ذمہ دار ہم خود ہیں

طالب علم عمر میں مجھ سے چھوٹا تھا، لیکن شکل و صورت سے سنجیدہ اور سمجھدار لگ رہا تھا۔ فکر مندی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ اس کا سوال مختصر، لیکن عقل وشعور کی پختگی کا احساس دے رہا تھا۔ امت مسلمہ کی زبوں حالی کا ذمہ دار کون ہے؟ میں اس کے چہرے کو تکنے لگا۔ میں ابھی خاموش تھا کہ وہ ایک بار پھر بولنے لگا: کہیں امریکا کی اجارہ داری اور کہیں اسرائیل کا ظلم و ستم جاری۔ جب سے آنکھ کھولی، چہار سو مسلمان کو ہی مظلوم دیکھا۔ یہ سب کچھ آخر کیوں ہے؟

میں نے نظریں اس کے چہرے پر گاڑ دیں اور عرض کیا: یہ سب کچھ مسلمانوں کی وجہ سے ہورہا ہے اور مسلمان خود ہی ان حالات کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے چہرے کی حیرانی دیدنی تھی۔ شاید میری رائے اس کی رائے سے بالکل مختلف تھی۔ میرا جواب سن کر وہ ایک لمحہ بھی خاموش نہ رہ سکا۔ جھٹ سے بولا: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دنیا میں کٹیں مریںبھی مسلمان اور قصوروار بھی وہ ہوں؟ مسلمان تو مظلوم قوم ہے، یہ ذمے دار کیسی ٹھہری؟

میں نے چند لمحے سوچا اور عرض کیا: دیکھیے! مسلمان صرف آہ و بکا کرتے ہیں۔ ظلم سہتے ہیں، شور مچاتے ہیں اور اپنی مظلومیت کا نوحہ الاپتے ہیں۔ دنیا کے سامنے خود کو مظلوم ثابت کروانے کی کوشش میں مگن ہیں ! لیکن اہل قوت ان کو مظلوم مانتے ہوئے بھی رحم نہیں کرتے۔ میں خاموش ہوگیا اور کھڑی سے باہر دیکھنے لگا، لیکن وہ مسلسل مجھے گھور رہا تھا جیسے مزید کچھ سننے کو بیتاب ہو۔ میں نے اس کی طرف توجہ کی اور اس سے پوچھا: آج تک کبھی دنیا میں ایسا ہوا ہے کہ کسی ظالم نے مظلوم کو اپنی مظلومیت کا راگ الاپنے کی وجہ سے چھوڑ دیا ہو؟ اس نے ناں میں سر ہلا دیا۔ میں نے کہا اس طرح تو ظالم کو ظلم کرنے کا مزید موقع ملتا ہے، کیونکہ اسے پتا ہوتا ہے کہ مظلوم نے صرف شور مچانا ہے، لوگوں سے مدد کی اپیل کرے گا، لیکن اپنی جان بچانے کی کوئی سبیل نہیں کرے گا اور جو خود ہی اپنی جان نہ بچا سکے تو اسے کوئی دوسرا کیا بچائے گا؟ مسلمان جب تک ان وجوہ کی طرف توجہ نہیں دیںگے، جن کے باعث ان پر موجودہ حالات ہیںتو تبدیلی کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔

میں خاموش ہوگیا۔ طالب علم بے تاب تھا، چند لمحے میری طرف دیکھتا رہا اور پھر پوچھنے لگا: کون سی اور کیسی وجوہ؟ میں نے ایک سانس لیا اور کہا: دیکھیے جناب! یہ دنیا دارالاسباب ہے۔ یہاں جو کرو گے، وہی ملے گا۔ جو بوؤ گے، اسی کا پھل کاٹو گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کرو کچھ نہیں اور امید رکھو عزت سے زندگی گزارنے کی۔ آج اگر ہم دنیا میں کسی بھی ملک کی حکمرانی دیکھتے ہیں تو یہ اس قوم کی محنتوں کا صلہ ہے۔ امریکا، برطانیہ، چین اور دوسرے کئی ممالک آج دنیا کی کنجی اپنے قبضے میں لینے کو تیار ہیں۔ یقینا ہم بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے۔ اکھاڑہ تو خالی ہے۔ ہر ایک کو اجازت ہے کہ آئے اور آکر اپنی قوت، عقلمندی اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے اور اپنے مدمقابل کو پچھاڑ دے۔ ہم بھی میدان مار سکتے ہیں اور دشمن بھی۔ جو عقلمندی، محنت اور جستجو کے ساتھ کام کرتا ہے یقینا کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔ دشمن نے عقل کو استعمال کر کے محنت کو اپنا شعار ٹھہرایا۔ سو سال پہلے آج کے دن کے لیے سوچا، لا ئحہ عمل طے کیا اور کام شروع کردیا۔ جو وسائل ان کے پاس دستیاب تھے، ان کو کام میں لے آئے۔ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اس میں کھپا دیا۔ آج وہ اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ ہم پر حکمرانی کر سکیں، حالانکہ ہمارے پاس بھی وسائل کی کوئی کمی نہیں۔ شاید ہمارے وسائل ان سے کئی گنا زیادہ ہوں، لیکن سو سال بعد کے لیے تو کیا سوچنا تھا، ہم نے آج کے دن کے لیے بھی نہیں سوچا۔ ہم نے کسی بھی میدان میں ترقی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہم اپنے سیاسی نظام، عائلی نظام، تعلیمی نظام، اقتصادی نظام اور مذہبی نظام تک کو مستحکم نہ کرسکے۔

میں نے اپنی بات جاری رکھی۔ ساری دنیا میں مسلمان آپس میں دست وگریباں نظر آتے ہیں۔ بھارت، امریکا، برطانیہ اور چین وغیرہ میں لوگ نماز بغیر کسی پہرے کے پڑھتے ہیں، لیکن اسلامی ممالک میں مسلمان مسجد کے اندر بھی محفوظ نہیں۔ مسلمان ہی اپنی عبادت گاہوں کے اندر گھس کر مسلمان کو قتل کررہے ہیں۔ مخالف فرقے و مسلک کے علماءکو قتل کیا جارہا ہے۔ یہ کس کا قصور ہے؟ آپ خود بتائیں کہ اس طرح ہم کامیاب ہوسکتے ہیں؟ ہم اپنی ہر خامی و کوتاہی کی ذمہ داری دشمن کے سر تھوپ دیتے ہیں۔ دشمن کو برا بھلا کہنے سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ کوئی منصوبہ بندی کرتے ہیں نہ ہی کسی منصوبہ بندی پر عمل کرتے ہیں، جبکہ امریکا جیسے غیر مسلم ملکوں میں قوم کے لیے کام کیا جاتا ہے، چاہے حکومتیں جتنی بدل جائیں، لیکن پالیسیاں نہیں بدلتیں، ان کی منصوبہ بندیاں نہیں بدلتیں، اسی لیے وہ لوگ دنیا میں ترقی کر رہے ہیں۔ ہم لوگ تعلیم میں سب سے پیچھے ہیں۔ یورپ کے ایک ایک ملک میں پانچ ہزار یونیورسٹیاں موجود ہیں، جبکہ پوری اسلامی دنیا میں پانچ سو یونیورسٹیاں ہیں اور جن کا معیار یہ ہے کہ ان میں سے ایک بھی یونیورسٹی ٹاپ لسٹ میں شامل نہیں ہے۔ سائنس میں ہم ان سے پیچھے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں ہم پیچھے ہیں اور تو اور اب تو ہم دین پر بھی پوری طرح سے عمل نہیں کرتے۔ دنیاکا یہی ضابطہ ہے کہ کامیابی اسے ملے گی جو کامیابی حاصل کرنا چاہے گا۔ مسلمانوں کو پوری محنت، جستجو اور بیدار مغزی سے کام کرنا ہوگا۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرکر بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ سستی، کاہلی اور بے فکری مسلمانوں کی زبوں حالی کی بنیادی وجوہ ہیں۔

میں مسلسل بولے جارہا تھا اور طالب علم غور سے میری بات سن رہا تھا۔ آپ جنگ بدر کو ہی دیکھ لیں، امت مسلمہ کی زبوں حالی کی وجہ سمجھ میں آجائے گی۔ طالب علم چونک سا گیا اور کہنے لگا کہ میں آپ کا نکتہ سمجھ نہیں سکا۔ میں نے تین چار سانس لیے اور عرض کیا: اللہ کے سب سے محبوب نبی ا اگر چاہتے تو اللہ تعالی سے صرف دعا کرتے تو دشمن کا ستیا ناس ہو جاتا، لیکن عادت خداوندی یہ نہیں ہے۔ اللہ نے دنیا کے تمام تر معاملات کو اسباب کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ آپ علیہ السلام عادت خداوندی کے مطابق ایک ہزار کے مقابلے میں جو میسر تھا، تین سو تیرہ جاںنثاروں کو لے کرمیدان میں اترے، آٹھ تلواریں تھیں، ان کو بھی لے آئے۔ دو گھوڑے تھے، وہ بھی ہمراہ لائے۔ جاںنثاروں سے مشورہ کیا۔ منصوبہ بندی کی، لائحہ عمل طے کیا، میدان کا معائنہ کیا۔ اسباب کے درجے میںجو ہو سکا، وہ کیا۔ پھر سجدے میں سر رکھ کر کہا :”یا اللہ! جو ہمارے بس میں تھا، وہ ہم نے کرلیا۔ اب فتح دینا آپ کا کام ہے۔ “ دنیا نے دیکھ لیا کہ اللہ تعالی نے کیسی فتح مبین عطا کی۔

آج دنیا میں مسلمان کو مظلوم دیکھ کر ہم صرف یہ کہتے ہیں اللہ تعالی سے دعا کرو کہ مسلمانوں کو ظلم سے چھٹکارا مل جائے۔ ہم صرف اذکار و اوراد کے ذریعے کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان سب چیزوں کی برکت و فضیلت اپنی جگہ، لیکن سوچنا یہ ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسے ہی نہ کرسکتے تھے؟ لیکن امت کو یہ بتانے کے لیے کہ اگر دنیا میں سراٹھا کر جینا چاہتے ہو تو دعاﺅں کے ساتھ ساتھ اسباب بھی اختیار کرنا ہوں گے۔ بات ختم ہوئی تو طالب علم میرے جواب سے کچھ مطمئن سا نظر آرہا تھا۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701058 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.