9؍11 کے بعد 13؍11 کا نیا ڈرامہ
(Shams Tabrez Qasmi, India)
دنیا کے خوبصورت ترین شہر پیرس
پر ہونے والا ملکی کی تاریخ سب سے بڑا حملہ یقینا قابل مذمت اور افسوسناک
ہے ، بے گناہوں اور معصوموں کے قتل کی اجازت دنیا کا کوئی بھی مذہب نہیں
دیتا ہے اور نہ ہی کسی مذہب میں ایسی قبیح حرکت کرنے والوں کے لئے کو ئی
گنجائش ہے ، قتل ناحق ایک آدمی کا ہو ایک لاکھ کا ، جرم کی سنگینی برابر ہے
اورہردو کاجرم ناقابل معافی ہے ،13 نومبر کی شب میں فرانس کی راجدھانی پیرس
میں مسلسل ہوئے چھ دھماکے نے 180 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ہے ، تین سو
سے زائد زخمی ہے اور نہ جانے کتنوں نے اپنے باپ ،بھائی ،ماں بہن اور رشتہ
کو کھودیا ہے جس کا احساس وہی شخص کرسکتا ہے جو خوداس کا شکار ہوتا ہے ۔
پیر س حملہ کو پوری دنیا دہشت گردانہ حملہ سے تعبیر کہ رہی ہے لیکن میں اسے
صرف حملہ اور بم دھماکہ لکھ رہاہوں کہ کیوں دہشت گردی کی تعریف میرے نزدیک
اب تک واضح نہیں ہوسکی ہے اور جس چیز کی حقیقت مجھے معلوم نہیں ہوتی ہے
میرا قلم اسے زیب قرطاس کرنے سے احتیا ط کرتا ہے ،اس لئے کہ جب عراق و
افعانستان کی سزمین پر بے گناہوں کا خون بہا یا جارہا تھا ، لیبیا میں
ناٹوکی افواج معمر قذافی کے خلاف حملہ کررہی تھی ، شام میں بے گناہوں کا
قتل کیا جارہا ہے ، گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ، بابری مسجد
شہید کی گئی اور اس طرح کے ہزاروں واقعات ہیں جن کے بارے میں ہم نے کہاکہ
یہاں بھی بے قصورں کو مارا گیا ہے یہ بھی دہشت گردانہ حملہ ہے تو دنیا اس
پر کوئی توجہ نہیں دی ،دادری میں ایک بے گناہ کو دوسو لوگوں نے پیٹ پیٹ کر
ماردیا ، پور ی دنیا نے وزیر اعظم مودی سے مطالبہ کیا کہ یہ دہشت گردانہ
حملہ ہے ، انسانیت کا قتل ہے ،آپ اس کی مذمت کریں لیکن وہ خاموش رہے، آج
ایسا ہی کچھ فرانس میں ہواتو انہوں نے دہشت گردانہ حملہ کہ کر اس کی مذمت
کی ۔
حملہ کے فورا بعد میڈیا میں یہ خبر آگئی کہ یہ حملہ داعش نے کیا ہے ،دوسری
طرف داعش کے حوالے سے بھی یہ خبر نشر ہونے لگی کہ حملہ کی ذمہ داری داعش نے
قبول کرلی ہے ، اسی دوران ایک عینی شاہد کا یہ بیان منظر عام پر آگیا کہ
حملہ آور اﷲ اکبر کا نعرہ لگارہے تھے ،جس کے بعد عالمی میڈیا نے یہ سوال
قائم کرنا شروع کردیا کہ کیا اسلام دہشت گردی کا مذہب ہے ، مسلمان دہشت گرد
ہوتے ہیں ، اب تک جتنے دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں ان تمام میں مسلمان ہی
ملوث رہے ہیں ، نائن الیون کے بعد سے لے کر اب تک ہونے والے تمام دہشت
گردانہ واقعات اس کے گواہ ہیں۔اس خبر نے تجزیہ نگاروں کو اور ثبوت فراہم
کردیا کہ خودکش کا حملہ آوروں کا پاسپورٹ دستیا ب ہوا ہے جو مصر اور شام کا
ہے ، دوسری طرف مشہور امریکی چینل سی این این کہنا ہے کہ خودکش حملہ آوروں
کی فنگر پرنٹ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق فرانس سے ہی ہے یہ
کسی دوسرے ملک کے نہیں ہیں ۔
پیر س حملہ نے حملہ پوری دنیا کو بیدا ر کردیا ہے ،اور پور ی عالمی برادری
اظہار یکجہتی کرتے ہوئے فرانس کے اس غم میں شریک ہے ، فیس بک نے بھی ڈی پی
کو فرانسیسی جھنڈے کے کلر میں تبدیل کرکے فرانس کے ساتھ اظہار یکجہتی کا
ثبوت پیش کیا ہے ، ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں ہے کہ مسلمانوں کے قتل عام
پر اظہار یکجہتی کا ثبوت پیش نہیں کرتے ہیں۔ اگر بات کریں مسلم دنیا کی
،عالم اسلام اور مسلمانوں کی تو انہیں بیک وقت دو بیان جاری کرنے پڑرہے ہیں
،ایک پیر س حملہ کے مذمت کی اور دوسرے یہ کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی
تعلق نہیں ہے۔یہ ضرورت اس لئے آپڑی ہے کہ حملہ کی ذمہ داری داعش نے قبول کی
ہے جس کے بارے میں دنیا کو باورکرایا گیا ہے یہ سب سنی مسلمان ہیں، عینی
شاہدین نے کے مطابق حملہ آور اﷲ اکبر کے نعرے لگارہے تھے ۔
داعش اپریل 2013 میں منظر عام پر آئی تھی جو انتہائی کم وقت میں دنیا کی سب
سے خطرناک دہشت گرد تنظیم کی شکل اختیار کرچکی ہے ،عراق وشام کی اچھی خاصی
آبادی پر اس کا کنٹرول ہے اور اب امریکہ جیسا سپرپاور بھی اس سے لرزہ
براندام ہے ۔ حالاں کہ یہی وہ امریکہ ہے جس نے تن تنہا عراق جیسی عظیم طاقت
کو پاش پاش کرکے رکھ دیا ،افغانستان کو خاک وخون میں تبدیل کردیا ، معمر
قذافی جیسے الوالعزم حکمراں کا خاتمہ کردیا، وہ آج داعش کا خاتمہ کرنے میں
ناکام کیوں ہے ؟ ، داعش کے خلاف جنگ میں کامیابی کیوں نہیں مل رہی ہے ؟جبکہ
داعش کے خلاف 40 ممالک کی فوجیں براہ راست برسر پیکار ہیں ، 20 ممالک
بالواسطہ داعش سے جنگ میں مصروف ہیں لیکن اب تک داعش کا بال بیکا نہیں
ہوسکا ہے ، اس کو کسی محاذ پر پسائی ملنے کے بجائے مسلسل کامیابی ملتی
جارہی ہے ،آخر کیوں ؟ کیا وجہ ہے اس کے پس پردہ ؟ اس کے پاس ایسے ایسے
ہتھیار کہاں سے آگئے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب کی تلاش ہے ، جب تک اس
سوال کا جواب نہیں ملے گامسئلہ حل نہیں ہوگا،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں
کامیابی نہیں ملے گی ، آج جو لوگ داعش کے حملہ کی مذمت کررہے ہیں ، داعش کو
اسلام مخالف تنظیم بتارہے ہیں ان حکمرانوں سے ، رہنماؤں سے ، صحافیوں سے ،
تجزیہ نگاروں سے ، دانشوارن سے میری درخواست ہے کہ آپ پہلے یہ سوال امریکہ
سے کیجئے ،اقوام متحدہ سے کیجئے کہ داعش کے خلاف جنگ میں کامیابی کیوں نہیں
مل رہی ہے ؟۔ اتنی بڑی طاقت کے بر سرپیکار ہونے کے باوجودد اعش کے قدم کیوں
اور کیسے بڑھتے جارہے ہیں ؟انہیں نت نئے ہتھیار کیسے اور کہاں سے فراہم
ہورہے ہیں ؟جس دن اس سوال کا جواب مل جائے گا اسی دن داعش کی حقیقت اور
اصلیت د نیا کے سامنے عیاں ہوجائے گی کہ یہ داعش کون ہے؟ ، اس کے پس پردہ
کون سی طاقتیں کام کررہی ہیں؟ اور کیا مقصود ہے داعش سے؟ ۔
داعش کی تاریخی حقیقت کے حوالے سے میں جلدہی پوری تفصیل اپنے قارئین کی
خدمت میں پیش کرروں کا فی الحال صرف یہ کہ داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی
امریکہ کے تربیت یافتہ لوگوں میں سے ہیں اور اسے دنیا کی کسی بھی مسلم
تنظیم کی حمایت حاصل نہیں ہے ، القاعدہ اور طالبان بھی اس کے خلاف ہیں ،
داعش کے ہاتھوں روزانہ 1200 مسلمان قتل کئے جارہے ہیں ، داعش سے سب سے
زیادہ نقصان مسلم دنیا کو پہونچ رہا ہے ۔
حملے کے عینی شاہدین کا دعوی ہے کہ حملہ آور اﷲ اکبر کے نعرہ لگارہے تھے ،
شہادت جھوٹی ہے یا سچی اس قطع نظر ہمیں یقین ہے کہ اس نعرہ کا مقصد اسلام
کو بدنام کرنے کے لئے تھااس واقعہ کو براہ راست اسلام سے جوڑنے کا منصوبہ
تھا تبھی تو داعش کی آڑ میں اسلام کو دہشت گردی اور تشدد سے جوڑ کر پیر
وپیگنڈہ شروع کردیا گیا ، سعودی فرماں شاہ سلمان اور دیگر حکمرانوں تک کو
یہ کہنا پڑا کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے ، ہندوستانی میڈیا
نے بھی دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش کی ،کچھ چینلوں نے مباحثہ کے
دوران یہ سوال قائم کیا کہ قرآن نے کہیں پر بھی بے گناہوں کو مارنے کے بارے
میں نہیں کہا ہے لیکن اس کے باوجود ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہر دہشت گردانہ
حملے کے تا ڑمسلمانوں سے جڑا ہوتا ہے؟ اس موضوع بر گذشتہ کل زی نیوز کے
پروگرام ’’ٹال ٹھوک ‘‘پر بھی بحث چل رہی تھے جہاں بی بی جے پی کے قومی
ترجمان شری کانت شرما ،کانگریس کے ترجمان راجیو تیا گی اور دیگر غیر مسلم
حضرات بیک زبان ہوکر یہ کہ رہے تھے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے
، کسی مذہب سے اس کو نہیں جوڑا نہیں جاسکتا ہے ،ہاں وہاں ایک مسلمان مولانا
بھی تھے ، اینکر’’روبیکا لیاقت‘‘ نے شروع میں ہی ان سے کہ دیا تھا کہ آج کے
پینل دسکشن میں سب سے زیادہ سوالات آپ سے کئے جائیں گے آپ پر سب سے زیادہ
ذمہ داریاں عائد ہوں گی؛ لیکن جب ان سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے کچھ
ایسا جواب دیا جس کی کسی مسلمان سے توقع نہیں تھی ۔ میں ان صاحب کا نام لے
کر اپنے قلم کو آلودہ نہیں کرنا چاہتا ہوں ، ان صاحب کا جوا ب تھا کہ اب تک
جتنے بھی بھی دہشت گرد انہ حملہ ہوئے ہیں اس میں وہابی ازم کے لوگ ملوث رہے
ہیں ، صوفی ازم کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ،ہم بریلوی فرقہ سے تعلق رکھتے
ہیں ، ہم سعودی عرب کو نہیں مانتے ہیں اور نہ اس کے تابع ہیں ۔ان کے کہنے
کے مقصد یہ تھا کہ ہر دہشت گردوہ مسلمان ہوتا ہے جس کاتعلق وہابی فرقے سے
ہوتا ہے ۔ یہ بیان افسوسناک او رشرمناک ہے ، ان کے اندر اگر جواب دینے کی
صلاحیت نہیں ہے تو انہیں چاہئے کہ ٹی وی ڈیبیٹ پر جانا بندکردیں ، جہاں تک
بات ہے کہ بریلوی مذہب کے لوگوں پر اب تک دہشت گردی کا الزام نہیں لگا ہے
تو ہم یاد دلادیتے ہیں کہ کچھ ماہ قبل بٹلہ ہاؤس سے مولانا یسین اختر
مصباحی صاحب کو آئی بی کے لوگوں نے اٹھا لیا تھا جنہیں شدید احتجاج کے بعد
رہا کیا گیا، اس واقعہ کے فورا بعد لمرا فاؤنڈیشن کے ڈائرکٹر جناب اقلیم
رضا مصباحی صاحب نے دہشت گردی مخالف کانفرنس کے انعقاد کیا تھا جس موقع پر
بہت سے دوستوں نے یہ کہاتھا کہ اب پتہ چلا کہ دہشت گردی کی کا کوئی مسلک
نہیں ہوتا ہے ، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شیعہ پر دہشت گردتنظیم ہونے کا الزام
نہیں ہے ان کی معلومات کیلئے عرض ہے کہ حوثی باغی اور حزب اﷲ کا تعلق شیعہ
فرقہ سے ہی ہے ۔
میرا مقصد ہر گزیہ بتلانا نہیں ہے کہ دہشت گردشیعہ اور بریلوی بھی ہیں بلکہ
یہ کہ ہم بحیثیت مسلمان ایک قوم ہیں ،یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ داعش کی آڑ
میں اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش جاری ہے جس اسلام کے ماننے والے شیعہ ،سنی
،دیوبندی ،بریلوی ، اہل حدیث ،جماعت اسلامی اور دیگر سبھی مسلک ومشرب کے
لوگ ہیں ۔ نائن الیون کے بعد پیرس کا یہ حملہ اسے سلسلے کی کڑی ہے جس کا
مقصد اسلام کو بدنام کرنا اور مسلمانوں کو عالمی سطح پر کمزور کرنا ہے ۔ |
|