(١٦) امام ابو عبداللہ محمد بن
عبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی ٤٠٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) نے فرمایا تم میں سے جو شخص عیسیٰ بن مریم کو پائے ان کو میری طرف سے
سلام کہے ۔ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (المستدرک ج ٤ ص ٥٤٥ )
(١٧) امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت واثلہ بن اسقع (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) نے فرمایا : جب تک دس علامتیں (ظاہر) نہ ہوں قیامت قائم نہیں ہوگی ‘
مشرق میں زمین دھنس جائے گی ‘ اور مغرب میں اور جزیرہ عرب میں ‘ اور دجال
کا خروج ہوگا اور دھوئیں کا ظہور ہوگا ‘ اور عیسیٰ کا نزول ہوگا ‘ اور
یاجوج ماجوج اور دابۃ الارض ‘ اور سورج کا مغرب سے طلوع ‘ اور عدن کے وسط
سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی ۔ (المعجم الکبیر ج
٢٢ ص ٨٠۔ ٧٩ ‘ المستدرک ج ٤ ص ٤٢٨ ‘ مجمع الزوائد ج ٧ ص ٣٢٨ )
(١٨) امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا مجھے امید ہے کہ اگر میری عمر طویل ہوئی تو میں
عیسیٰ بن مریم کو پالوں گا ‘ اور اگر مجھے جلدی موت آگئی تو جوان کو پائے
وہ ان کو میرا سلام کہہ دے ۔ (مسنداحمد ج ٢ ص ٣٩٩ ‘ ٣٩٨ ‘ مطبوعہ مکتب
اسلامی بیروت)
حضرت عبداللہ بن سلام اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ
تورات میں (سیدنا ) محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم) کی صفت لکھی
ہوئی ہے اور عیسیٰ بن مریم آپ کے ساتھ دفن کیے جائیں گے ‘ ابو مودود نے آپ
کے روضہ میں ایک قبر کی جگہ رکھی ہوئی ہے ۔ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن
غریب (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٦٣٧ ‘ مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٠٦)
(١٩) امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت اوس بن اوس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے
فرمایا : عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) جامع دمشق کے سفید مشرقی کنارہ کے
پاس نازل ہوں گے ۔ (المعجم الکبیر ج ١ رقم الحدیث : ٥٩٠ ‘ مجمع الزوائد ج ٨
ص ٢٠٥ ‘ الجامع الصغیر ج ٢ ‘ رقم الحدیث : ١٠٠٢٣ ‘ الجامع الکبیر ج ٩ ‘ رقم
الحدیث : ٢٨٩٠٤ ‘ تہذیب تاریخ دمشق ج ٥ ص ٣٠٤)
(٢٠ ) امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) نے فرمایا : میری امت میں سے بعض لوگ ہمیشہ حق پر قائم رہیں گے ‘ جو
ان سے عداوت رکھے گا ان پر غالب رہیں گے ‘ حتی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا
حکم آجائے گا ‘ اور عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نازل ہوں گے ۔ (مسند احمد
ج ٤ ص ٤٢٩ ‘ یہ حدیث صحیح ہے ‘ اقامۃ البرہان ص ٥٨ )
(٢١ ) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) میرے پاس تشریف لائے درآں حالیکہ میں رو رہی تھی ‘ رسول اللہ (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم کس وجہ سے رو رہی ہو ؟ میں نے عرض کیا
یا رسول اللہ ! میں دجال کو یاد کرکے رو رہی ہوں ‘ رسول اللہ (صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر (بالفرض) وہ میری زندگی میں نکلا تو میں اس
کے لیے کافی ہوں ‘ اور اگر میرے بعد دجال نکلا تو تمہارا رب عزوجل کا نا
نہیں ہے ‘ وہ اصفہان (ایران کا ایک شہر) کے یہودیوں میں سے نکلے گا ‘ حتی
کہ مدینہ پہنچے گا اور اس کی ایک جانب میں ٹھہرے گا ‘ اس دن مدینہ کے ساتھ
دروازے ہوں گے اور ہر دو پہاڑوں کے درمیانی راستہ میں دو فرشتے ہوں گے ‘
اور سب برے لوگ دجال کے ساتھ آملیں گے ‘ حتی کہ وہ شام میں پہنچے گا ‘ اور
فلسطین کی بستی لد کے دروازہ میں آئے گا ‘ پھر عیسیٰ (علیہ السلام) نازل
ہوں گے اور اس کو قتل کر دیں گے ‘ پھر عیسیٰ (علیہ السلام) زمین پر چالیس
سال ٹھہریں گے ‘ درآں حالیکہ وہ امام عادل ‘ اور انصاف کرنے والے حاکم ہوں
گے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٥ ‘ رقم الحدیث : ‘ ١٩٣٢٠ ‘ مسند احمد ج ٦ ص ٧٥
‘ اس حدیث کے راوی صحیح اور ثقہ ہیں مجمع الزوائد ج ٧ ص ٣٣٨)
(٢٢ ) امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہ وسلمنے فرمایا جب سے اللہ نے آدم کو پیدا کیا ہے اس وقت سے قیامت
تک دجال سے بڑا فتنہ روئے زمین پر نازل نہیں کیا ‘ اور میں تم کو اس کے
متعلق ایسی بات بتاتا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے نہیں بتائی ‘ وہ گندمی
رنگ کا ہوگا ‘ اس کے بال گھنگریالے ہوں گے اور اس کی بائیں آنکھ رگڑی ہوئی
ہوگی ۔ اس کی دونوں آنکھوں پر دبیز گوشت چڑھا ہوا ہوگا ‘ ہو کہے گا میں
تمہارا رب ہوں ‘ سو جس نے کہہ دیا کہ میرا رب اللہ ہے وہ کسی آزمائش میں
نہیں پڑے گا اور جس نے کہہ دیا تو میرا رب ہے وہ آزمائش میں پڑ جائے جائے
گا ‘ جب تک اللہ چاہے گا وہ تم میں سے ٹھہرے گا ‘ پھر عیسیٰ بن مریم نازل
ہوں گے ‘ درآں حالیکہ وہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق
کرنے والے ہوں گے ‘ اور آپ کی ملت پر ہوں گے ‘ امام مہدی ‘ حاکم اور عادل
ہوں گے سو وہ دجال کو قتل کر دیں گے ۔ (المعجم الاوسط ج ٥ ‘ رقم الحدیث : ‘
٤٥٧٧ ‘ اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں مجمع الزوائد ج ٧ ص ٣٣٦)
(٢٣ ) امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجہ متوفی ٢٧٣ ھ روایت کرتے ہیں
:
حضرت ابو امامہ باہلی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے دجال کے متعلق
ہمیں بہت طویل خطبہ دیا ‘ اور ہمیں دجال دے ڈرایا ‘ اور فرمایا جب سے اللہ
تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی اولاد کو زمین میں پھیلایا ہے دجال سے بڑا
کوئی فتنہ نہیں ہے ‘ اور اللہ عزوجل نے جس نبی کو بھی بھیجا اس نے اپنی امت
کو دجال سے ڈرایا اور میں نبیوں میں سب سے آخر ہوں اور تم امتوں میں سب سے
آخر ہو ‘ اور وہ لامحالہ نکلنے والا ہے اگر وہ (بالفرض) تمہارے درمیان میری
موجودگی میں نکلا ‘ تو میں ہر مسلمان کی طرف سے اس سے مقابلہ کروں گا ‘ اور
اگر وہ میرے بعد نکلاتو ہر شخص خود اس سے مقابلہ کرے گا اور ہر مسلمان میری
طرف سے نگہبان ہے ‘ اور وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا ‘ وہ اپنے
دائیں اور بائیں فساد برپا کرے گا ‘ اے اللہ کے بندو ! ثابت قدم رہنا ‘ میں
عنقریب تمہارے لیے اس کی صفات بیان کروں گا جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے بیان
نہیں کیں وہ ابتداء یہ کہے گا کہ میں نبی ہوں ‘ حالانکہ میرے بعد کوئی نبی
نہیں ہے ‘ پھر دوبارہ یہ کہے گا ‘ میں تمہارا رب ہوں ‘ حالانکہ تم موت سے
پہلے اپنے رب کو نہیں دیکھو گے ‘ اور وہ کا نا ہوگا اور تمہارا رب کا نا
نہیں ہے اور اس کی آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا ‘ جس کو ہر مومن
پڑھے گا خواہ وہ لکھنے والا ہو یا نہ ہو ۔ اور دجال کے فتنوں میں سے یہ ہے
کہ اس کے ساتھ جنت اور دوزخ ہوگی ‘ حالانکہ اس کی دوزخ جنت جنت ہوگی اور اس
کی جنت دوزخ ہوگی ‘ جو شخص اس کی دوزخ میں مبتلا ہو وہ اللہ سے مدد طلب کرے
‘ اور سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے ‘ تو اس پر وہ دوزخ ٹھنڈک اور سلامتی
والی ہو جائے گی جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر آگ ٹھنڈی ہو گئی
تھی ‘ اور اس کے فتنوں میں سے یہ ہے کہ وہ ایک اعرابی سے کہے گا یہ بتا کہ
اگر میں تیرے لیے تیرے ماں باپ کو زندہ کردوں تو کیا تو یہ گواہی دے گا کہ
میں تیرا رب ہوں ؟ وہ کہے گا ہاں ! پھر وہ دو شیطانوں کو اس کے ماں باپ کی
صورتوں میں متمثل کر دے گا اور وہ کہیں گے اے میرے بیٹے اس کی اطاعت کرو یہ
تمہارا رب ہے ‘ اور اس کے فتنوں میں سے یہ ہے کہ وہ ایک شخص پر مسلط ہو کر
اس کو قتل کر دے گا اس کے آری سے دو ٹکڑے کر دے گا ‘ پھر کہے گا اب میرے اس
بندے کی طرف دیکھو میں اس کو زندہ کرتا ہوں پھر کیا یہ گمان کرے گا کہ میرے
سوا اس کا کوئی رب ہے ؟ اللہ اس شخص کو زندہ کر دے گا ‘ اور وہ خبیث اس شخص
سے کہے گا ‘ تیرا رب کون ہے ‘ وہ کہے گا میرا رب اللہ ہے ! اور تو اللہ کا
دشمن ہے اور تو دجال ہے بہ خدا مجھے آج سے پہلے تیرے متعلق اتنی بصیرت نہ
تھی !
ابوالحسن طنافی (امام ابن ماجہ کے شیخ) نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو سعید
(رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ
شخص میری امت میں سے جنت کے سب بلند درجہ میں ہوگا ‘ ابو سعید نے کہا بہ
خدا ہمیں یہ یقین تھا کہ وہ شخص حضرت عمر بن الخطاب (رض) ہیں ‘ حتی کہ وہ
شہید ہو گئے ‘ محاربی نے کہا اب ہم پھر ابو رافع (حضرت ابو امامہ باہلی )
کی روایت کی طرف رجوع کرتے ہیں !
آپ نے فرمایا : اور دجال کے فتنوں میں سے یہ ہے کہ وہ آسمان کو بارش برسانے
کا حکم دے گا تو بارش ہوگی ‘ اور زمین کو درخت اگانے کا حکم دے تو زمین
درخت اگائے گی ‘ اور اس کے فتنوں میں سے یہ ہے کہ وہ ایک قبیلہ کے پاس سے
گزرے گا تو وہ اس کی تکذیب کریں گے سو ان کے تمام مویشی ہلاک ہو جائیں گے ‘
اور اس کے فتنوں میں سے یہ ہے کہ وہ ایک قبیلہ کے پاس سے گزرے گا وہ اس کی
تصدیق کریں گے تو وہ آسمان کو بارش کا حکم دے گا تو بارش ہو جائے گی اور
زمین کو سبزہ اگانے کا حکم دے گا تو زمین سبزہ اگائے گی حتی کہ ان کے مویشی
چریں گے ‘ اور وہ پہلے سے بہت موٹے اور فربہ ہو جائیں گے ان کی کو کھیں
بھری ہوئی ہوں گی اور ان کے تھن دودھ سے پرہوں گے ‘ وہ تمام روئے زمین کا
سفر کر کے اس پر غلبہ حاصل کرے گا ماسوا مکہ اور مدینہ کے ‘ ان کے درمیان
پہاڑی راستوں پر وہ نہیں جا سکے گا اور ہر راستہ پر فرشتے تلواریں سونتے
کھڑے ہوں گے ‘ حتی کہ وہ بنجر زمین میں ایک چھوٹی پہاڑی پر اترے گا ‘ پھر
مدینہ میں تین زلزلے آئیں گے ‘ اور ہر منافق مرد اور ہر منافق عورت نکل کر
اس کی اس کی طرف آجائیں گے ۔ سو مدینہ اپنے میل کچیل کو اس طرح نکال دے گا
جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو نکال دیتی ہے ‘ اور وہ دن یوم نجات کہلائے گا ‘
پھر ام شریک بنت العکر نے کہا یا رسول اللہ ! اس دن عرب کہاں ہوں گے ؟ آپ
نے فرمایا عرب اس دن کم ہوں گے ‘ اور وہ سب بیت المقدس میں ہوں گے ‘ اور ان
کا امام ایک نیک شخص ہوگا جس وقت ان کا امام ان کو صبح کی نماز پڑھا رہا
ہوگا ‘ اس وقت صبح کو عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے ‘ وہ امام الٹے پیر پیچھے
ہٹ جائے گا ‘ تاکہ حضرت عیسیٰ آگے بڑھ کر نماز پڑھائیں ۔ پھر عیسیٰ (علیہ
السلام) اپنا ہاتھ اس کے دو کندھوں پر رکھ کر فرمائیں گے ‘ آگے بڑھو ‘ نماز
پڑھو ‘ نماز پڑھاؤ اقامت تمہارے لیے کہی گئی ہے ‘ پھر ان کا امام ان کو
نماز پڑھائے گا ‘ جب وہ نماز پڑھ لے گا تو عیسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے
(مسجدکا ) دروازہ کھول دو ‘ دروازہ کھولا جائے گا تو اس کے پیچھے ستر ہزار
یہودیوں کے ساتھ دجال ہوگا ‘ وہ سب موٹی چادریں اوڑھے تلواروں سے مسلح ہوں
گے ‘ جب دجال حضرت عیسیٰ کو دیکھے گا تو اس طرح پگھل جائے گا جس طرح نمک
پانی میں گھل جاتا ہے اور وہ وہاں سے بھاگے گا ‘ عیسیٰ فرمائیں گے میں تجھے
ایک ایسی ضرب لگاؤں گا جس سے تو زندہ نہ رہ سکے گا پھر اس کو لد (فلسطین
کی ایک بستی) کے مشرقی دروازہ کے پاس قتل کر دیں گے ‘ پھر یہودی شکست کھا
جائیں گے وہ جس چیز کے پیچھے جا کر چھپیں گے وہ چیز بتادے گی یہاں چھپا ہوا
ہے خواہ وہ پتھر ہو ‘ درخت ہو ‘ دیوار ہو یا کوئی جانور ہو ۔ اس سے آواز
آئے گی اے اللہ کے مسلمان بندے یہ یہودی ہے ؟ اس کو قتل کر دے ۔ الحدیث
بطولہ ۔ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ‘ ٤٠٧٧ ‘ المستدرک ج ٤ ص ٥٣٦ ‘ شرح
المواہب اللدنیہ ج ٦ ص ٥٣ ‘ ٦١ )
(٢٤ ) امام جعفر صادق اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خوش ہو جاؤ اور لوگوں کو
خوش خبری دو ‘ میری امت کے مثال بارش کی طرح ہے پتا نہیں اس کے اول میں خیر
ہے یا آخر میں ‘ یا اس باغ کی طرح ہے جس سے ایک سال تک ایک فوج کھاتی رہی ‘
پھر دوسرے سال ایک اور فوج کھاتی رہی اور شاید دوسری فوج زیادہ وسیع ‘ عریض
اور حسین تھی اور وہ امت کیسے ہلاک ہوگی جس کے اول میں میں ہوں وسط میں
مہدی ہے اور آخر میں مسیح ہے لیکن ان کے درمیان ایسے ٹیڑھے لوگ بھی ہوں گے
جو نہ مجھ سے ہیں اور نہ میں اس سے ہوں ۔ (مشکوۃ ص ٥٨٣ مطبوعہ دہلی)
(٢٥ ) امام عبدالرزاق بن ھمام متوفی ٢١١ ھ روایت کرتے ہیں :
طاؤس روایت کرتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے درآں حالیکہ وہ امام
اور ہادی ہوں گے اور عدل وانصاف کرنے والے ‘ جب وہ نازل ہوں گے تو صلیب کو
توڑ دیں گے ‘ اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے ‘ اور
بھیڑ یا بکریوں کے ساتھ کتے کی طرح ۔ الحدیث : (مصنف عبدالرزاق ج ١١ ‘ رقم
الحدیث : ٢٠٨٤٣ ‘ مطبوعہ بیروت ‘ ١٣٩٠ ھ)
(٢٦ ) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی
جب تک کہ حضرت عیسیٰ بن مریم نازل نہ ہو جائیں ‘ وہ امام عادل ہوں گے ۔
خنزیر کو قتل کریں گے ۔ صلیب کو توڑ دیں گے ۔ جزیہ کو موقوف کریں گے ۔
رب العلمین کے لیے ایک (طرح کا) سجدہ ہوگا ‘ جنگ اپنے بوجھ اتار دے گی اور
زمین اسلام سے اس طرح بھر جائے گی جس طرح کنواں پانی سے بھر جاتا ہے اور
زمین کو دستر خوان بنادیا جائے گا اور عداوت اور بغض کو اٹھا لیا جائے گا
بھیڑ یا بکریوں میں کتے کی طرح ہوگا ‘ اور شیر اونٹنیوں میں ان کے نر کی
طرح ہوگا ۔ (مصنف عبدالرزاق ج ٨ ‘ رقم الحدیث : ٢٠٨٤٤ )
(٢٧ ) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) نے فرمایا : تمام انبیاء باپ شریک بھائی ہیں ۔ ان کا دین واحد ہے اور
ان کی مائیں (شریعتیں) مختلف ہیں ۔ ان میں میرے سب سے قریب عیسیٰ بن مریم
(علیہ السلام) ہیں کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی رسول نہیں ہے ‘ وہ
ضرور تم میں نازل ہوں گے ان کو پہچان لینا وہ متوسط القامت اور سرخی مائل
سفید ہوں گے ‘ خنزیر کو قتل کر دیں گے ‘ صلیب کو توڑ دیں گے ‘ جزیہ کو
موقوف کر دیں گے ‘ اسلام کے سوا اور کسی دین کو قبول نہیں کریں گے ‘ ان کی
دعوت صرف ایک ہوگی رب العلمین کے لیے ۔ ان کے زمانہ میں عدل ہوگا ‘ حتی کہ
شیر گایوں کے ساتھ اور بھیڑیا بکریوں اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے اور
کوئی کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا ۔ (مصنف عبدالرزاق ج ١١ رقم الحدیث :
٢٠٨٤٥ ‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٥ رقم الحدیث : ١٩٣٧٢)
(٢٨ ) یزید بن اصم بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) کو یہ کہتے
ہوئے سنا کہ تم دیکھتے ہو کہ میں بہت بوڑھا ہو چکا ہوں ‘ اور بڑھاپے کی وجہ
سے میں جاں بلب ہو رہا ہوں اور بہ خدا مجھے امید ہے میں عیسیٰ کو پا لوں گا
اور ان کو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث بیان کروں گا
اور وہ میری تصدیق کریں گے ۔ (مصنف عبدالرزاق ج ١١ رقم الحدیث : ٢٠٨٤٦ )
امام ابوبکرعبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ عبسی متوفی ٢٣٥ ‘ ھ روایت کرتے ہیں
:
(٢٩ ) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ
السلام) نازل ہوں گے جب دجال ان کودیکھے گا تو اس طرح پگھل جائے گا جس طرح
چربی پگھل جاتی ہے ، پھر دجال قتل کردیا جائے گا اور یہود اس سے منتشر ہو
جائیں گے ‘ پس ان کو قتل کیا جائے گا حتی کہ پتھر کہے گا اے اللہ کے مسلمان
بندے یہ یہودی ہے اس کو قتل کر دے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٥ رقم الحدیث :
١٩٣٤٠ )
(٣٠) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت
میں (سیدنا) محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم) کی جان ہے ۔ فج روحاء
میں ضرور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حج یا عمرہ یا قران کا تلبیہ پڑھیں گے ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٥ ‘ رقم الحدیث : ٢٠٨٤٢ ‘ شرح السنہ ج ٧ رقم الحدیث
: ١٩٣٧٢) ۔
(٣١) حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا مسیح کے خروج کے لیے مساجد کی تجدید کی
جائے گی وہ عنقریب نکلیں گے ‘ صلیب کو توڑ دیں گے ‘ اور خنزیر کو قتل کریں
گے ‘ جو شخص ان کو پائے گا وہ ان پر ایمان لے آئے گا تم میں سے جو شخص ان
کو پائے وہ ان کو میرا سلام پہنچائے پھر انہوں نے میری طرف (یعنی ابن
المغیرہ کی طرف) توجہ کی اور کہا میرے خیال میں تم سب سے کم عمر ہو پس اگر
تم ان کو پاؤ تو میرا سلام کہنا (مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٥ ‘ رقم الحدیث :
٢٠٨٤٣ ‘)
(٣٢) امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نے فرمایا : سنو عیسیٰ بن مریم اور میرے درمیان کوئی نبی ہے نہ کوئی رسول
ہے ۔ سنو وہ میری امت میں میرے بعد خلیفہ ہوں گے ‘ سنو وہ دجال کو قتل کریں
گے ‘ اور صلیب کو توڑ دیں گے ‘ اور جزیہ کو موقوف کریں گے اور جنگ اپنے
بوجھ اتار دے گی ‘ سنو تم میں سے جو شخص ان کو پائے وہ انہیں میرا سلام
پہنچا دے ۔ (المعجم الصغیر ‘ رقم الحدیث : ٧٢٥ ‘ المعجم الاوسط ج ٥ ‘ رقم
الحدیث : ٤٨٩٥)
(٣٣) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) نے فرمایا : عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے اور لوگوں میں چالیس سال
ٹھیریں گے ۔ (المعجم الاوسط ج ٦ ‘ رقم الحدیث : ٥٤٦٠ )
(٣٤) حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم) نے فرمایا : دجال نکلنے والا ہے ‘ وہ کا نا ہوگا اس کی بائیں
آنکھ پر ناخن کے برابر دبیز گوشت ہوگا ‘ وہ مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو
تندرست کرے گا ‘ اور مردوں کو زندہ کرے گا ‘ اور لوگوں سے کہے گا میں
تمہارا رب ہوں ‘ پس جس نے کہا تو میرا رب ہے ‘ ہو فتنہ میں پڑگیا اور جس نے
کہا میرا رب اللہ ہے حتی کہ مرگیا ‘ وہ دجال کے فتنہ سے بچ گیا اور اس پر
کوئی فتنہ نہیں ہوگا ‘ جب تک اللہ چاہے گا وہ زمین پر ٹھیرے گا ‘ پھر مغرب
کی طرف سے عیسیٰ بن مریم نکلیں گے ‘ وہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) کی تصدیق کریں گے ‘ اور دجال کو قتل کریں گے ‘ اور یہی قیامت کا قائم
ہونا ہے ۔ (المعجم الکبیر ج ٧ ‘ رقم الحدیث : ٦٩١٨ ‘ مسند احمد ج ٥ ص ١٣ ‘
کشف الاستار عن زوائد البزار ‘ رقم الحدیث : ٣٣٩٨)
(٣٥) امام احمد بن عمرو بن عبد الخالق بزار متوفی ٢٩٢ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابو القاسم صادق (صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہ وسلم) نے فرمایا جس زمانہ میں لوگوں کا اختلاف اور فرقے ہوں گے
اس زمانہ میں کا نا دجال مسیح الظلالہ مشرق کی طرف سے نکلے گا ‘ پھر اللہ
تعالیٰ اس کو چالیس دن میں جہاں تک چاہے گا زمین پر پہنچائے گا ‘ اس کی
مسافت کی مقدارکا اللہ ہی کو علم ہے ‘ اور مسلمان بہت سختی اٹھائیں گے ‘
پھر عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) آسمان سے نازل ہوں گے ‘ پس وہ لوگوں کو
نماز پڑھائیں گے ‘ جب وہ رکوع سے سراٹھائیں گے ‘ توکہیں گے ’’ سمع اللہ لمن
حمدہ ‘‘ اللہ تعالیٰ مسیح دجال کو قتل کردے گا اور مسلمانوں کو غالب کر دے
گا ‘ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔ (کشف الاستار عن زوائد البزار ‘ رقم
الحدیث : ٣٣٨٧)
(٣٦) امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نے فرمایا : دجال مدینہ میں داخل نہیں ہوگا ‘ کیونکہ خندق اور مدینہ کے ہر
راستہ میں فرشتے اس کی حفاظت کر رہے ہیں ‘ سب سے پہلے عورتیں اور باندیاں
اس کی اتباع کریں گی ‘ پھر وہ چلا جائے گا پھر لوگ اس کی اتباع کریں گے پھر
وہ غصہ میں بھر جاکر واپس جائے گا حتی کہ خندق میں گر جائے گا اس وقت عیسیٰ
بن مریم نازل ہوں گے ۔ (العجم الاوسط ج ٦ رقم الحدیث : ٥٤٦١ )
(٣٧) حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ لکھتے ہیں :
امام محمد بن سعد حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ قیامت سے پہلے
عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے ‘ وہ صلیب کو توڑ دیں گے اور خنزیر کو قتل کریں
گے اور لوگوں کو ایک دین پر جمع کریں گے ‘ اور جزیہ کو موقوف کریں گے ۔
(جامع الاحادیث الکبیر ج ٩ ‘ رقم الحدیث : ٢٨٩٠٥)
(٣٨) امام دیلمی نے حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : روئے زمین کے آٹھ سو بہترین مرد اور چار
سو بہترین عورتوں پر عیسیٰ بن مریم کا نزول ہوگا (جامع الاحادیث الکبیر ج ٩
‘ رقم الحدیث : ٢٨٩٠٥)
(٣٩) امام ابوداؤد الطیالسی نے حضرت ابوہریرہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
سے روایت کیا ہے کہ دجال پر حضرت عیسیٰ بن مریم کے سوا اور کسی کو مسلط
نہیں کیا جائے گا ۔ (الجامع الصغیر ج ٢ ‘ رقم الحدیث ‘ : ٧٢٦٣ )
(٤٠ ) امام حسین بن مسعود بغوی متوفی ٥١٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نے فرمایا : اللہ کی قسم ! ابن مریم ضرور نازل ہوں گے ‘ احکام نافذ کرنے
والے ‘ عدل کرنے والے ‘ وہ صلیب کو ضرور توڑیں گے ‘ خنزیر کو ضرور قتل کریں
گے ‘ اور جزیہ ضرور موقوف کریں گے اور ضرور اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا
اور کوئی ان پر ڈاکہ نہیں ڈالے گا ‘ اور کینہ بغض اور حسد ضرور نکل جائے گا
اور وہ مال کی طرف بلائیں گے سو اس کو کوئی قبول نہیں کرے گا ۔ (شرح السنہ
ج ٧ ‘ رقم الحدیث ‘ : ٤١٧١ ‘ مسند احمد ج ٢ ص ٤٣٧ ‘ ٤٠٦)
فاقول وباللہ التوفیق وبہ الاستعانۃ یلیق
2015-11-14 3:28 GMT+00:00 syed imaad <[email protected]>:
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کی حکمتیں (چالیس احادیث صحیحہ) پہلی قسط
(مقدمہ،نزولِ سبب حضرت مسیح اور پندرہ احادیث پہلی قسط میں اور باقی پچیس
احدیث دوسری قسط میں ہیں)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ
مَوْتِہٖ۰ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكُوْنُ عَلَيْہِمْ شَہِيْدًا
: اور (نزول مسیح کے وقت) اہل کتاب میں سے ہر شخص اس کی موت سے پہلے ضرور
اس پر ایمان لے آئے گا اور قیامت کے دن عیسیٰ ان پر گواہ ہوں گے ۔ (النساء
: ١٥٩ )
مقدمہ
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے متعلق درج ذیل چالیس احادیث کتب صحا ح
ستہ ‘ مسانید اور معاجم سے منتخب کی گئی ہیں اور ان تمام احادیث کی اسانید
صحیح اور ثقہ راویوں پر مشتمل ہیں، اکثر احادیث صحیح ہیں اور بعض حسن ہیں
اور کوئی سند بھی درجہ اعتبار سے ساقط نہیں ہے ‘ کتب احادیث میں ان احادیث
کے علاوہ اور بھی صحیح اور معتبر احادیث ہیں لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم) کی شفاعت اور بشارت کے حصول کے لیے چالیس احادیث پر اکتفاء کی
نیز یہ خیال بھی تھا کہ کہیں قارئین اکتاہٹ اور ملال کا شکار نہ ہو جائیں
اور ان احادیث کو جمع کرنے کا محرک اور باعث یہ بھی تھا کہ مرزائی بڑے شد
ومد سے نزول مسیح کا انکار کرتے ہیں ۔ سو پہلے قرآن مجید کی زیرِ تفسیر آیت
سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول واضح کیا جائے گا۔ بعد ازاں یہ چالیس
احادیث بیان کی جائیں گیں جو اپنی کثرت کے اعتبار سے معنی متواتر ہیں ۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کا بیان :
اس آیت کی دو تفسیریں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’ قبل موتہ ‘‘ کی ضمیر
کے مرجع میں دو احتمال ہیں ‘ ایک احتمال یہ ہے کہ یہ ضمیر اہل کتاب کی طرف
راجع ہے اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ ضمیر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی
طرف راجع ہے ۔
پہلی صورت میں اس آیت کا معنی ہوگا : اہل کتاب میں سے ہر شخص اپنی موت سے
پہلے ضرور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے گا ‘ حضرت ابن عباس
(رض) کا یہ مختار ہے ‘ امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
علی بن ابی طلحہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تفسیر
میں فرمایا کوئی یہودی اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک حضرت عیسیٰ (علیہ
السلام) پر ایمان نہ لے آئے ۔ (جامع البیان جز ٦ ص ٢٧< |