بھارت کے صوبہ بہارمیں نریندر مودی کی زلت آمیز شکست
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
بھارت کے صوبہ بہار میں ہونے والے انتخابات میں نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کو تین جماعت اتحاد نے زلت +میز شکست سے دوچار گیا۔ یہ مودی کی متعصبانہ، پالیسیوں، دھچشت گردوں کو چھٹی دینے، مسلمانوںکے خلاف ، پاکستان کے خلاف زہر اگلنے اور کشمیر میں ظلم زیادتی کا شاخسانہ ہے جس سے مودی اور اسکی جماعت کو سبق لینا چاہیے۔ |
|
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی
کو متعصبا نہ، تشدت پسند ، مسلمان دشمن اور پاکستان مخالف رویے نے صوبہ
بہار کے انتخابات میں زلت آمیز شکست سے دوچار کردیا۔مودی کی بی جے پی کے
مقابلے میں نتیش کمار، لالوپرشادیادیو اور راہول گاندھی کے اتحاد نے واضح
برتری حاصل کر لی۔ صوبہ بہار کے صوبے کی اسمبلی کی کل 243 سیٹوں کے انتخاب
میں بی جے پی صرف58 سیٹیں حاصل کرسکی جب کے ااس کے مقابلے میں تین جماعتی
اتحاد نے 178 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرکے مودی کو بھارت کے صوبے بہار شریف
نے چارو خانے چت کرکے مودی کو ایسا آئینہ دکھا یا جس ان کااصل چہرہ صاف
دیکھا جاسکتا ہے، بی جے پی کی یہ شکست نریندر مودی کی متعصب ، مسلمان دشمنی
اور پاکستان سے بلاوجہ پرخاش کا شاخسانہ ہے۔بی جے پی کی انتخابی مہم خود
مودی جی نے چلائی، انہوں نے انتخابی مہم میں چالیس سے زیادہ جلسے اور
ریلیوں کی سربراہی کی لیکن تمام تر متعصبانہ حربے پر صوبہ بہار کے عوام نے
خاک میں ڈال دی۔ نریندر مودی کا اکھنڈ بھارت، ہندو توا، مسلمانوں سے دشمنی
و تعصب، پاکستان سے نفرت، نیچی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ غیر انسانی و غیر
اخلاقی رویہ بی جے پی کو فائدہ نہ پہنچا سکا۔ وزیراعظم بھارت کی کرسی حاصل
کرنے کے بعد مودی یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ ماضی میں جس متعصبانہ ،فرقہ پرست
پالیسی پر عمل کرچکے ہیں اب اس پالیسی پر عمل درآمد کرنا ان کے لیے اور
زیادہ آسان ہوگا، کیونکہ وہ اب بہ اختیار ہیں، معمولی سی لب کشائی سے بی جے
پی، آر ایس ایس اور شیو سینا کے کارندے مودی مخالفین کی اینٹ سے اینٹ
بجادیں گے۔ وہ یہ بھول گئے کہ اقتدار عزت بھی عطا کرتا ہے اور نہ انصافی ،
ظلم و زیادتی، متعصبانہ سوچ اختیار کرنے والے کو لمحہ بھر میں بے عزت بھی
کر ڈالتا ہے۔ مودی سرکار نے دہلی میں اپنی شکست سے سبق حاصل نہیں کیا اس کے
برعکس شکست کا بدلہ لینے کے لیے شدت پسندوں کے غیر آئینی، غیر قانونی، خیر
اخلاقی، غیر جمہوری ، متعصبانہ، شدت پسندانہ اقدامات پر خاموشی اختیار کی
جو اس بات کا کھلا ثبوت تھا کہ شیو سینا ، راشٹریہ سیوک سنگھ اور دیگر
متعصب و فرقہ پرست تنظیمیں بھارت سر کار کی سرپرستی میں مسلمانوں ، پاکستان
، نچلی ذات کے ہندوؤں کے خلاف، سکھ اور عیسائیوں کے خلاف منظم کاروائیاں کر
رہے ہیں اور مودی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کسی ایک واقعہ کی
کھلے بندوں مذمت نہیں کی، اگر بات کی بھی تو وہ بقول شخصے ایسی کی کہ بکری
نے دودھ دیا اور وہ بھی منگنیوں بھر۔
لالو پرشاد یادیو جو صوبہ بہار کے سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے خلاف
بننے والے اتحاد کے ایک رکن بھی ہیں نے انتخابات میں مودی کی شکست پر تبصرہ
کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بی جے پی کا حکومت میں رہنا ملک کو تقسیم کردے گا‘،
مَیں نے یہی بات بہار کے انتخابات سے قبل اپنے ایک کالم ’بھارت کاگورباچوف
نریندر مودی‘ میں کہی تھی کہ اگر بی جے پی کی سرپرستی مودی کے ہاتھ میں رہی
تو وہ بھارت کو مزید تقسیم کرنے میں اہم کردار اداکریں گے اور وہ بھارت میں
روس کے گورباچوف ثابت ہوں گے۔ اب یہی بات بھارت کے اپنے لیڈر کہنے لگے ہیں۔
زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ شیو سینا جس کی مذموم ، بیہودہ مسلمان دشمن و
پاکستان دشمن کارائیوں پر مودی سرکار نے اپنی آنکھیں موندی ہوئی ہیں اس نے
بھی صوبہ بہار میں بی جے پی کی شکست کا ذمہ دار نریندر مودی کو ٹہراتے ہوئے
کہا ہے کہ مودی جی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو لگام دینے، ان کے خلاف
کاروائی کرنے میں ناکام رہے جس کے باعث بہار میں بی جے پی کو شکست کا سامنا
کرنا پڑا۔ شیو سینا ہی کیا بھارت کے تمام تجزیہ نگاروں ، سیاسی لیڈروں ،
حتیٰ کہ امریکی اخبار نیورک ٹائمز کے اداریے میں بھی بہا ر میں شکست کا ذمہ
دار مودی کو ٹہرایاگیاہے۔ اب مودی نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ مودی کی
سیاسی پرورش فرقہ پرست ، متعصب تنظیم آر ایس ایس کے کارکن کی حیثیت سے ہوئی
تھی، وہ بہت جلد اپنی متعصبانہ پالیسیوں کی وجہ سے گجرات کا وزیر اعلیٰ بن
گے، پھر طاقت کے بل بوتے پر ہم خیال اور کانگریس سے بد دل ہونے والے ان کے
گرد جمع ہوگئے اور ملکی سطح پر بی جے پی کی لیڈر شپ پر قابض ہوگئے ، وزارت
عظمیٰ پر پہنچ جانے کے باوجود انہوں نے اپنی منفی سوچ اور متعصبانہ رویہ نہ
بدلہ ۔ مسلمانوں کی دشمنی ، پاکستان سے نفرت سے بھارت کو مزید تقسیم نہیں
کیا جاسکتا ؟ کہنے میں تو یہ جملہ اچھا ہے لیکن نریندرمودی کی اب تک کی
پالیسیاں اور طرز حکمرانی بھارت کو اِسی جانب گامزن کیے ہوئے ہے ۔
نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے اب تک کی ناکام حکومتی پالیسی ،
مختلف شہروں میں ہندوانتہاپسندوں و شدت پسندوں کی کاروائیاں، مسلمانوں کے
ساتھ ظلم و زیادتی، کشمیر میں ظلم و زیادتی، اقلیتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی،
نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ ناروا سلوک پر حکومت اور نریندر مودی کا عمل
اور خاموشی نے بھارت کے اعتدال پسند ، جمہوریت پسند، لبرل، دانشوروں، تجزیہ
نگاروں، مصنفین، سائنس داں، ماہرین تعلیم، فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والوں
اور معاشرے کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں حتیٰ کے سابق فوجیوں کی
تنظیم نے مودی سرکار کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے حکومتی اعزازات و
انعامات واپس کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ مودی کی پالیسیوں سے
اختلاف کرتے ہیں۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے بہار کی شکست پر تبصرہ
کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی اور راشٹریہ سیوک سنگھ ملک کو تقسیم نہیں
کرسکتے، نہ ہی ہندوؤں کو مسلمانوں سے لڑاکر کوئی الیکشن جیت سکتا ہے۔ راہول
گاندھی کا تجزیہ اپنی جگہ ، لالو پرشاد یادیو کی رائے اپنی جگہ لیکن یہ بات
طے ہے کہ دہلی کے بعد بہار شریف میں بی جے پی کی ناکامی نے بھارت میں
مستقبل کی سیاست کا تعین کردیا ہے۔ مودی کا گراف مسلسل نیچے کی جانب ہے وہ
دن دور نہیں جب مودی اقتدار سے جان چھڑانے کے لیے قبل از وقت انتخابات کا
اعلان کردیں گے یعنی وسط مدتی انتخابات کی راہ ہموار کرنے میں نریندر مودی
اہم کردار ادا کریں گے۔
پاکستان کے ساتھ ان کا رویہ مسلسل’ میں نہ مانو‘ والا ہے۔ ان کے حالیہ دورہ
مقبوضہ کشمیر میں کچھ ڈھکے چھپے الفاظ میں انہیں پاکستان سے اچھے تعلقات
اورمذاکرات کی بحال کااشارہ دیا گیا لیکن انہوں نے اس اشارے کو گول کرتے
ہوئے نام لیے بغیر یہ کہا کہ کشمیر کے مسئلہ پر مجھے کوئی بھی سمجھانے کی
کوشش نہ کرے وہ اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مودی کا خیال ہے کہ وہ کشمیریوں کو
50کروڑ کے امدادی پیکج سے مقبوضہ کشمیری عوام کے دکھوں کا مداوا کرسکے گے۔
انہیں اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ ان کا یہ دورہ مقبوضہ کشمیری کے
رہنماؤں کو جیل میں ڈال کر، نظر بند کر کے پولس اور فوجیوں کے سائے تلے
ممکن ہوسکا ۔ مودی جی آپ کی گرفت سے بھارت کے صوبے نکلتے جارہے ہیں آپ
کشمیر یوں کو اپنا ہم نوا کیسے بنا سکتے ہیں۔آپ کو اپنی انتہا پسند انہ
پالیسیوں کا نتیجہ مل چکا ہے۔ یہ پالیسیاں آپ کے سیاسی مستقبل میں بہتری
لانے کے بجائے آپ کو شکست کی دلدل میں دھکیلتی جارہی ہیں۔ آپ نے تو فخریہ
کہا تھا کہ آپ بہار کے انتخابات ہر صورت میں جیتے گے نیز یہ کہ آپ نے یہ
انتخابات جیتنے کا تہیہ کر رکھا ہے، کہا گیا آپ کا تہیہ، کہا گیا آپ کا
غرور ، کہا گیا آپ کا تکبر۔ آپ کی سربراہی میں نکلنے والے چالیس ریلیوں نے
آپ کا ساتھ نہ دیا، چھ لاکھ سے زیادہ راشٹریہ سیوک سنگھ کے کارکنوں کو آپ
نے یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ بی جے پی کے حامیوں کو پولنگ اسٹیشن تک
پہنچانے کافریضہ انجام دیں گے۔ انہوں نے یہ کام بڑی جانفشانی سے کیا ، آپ
کا وفادار بن کر کیا لیکن وہ عوام جنہیں یہ کارکن پولنگ اسٹیشن تک لے کر
گئے ، انہوں نے اپنا ووٹ آپ کے بجائے آپ کے مخالف اتحاد کے ڈبے میں دال
دیا، کیوں؟ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اس پر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں۔ اپنی
پالیسی میں تبدیلی لائیں، مسلمان دشمنی اور پاکستان سے نفرت آپ کو زندگی
بھر بے چین رکھے گی، چاہے آپ وزارت ِعظمیٰ پر جلوہ افروز رہیں یا گجرات
واپس چلے جائیں ، بی جے پی سے وابستہ رہیں یا اس سے علیحدہ ہوجائیں
مسلمانوں کے خون سے آپ کے ہاتھ رنگے ہیں۔ وہ خون آپ کو زندگی بھر پریشان
رکھے گا۔ غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے مثبت سوچ اختیار کریں، خود بھی درست
سمت اختیار کریں اپنے انتہا پسند، شدت پسند ساتھیوں کو بھی لگام ڈالیں۔ آپ
سے پہلے 67 سال تک جو بھی تخت دہلی پر براجمان رہے وہ پاکستان کا کچھ نہ
بگاڑ سکے، آپ بھی اس مملکت کا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔ یہ ملک قائم رہنے کے
لیے بنا ہے انشاء اﷲ قائم و دائم رہے گا۔ آپ کا انجام وہی ہوگا جو آپ سے
پہلے تخت دہلی پر حکمرانی کرنے والوں کا ہوا۔ آج بہار شریف کے شریفوں نے
انتخابات میں آپ کو آئینہ دکھا کر آپ کی کوتائیوں کا، آپ کی انتہا پسند،
شدت پسند پالیسیوں کا، شیو سینا اور راشٹریہ سیوک سنگھ اور دیگر انتہا
پسندوں ، فرقہ پرستوں کے ہاتھوں کھیلنے کا سبق سکھا یا ہے کل اور صوبے بھی
دہلی اور بہار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آپ کو اسی طرح بدترین شکست سے دوچار
کریں گے۔ چنانچہ مودی جی ہوش کے ناخون لیجئے، جوش انسان کو بہتری سے برائی
کی جانب لے جاتا ہے۔ آپ بھی جوش نہیں بلکہ ہوش میں آئیں ۔ |
|