نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں

ش م احمد

کعبہ بہار ِ رحمت روضہ قرار وراحت

الحمد للہ اس بندہ عاصی کو امسال حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ اللہ اللہ کتنا بڑا اعزاز اور انعام ہمیں ربِ کعبہ نے بخش دیا۔ خدا وند تعالیٰ یہ انعام واکرام قارئین سمیت سب مسلما نوں کو نصیب کرے(آمین)۔میرے ہمراہ میری شریک ِحیات بھی تھیں۔ دیگراَڑتالیس خوش نصیب کشمیری حاجی صاحبان کی رفاقت ومحبت اور خلوص واپنائیت ہمہ وقت ہمارے اس قافلہ شوق کو پل پل حاصل رہی ۔ یہ محض اللہ کی بخشش وکرم ہے۔ حجاج کرام کا یہ قافلہ الغزالی ٹور اینڈ ٹراولزسری نگر کے جواں سال روح رواں مذمل بشیر بابا کی رہنمائی میں ۳۱ستمبر کو سری نگر سے ممبئی روانہ ہوکر اگلے روز جدہ ائر پورٹ پر رات کو فروکش ہوا اور ۱۹ اکتوبر کو حر مین شریفین کو باری باری روتی آنکھ اور دھڑکتے دل سے وداع کر کے بخیر وخوبی بعد دوپہر وطن واپس لوٹا۔ الحمد للہ علی ذالک۔ شاید یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ ہم سے وہ کوئی نہیں جس نے ٹوٹے ہوئے قدموں سے جنت ارضی کے ان دومقامات سے رخصت لے کر آہ وزاری کے پیرائے میں حفیظجالندھری کی یہ
دعا اللہ کے حضور نہ مانگی ہو
اپنے در پر جو بلاتے ہیں تواتنا بھی کریں
اب کہیں اور نہ مرنا ہو نہ جینا مرا

سچ پوچھئے تو حج بیت اللہ کی یہ بے بدل عنایت کسی بھی فرد بشرکے اپنے ذاتی سعی وعمل کا ثمرہ نہیں ہوتا بلکہ یہ محض رب کریم ورحیم کی بارگاہ سے بندوں کے نام پیار بھراسندیسہ ہوتا ہے ۔ پیار اور دُلار کایہ سندیسہ بندے کے مال وزر یااستطاعت ، فرصت، صحت، حالات کی موافقت ، فراغت یا کسی ایسی شئے سے مشروط نہیں ہوتا جس کا انسانی ذہن احاطہ کر سکے بلکہ لبیک لبیک کا سوزوگداز خلیل اللہ حضرت ابراہیم ؑ کی دعاوں¿ کی صدائے بازگشت ہے جو حاجیوں کے وردِ زبان ہوتاہے ۔ آپ ؑنے باذن اللہ اپنے فرزند ذبیح اللہ حضرت اسمٰعیلؑ کے ساتھ مل کر بیت اللہ کی تعمیر کی اورا س کے طواف کا آغاز کر کے مناسک ِ حج کی وہ ڈالی ہمارے سپر د کردی جنہیں امت مسلمہ کو پیغمبر کریم ﷺ نے سکھلایا ۔ بلاشبہ یہ خدائے لاشریک کا محض خاص فضل واحسان ہے جو اپنے کسی بندہ ہ خاص یا گناہ گار بندے کو اپنے اس مہمان خانے میں وقت ِ معین پر بلالے۔ جس کسی کو اللہ کی جانب سے مبہط ِوحی میں آنے کے لئے پروانہ راہ داری ملے سمجھئے وہ فی الحقیقت اللہ کا چہیتاہے، خوش بخت ہے ،مامون من الشیطان ہے۔

میرا حج بیت اللہ رب ذوالجلال کی اس ذرہ بے نشان پر اتنی بڑی دادودہش ہے کہ وہ اپنے کمزورزبان سے میں اس اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرسکتا۔ ہاں، میں اس شرف ِ نیاز کا سہرا اپنی اہلیہ کی تمنا ئے دل اور آرزوئے قلب کے سر باندھتا ہوں ۔ میرے ناقص خیال میں اللہ نے شاید اُنہی کی سنی اور مجھے اُن کے ساتھ نتھی کر کے بلدالامین اور مدینتہ النبی کا بلاوا بھیجا۔ مجھے یاد ہے کہ برسوں قبل ایک روز یک بہ یک انہوں نے اپنی اس قلبی خواہش کااظہار مجھ سے خلوت میں یہ کر کے کیا تھا کیوں نہ ہم فریضہ حج ادا کر نے جائیں۔ ا ُس وقت میرے لئے اُن کی زبانی یہ ایک نیا ہی موضوع ِسخن تھا۔۔۔ عام گفتگوسے بالکل ہٹاہوااور اُن کے معمول کی باتوں اور دلچسپیوں کے یکسر اُلٹ میں۔ یہ اُن کاکوئی مشورہ تھا نہ نصیحت بلکہ اس پر اُن کا بچگانہ ا صرار اور بے ساختگی کی مہر ثبت تھی ۔ میں نے خاموشی کے ساتھ اُن کی یہ صحت مند فرمائش ایک کان سے سنی اور دوسرے کان سے نکال دی ۔ ویسے بھی اس وقت میں بوجوہ اس سعادتِ عظمیٰ کے حصول سے قاصر تھا، اس لئے چپ سادھ لیناہی مناسب سمجھا۔ بات آئی گئی ہوگئی ۔باوجودیکہ کئی بار اُن کی یہ پاک خواہش میرے گوش ِ سماعت سے آگے بھی ٹکرائی، میں نے اُن کا صرف دل رکھنے کے لئے کبھی کبھی اثبات میں سر ہلایا مگر ہونٹوں پہ خاموشی کا قفل چڑھائے تورکھا البتہ ان کا جوش اور ولولہ دیکھ کر کبھی بھی اپنی مجبوریوں کا ذکر چھیڑا نہ کوئی جھوٹاوعدہ دیا یا طفل تسلی سے ٹرخایا۔ طرفہ تماشا یہ کہ اُن ایام میں ایک بار بھی اُن کی اس مقدس آرزو نے میری دعا وں¿ں میں اپنی جگہ نہ بنالی ۔ پھر بھی نہ جانے کیوں بیگم کی یہ آرزو میرے نہاں خانہ دل میں ایک بے تعبیر خواب کی مانند نقش ہوکر رہ گئی۔ چلتے چلتے ماہ وسال گزر گئے ۔ اسی اثنا ءمیں ایک روز ہماری مقامی مسجد کے شریں کلام ، خوش مزاج اور پاک باز متولی عبدالرحمان بٹ صاحب، جن کے ساتھ میرے بے تکلفانہ تعلقات ہیں، نماز ظہر سے فراغت کے بعد مجھے تنہائی میں لے کر کہنے لگے میں نے کل پرسوں ایک اچھاخواب دیکھا ہے، خواب میں بزرگان ِ دین کی ایک روح پرور مجلس جمی ہوئی دیکھی ۔ ان میں سے ایک انتہائی جاذب ِنظر وجاہت رکھنے والے نوارانی بزرگ نے مجھ سے کہا کاش تمہارا ہمسایہ مختاراحمد ( یعنی راقم ) حج کو آتا۔ میں نے اپنے بہت ہی محترم ومکرم اور خیرخواہ ہمسایہ کی زبانی یہ بشارت نما خواب سنا تو بولتی بند ہوگئی ، سر چکرایا، زمین پیروں تلے کھسکتی ہوئی معلوم پڑی۔ میری آنکھوں نے مشکل سے ضبط کیا، واللہ اگر حیا مانع نہ آتی تو اس کے روبرو پلکوں کے پٹ کھول کر اندر کے تلاطم کوسیلاب کی صورت میں باہر انڈیل دیتا ۔ جلدی جلدی سے اُن سے سیلک علیک کر کے تیز قدموں سے گھر کی راہ لی ۔ اس خواب کا ذکر گھر میں نہ کیا مگر میرا دل کئی دن بری طرح سے اس کو یاد کر کے دھڑکتا رہا، بلکہ دل کی یہ دھڑکن دو ایک موقعوں پر اشکوں کی شکل بھی اختیار کر گئی ۔ میں اپنی اس عجیب حالت وکیفیت کو سمجھ ہی نہ پایا ۔ البتہ توہم پر ستی سے مجتنب ہونے کے سبب میں نے من ہی من خود کو یہ تسلی دی بھئی خواب تو بہرحال خواب ہے، یہ تھوڑی کوئی نص صریح کی طرح واجب اتعمیل ہے؟پھر اس زمانے میں ڈھونڈے سے بھی حضرت یوسف ؑ کو حاصل تاویل الاحادیث جیسے علم میں شاگردانہ درک رکھنے والے حقیقی تلمیذ الرحمن بندہ کہاں ملے جس سے تعبیر پوچھ دل کا بوجھ ہلکا کیا جاسکے ،؟ ویسے اس کی ضرورت بھی کیا ہے جب قرآن وحدیث کے احکامات وہدایات اورعلمائے رُبانین کے صائب اجتہاد سامنے ہوں ، اس کے بعدکوئی بھی باشعور مسلمان کیونکرکسی اور چیز کا محتاج بناپھرے ؟ البتہ یہ یقین وایمان بھی دامن گیر رہا کہ اسلام میں سچے خوابوں کی ا پنی حقیقت ہے کہ انہیں نبوت کا سترہواں حصہ قراردیا گیاہے۔ خود کلامی کے اسی ادھیڑ بن میں پڑکرمیں نے عبدالرحمن کے خواب کو رویائے صالحہ سمجھ کر یہ ثقہ رائے بنالی کہ اگر میں واقعی قران وحدیث کی روشنی میں صاحب ِاستطاعت ہوں تو ان خواب والے بزرگوں کے ایمان افروز صلاح کو نظرانداز کر نے کی مزید بھول نہیں کی جا نی چاہیے۔ اس احساسِ دروں نے مجھے گویا گہری نیند سے جگادیا ۔ وہ دن بھی بہت جلد آہی گیا جب اپنی اہلیہ کی دیرینہ تمنا کی تکمیل اور خواب کی تعبیر کے لئے میں نے پوری رازداری کے ساتھ ریاستی حج کمیٹی میں حج فارم کی خانہ پُری کر لی۔ رازداری اس لئے بر تنا پڑی کیوں کہ اول تومیں چاہتاتھا اگر قرعہ فال میرے نام نہ نکلے توخود اندر ہی اندر کتناہی گھل جاوں ، پشیمانی کے کتنے ہی داغ اور ذِلت کے کتنے ہی دھبے میرے لئے ذہنی کوفت کے باعث بنیں، ندامت اور شرمندگی کے گہرے زخم دل کو کتنا بھی کباب کریں، احسا س ِ محرومی سے جگر کتنا بھی پاش پاش ہو ، پھر بھی کم ازکم اپنے کرم فرماوں کو پیٹھ پیچھے یہ کہنے کا موقع نہ ملے یہ منہ اور مسور کی دال ،اس روسیاہ اوربد کار کو کعبہ شریف کا دیدار کاہے کو نصیب ہوتا؟ شرم نہیں آتی کیا؟ اورمیں اُن کے برے بھلے تاثرات کی تردید بھی کیسے کرسکتا؟ واقعی من آنم کہ من دانم کے مصداق مجھے اپنے گناہوں ، لغزشوں ،خطاکاریوں، بدیوں،کوتاہیوں کا احسا س ہمہ وقت اعتراف ہے ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ حج بیت اللہ کی قبولیت کا یہ مژدہ جاں فزاءہر حاجی کی طرح میرے لئے بھی اُمید اور رجائیت کا باعث بناہوا ہے کہ گناہوں اورعیب کاریوں سے تائب ہوکرہربندہ حج کے طفیل ایسا ہی ہوجاتا ہے جیسے اس نے ماں کی پیٹ سے نیاجنم لیا ہو ۔ تمام صاحب ِ ایمان گناہ گاروں کے لئے اللہ کی یہ نوید و بشارت اَز لسان ِحق بیا ن پیغمبر آخرالزمانﷺ ایک انمول عطیہ ہے کہ جس شخص نے محض اللہ کی خوشنودی کے لئے حج کیا اور بے حیائی اور گناہ سے محفوظ رہا تو وہ پاک ہوکر ایسا لوٹتا ہے جیساکہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز تھا۔( صحیح بخاری ومسلم)

حج فارم رازداری سے جمع کرانے کی اہم دوسری وجہ یہ تھی کہ ہمارے یہاں یہ ایک غلط رواج بنا ہوا ہے کہ کسی عازم حج کاابھی حج فارم کا مرحلہ شروع بھی نہیںہوتا کہ اس کی غیر ضروری تشہیر ہوجاتی ہے ، اُس کی دعوتوں ، ملاقاتوں اور دوسری بے فائدہ مشغولیات کا طویل سلسلہ شروع ہو کر دراز سے دراز تر ہوجاتاہے۔ یوں ایک لمبے جھنجٹ میں تادیر اُلجھ کر وہ اکثر باجماعت نمازوں سے ہی محروم نہیں ہو جاتا بلکہ کبھی کبھی جانے انجانے شر عی طور معیوب سرگرمیوں میں ملوث ہو کر رہ جاتاہے ۔ ہمچوقسم کے تکلفات اور دکھاوے پر مبنی اس جشن تمثیل میں حج کے اصل اغراض و مقاصد فوت ہونا اور فضولیات و رواجات کا دروازہ کھل جانا ظاہر سی بات ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ لوگ عازم حج سے معقول انداز میں ملاقات کو جائیں ، اُس سے دعائے خیر کی ا لتجا کریں اور وداع کرتے ہوئے خود بھی حج بیت اللہ کاذو ق وشوق دل میں پروان چڑھائیں۔ بہر کیف اس روایتی صورت حال کی پیش بینی کر کے میں نے حج فارم کے مرحلے سے ہی راز داری کو عملایا۔

استغفراللہ! جب سٹیٹ حج کمیٹی کی قرعہ اندازی کا دن آیا تو میرا نام جنرل سلیکشن لسٹ سے سرے سے ہی غائب تھا۔ ذور رنج ہونے کے سبب میرادل مر جھا گیا، شوق پر اوس پڑگئی، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہوگئی ، حتیٰ کہ خلوت میں کئی بار آنکھوں سے آنسو اُمنڈ آئے ۔میں نے لسٹ میں اپنے نام کی عدم مو جودگی کو جذباتیت کے عالم میں اللہ کی مشیت نہیں بلکہ اُس رحمن ورحیم کے دربار میں اپنے تئیں’’مستردفہرست‘‘ہونے کا ایک اشارہ سمجھا۔ اس منفی سوچ سے مایوسی کا جامہ اوڑھ کر نہ جانے مجھ سے اپنے بارے مین کیا کیا بدگمانیاں اپنی ذات کے ساتھ وابستہ کیں ۔ میں یہ درس بھی بھول گیا کہ اسلام بیم ورجا کا نام ہے ۔ مجھ سے یہ چُوک بھی ہوئی کہ حج کمیٹی کے طریق کار کے بارے میں کسی جان کار سے مزید معلومات حاصل کرنے کی بجائے اپنے ہونٹ ہی سی لئے ، کبھی یہ جاننے کی کوشش تک نہ کی کہیں ہم میاں بیوی کانام ویٹنگ لسٹ میں تو نہیں آگیا ہے۔ مہلت گزرنے کے بعد مجھ پر منکشف ہو اکہ ودسرے ویٹنگ لسٹ زائرین کے ہمراہ میرا نام ( کور نمبر) بھی حج کمیٹی والوںنے کئی بار اخبار میںشائع کیا مگر باوجودیکہ اخباری دنیا سے تھوڑا بہت تعلق رکھتاہوں اور سی ناطے انٹرنیٹ سے میرا دائمی رشتہ بناہوا ہے مگر اپنی نااُمیدی کے سبب اس بات سے قطعی طور اخیر تک بے خبر رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اپنی پہلی ہی کوشش کے بارآور ہونے کے باوجودمیں سرکاری طور سفر محمود پر جانے کاموقع گنوا بیٹھا۔ آج جب اس صورت حال پر غور کرتاہوں تو یہی سجھاتا ہے کہ میری اس غلط روش یا جذباتی ہیجان کے پس پردہ بھی اللہ کی مشیت کارفر ما تھی۔ اللہ جل شانہ نہیں چاہتا تھا کہ میں پہلی ہی کوشش میں حج بیت اللہ کا اعزاز پاوں بلکہ وہ مجھے تڑپانا چاہتاتھا ۔ مرضی اس کی ! اب اگلی باردوبارہ درخواست دینے کی سوچ ہی رہاتھا کہ الل ٹپ دسمبر ۱۴ ءکے اختتام پر عمرے کا پروگرام باتوں باتوں میں بن گیا۔ حسن ِ اتفاق دیکھئے کہ میری نیک نہاد بیٹی ( دختر نسبتی) نے ایک روزرات کے کھانے کے موقع پر یونہی حج اور عمرے کا ذکر چھیڑا۔ باتوں باتوں میں کہا ابوکیوں نہ آپ اور امی بھی عمرہ کے لئے جائیں ؟ میں نے حیرت سے پوچھا بیٹا کیا آپ میری مصروفیات سے ناآشنا ہیں؟ بنا سوچے سمجھے اپنی رات دن کی مشغولیات کا رونا بھی رویا ۔انہوں نے بڑا سیانا جواب دیا کہ دنیا چلتی ہے، آپ بس ارادہ کرلیں ، اللہ راستہ نکال ہی لے گیا ، ہماری فکر چھوڑیئے۔ میرایقین ہے بظاہر یہ کہ اُن کی نیک صلاح تھی لیکن اسے اللہ نے اپنے کارخانہ مشیت سے نکال کر اُن کے دل میں القاءکیا۔ یہ میرے دل کو ہی نہیں دماغ کو بھی فوراّ راس آگئی۔ اگلے چند دنوں میںہی اُن کے ہی والدمحترم حاجی غلام احمد بیگ صاحب کے ہمراہ ’’لبیکا‘‘سری نگر کے عمر تبت بقال صاحب کے عمرہ گروپ کے ساتھ روانہ ہونے کے بارے میں بات چیت شروع ہوگئی۔
 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390392 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.