سنتوں کے اتباع اور بدعتوں اور گناہوں سے اجتناب کے متعلق احادیث (حصہ دوم)
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
24 Jul 2014 از عثمان احمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں جو
سنتوں کی اتباع کرنے کی ترغیب دلاتی ہیں اور بدعتوں سے بچنے کی تلقین کرتی
ہیں اور ان کی خطرناکی واضح کرتی ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان:.۱
‘‘من احدث فی أمرنا ھذا مالیس منہ فھورد’’ جس نے ہمارے احکام میں ایسا کام
ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے۔ (بخاری:۲۶۹۷، مسلم:۱۷۱۸)
صحیح مسلم میں ایک روایت ان الفاظ سے بھی وارد ہے:‘‘ من عمل عملاً لیس علیہ
أمرنا فھورد’’ جس نے ایسا عمل کیا جو ہمارے طریقہ کے مطابق نہیں تو وہ
مردود ہے۔[مسلم:۱۷۱۸]
اور یہ دوسری روایت جو صحیح مسلم میں ہے معنی کے اعتبار سے پہلی روایت کی
نسبت زیادہ عموم کی حامل ہے اس لئے کہ یہ بدعت کے موجد اور اس پر عمل کرنےو
الے دونوں کو شامل ہے۔
اور یہ حدیث قبولیت اعمال کی دو شرطوں میں سے ایک یعنی اتباع رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کے واجب ہونے کی دلیل ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل
کرنے کے لئے جو عمل بھی کیا جائے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوتا
تاوقتیکہ اس میں دو شرطیں پائی جائیں۔پہلی یہ کہ اللہ وحدہ تعالیٰ کے لئے
کامل اخلاص جس میں کوئی شائبہ نہ ہو اور یہی تقاضا ہے اس شہادت کا کہ اللہ
کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور دوسری یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے لئے کامل اتباع ، اور یہ تقاضا ہے اس شہادت کا کہ محمد صلی اللہ علیہ
وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مجموع الفتاویٰ (۱۸/۲۵۰) میں ہے کہ
فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے فرمان باری تعالیٰ: ‘‘ لِیَبْلُوَ کُمْ
اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً ’’‘‘کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھا عمل
کون کرتا ہے’’(الملک:۲) میں ‘‘اچھے’’ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اس سے
مراد یہ ہے کہ خالص ترین اور درست ترین۔
یہ اس لئے کہ عمل اگرچہ خالص ہو لیکن درست نہ ہو تو مقبول نہیں ہوتا اسی
طرح اگر درست ہو لیکن خالص نہ ہو وہ بھی مقبول نہیں ہوتا اور قبولیت اس وقت
پاتا ہے جب خالص اور درست ہو۔ خالص سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے لئے ہو اور
درست سے مراد یہ ہے کہ سنت کے مطابق ہو۔
ابن کثیر رحمہ اللہ نے ارشاد باری تعالیٰ: ‘‘فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْ
الِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَّلَایُشْرِکْ
بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ اَحَدًا ’’ ‘‘ تو جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی
امید رکھتا ہو اسے چاہئے کہ عملِ نیک کرے اور پروردگار کی عبادت میں کسی کو
شریک نہ بنائے’’[الکہف:۱۱۰] کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: فلیعمل عملاً
صالحاً(نیک عمل کرے) سے مراد ہے کہ ایسا عمل کرے جو اللہ تعالیٰ کے مقرر
کردہ طریقے کے مطابق ہو۔ اور ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا(اور اپنے پروردگار
کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے سے مراد ہے کہ اپنا عمل بجا لاتے وقت
صرف اللہ وحدہ کی خوشنودی کا طلبگار ہو۔ اللہ تعلایٰ کی بارگاہ میں شرف
قبولیت پانے والے عمل کے یہ دو رکن ہیں۔ضروری ہے کہ وہ اللہ کے لئے خالص ہو
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق درست ہو۔ [تفسیر ابن
کثیر بتحقیق عبدالرزاق المھدی۴/۴۵۲ ]
۲۔ سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ہمیں وعظ کیا اس قدر بلیغ کہ ہماری آنکھیں چھلک چھلک گئیں اور دل
لرز لرز گئے تو ایک شخص عرض پرداز ہوا اے اللہ کے رسول!یوں محسوس ہوتا ہے
کہ یہ الوداعی خطاب ہے !تو آپ ہمیں کیا نصیحت فرماتے ہیں؟ فرمایا: میں
تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا، سمع وطاعت کو لازم پکڑنا خواہ
حکم دینےو الا حبشی غلام ہو۔ اس لئے کہ تم میں سے جو زندہ رہا بہت اختلاف
دیکھے گا تو میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کا التزام
کرنا اسے تھامے رکھنا اور اسے دانتوں سے پکڑ لینا۔ خبردار نو ایجاد کاموں
سے دور رہنا، ہر نو ایجاد کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے (ابو
داؤد:۴۶۰۷، یہ الفاظ بھی انہی کی روایت کے ہیں۔ ترمذی:۶۲۷۶اور ابن ماجہ:
۴۳۔۴۴ترمزی نے اسے ‘‘حسن صحیح’’کہا ہے)
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ مبارک کے قریبی عہد میں
اختلاف رونما ہونے کی خبر دی تھی اور اس سے بچنے اور اس کے نقصانات سے
محفوظ رہنے کے راستے کی طرف رہنمائی بھی فرما دی تھی۔ جو آپ سلی اللہ علیہ
وسلم کی سنت اور خلفائے راشدین کے طریقہ کار کی پیروی اور بدعات وار نو
ایجاد کاموں سے اجتناب سے عبارت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت پر کاربند
رہنے کی تلقین فرمائی اور اس کی ترغیب دلائی اور فرمایا:‘‘ فعلیکم بسنتی و
سنۃ الخلفاء المھدیین الراشیدین’’ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے
راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا۔
اور بدعات اور نو ایجاد کاموں سے ڈرایا اور فرمایا:
‘‘وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ’’
۳. امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح (۸۶۷) میں سیدنا جابر بن عبداللہ رضی
اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز
خطبہ ارشاد فرماتے تو کہتے:
أما بعد فإن خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدي ھدي محمد و شرالأمور محدثاتھا
وکل بدعۃ ضلالۃ’’
اما بعد: بہترین بات اللہ تعالی کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ اور بدترین کام وہ ہیں جو نو ایجادہوں اور ہر بدعت
گمراہی ہے۔
۴ . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
‘‘فمن رغب عن سنتي فلیس مني’’
جس نے میری سنت سے بے رغبتی ظاہر کی وہ مجھ سے نہیں۔(بخاری۵۰۶۳،مسلم:۱۴۰۱)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:.۵
لوگو! میں تم میں وہ کچھ چھوڑ رہا ہوں کہ اگر اس کو مضبوطی سے تھامے رکھو
گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ۔
نیز فرمایا:
میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں ان کے ہوتے کبھی گمراہ نہ ہو گے اللہ کی
کتاب اور میری سنت۔
(حاکم ۱؍۹۳ح۳۱۸نیز دیکھئے‘‘الحدیث’’14ص40)
حجۃ الوداع کے متعلق سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث ہے اور اس میں
آپ سلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہے۔
‘‘میں تم میں وہ چیز چھوڑ چلا ہوں کہ اس کے ہوتے ہوئے تم کبھی گمراہ نہیں
ہو گے بشرطیکہ اسے مضبوطی سے تھام لو۔ وہ اللہ کی کتاب ہے۔ اور ہاں تم سے
میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا کہو گے؟ سب نے کہا کہ ہم گواہی دیتے
ہیں کہ آپ نے پیغام پہنچا دیا، امانت ادا کر دی اور خیر خواہی اور نصیحت
کی۔ تو آپ نے انگشتِ شہادت کوآسمان کی طرف اٹھا کر لوگوں کی طرف جھکایا اور
کہا: اے اللہ گواہ ہو جا، اے اللہ گواہ ہو جا، تین بار ایسے کہا’’ [صحیح
مسلم : ۱۲۱۸]
۶. امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح (۷۲۸۰) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری ساری
امت جنت میں داخل ہو گی سوائے اس کے جو انکار کر دے۔ لوگوں نے عرض کیا: اے
اللہ کے رسول !جنت میں جانے سے کون انکار کرتا ہے؟ فرمایا: جو میری اطاعت
کرتا ہے جنت میں داخل ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کر
دیا۔
۷. اور امام بخاری رحمہ اللہ (۷۲۸۸) اور امام مسلم(۱۳۳۷) نے سیدنا ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ امام مسلم کی روایت کے
ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ‘‘میں تمہیں جس کام سے منع کروں اس سے
اجتناب کرو اور جس چیز کا حکم دوں اسے اپنی طاقت کے مطابق انجام دو۔ تم سے
پہلے لوگوں کو اسی بات نے ہلاک کیا کہ وہ اپنے انبیاء سے بہت سوال کرتے اور
ان سے بہت اختلاف کرتے
۸. اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا
تاوقتیکہ اس کی خواہش میری لائی ہوئی شریعت کے تابع ہو جائے۔ (۱) امام نووی
رحمہ اللہ نے اربعین میں سیدنا عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ کی روایت سے
صحیح قرار دیا ہے اور حافظ رحمہ اللہ نے فتح الباری (۱۳؍۲۸۹)میں کہا ہے:
بیہقی نے ‘‘المدخل’’ اور ابن عبدالبر نے اپنی تالیف‘‘بیان العلم’’ میں حسن،
ابن سیرین، شریح ، شعبی اور نخعی رحمہم اللہ جیسے تابعین کی ایک جماعت سے
جید سندوں کے ساتھ محض رائے سے کسی بات کے قائل ہونے کی مذمت بیان فرمائی
ہے اور ان تمام امور کو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جامع اور
شامل ہے۔ تم سب سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا تا وقتیکہ اس کی خواہش میری لائی
ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو(۱) اسے حسن بن سفیان وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ اس
کی سند کے راوی ثقہ ہیں اور نووی نے اربعین کے آخر میں اسے صحیح کہا ہے۔
۹. امام بخاری(۱۵۹۷) اور امام مسلم (۱۲۷۰) نے روایت کیا ہے کہ سیدنا عمر
رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس آئے اسے بوسہ دیا اور کہا: ‘‘ میں جانتا ہوں
تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ اگر میں نے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا کہ تمہیں بوسہ دیتے تھے تو میں
تمہیں بوسہ نہ دیتا۔
۱۰. امام مسلم رحمہ اللہ(۲۶۴۴) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے
ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ہدایت کی طرف دعوت دے
اسے اس کی اتباع کرنے والوں کے اجروں کی مانند اجر ہے اس سے ان کے اجروں
میں کمی واقع نہ ہو گی اور جو گمراہی کی طرف بلاتے ہیں اسے اس کی پیروی
کرنے والوں کے گناہوں کی مانند گناہ ہو گا، اس سے ان کے گناہوں میں کوئی
کمی واقع نہ ہو گی۔
جس طرح کتاب و سنت میں سنت کی اتباع کی ترغیب و تاکید اور بدعات سے اجتناب
کی تلقین کے بارے میں نصوص وارد ہوئی ہیں اسی طرح سلف امت یعنی کتاب و سنت
کی مثال پیروی کرنے والے صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے زمانے کے صالحین
سے بہت سے آثار وارد ہیں جن میں اتباع سنت کی تلقین کی گئی ہے بدعات سے
متنبہ کیا گیا ہے اور ان سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے۔
ان میں سے چند یہ ہیں:
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ‘‘اتبعوا ولا تبتدعو فقد
کفیتم:.۱
اتباع کرو بدعت اختیار نہ کرو، تمہاری کفالت کی جا چکی یعنی تمہیں خود رائی
کی ضرورت نہیں۔ (دارمی:۲۱۱ إسناده ضعيف، جامع التحصيل ص: 254 كتاب الزهد
امام وكيع رقم: 315
۲. عثمان بن حاضر رحمہ اللہ کہتے ہیں: کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ
عنہما کے ہاں گیا ان سے نصیحت کی درخواست کی تو انہوں نے فرمایا: ہاں اللہ
سے تقوی کو لازم پکڑو استقامت اختیار کرو، اتباع کرو بدعت سے دور رہو.
(دارمی:۱۴۱ إسناده ضعيف و صحيح بالمتابعة كتاب السنة امام مروزي، رقم: 83
الإبانة 377/1 رقم:200
۳. سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے: جسے اس بات سے مسرت
ہوتی ہو کہ کل اللہ کے حضور مسلمان ہونے کی حالت پیش ہو اسے چاہئے کہ جہاں
اذان ہو ان نمازوں کو پابندی کے ساتھ (باجماعت) ادا کرے، اس لئے کہ اللہ
تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہدایت کے طریقے مقرر کئے
اور یہ نمازیں بھی ہدایت کے طریقوں میں سے ہیں اگر تم نے گھروں میں نماز
پڑھنا شروع کر دی جیسا کہ جماعت سے پیچھے رہنے والے کرتے ہیں تو تم اپنے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے تارک ہو جاؤ گے اور اگر تم نے اپنے نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت چھوڑ دی تو گمراہ ہو جاؤ گے۔ (صحیح مسلم : ۶۵۴)
۴. سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے: ہر بدعت گمراہی ہے
اگرچہ لوگ اسے اچھا ہی خیال
کرتے ہوں۔ (السنۃ للمروزی: ۸۲وسندہ صحیح)
۵. سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نو ایجاد کاموں سے دور رہو
اس لئے کہ جو بھی نو ایجاد کام ہے بلا شبہ گمراہی ہے۔ (ابو داؤد :
۴۶۱۱إسنادہ صحیح)
۶۔ ایک شخص نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو خط لکھا جس میں تقدیر کے
متعلق استفسار کیا تھا تو انہوں نے جواب میں تحریر کیا۔
اما بعد:۔ میں تمہیں اللہ کے تقویٰ، اس کے معاملہ میں میانہ روی اور اس کے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرنے کی نصیحت کرتا ہوں اور یہ کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ثابت اور قائم ہو جانے کے بعد اہل بدعت نے جو
ایجاد کیا اس سے اجتناب کرو کہ اس کی انہیں ضرورت نہ تھی۔ تو تم سنت کا
التزام کرو کہ یہی اللہ کے فضل و کرم سے تمہیں بچا کر رکھے گی۔ (ابو
داؤد:۴۶۱۲ "وسندہ ضعیف أبو الصلت و أبو رجاء مجهولان لم يثبت تعينها بدليل
قوي والثوري مدلس وعنعن عن النضر ابن عربي"، انوار الصحيفه في الاحاديث
الضعيفه من السنن الاربعة،ص: 162، رقم: 4612)
۷۔ سہل بن عبداللہ کا قول ہے: ‘‘علم میں جس کسی نے نئی چیز داخل کی اس سے
قیامت کے دن پوچھا جائے گا اگر سنت کے مطابق ہوئی تو بچ جائے گا وگرنہ
نہیں’’ (فتح الباری ۱۳/۲۹۰)
۸۔ شیخ الاسلام ابو عثمان نیسا بوری کا قول ہے : جو اپنے آپ پر سنت کو قول
و فعل میں حاکم بنا لیتا ہے اس کی زبان سے حکمت جھڑنے لگتی ہے۔ اور جو شخص
اپنے قول و فعل میں خواہش نفس کو حاکم بنا لیتا ہے اس کی زبان سے بدعت جاری
ہو جاتی ہے۔ (حلیۃ الاولیاء: ۱۰؍۲۴۴و سندہ صحیح)
۹. امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو شخص اسلام میں بدعت جاری کرتا ہے
اور سمجھتا ہے کہ وہ اچھی ہے تو اس نے یہ سمجھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
نے اللہ کا پیغام پہنچانے میں خیانت کی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان
ہے:‘‘اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ’’ آج میں نے تمہارے لئے
تمہارا دین مکمل کر دیا ہے۔ تو جو چیز اس وقت دین نہیں تھی آج بھی دین نہیں
ہو سکتی۔ (الاعتصام للشاطبی: ۱؍۲۸)
۱۰۔ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں : ہمارے ہاں اہل سنت کے اصول یہ ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے طریقہ کی سختی سے پابندی اور ان
کی اقتداء، بدعات سے اجتناب، اور یہ اعتقاد کہ ہر بدعت گمراہ ہے۔(شرح اصول
اعتقاد اھل السنۃ للالکائی:)۳۱۷
|
|