حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کی حکمتیں (چالیس احادیث صحیحہ) پہلی قسط

(مقدمہ،نزولِ سبب حضرت مسیح اور پندرہ احادیث پہلی قسط میں اور باقی پچیس احدیث دوسری قسط میں ہیں)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ۝۰ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكُوْنُ عَلَيْہِمْ شَہِيْدًا
: اور (نزول مسیح کے وقت) اہل کتاب میں سے ہر شخص اس کی موت سے پہلے ضرور اس پر ایمان لے آئے گا اور قیامت کے دن عیسیٰ ان پر گواہ ہوں گے ۔ (النساء : ١٥٩ )

مقدمہ
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے متعلق درج ذیل چالیس احادیث کتب صحا ح ستہ ‘ مسانید اور معاجم سے منتخب کی گئی ہیں اور ان تمام احادیث کی اسانید صحیح اور ثقہ راویوں پر مشتمل ہیں، اکثر احادیث صحیح ہیں اور بعض حسن ہیں اور کوئی سند بھی درجہ اعتبار سے ساقط نہیں ہے ‘ کتب احادیث میں ان احادیث کے علاوہ اور بھی صحیح اور معتبر احادیث ہیں لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت اور بشارت کے حصول کے لیے چالیس احادیث پر اکتفاء کی نیز یہ خیال بھی تھا کہ کہیں قارئین اکتاہٹ اور ملال کا شکار نہ ہو جائیں اور ان احادیث کو جمع کرنے کا محرک اور باعث یہ بھی تھا کہ مرزائی بڑے شد ومد سے نزول مسیح کا انکار کرتے ہیں ۔ سو پہلے قرآن مجید کی زیرِ تفسیر آیت سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول واضح کیا جائے گا۔ بعد ازاں یہ چالیس احادیث بیان کی جائیں گیں جو اپنی کثرت کے اعتبار سے معنی متواتر ہیں ۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کا بیان :
اس آیت کی دو تفسیریں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’ قبل موتہ ‘‘ کی ضمیر کے مرجع میں دو احتمال ہیں ‘ ایک احتمال یہ ہے کہ یہ ضمیر اہل کتاب کی طرف راجع ہے اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ ضمیر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے ۔

پہلی صورت میں اس آیت کا معنی ہوگا : اہل کتاب میں سے ہر شخص اپنی موت سے پہلے ضرور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے گا ‘ حضرت ابن عباس (رض) کا یہ مختار ہے ‘ امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
علی بن ابی طلحہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کوئی یہودی اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہ لے آئے ۔ (جامع البیان جز ٦ ص ٢٧ ‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت)

عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی یہودی محل کے اوپر سے گرے تو وہ زمین پر پہنچنے سے پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے گا ۔

سدی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : ہر یہودی اور نصرانی اپنے مرنے سے پہلے حضرت عیسیٰ بن مریم پر ایمان لے آئے گا ‘ ان پر ان کے ایک شاگرد نے اعتراض کیا جو شخص ڈوب رہا ہو ‘ یا آگ میں جل رہا ہو ‘ یا اس پر اچانک دیوار گر جائے یا اس کو درندہ کھا جائے وہمرنے سے پہلے کیسے ایمان لائے گا ‘ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اس کے جسم سے اس کی روح اس وقت تک نہیں نکلے گی جب تک کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہ لائے ۔ (جامع البیان جز ٦ ص ٢٨ ۔ ٢٧ ‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت)

یہ تفسیر مرجوع ہے کیونکہ جو یہودی یا نصرانی لڑائی میں اچانک دشمن کے حملہ سے مر جاتا ہے یا خود کشی کرلیتا ہے یا وہ کسی بھی حادثہ میں اچانک مر جاتا ہے اس کو کب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا موقع ملے گا ‘ اور راجح دوسری تفسیر ہے جس میں یہ ضمیر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے ‘ امام ابن جریر نے بھی اسی تفسیر کو راجح قرار دیا ہے اور اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت سے پہلے آسمان سے زمین پر نازل ہوں گے ‘ واضح رہے کہ مرزائی پہلی تفسیر کو راجح قرار دیتے ہیں تاکہ نزول مسیح نہ ثابت ہو ‘ بہرنوع اس صورت میں معنی یہ ہے : اور (نزول مسیح کے وقت) اہل کتاب میں سے ہر شخص عیسیٰ کی موت سے پہلے ضرور ان پر ایمان لے آئے گا ۔
امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم کی موت سے پہلے ۔

ابو مالک نے اس کی تفسیر میں کہا جب حضرت عیسیٰ بن مریم کا زمین پرنزول ہوگا تو اہل کتاب میں سے ہر شخص ان پر ایمان لے آئے گا ۔

حسن نے اس کی تفسیر میں کہا حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے ‘ بہ خدا وہ اب بھی زندہ ہیں لیکن جب وہ زمین پر نازل ہوں گے تو ان پر سب ایمان لے آئیں گے ۔

ابن زید نے کہا جب عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے تو دجال کو قتل کر دیں گے اور روئے زمین کاہر یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے گا ۔ (جامع البیان جز ٦ ص ٢٦ ۔ ٢٥ ‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت)

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کی حکمتیں :

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان سے نازل کرنے کی حسب ذیل حکمتیں ہیں :
(١) یہود کے اس زعم اور دعوی کا رد کرنا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا ہے ‘ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نازل کر کے ان کے جھوٹ کو ظاہر فرما دے گا ۔
(٢) جب ان کی مدت پوری ہونے کے قریب ہوگی تو زمین پر ان کو نازل کیا جائے گا تاکہ ان کو زمین میں دفن کیا جائے کیونکہ جو مٹی سے بنایا گیا ہو اس میں یہ اصل ہے کی اس کو مٹی میں دفن کیا جائے ۔
(٣) جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات اور آپ کی امت کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ آپ کو ان میں سے کر دے ‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو باقی رکھا حتی کہ آپ آخر زمانہ میں نازل ہوں گے ‘ احکام اسلام کی تجدید کریں گے اور آپ کا نزول دجال کے خروج کے زمانہ کے موافق ہوگا سو آپ اس کو قتل کریں گے ۔
(٤) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول سے نصاری کے جھوٹے دعووں کا رد ہوگا جو وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق کرے رہے وہ انکو خدا یا خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور یہ کہ یہودیوں نے ان کو سولی دی اور وہ مرنے کے تین دن بعد زندہ ہو گئے ۔
(٥) نیز حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے کی بشارت دی تھی اور مخلوق کو آپ کی تصدیق اور اتباع کی دعوت دی تھی اس لیے خصوصیت کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نازل فرمایا ۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے متعلق احادیث :
(١) امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے عنقریب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے ‘ احکام نافذ کرنے والے ‘ عدل کرنے والے ‘ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے ‘ خنزیر کو قتل کریں گے ‘ جزیہ موقوف کر دیں گے اور اس قدر مال لٹائیں گے کہ اس کو قبول کرنے والا کوئی نہیں ہوگا ‘ حتی کہ ایک سجدہ کرنا دنیا اور مافیہا سے بہتر ہوگا ‘ اور تم چاہو تو (اس کی تصدیق میں) یہ آیت پڑھو : (آیت) ’’ وان من اھل الکتب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ‘‘ ’’ اہل کتاب میں سے ہر شخص حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئے گا ۔ ‘‘ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ‘ ٣٤٤٨ ‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ‘ ٢٤٢ ‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ‘ ٢٤٤٠ ‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ‘ ٤٠٧٨ ‘ مسند احمد ج ٣ ‘ رقم الحدیث : ‘ ١٠٩٤٤ ‘ صحیح ابن حبان ج ١٥ ‘ رقم الحدیث : ‘ ٦٨١٨ ‘ مصنف عبدالرزاق ج ١١ ص ٣٩٩ ‘ رقم الحدیث : ‘ ٢٠٨٤٠ ‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٥ ‘ ص ١٤ ‘ رقم الحدیث : ‘ ١٩٣٤١ ‘ شرح السنۃ ج ٧ ‘ رقم الحدیث : ‘ ٤١٧٠)
(٢) نیز امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس وقت تمہاری کیا شان ہوگی جب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ‘ ٣٤٤٩ ‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ‘ ٢٤٤ ‘ مسند احمد ج ٢ ص ٣٣٦ ‘ مصنف عبدالرزاق ‘ رقم الحدیث : ‘ ٢٠٨٤١ ‘ شرح السنہ ج ٧ ‘ رقم الحدیث : ‘ ٤١٧٢)
(٣) امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہکر جنگ کرتی رہے گی اور وہ قیامت تک غالب رہے گی کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نازل ہوں گے ‘ ان (مسلمانوں) کا امیر کہے گا آئیے آپ ہم کو نماز پڑھائیے ۔ حضرت عیسیٰ اس امت کی عزت افزائی کے لیے فرمائیں گے نہیں تمہارے بعض ‘ بعض پر امیر ہیں ۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٣٨٤ ‘ ٣٤٥ ‘ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت)
(٤) امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے ‘ عیسیٰ بن مریم فج روحاء (مدینہ سے چھ میل دور ایک جگہ) میں ضرور بلند آواز سے تلبیہ (لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک) کہیں گے درآں حالیکہ وہ حج کرنے والے ہوں گے ‘ یا عمرہ کرنے والے ہوں گے یا (دونوں کو ملا کر) حج قران کرنے والے ہوں گے ۔ (صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ١٢٥٢ )
(٥) امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے ‘ خنزیر کو قتل کریں گے ‘ صلیب کو مٹا دیں گے ‘ اور ان کے لیے نماز جماعت سے پڑھائی جائے گی ‘ وہ مال عطا کریں گے ‘ حتی کہ اس کو ‘ کوئی قبول نہیں کرے گا ‘ وہ خراج کو موقوف کر دیں گے ‘ وہ مقام روحاء پر نازل ہوں گے ‘ وہاں حج یا عمرہ کریں گے یا قران کریں گے ‘ پھر حضرت ابوہریرہ نے یہ تلاوت کی (آیت) ’’ وان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ‘‘۔ حنظلہ کا خیال ہے حضرت ابوہریرہ (رض) نے ’’ قبل موت عیسیٰ ‘‘ پڑھا تھا ‘ پتانہیں یہ بھی حدیث کا جز ہے یا حضرت ابوہریرہ (رض) نے خود تفسیر کی تھی ۔ (مسند احمد ج ٢ ص ٢٩٠ ‘ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت)
(٦) امام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی ٤٠٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عیسیٰ بن مریم ضرور نازل ہوں گے ‘ احکام نافذ کرنے والے ‘ انصاف کرنے والے امام عادل ہوں گے ‘ وہ ضرور راستوں پر حج یا عمرہ کرنے جائیں گے وہ ضرور میری قبر آئیں گے اور مجھ کو سلام کریں گے اور میں ان کے سلام کا جواب دوں گا ‘ حضرت ابوہریرہ (رض) نے (راوی سے) کہا اے میرے بھیتجے اگر تمہاری ان سے ملاقات ہو تو ان کو میرا سلام کہنا ‘ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور امام بخاری اور امام مسلم نے اس کو روایت نہیں کیا ‘ امام ذہبی نے یہ حدیث صحیح ہے ۔ (المستدرک ج ٢ ص ٥٩٥ ‘ مطبوعہ مکتبہ دارالباز مکہ مکرمہ ‘ المطالب العالیہ ج ٤ ص ٢٣ )
(٧) امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت نواس بن سمعان کلابی (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک صبح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دجال کا ذکر فرمایا اور اس کے ذکر میں آپ نے آواز پست بھی کی اور بلند بھی ‘ (یا اس کو بہت معمولی بھی قرار دیا اور بہت ہولناک بھی) حتی کہ ہم نے یہ گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں (یہیں کہیں) ہے ‘ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہوئے اور پھر حاضر ہوئے ‘ آپ نے ہمارے چہروں کو وحشت زدہ دیکھ کر پوچھا : تمہیں کیا ہو گیا ؟ ہم نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے دجال کا ذکر کیا اور اس کی حقارت اور ہولناکی کو بیان کیا حتی کہ ہم نے یہ گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں ہے ‘ آپ نے فرمایا دجال سے زیادہ مجھے ایک اور چیز کا تم پر خدشہ ہے اگر (بالفرض) دجال کا ظہور میرے سامنے ہوا تو تمہارے بجائے میں اس کے خلاف حجت پیش کروں گا ‘ اور اگر دجال کا ظہور اس وقت ہوا جب میں تم میں ہوں گا تو ہر شخص خود اس کے مقابلہ میں حجت پیش کرے گا ‘ اور میری طرف سے ہر مسلمان کا اللہ محافظ ہے ‘ دجال گھنگھریالے بالوں والا جوان ہوگا ‘ اس کی ایک آنکھ مٹی ہوئی ہوگی (کانا ہوگا ) گویا کہ میں اس کو (زمانہ جاہلیت کے ایک شخص) عزی بن قطن کے غلام کے مشابہ پاتا ہوں ‘ تم میں سے جو شخص اس کو دیکھے وہ سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے ‘ آپ نے فرمایا وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا اور دائیں بائیں فساد پھیلائے گا ‘ اے اللہ کے بندو ! ثابت قدم رہنا ‘ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اس کا زمین میں قیام کتنی مدت کے لیے ہوگا ؟ آپ نے فرمایا چالیس دن تک ‘ ایک دن دن ایک سال کی طرح ہوگا ‘ اور ایک دن ایک مہینہ کی طرح ہوگا ‘ اور ایک دن ایک جمعہ (سات دنوں) کی طرح ہوگا ‘ اور باقی دن تمہارے دنوں کی طرح ہوں گے ‘ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بتلائیے جو دن ایک سال کی طرح ہوگا اس میں ہمیں ایک دن کی نمازیں کافی ہوں گی ؟ آپ نے فرمایا نہیں لیکن تم اندازہ سے نماز کے اوقات مقرر کرلینا ‘ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! وہ زمین میں کس قدر تیز رفتاری سے چلے گا ؟ آپ نے فرمایا : جس تیز رفتاری سے ہوا بادلوں کو چلاتی ہے ‘ پھر وہ لوگوں کے پاس جا کر ان کو اپنی دعوت دے گا وہ اس کی تکذیب کریں گے ‘ اور اس پررد کریں گے ‘ جب وہ وہاں سے واپس ہوگا تو ان لوگوں کے اموال اس کے ساتھ چل پڑیں گے اور صبح کو وہ لوگ خالی ہاتھ رہ جائیں گے ‘ پھر وہ دوسرے لوگوں کے پاس جائے گا اور ان کو دعوت دے گا وہ اس کی دعوت قبول کرلیں گے ‘ اور اس کی تصدیق کریں گے ‘ وہ آسمان کو بارش برسانے کا حکم دے گا تو بارش ہونے لگے گی ‘ زمین کو درخت اگانے کا حکم دے گا تو وہ درخت اگائے گی ‘ شام کو ان کے مویشی اپنی چراگاہوں سے اس طرح لوٹیں گے کہ ان کے کوہان لمبے ‘ کولہے چوڑے اور پھیلے ہوئے اور تھن دودھ سے بھرے ہوں گے ‘ پھر وہ ایک ویران زمین سے کہے گا کہ اپنے خزانے نکالو ‘ اور جب لوٹے گا تو زمین کے خزانے اس کے پیچھے شہد کی مکھیوں کے سرداروں کی طرح (بکثرت) چل رہے ہوں گے ‘ پھر وہ ایک جوان شخص کو بلائے گا جو بھرپور جوان ہوں گا ‘ اور تلوار سے اس کے دوٹکڑے کر دے گا پھر اس کو بلائے گا تو وہ خوشی سے ہنستا ہوا اس کے پاس آئے گا ‘ وہ اسی حال میں ہوگا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم جامع مسجد دمشق کے سفید مشرقی منارہ پر اس حال میں اتریں گے کہ انہوں نے ہلکے زرد رنگ کے دو حلے پہنے ہوئے ہوں گے اور انہوں نے دو فرشتوں کے بازؤں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہوں گے جب آپ سر نیچا کریں گے تو پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے اور جب آپ سر اوپر اٹھائیں گے تو موتیوں کی طرح سفید چاندی کے دانے جھڑ رہے ہوں گے ‘ جس کافر تک آپ کے سانس کی بو پہنچے گی وہ مر جائے گا اور آپ کے سانس کی بو حد نگاہ تک پہنچے گی ‘ پھر حضرت عیسیٰ دجال کو تلاش کریں گے حتی کہ اس کو لد کے دروازے پر پاکر قتل کر دیں گے ‘ پھر جب تک اللہ چاہے گا وہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) رہیں گے ‘ پھر اللہ تعالیٰ آپ کی طرف وحی کرے گا کہ میرے بندوں کو پہاڑطور کی طرف جمع کرو ‘ کیونکہ میں وہاں اپنی ایک ایسی مخلوق اتاروں گا جس سے لڑنے کی کسی میں طاقت نہیں ہے ‘ آپ نے فرمایا : اللہ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ اللہ کے ارشاد کے مطابق ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے آئیں گے ‘ آپ نے فرمایا : یہ لوگ پہلے بحیرہ طبریہ سے گزریں گے اور اس کا سارا پانی پی جائیں گے ‘ پھر یہاں سے ان کے آخری لوگ گزریں گے اور کہیں گے کہ شاید کبھی یہاں پانی تھا ‘ پھر وہ چلتے چلتے بیت المقدس کے پہاڑ تک پہنچیں گے ‘ اور کہیں گے کہ ہم نے زمین والوں کو تو اب قتل کر لیاچلو اب آسمان والوں کو قتل کریں ‘ وہ آسمان کی طرف تیرپھنکیں گے ‘ اللہ ان کے خون آلودہ تیر واپس بھیج دے گا ‘ اور حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب کا محاصرہ کیا جائے گا ‘ حتی کہ (بھوک کی وجہ سے ) ان کے نزدیک بیل کا سر تمہارے سودیناروں سے زیادہ قیمتی ہوگا ‘ پھر حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان (یاجوج ماجوج) کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کرے گا حتی کہ وہ سب یک لخت مر جائیں گے ‘ پھر جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے اصحاب کے ساتھ اتریں گے تو ان کی بدبو ‘ اور ان کی چربی اور ان کے خون سے ایک بالشت جگہ بھی خالی نہیں پائیں گے ‘ پھر حضرت عیسیعلیہ السلام اور ان کے اصحاب دعا کریں گے تو اللہ لمبی گردن والے اونٹوں کو مثل پرندے بھیجے گا ‘ جو انہیں اٹھا کر پہاڑ کے غار میں پہنچا دیں گے ‘ مسلمان انکے تیر وترکش سات سال تک جلائیں گے ‘ پھر اللہ ایک بارش بھیجے گا جو ہر گھر اور ہر خیمہ تک پہنچے گی ‘ اور تمام زمین کو دھو کر شیشہ کی طرح صاف شفاف کر دے گی ‘ پھر زمین سے کہا جائے گا اپنے پھل باہر نکال اور اپنی برکتیں لوٹا ‘ سو اس دن ایک جماعت ایک انار کھائے گی اور اس کے چھلکے کے سائے میں بیٹھے گی ‘ دودھ میں اتنی برکت ہوگی کہ ایک اونٹنی کا دودھ پوری جماعت کے لیے کافی ہوگا ‘ ایک گائے کے دودھ سے ایک قبیلہ سیر ہو جائے گا اور ایک بکری دودھ ایک چھوٹے قبیلہ کے لیے کافی ہوگا ‘ وہ اس حال میں ہوں گے کہ اللہ ایک ہوا بھیجے گا جو ہر مومن کی روح کو قبض کرلے گی پھر (برے) لوگ باقی رہ جائیں گے وہ عورتوں سے اس طرح کھلم کھلا جماع کریں گے جس طرح گدھے کرتے ہیں ‘ ان ہی لوگوں پر قیامت قائم ہوگی ‘ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ‘ ٢٢٤٧ ‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ‘ ٢٩٣٧ ‘ سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث : ‘ ٤٣٢١ ‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ‘ ٤٠٧٥ ‘ مسند احمد ٤ ‘ رقم الحدیث : ‘ ١٨ ‘ المستدرک ج ٤ ص ٩٢)
(٨) امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت میں دجال نکلے گا وہ چالیس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تک ٹھہرے گا ‘ پتا نہیں آپ نے چالیس دن فرمایا تھا ‘ یا چالیس ماہ یا چالیس سال فرمایا تھا ‘ پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم کو بھیجے گا ‘ گویا کہ وہ عروہ بن مسعود کی مثل ہوں گے ‘ وہ دجال کو ڈھونڈ کر اس کو ہلاک کر دیں گے ‘ پھر لوگ سات سال تک ٹھہرے رہیں گے ‘ پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا ‘ اور روئے زمین میں جس شخص کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی خیر یا ایمان ہوگا وہ اس کی روح کو قبض کرے گی اور زمین میں برے لوگ باقی رہ جائیں گے نہ ہو کسی نیکی کو پہچانیں گے نہ کسی برائی کا انکار کریں گے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٤٠ ‘ مسند احمد ج ٢ ص ١٦٦ ‘ المستدرک ج ٤ ص ٥٤٣ )
(٩) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ رومی اعماق یا دابق (شام کے دو مقامات جو حلب کے قریب ہیں) نہ پہنچ جائیں ‘ پھر ان (سے لڑنے) کے لیے مدینہ سے ایک لشکر روانہ ہوگا ‘ وہ اس وقت روئے زمین پر سب سے نیک لوگ ہوں گے ‘ جب دونوں لشکر صف آراء ہوں گے تو رومی (مسلمانوں سے) کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان نہ آؤ جنہوں نے ہمارے کچھ لوگوں کو قیدی بنا لیا ہے ‘ مسلمان کہیں گے نہیں بخدا ہم تم کو اپنے بھائیوں سے لڑنے کے لیے نہیں چھوڑیں گے ‘ پھر وہ ان سے لڑیں گے تو ان میں سے ایک تہائی مسلمان بھاگ جائیں گے ‘ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ کبھی قبول نہیں کرے گا ‘ اور ایک تہائی مسلمان قتل کر دیئے جائیں گے ‘ وہ اللہ کے نزدیک افضل الشہداء ہوں گے ‘ بقیہ تہائی فتح حاصل کریں گے وہ کبھی آزمائش میں مبتلا نہیں ہوں گے ‘ وہ قسطنطنیہ کو فتح کرلیں گے ‘ جس وقت وہ مال غنیمت کو تقسیم کریں گے اور اپنی تلواریں زیتوں کے درختوں پر لٹکا دیں گے ‘ تو اچانک شیطان چیخ مار کر کہے گا ‘ تمہارے بال بچوں کے پاس مسیح دجال پہنچ گیا ہے ‘ مسلمان وہاں سے نکل پڑیں گے ‘ اور نماز قائم کی جائے گی توحضرت عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے اور وہ مسلمان کو نماز پڑھائیں گے ‘ اور جب اللہ کا دشمن (دجال) ان کو دیکھے گا تو وہ اس طرح پگھل جائے گا جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے ‘ اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس کو چھوڑ دیتے تب بھی وہ پگھل کر ہلاک ہو جاتا ‘ لیکن اللہ ان کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ سے قتل کرے گا اور ان کے نیزے پر اس پر خون (لوگوں کو) دکھائے گا ۔ (صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٢٨٩٧)
(١٠) حضرت حذیفہ بن اسید غفاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری طرف متوجہ ہوئے ہم اس وقت مذاکرہ کر رہے تھے ‘ آپ نے پوچھا تم کس چیز کا ذکر کر رہے ہو ‘ صحابہ نے کہا ہم قیامت کا ذکر کر رہے ہیں ‘ آپ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم دس علامتیں نہ دیکھ لو پھر آپ نے دخان (دھوئیں) دجال ‘ دابۃ الارض ‘ سورج کا مغرب سے طلوع ‘ عیسیٰ بن مریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نزول ‘ یاجوج ماجوج ‘ تین بار زمین کا دھنسنا ‘ مشرق میں دھنسنا ‘ مغرب میں دھنسنا ‘ جزیرۃ العرب کا دھنسنا ‘ اس کی آخری علامت آگ ہوگی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی ۔ (صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ‘ ٢٩٠١ ‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ‘ ٤٣١١ ‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ‘ ٢١٩٠ ‘
 
Syed Imaad
About the Author: Syed Imaad Read More Articles by Syed Imaad: 144 Articles with 350465 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.