دہشت گرد کون؟

نائن الیون کے بعد اسلامی ممالک پر مغربی یلغار کی وجہ سے پھوٹنے والی دہشت گردی کی لہر نے پوری دنیا کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جس سے خصوصی طور پر مسلم ممالک نہ صرف بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں، بلکہ بعض مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے اور لاکھوں لاشیں اٹھانے کے بعد بھی امن و سکون اور استحکام عنقا ہے۔ مغربی ممالک نے اپنی جنگ کو مسلم ممالک میں دھکیل کر خود کو اس کے اثرات سے کافی حد تک محفوظ رکھا ہے، لیکن مکمل طور پر محفوظ وہ بھی نہیں رہ سکے۔ اسلامی دنیا میں لگائی گئی آگ کے شعلوں سے کسی نہ کسی حد تک تو آگ لگانے والوں کو بھی متاثر ہونا ہی تھا۔ مغرب میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں متعدد بے گناہ لوگ مارے گئے۔ گزشتہ روز فرانس میں ہونے والے ہولناک حملوں میں عام لوگوں کی جانیں دہشت گردی کی نذر ہوگئیں اور تین سو سے زاید افراد زخمی ہوئے۔ پیرس حملے ہر لحاظ سے قابل مذمت ہیں، دنیا کا کوئی بھی مذہب بے گناہ انسانوں کے قتل کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔

پندرہ سال سے اسلامی دنیا میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، جس میں لاکھوں لوگ اپنی جان سے گئے ہیں۔ ان حالات میں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ فرانس میں عام لوگوں کا قتل عام خود مغرب کی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے، کیونکہ کئی عسکریت پسند تنظیمیں ان کے ردعمل اور بعض ان کی سپورٹ سے وجود میں آئی ہیں۔ مغرب کو ان حملوں کے بعد اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے،لیکن افسوس دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ دینے والی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی بجائے ایسے واقعات کی آڑ میں دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف کوئی نیا محاذ کھول دیا جاتا ہے۔

بے گناہ لوگوں کا قتل دہشت گرد ہی کہلاتا ہے، چاہے قتل ہونے والے اور کرنے والے کا تعلق کسی بھی مذہب اور ملک سے ہو، لیکن مغرب نے مسلمانوں کے حق میں ہمیشہ ناانصافی سے کام لیا اور دہرا معیار اپنایا ہے۔ فلسطین سے لے کر کشمیر تک، افغانستان سے لے کر عراق تک، شام سے برما اور یمن سے پاکستان تک لہو لہو اسلامی دنیا مغرب کی استعماری پالیسیوں کی تباہ ناکی کی داستان سنا رہی ہے۔ امریکا تین درجن سے زاید ممالک کو ساتھ ملا کر افغانستان پر چڑھ دوڑا اور لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کی زندگیاں چھین لیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمین پر قابض ہوکر ان کا ہی جینا حرام کر رکھا ہے۔ بھارت نے کشمیر اور اندرون بھارت مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ برما میں بودھوں نے مظلوم مسلمانوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ ان حالات میں اگر مسلمان صرف اپنے حق کے لیے آواز بھی اٹھاتا ہے تو دہشت گرد قرار پاتا ہے۔ امریکا افغانستان، عراق، وزیرستان میں حملے کر کے لوگوں سے زندہ رہنے کا حق چھین لے تو یہ دہشت گردی نہیں، لیکن اگر مظلوم عوام امریکا کی درندگی کی مذمت کردیں تو یہ دہشت گردی کی حمایت قرار پاتی ہے۔ اگر اسرائیلی فوج فلسطینیوں پر اندھا دھند فائرنگ کرے اور بلڈوزر وں سے ان کے گھروں کو مسمار کردے تو یہ دہشت گردی نہیں اور اگر اس کے ردعمل میں نہتے فلسطینی پتھر اٹھاکر پھینک دیں تو دہشت گرد قرار پاتے ہیں۔ بھارتی فوجی کشمیری مسلمانوں کا قتل کریں تو دہشت گردی نہیں، لیکن اگر کشمیری عوام آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں توانہیں دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے۔ افغانستان، عراق، برما اور دیگر کئی مسلم ممالک میں ظلم و ستم کی داستان رقم کرنے والے پر”امن“ اور یہ مظالم برداشت کرنے والے مسلمان ”دہشت گرد“ ٹھہرتے ہیں۔

مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگانے والوں نے ایک طرف تو مسلم ممالک کو خانہ جنگی کی دہکتی بھٹی میں دھکیلا اور پھر مسلم ممالک میں عسکریت کو ڈھکے چھپے سپورٹ کر کے بدامنی کو مزید ہوا دی اور دوسری جانب افغانستان و عراق سمیت متعدد مسلم ملکوں میں خود بمباری کر کے بے گناہ مسلمانوں کا بے تحاشا خون بہادیا، اس سب کچھ کے باوجود کمال چالاکی کے ساتھ شاطر مغرب نے دہشت گردی کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ہی ڈال دی۔ داڑھی، حجاب اور شعائر اسلام کوبدنام کیا جانے لگا اور پوری دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ مسلمان ہی دہشت گرد ہیں۔ یورپ میں مسلمانوں پر بلا جواز دہشت گردی کا ٹھپا لگا کر ان کا جینا دوبھر کردیا گیا۔ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”عالمی برادری دہرا معیار اپنانے سے باز رہے۔ تمام حجاب اور داڑھی رکھنے والے دہشت گرد نہیں ہوتے۔ مغرب اس زاویے سے نکل کر اصل دہشت گردی کے خلاف جنگ کرے۔“ وزیر داخلہ کا مغرب سے شکوہ بالکل بجا ہے، کیونکہ ایک عرصے سے دنیا بھر میں دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑ کر دنیا بھر میں مسلمانوں کوشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور دہشت گردی کی نام نہاد جنگ کی لپیٹ میں صرف مسلمان ہی آتا ہے۔

خود یورپی یونین کے قانون نافذ کرنے والے ادارے یوروپول کے مطابق یورپ میں گزشتہ 5 برس کے دوران ہونے والے حملوں میں ملوث مسلمانوں کی تعداد صرف 2 فیصد ہے۔ ایف بی آئی نے 1980ءسے 2005ءتک امریکی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کا مطالعاتی جائزہ لیا، جس میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ 94 فیصد حملوں کا ارتکاب غیر مسلموں نے کیا تھا۔ 42 فیصد حملے لاطینیوں سے متعلق گروپوں نے کیے تھے، جبکہ 24 فیصد حملوں میں بائیں بازو کے انتہاپسند گورے ملوث تھے۔

یورپ اور امریکا میں ایک جملہ اکثر دہرایا جاتا ہے کہ سب مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں، لیکن تمام دہشت گرد مسلمان ہیں۔ اگر انصاف کا دامن تھاما جائے تو یہ حقیقت واضح ہوسکتی ہے کہ دنیا میں زیادہ خونریزی کس نے کی ہے؟ انقلاب فرانس کے دوران میکس ملن رابسپیری نے 5 لاکھ سے زاید افراد کو گرفتار کیا، جن میں سے 40 ہزار کو قتل کیا گیا اور دو لاکھ سے زاید کو بھوکا رکھ کر مارا گیا تھا۔ ہٹلر نے لاکھوں لوگ قتل کیے۔ جوزف اسٹالن نے 2 کروڑ افراد کو قتل کیا۔ مسولینی نے چار لاکھ افراد کو قتل کیا۔ پہلی جنگ عظیم میں 3 کروڑ70لاکھ انسان ہلاک ہوئے اور 2 کروڑ 23 لاکھ 79 ہزار53 انسان زخمی ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم میں 6کروڑانسان ہلاک ہوئے۔ امریکا کی جانب سے ایٹم بم گرائے جانے کے نتیجے میں ایک لاکھ 66ہزار انسان ہیروشیما اور 80 ہزار ناگاساکی میں ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جانے والے ان کروڑوں انسانوں میں سے کسی کا بھی خون کسی مسلمان کی گردن پر نہیں ہے، لیکن پھر بھی دہشت گرد مسلمانوں کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔ ”گلوبل ڈیٹابیس ٹیررازم“ کے اعدادوشمار کے مطابق اگر 1970ءسے 2007ءکے دوران پوری دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کا جائزہ لیا جائے تو مجموعی طورپر دنیا بھر میں دہشت گردی کے87000 واقعات ہوئے، جن میں سے 2695 یعنی صرف 3 فیصد واقعات خود کو مسلمان کہلانے والے لوگوں نے کیے، جبکہ باقی 97 فیصد واقعات غیرمسلموں نے کیے، لیکن پھر بھی مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ امریکیوں کی گردنوں پر لاکھوں ریڈانڈینز کا خون ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود ہردہشت گردی کو مسلمانوں کے سرتھوپنا سراسر انصاف کا قتل ہے!
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 714086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.