اقبالؒ میرے خوابوں کا ترجمان

مفکر پاکستان تصورِ پاکستان کے خالقِ عظیم شاعر و فلسفی ڈاکٹر سر محمد اقبال المعروف علامہ اقبال ؒ کا نام قیامِ پاکستان کی تحریک میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا ۔آپ نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کا تصور پیش کیا۔علامہ اقبالؒ کے آباواجداد کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ میں آکر آباد ہو گئے۔آباواجداد سپرو گوت کے کشمیری پنڈت تھے۔جو غالباََ اٹھارویں صدی عیسوی کے شروع میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔علامہ اقبالؒکے والد شیخ نور محمد درمیانے درجے کے متمول شحص تھے ۔دو بھائیوں اور چار بہنوں میں اقبالؒ سب سے چھوٹے تھے۔ابتدائی تعلیم کے بعد سکاچ مشن کالج سیالکوٹ سے ایف اے کرنے کے بعدگورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔بی اے کے سالانہ امتحان میں عر بی اور انگریزی میں گولڈ میڈل حاصل کیا ۔علامہ اقبالؒ کو شروع ہی سے قابل اساتذہ سے وابسطہ رہا۔ سیالکوٹ میں سیدمیرحسن سے فیض یاب ہوئے ۔1905ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے۔کیمبرج میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1907میں میونح یونیورسٹی جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگڑی حاصل اسی دوران آپ نے بار ایٹ لا بھی کیا اب صحیح معنوں میں آپ کے ادبی اور علمی دنوں کا آغاز تھا ۔علامہ اقبال کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔پہلا دور 1905 اور دوسرا 1905 سے1908 کا ہے۔ اور تیسرا 1908میں ہندوستان واپس آنے کے بعد شروع ہوا۔آپؒ کا اندازِ فکر واضح ہوگیا تھا اور آپ ؒنے اپنے لیے ایک راستہ متعین کر لیا تھا ۔میرے خیال میں اقبالؒ اگر اس پیارئے وطن کا تصور نہ دیتے تو شاید آج بھی ہم غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے۔علامہ اقبالؒ جو کہ مفکرِ پاکستان ہیں انہوں نے ایک عظیم ملک کا تصور دیا اور قائدِاعظم نے اس تصور کو حقیقت میں بدل کر دیکھایا ۔علامہ اقبالؒ محمدﷺ سے عشق کی حد تک محبت رکھتے تھے۔ان کی تعریف بیان کرتے تھکتے نہ تھے۔علامہ اقبالؒ نے قرآن کریم کے بارے میں ایک بہت ہی خوبصورت بات کہی تھی وہ یہ کہ ایک غزنی کے رہنے والے ایک بزرگ عبدالقادر ؒنے علامہ اقبالؒسے کہا کہ مسلمانانِ عالم کے زوال سے میرا دل خون کے آنسو رورہا ہے۔مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ اﷲ نے اس قوم سے نظر ہٹا لی ہے ان کے الفاظ یہ تھے کہ مونہہ موڑ لیا ہے۔علامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ اﷲ نے ان سے مونہہ نہیں موڑابلکہ خود انہوں نے قرآن سے مونہہ موڑلیا ہے۔اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ ساری دنیا میں ذلیل وخوار ہیں ۔ اقبال ؒ نے فرمایا کہ ـمیں یہ بات آج سے بیس سال پہلے کہ چکا ہوں ’’اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر‘‘علامہ اقبالؒ کو بچپن ہی سے شاعری کا شوق تھا ۔علامہ اقبالؒ کی شاعری ایسی ہے کہ اُس کا ایک ایک حرف واضح کر دیتاہے کہ علامہ اقبالؒ اس شعر میں کیا بیان کرنا چاہتے ہیں ۔علامہ اقبالؒ کو معلوم تھا کہ دو قومیں آپس میں ایک ساتھ گزر بسر نہیں کر سکتیں ان قوموں کو الگ الگ ملک ملنا چاہیے۔تاکہ ان کے مذہب کہ حفاظت ہو سکے۔علامہ اقبالؒ کے 1930ء میں خطبہ الہٰ آباد کے جلسے میں یہ الفاظ تھے۔کہ دو قومیں کبھی بھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں ایک مسلمان اور دوسری ہندو قوم ۔ان دونوں کا رہن سہن الگ ہے ان کا اُٹھنا بیٹھنا الگ ہے۔ان دونوں کا کھانا پینا الگ ہے۔مسلمانوں کو ان کا الگ ملک ملنا چاہیے۔تاکہ ان کے مذہب کی قدر کی جا سکے۔پاکستان بہت مشکلوں سے حاصل کیا گیا تھا۔علامہ اقبال کے خیال کے مطابق مسلامنوں کو ایک قوم بن کر زندگی گزارنی چاہیے۔ایک قوم بن کر رہنا چاہیے۔ایک قوم بن کر دنیا گزارنی چاہیے۔اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوامِ رسولِ ہاشمی اُن کی جمعیت کا ہے ملکُ نصب پر انحصار قوتِ مذہب سے ہے جمعیت تیری دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی۔علامہ اقبال نے بچوں کے لیے بھی بہت سی نظمیں لکھیں ہیں۔جیسے پرندے کی فریاد ،مکڑا اور مکھی،ہمدردی وغیرہ۔علامہ اقبال کی کتابیں بانھِدرا،بانگِجبریل،ضربِ کلیم،ارمغانِ حجاز بہت مشہور ہیں۔آج ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں تو وہ صرف علامہ اقبالؒاور قائدِاعظمؒکی کوششوں اور ان کے خون پسینے کی محنت کی وجہ سے ہے۔
Huzaifa Ashraf
About the Author: Huzaifa Ashraf Read More Articles by Huzaifa Ashraf: 28 Articles with 42399 views صاحبزادہ حزیفہ اشرف کا تعلق لاہور کے ایک علمی وروحانی حاندان سے ہے۔ حزیفہ اشرف14اکتوبر1999کو پیدا ہوئے۔حزیفہ اشرف کے والد قانون دان میاں محمد اشرف عاص.. View More