کے ایک دوست نے کہا کلہ ان کے پیر صاحب (قبلہ حافظ عبدالرحمن صاحب المعروف لاثانی صاحب) عیدگاہ شریف کافی عرصہ علالت کے بعد شرف ملاقات بخشیں گے۔ آپ بھی ان کے ساتھ ہو گئے۔ جونہی عیدگاہ شریف دربار عالیہ صدردروازہ سے داخل ہوئے تو خواب کا منظر نگاہوں میں گھوم گیا۔ وہی باغیچہ، وہی برآمدے اور وہی انسانوں کا جم غفیراور اسی میں وہی ہستی مسندِ ولایت پر جلوہ فگن تھی۔ حضرت قبلہ ثانی صاحب نے میاں جی کی طرف اشارہ کر کے حاضری کا حکم دیا۔ آپ (میاں جی) جو قبلہ ثانی صاحب کے پاس پہنچے تو قبلہ عالم ثانی صاحب نے فرمایا: شیخ صاحب آپ کا بڑے عرصے سے انتظار تھا۔ آپ نے فرمایا: حضور میں تو تلاش میں تھا‘ آج پہنچا ہوں۔ قبلہ عالم ثانی نے فرمایا: چلو کوئی بات نہیں۔ قبلہ حبیب صاحب کے ہاتھ پر بیعت بالکل ہی اسی طرح ہے گویا کہ آپ نے میرے ہاتھ (ثانی صاحب) پر جوانی میں بیعت کی۔ کچھ دیر آپ نے میاں جی کو اپنے پاس بٹھایا پھر آپ نے اپنے مریدین سے کہا کہ دوستو آج آپ مجھے دیکھ لیں میں آپ کو دیکھ لوں۔ ہو سکتا ہے کہ میری اور آپ کی پھر اس طرح ملاقات نہ ہو۔اس پر مریدین نے رونا شروع کر دیا۔ پھر آپ نے کہا مجھے اندر لے چلو۔ کچھ دیر کے بعد ان کا وصال ہو گیا۔

چنانچہ میاں جی نے قبلہ حافظ حبیب الرحمن صاحب کے دست حق پربیعت کی۔قبلہ لاثانی صاحب نے پہلے ہی دن آپ کو اپنا سیکرٹری مقرر فرمایا۔ اور خلافت سے بھی نوازا۔ قبلہ لاثانی صاحب نے حضرت قبلہ میاں جی کو اپنی نگرانی میں روحانیت کی مختلف منازل طے کروائیں۔ قبلہ لاثانی صاحب نے لنگر اور عرسوں کے انتظامات کا نظم بھی میاں جی کے سپرد کر دیا۔ دربار عالیہ عیدگاہ شریف میں جتنی بھی تقریبات منعقد ہوئیں ان کا انتظام میاں جی کے سپرد ہوتا تھا۔ آپ اکثر لاثانی صاحب کے ساتھ دوروں پر تشریف لے جاتے۔ کئی مریدین میاں جی کا مشابہت کی بنا پر حضرت لاثانی صاحب کا بھائی خیال کرتے تو میاں جی فرماتے نہیں میں تو ان کا مرید اور غلام ہوں۔ آپ کے مرشد قبلہ لاثانی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ کسی نے طریقت سیکھنی ہو تو میاں جی سے سیکھے۔ آپ کے مرشد قبلہ عالم لاثانی صاحب نے آپ کو کئی مرتبہ اپنی طریقت چلانے کے لئے کہا لیکن میاں جی نے اپنی طریقت چلانے کے بجائے اپنے مرشد کی خدمات کو فوقیت دی۔ آپ نے اپنے مرشد کے وصال کے بعد ڈھوک کاکوشاہ‘ سی بلاک سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں آستانہ نوریہ حبیبیہ کی بنیاد رکھی۔ آپ ہر جمعۃ المبارک کی شام محفل میلاد منعقد کرتے جس میں اﷲتعالیٰ اور نبی پاک کی عظمت بیان فرماتے اور لوگوں کو اﷲتعالیٰ اور رسول کی مکمل اطاعت کا درس دیتے۔ آپ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے سرکار دو عالمؐ کی جگہ سرکار کل عالم کا لفظ استعمال کیا۔ جب لوگ آپ سے وظائف پڑھنے کی اجازت مانگتے تو فرماتے: کثرت کے ساتھ درود پاک اور درودوسلام پڑھیں۔ حقوق اﷲ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی زور دیتے۔ آپ کی دعا اور دم میں شفا کی معجزاتی تاثیر تھی۔ امیر اور غریب میں کوئی تمیز نہ تھی۔ کئی دفعہ لوگ تعویز کا مطالبہ کرتے تو آپ فرماتے کہ اﷲتعالیٰ پر بھروسہ کرو۔ کام اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کے صدقے میں کرنا ہے۔ تعویز نے نہیں۔ آپ فرماتے تھے کہ اپنے رب کے ساتھ حضور اکرمﷺ کے ذریعہ سے رابطہ رکھو۔آپ فنا فی الشیخ اور فنا فی الرسول کے مقام پر فائز تھے۔ مخلوق خدا کے ساتھ اس طرح محبت کرتے کہ ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ میاں جی اسے ہی سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ ٹیلیفون کے ذریعہ لوگوں کو دم کرنے کی ابتدا بھی آپ ہی نے کی۔ بیشمار مرد و خواتین ٹیلیفون پر دم کے عمل کے نتیجہ میں صحت یابی کے بعد آپ کے پاس آتے ۔ کئی ایسے مریض جنہیں دل کی تکلیف تھی اور جنہوں نے بائی پاس آپریشن کے پیسے جمع کرائے ہوتے تھے۔ شفا یاب ہو گئے۔ کئی ایسے مریض دیکھے گئے جنہیں سواری میں لایا گیا اور اپنے قدموں پر چل کر گئے۔ بے شمار بے اولادوں کو اﷲ نے ان کی دعا سے اولاد سے نوازا۔ اپنی دعاؤں میں سب سے پہلے اﷲتعالیٰ اس کے رسول کی حمد و ثنا بیان کرتے۔ پھر حاجت مندوں کوقبولیت کا احساس ہو جاتا اور نتیجہ بھی حسب منشاء مل جاتا۔ آپ اتحاد بین المسلمین کے زبردست داعی تھے اور فرقہ واریت کے سخت خلاف تھے۔ آپ بہت کم کھانا کھاتے تھے۔ آپ اکثر ساری رات عبادت و ریاضت میں گزار دیتے۔ سورج نکلنے کے بعد ہلکا سا ناشتہ کے بعد تھوڑا آرام فرماتے۔ پھر مخلوق خدا کی بے لوث خدمت میں مصروف ہو جاتے۔ آپ 86سال کی عمر میں نومبر 2008 کوبعد از نماز فجروفات پا گئے۔ آپ نے تین بیٹوں محمد عابد علی گوہر‘ آصف علی انور‘ نجیب الرحمن اور دو بیٹیوں مسماۃ ثریا اقبال و ناصر ہ کمال کے علاوہ بے شمار مریدین کا ایک وسیع حلقہ چھوڑا ہے۔ آپ کی آخری آرام گاہ‘ بڑے قبرستان ‘ کُری روڈ راولپنڈی میں ہے۔
Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 43587 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.