معروف ادیب اشتیاق احمد ....ایک زریں عہد جو تمام ہوا

لوگ پیدا ہوتے ہیں، جیتے ہیں اور پھر مرجاتے ہیں۔ جن لوگوں نے کوئی کارنامہ سرانجام نہ دیا ہو، وہ بھلا دیے جاتے ہیں، لیکن وہ لوگ جو دوسروں کے لیے جیتے ہوں،وہ ہمیشہ لوگوں کے خیالات اور عمل میں زندہ رہتے ہیں۔ اشتیاق احمد صاحب رحمة اللہ علیہ بھی انہیں لوگوں میں سے تھے، جنہوں نے ہمیشہ دوسروں کے لیے جیے۔ انہوں نے آٹھ سو سے زاید ناول، ہزاروں کہانیاں اور سو سے زاید کتابیں تحریر کیں، جس پر انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ بھی ملے۔ اشتیاق احمد اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں، لیکن وہ ہمیشہ لاکھوں انسانوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
 ممتاز ادیب، اردو زبان کے سب سے زیادہ ناولوں کے تخلیق کار، جاسوسی ناول انسپکٹر جمشید، انسپکٹر کامرن اور شوکی سیریز کے خالق، ادب کی نابغہ روزگار شخصیت اور ہر دلعزیز مصنف اشتیاق احمد ادب کے میدان میں انمٹ نقوش چھوڑکر منگل کے روز اپنے چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گئے۔ وہ کراچی میں گیارہویں بین الاقوامی کتب میلے میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ کراچی کے ایکسپو سینٹر میں منعقدہ عالمی کتب میلے میں شرکت کے بعد واپس اپنے آبائی شہر جھنگ جانے کے لیے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر موجود تھے کہ اچانک انہیں دل کا دورہ پڑا، جس کے باعث وہ جانبر نہ ہوسکے اور موقع پر ہی ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ منگل کی رات جامعة الرشید کراچی میں علمائ، طلبہ، ان کے قارئین اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے ان کی نماز جنازہ ادا کی۔ بعد ازاں میت ان کے آبائی شہر جھنگ روانہ کردی گئی، جہاں بدھ کے روز ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی، جس میں علمائ، ادیبوں، شاعروں، وکلا، صحافیوں، دانشوروں، تاجروں، اساتذہ، اسکالرز، مصنفین اور ہر مکتب مفکر کے ہزاروں افراد نے شرکت کی، جس کے بعد انہیں آدھیوال کے مقامی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ اردو زبان میں بچوں کے ادب کے سب سے بڑے قلمکار اشتیاق احمد کی وفات ایک عظیم سانحہ ہے۔ ان کی رحلت سے اردو ادب میں جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کا بھرنا فی الحال بے حد مشکل نظر آتا ہے۔ ان کا اس دار فانی سے رخصت ہوجانا ادب کا بڑا نقصان ہے۔ انہوں نے اس قوم کے لیے بہت بڑا ادبی سرمایا چھوڑا ہے۔ ابن صفی کے ہوتے ہوئے جاسوسی ناول نگاری میں اپنا نام و مقام منوایا۔ بچوں کو غیرضروری اور لغو ادب کے مقابلے میں ایک مثبت اور تعمیری سوچ میں گوندھی ہوئی تحریریں دیں، جن کو پڑھ کر ہر قاری ان کا گرویدہ ہوا۔ صرف بچے ہی نہیں، بلکہ خواتین، بوڑھے اور جوان بھی ان کی تحریریں کے مداح ہیں۔ ملک کی تین نسلیں ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے جوان ہوئیں۔ بچپن میں ان کے ناولوں کو پڑھ کر اردو ادب سے دوستی کرنے والے ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، کالم نگاروں، علماءاور متعدد کتابوں کے مصنفین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اشتیاق احمد ایک عظیم انسان تھے۔ ان کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ وہ 71 سال اس فانی دنیا میں گزارنے کے بعد ایسے دیس کے باسی بن چکے ہیں، جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا، لیکن انہوں نے جو عظیم کام کیا، اس بنا پر وہ ہمیشہ لاکھوں انسانوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ ملک کی کئی ادبی، سیاسی، دینی اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے ان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ مرحوم نے 5 بیٹے، 3 بیٹیاں اور بیوہ سوگوار چھوڑے۔ اشتیاق احمد 12 سال روزنامہ اسلام سے وابستہ رہے۔ انہوں نے 2001ءمیں روزنامہ اسلام کے میگزین ”بچوں کا اسلام“ کی ادارت سنبھالی اور اپنی وفات تک میگزین کی ادارتی ذمے داریاں بہ حسن و خوبی ادا کرتے رہے۔ وہ بچوں کا اسلام کا تمام مواد ایڈٹ کرنے کے ساتھ ساتھ میگزین کے لیے عبداللہ فارانی، سرور مجذوب سمیت کئی کئی قلمی ناموں سے تاریخی اور سماجی موضوعات پر کہانیاں اور مضامین بھی لکھتے تھے۔ ”بچوں کا اسلام“ کے اجراءسے قبل وہ روزنامہ اسلام میں ”مکالمہ“ اور ہفت روزہ ضرب مومن میں ”امید“ کے مستقل عنوان سے سیاسی و دینی موضوعات پر ہلکے پھلکے کالم لکھا کرتے تھے۔ ان کے زیر ادارت ”بچوں کا اسلام“ نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا اور ملک کے گوشے گوشے میں ہر طبقے میں اشتیاق سے پڑھا جانے لگا، جس کا اعتراف ملک کی موقر ادبی تنظیموں اور اداروں نے بھی کیا۔ اس عرصے میں بچوں کا اسلام نے کئی بار دعوہ اکیڈمی سے بچوں کے بہترین میگزین کا ایوارڈ بھی جیتا۔

معروف ادیب و جاسوسی ناول نگار اشتیاق احمد نے زندگی کی 71 بہاریں دیکھیں۔ 1944ءمیں بھارتی ریاست پانی پت کے ضلع کرنال (مشرقی پنجاب) میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان کے شہر جھنگ میں آکر آباد ہوا اور جھنگ صدر میں سکونت اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم شیخ لاہور پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ اشتیاق احمد نے صرف میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی۔ انہوں نے زندگی کی سختیاں برداشت کیں۔ میونسپل کارپوریشن لاہور میں ایک عرصے تک محض 100روپے ماہوار پر ملازمت کی، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ چھولہ چاٹ کی ریڑھی بھی لگائی اور پان، سگریٹ کا کھوکا بھی چلایا۔ اشتیاق احمد ایک جگہ خود بتاتے ہیں: ”میونسپل کارپوریشن کی ملازمت میں رشوت کا دور دورہ تھا، متنفر ہوکر ملازمت سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ ان دنوں میرے پاس کچھ کام نہیں تھا۔ بہت پریشان ہوا۔ ایک دن وضو کیا، دو رکعت ادا کی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ یوں گویا ہوا: ”میرے مالک: آپ کا تو وعدہ ہے، جو شخص حرام روزی چھوڑتا ہے، آپ اسے حلال راستے سے اس سے زیادہ عطا کرتے ہیں۔ آپ اپنا وعدہ پورا کریں نا۔“ یہ الفاظ میں نے بالکل ایسے انداز میں کہے جیسے سامنے بیٹھے کسی شخص سے کہے ہوں۔ آنکھوں میں آنسو تھے اور ابھی دعا ختم نہیں کی تھی کہ میری نظر کمرے کے فرش پر پڑے ایک تہہ کیے ہوئے کاغذ پر پڑی۔ پہلے تو اس کاغذ پر توجہ نہ دی۔ اٹھا کر اس کی تہہ کھولی تو شیخ غلام علی اینڈ سنز کے منیجر ملک رب نواز کا رقعہ تھا، جو دروازے کی نیچے سے فرش پر ڈال دیا گیا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا: ”آپ سے ضروری کام ہے، فوراً ملیں“ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ دوسرے دن صبح ان سے ملا تو کہنے لگے۔ ”آپ ہمیں انسپکٹر جمشید سیریز کے بارہ ناول لکھ کر دے دیں اور جگنو کی ادارت پھر سے سنبھال لیں۔“ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اللہ تعالیٰ سے کہا: ”باری تعالیٰ آپ کا وعدہ سچا ہے۔“ اور یہیں سے میرے ناولوں کے دور کا آغاز ہوا۔ یہاں تک کہ اپنا پبلشنگ کا ادارہ قائم کرنے کے قابل ہوا۔ اشتیاق احمد کی پہلی کہانی 1960ءمیں ہفت روزہ قندیل میں شایع ہوئی۔ 1970ءمیں میونسپل کارپوریشن میں ملازمت کے دوران کہانیاں لکھنا شروع کیں اور بہت کم عرصے میں مقبول لکھاری بن گئے۔ اشتیاق احمد کو اردو زبان کی تاریخ میں بچوں کے ادب میں سب سے زیادہ لکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے بچوں کے لےے ”غار کا سمندر“ کے عنوان سے 2000 صفحات پر مشتمل سب سے بڑا ناول لکھا۔ ان کے دیگر معروف ناولوں میں ”سازش کا اژدہا“،”باطل قیامت“،”وادی مرجان“،”جابانی فتنہ“، جبکہ ”اظہر سیریز“ کے عنوان سے اسلامی تاریخ پر کئی ناول لکھے۔ ان کے شائع کردہ خاص نمبروں میں ”دنیا کے قیدی“ ،”جیل کی موت“، ”جزیرے کا سمندر“ وغیرہ نے شہرت حاصل کی۔ ”جابانی فتنہ“ کے عنوان سے منکرین ختم نبوت پر لکھے گئے ناول میں ”مرزا خاسر“ کا کردار بہت معروف ہوا۔ ان کا شہرہ آفاق ناول ”وادی مرجان“ بھی اسی موضوع کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ دو ناول دینی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئے۔ بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول تھے اور انہوں نے ہزاروں کہانیاں، مختلف موضوعات پر 100 بڑی کتابیں اور 800 سے زیادہ ناول لکھے، جن میں کچھ رومانی اور بیشتر جاسوسی ناول تھے۔ ان کے 15 سے زاید ناول طباعت کے آخری مراحل میں ہیں۔ اشتیاق احمد کے جاسوسی ناولوں کو ہر حلقے میں بھرپور پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی، لیکن ان کے ”انسپکٹر جمشید سیریز“ کے جاسوسی ناولوں نے انہیں شہرتِ دوام بخشی۔ اس سیریز کے چند کردار اس قدر عام ہوگئے کہ لوگوں کی زندگی کا حصہ بن گئے۔

اشتیاق احمد نے اپنا پہلا ناول صرف تین دن میں مکمل کیا۔ انہوں نے ہزاروں کہانیاں اور سیکڑوں ناول لکھے۔ ان کی پہلی بیس کہانیاں بچوں کے لیے تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے بڑوں کے لیے لکھنا شروع کیا، اس وقت ان کی اپنی عمر سولہ سال تھی۔ ابتدا میں ان کی تحریریں رومانی ادب کا احاطہ کرتی تھیں، ان کی پہلی رومانی کہانی کا عنوان ”شمع“ تھا، جو کراچی کے ایک رسالے میںشایع ہوا۔ اس کے بعد سیارہ ڈائجسٹ میں لکھنا شروع کیا۔ سیارہ ڈائجسٹ میں تین چار کہانیاں شایع ہوگئیں تو اردو ڈائجسٹ میں لکھنے لگے۔ سیارہ ڈائجسٹ میں 100 روپے ماہوار پر بطور پروف ریڈر کام کیا۔ 1971ءمیں ایک رومانی ناول ”منزل انہیں ملی“ لکھا۔ ناول چھاپنے کے بعد پبلشر کی فرمائش پر بچوں کے لےے جاسوسی ناول لکھنے کا آغاز کیا اور پہلا ناول تین دن میںلکھا، اس ناول کے کردار محمود، فاروق، فرزانہ اور انسپکٹر جمشید تھے، جنہوں نے اشتیاق احمد کو لافانی شہرت عطاءکی۔ اشتیاق احمد کا پہلا ناول ”پیکٹ کا راز“ تھا۔ ناول نگار کے طور پر شناخت بننے کے بعد شیخ غلام علی اینڈ سنز نے اپنے ماہنامہ ”جگنو“ کی ادارت کے لیے ان کی خدمات مستعار لیں۔ اس دوران انہوں نے کہانیوں کی دو سو کتابیں لکھیں۔ 80 کے عشرے میں شراکت پر طباعتی ادارہ ”مکتبہ اشتیاق“ قائم کیا اور ہر ماہ چار ناول لکھ کر اس سے شائع کرتے رہے۔ بعدازاں ”اشتیاق پبلی کیشنز“ کے نام سے اپنا الگ ادارہ قائم کیا اور اس کے لیے ہفتے میں ایک ناول لکھتے رہے۔

ایک انٹرویو میں ہزاروں کہانیاں لکھنے والے اشتیاق احمد خود اپنی کہانی بیان کرتے ہیں: پہلی کہانی لکھی اور چَھپ گئی۔ دوسری کہانی لکھی، وہ بھی چھپ گئی۔ تیسری کہانی لکھی، وہ بھی چھپ گئی۔ اوپر تلے پندرہ بیس کہانیاں شایع ہوگئیں تو جی میں آئی کہ بچوں کے لیے بہت کہانیاں لکھ لیں، اب بڑوں کے لیے لکھنا چاہیے، حالاںکہ خود ابھی سولہ سال کا تھا۔ رومانی کہانی لکھی۔ کراچی سے نکلنے والے ایک رسالے ”شمع“ کو افسانہ بھیج دیا۔ انہوں نے وہ شایع کردیا۔ اوپر تلے چھے سات افسانے انہیں لکھ کر ارسال کردیے، انہوں نے سب کے سب شایع کر دیے۔ ایک افسانہ سیارہ ڈائجسٹ کو بھیجا۔ شایع ہوگیا اور ساتھ ہی مدیر معاون کا خط بھی آگیا کہ اور لکھ کر ارسال کریں۔ سیارہ ڈائجسٹ میں تین چار کہانیاں شایع ہوگئیں تو اردو ڈائجسٹ بھیجنے لگا۔ اردو ڈائجسٹ نے بھی کہانیاں شایع کردیں۔ سیارہ ڈائجسٹ سے پیسے بھی ملنے لگے۔ اس کے ساتھ سیارہ ڈائجسٹ کے مدیر کو خط لکھ دیا کہ میری فلاں فلاں رسالے میں اتنی کہانیاں شایع ہو چکی ہیں، اپنے رسالے میں مجھے کوئی کام دیں۔ انہوں نے بلالیا اور سو روپے ماہوار پر پروف ریڈنگ کا کام دے دیا۔ پھر ”منزل انہیں ملی“ کے عنوان سے ایک رومانی ناول لکھا۔ یہ ناول لے کر ”مکتبہ عالیہ“ کے پاس گیا تو وہ ناول کو پڑھ کرکہنے لگے: ”یہ ناول ہم بعد میں شایع کریں گے۔ پہلے آپ بچوں کے لیے ایک ناول لکھ کر لائیں۔ ناول جاسوسی ہو اور سو صفحات سے زیادہ کا نہ ہو۔“ گھر آیا اور جاسوسی ناول لکھنے لگا۔ ناول صرف تین دن میں تیار ہوگیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس ناول کے کردار محمود، فاروق، فرزانہ اور انسپکٹر جمشید تھے۔ ناول کا نام ”پیکٹ کا راز“ رکھا۔ مکتبہ عالیہ نے اس کے 50 روپے دیے۔ یہ ناول 1972ءمیں شایع ہوا۔ وہ ناول لے کر فیروز سنز چلا گیا۔ ہاتھ میں ایک اور ناول ”آستین کا سانپ“ کا مسودہ تھا۔ انہوں نے پیکٹ کا راز دیکھا، آستین کا سانپ پڑھ کر اسے شایع کرنا منظور کرلیا اور اس کے 300 روپے دیے۔ تیسرا ناول شیشے کا بکس لکھا، شیخ غلام علی اینڈ سنز نے اسے شایع کرنا منظور کرلیا۔ اس کے 300 روپے دیے، ساتھ ہی کہا: ”اور ناول لکھ لائیں۔“ انہوں نے اوپر تلے بارہ ناول لکھوائے اور فیروز سنز نے بھی دو تین اور ناول خرید لیے۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز کے منیجر نے پیغام بھیج کر بلوایا اور مجھے دو سو روپے ماہ وار پر اپنے رسالے ماہ نامہ ”جگنو“ کا مدیر بنادیا۔“ اس دوران چھوٹے سائز کی کہانیوں کی دو سو کے قریب کتابیں بھی لکھوائیں۔ مرحوم اشتیاق احمد اب اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن اردو ادب میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 762644 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.