ہمارے ملک کے ایک سابق حکمران کا
یہ جملہ کافی مشہور ہوا۔ وہ اپنے دور کے بعد بیرون ملک جلا وطنی کے دن گزار
رہے تھے۔ کسی صحافی نی ان سے پوچھا کہ واپس پاکستان کب آئیں گے؟ کہنے لگے
کہ جب پاکستان کا ماحول میرے لئے سازگار ہوگا۔ پوچھا گیا کہ کب سازگار ہوگا
تو فرمایا کہ ابھی وہاں میری جان کو خطرہ ہے۔ جب مجھے جان کے تحفظ کی ضمانت
دی جائے گی۔ تا ہم میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں۔
ایک اور رہنما جو بھی بیرون ملک ہیں وہ بھی تمام مقتدروں کو للکارتے ہیں
اور کہتے ہیں کہ میں حق بات کرتا رہوں گا چاہے اس میں میری جان ہی کیوں نہ
چلی جائے۔ تاہم پاکستان آنے سے گریزاں اس لئے ہیں کہ یہاں جان کو خطرہ
ہے۔ہم اتنے بڑے آدمی نہیں ہیں۔ عوام الناس میں سے ہیں تا ہم یہ خوبیاں ہم
میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ لوگوں کو خواہ مخواہ غلط فہمی ہے کہ ہم ڈرپوک
ہیں تو ایسا کچھ بھی نہیں۔ ہم آپ کو وضاحت دیتے ہیں۔ہم آگ کے پاس نہیں
پھٹکتے۔ اس کی وجہ یہ کہ ہمیں کھانے بنانے کا شوق نہیں ہاں کوئی بنا دے تو
ہم اس کا دل رکھنے کو کھا لیتے ہیں۔ چونکہ ہم باورچی خانے میں نہیں جاتے تو
اس کا یہ مطلب کہاں سے نکلا کہ ہم آگ سے ڈرتے ہیں۔آگ بہترین غلام مگر
بدترین آقا ہے یہ تو ہم جانتے سو اسی لئے احتیاط کرتے ہیں۔ اب کوئی احتیاط
کو خوف کا نام دے تو اس کی مرضی۔پان آگ کا دشمن ہے۔ اس لحاظ سے تو ہمارا
دوست ہونا چاہیے کہ دشمن کا دشمن سودت ہی ہوتا ہے مگر اس کی ہم سے گاڑھی
نہیں چھنتی۔ بلکہ ہم اسے فاصلے پر رکھتے ہیں کہ کہیں کبھی ان دونوں میں
دوستی ہو جائے تو ہم پر نہ پل پڑیں دونوں۔ ویسے ہمیں پانی بہت پسند ہے۔
پینے والا بھی اور دوسرا بھی۔ ہم سمندر کے کنارے جاتے تو وہیں کھو جاتے۔
دور دور سے دیکھتے ہیں اور ٹھہر ٹھہر کے۔جیسے کوئی نامراد عاشق اپنے محبوب
کو دیکھتا ہے۔ ہمپانی کے پاس بلکہ اندر بھی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں بس
تیراکی سیکھ لیں۔ ہم نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ جب تک تیراکی نہیں آ جاتی پانی
کے قریب بھی نہیں پھٹکنا۔کیا یہ ڈرنا ہے؟بعض دوست ہمارے ساتھ گاڑی میں نہیں
بیٹھتے۔ان کو دراصل ہماری گاڑی چلانے کی مہارت پر شبہ ہے۔ حالانکہ ہمارے
لئے یہ بالکل معمولی بات ہے۔ہم مشکل سے مشکل صورت حال میں بھی اپنے اعصاب
قابو میں رکھتے ہیں سوائے آنکھوں کے کہ جو ایسی صورت حال میں بند ہو جاتی
ہیں۔ تاہم اس کو خوف کہنا تو زیادتی ہو گی یہ تو محض اضطراری حرکت ہے۔کچھ
لوگ اندھیرے سے بھی ڈرتے ہیں۔ادھر شام ہوئی ادھر ان کی طبیعت بے چین ہونا
شروع ہو گئی۔ گھر کی ساری بتیاں جلا دی۔ گھر والوں پر بل کا بوجھ ڈالا اور
واپڈا والوں پر بجلی کا۔ بل تو پھر کچھ عرصے بعد آنا مگر واپڈا والے ایسے
نخرے نہیں برداشت کرتے۔ کچھ دیر تو دیکھتے ہیں پھر ایک دم سے بجلی غائب۔
ادھر بجلی غائب ہوئی ادھر ان کی چیخ نکلی۔ہمارے ساتھ تو ایسا بھی کبھی نہیں
ہوا بس ہم جہاں ہوں وہاں سے ہلتے نہیں۔ ایک بار رات میں زلزلہ آ گیا۔ ہم
جاگ رہے تھے۔ سارا محلہ باہر نکل گیا مگر ہم اپنے کمرے سے بلکہ بستر سے ہی
نہیں ہلے۔بعض لوگ جانورون اور کیڑے مکوڑوں سے ڈرتے ہیں۔ خواتین لال بیگ،
چھپکلی اور چوہون سے جبکہ مرد حضرات سانپ، کتی اور دیگر جانوروں سے۔ ہم ان
میں سے کسی سے نہیں ڈرتے کیوں کہ جہاں جس طرف ان میں سے کسی کی موجودگی کا
شبہ ہو وہاں سے ہم گزرتے ہی نہیں اور اگر کبھی وہ سامنے آ جائیں تو ہم ان
کو رستہ دے دیتے ہیں کہ پہلے آپ۔ آپ اس کو بے شک ہمارا ڈرنا سمجھیں ہماری
نظر میں تو یہ حیوانات سے حسن سلوک ہے۔ان کے علاوہ کچھ ایسی چیزیں بھی ہین
جن سے ہم ڈرتے ہیں تاہم ہمارے یہ سیاست دان انھی سے نہیں ڈرتے۔ ان میں سب
سے پہلے قانون ہے۔ اس سے ہم بہت ڈرتیہیں اور اس سے بھی زیادہ اس کے
رکھوالوں سے۔ یعنی کہ پولیس والوں سے۔ ہمیں دور سے بھی کوئی پولیس والا نظر
آئے تو ہماری سٹی گم ہو جاتی ہے اور ہم جل تو جلا ل تو کا ورد کرنے لگتے
ہیں۔حالانکہ حوالات بھی کچھ بری جگہ نہیں۔ ہمارے سیاستدان تو اس کا ایسے
ذکر کرتے جیسیسیر و تفریح سے ہو کے آئے ہوں۔ ادیبوں کے لئے بھی جیل جانا
کافی سودمند ہے۔ فیض احمد فیض صاحب ہماری اس منطق کا بین ثبوت ہیں کہ ان کے
ناقدین بھی معترف ہیں کہ اگر وہ جیل نہ جاتے اور وہاں زنداں نامہ نہ لکھتے
تو ان کا ادبی مقام وہ نہ ہوتا جس کے آج وہ مالک ہیں۔۔حتٰی کہ ایان علی بھی
جیل جانے سے پہلے اتنی معروف کب تھیں کہ کوئی انھیں لیکچر پر مدعو کرتا۔۔
معلوم نہیں ہم جیل سے اتنے خائف کیوں ہیں۔ ہم اپنے کام کے اکابرین کا بھی
بہت ادب کرتے ہیں۔اتنا ادب اور احترام کہ بعض سطحی سوچ کے لوگوں کو خوشامد
کا گمان ہوتا ہے۔ہم تو انھیں اولوالامر سمجھ کے ان کا احترام کرتے اور اپنے
فرائض بجا لاتے۔ ہم بھی جانتے کہ رزق اﷲ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے مگر اپنے
بڑوں کی بات ماننا اور خوش دلی سے کام کرنے کا حکم بھی تو اسی رب کا ہے۔ایک
خوف جو کہ بالکل عام ہے اور تمام مردون بالخصوص شادی شدوں کو ہوتا ہے وہ ہے
بیگم کا خوف۔ تاہم یہ خوف ایسا ہے کہ ہوتا سب کو ہے مگر اظہار کوئی نہیں
کرتا الٹا اپنی بہادری کے فرضی قصے سنائے جاتے ہیں۔ |