سیدھا راستہ

حق کی دریافت کے ذرائع
مذہبی زندگی گذارنا ایسے افراد کیلئے جن کو وراثت میں مذہب ملا ہو عموما ََ مشکل نہیں ہوتا، مذہب کے دعوے دار ایک طرف جہاں خالق کائنات کے عقیدے کو تبلیغ کرتے ہیں تو اُسی کے ساتھ روزمرہ زندگی کے ڈھنگ کو بھی ایک خاص انداز سے اپنانے پر زور دیتےہیں۔

مذہب یوں تو اخلاقی حکمتوں اور کردار کی بلندیوں پر لیجانے کی تلقین کرتا ہے مگر آج کے دور میں اکثر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ مذہب کے دعوے دار افرادبظاہر بے مذہب (مُلحد) افراد کے مقابلے میں زیادہ بے ایمان، اخلاقی گراوٹ، اور نفسیاتی تنزل کا شکار ہوتے ہیں۔

زندگی جہاں گھریلو ہوتی ہے وہیں سماجی اور معاشرتی بھی ہوتی ہے نیز اس نجی اور سماجی زندگی کی بنیاد تین چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے ایک تعلیم دوسرا ثقافت و تہذیب تیسرا معیشت۔ ان تینوں امور کو انتظامی شخصیت (سماج میں حکومت ) بالادست شعبے کے عنوان کے تحت منظم کرتی ہے۔تعلیم تمام شعبہ جات کی بنیاد کے طور پر انسانی سماج کو اخلاق اپنانے اور روزگار دلانے کیلئے معاون ہوتی ہے دوسری طرف قائدانہ صلاحیت کے حامل افراد کو مختلف اداروں کو چلانے اور امور کو منظم کرنے کیلئے علم و ہنر و ہمت عطا کرتی ہے، نیز مثبت قلبی احساسات کی حامل رسوم کو فروغ دینے میں معاون ہوتی ہے۔

مذہبِِ حق یعنی مذہبِ اسلام کے دعوے دار بھی ایسے ہی اعمال کو اپنانے پر زور دیتے ہے جس میں مذہب صرف دوسرے مذاہب سے جدائی اور انفرادیت کے عنوان کے طور پر نہ ہو بلکہ در حقیقت ربانی اخلاق کو نجی اور سماجی زندگی میں رائج کرنا مقصود ہو۔

مذہبِ حق یعنی خالق کائنات کے بنائے ہوئے وہ اصول و قاعدے جو اُس نے انسان کو کامیاب کرنے کیلئے بنیاد قرار دیئے ہیں، پر عمل کرنا۔

مذہب ِ حق فقط ثواب کی خاطر چند اذکار کا زبانی ورد یا اعضائے انسانی سے ادا ہونے والے تھوڑے بہت افعال کا نام نہیں ہے بلکہ، نجی زندگی جس میں خاندان بنانے اور چلانے، معاشی اعمال، سماجی اعمال، سیاسی اعمال کو ادا کرتے ہوئے اخلاق وکردار کو بنیاد قرار دے کر اپنانے کا نام ہے۔

مذہب ِ حق انسان کو کامیابی کی لذت کی طرف لیجاتا ہے اگر مذہب کے نام لیوا سعادت سے اور کامیابی کی لذت سےمحروم ہیں یا سماج کو مذہبی گرداننے والے سعادت اور خوش بختیوں سے دور ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یا تو اس سماج کا مذہب حق نہیں ہے یا پھر مذہبِِ حق پر عمل درست انداز میں نہیں ہورہا ہے۔
خالق کائنات کے بنائے ہوئے اصول و قاعدوں کے حامل ہونے کے دعوے دار بہت سے مذاہب ہیں مگر حق کی شناخت کیلئے تمام مذاہب کا تنقیدی مطالعہ ضروری ہے نیز اس سے پہلے ذاتی شناخت اور ذاتی صلاحیتوں کو درک کرنا نیز مذہب کو جامع کہنے والوں کیلئے سماجی اور انسانی علوم کا ادراک سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ اسی کے بعد درست مذہب یعنی زندگی گذارنے کی فطری بنیادیں دریافت ہوسکتی ہیں، مذہبِ حق کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے۔جب سونا اصلی ہونے کی حکمت پتا ہو تو کبھی کوئی لوہے کو سونا نہیں کہتا۔

انسان اپنی اور سماجی فطرت جس قدر پہچانتا ہوگا جتنا وہ کائنات میں حاکم فطرت کو درک کرسکتا ہے اتنا ہی مذہب حق کو درک کرنے کی صلاحیت ہوگی۔مذہب ِ حق بھی حق کی نشانیوں سے پہچانا جاتا ہے حق کے دعوے داروں سے نہیں۔

عاقل انسان جو بغیر کسی تعصب اور دباؤ کے مذاہب کا مطالعہ اور تحقیق اس ہدف کے تحت انجام دے کہ جس سے وہ اپنی ذاتی نجی زندگی اور سماجی زندگی میں کامیاب و سرخرو ہوسکے نہ صرف ذاتی زندگی میں بلکہ خود سے مربوط اُن افراد کیلئے بھی جو اُس کے زیر کفالت یا توجہ خواہ ہیں اُن کیلئے بھی اس مقدس تحقیق کو انجام دے ۔ یہ تحقیقی جذبہ ممکن ہے اوائل زندگی میں پیدا ہوجائے یا پھر جوانی اور بڑی عمر میں ،مگر اس تحقیق کے فوائد ہر دور میں محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ اوائل عمر میں اس کے فوائد زیادہ ہیں جس کے باعث نہ صرف محقق کی ذات بلکہ ایک وسیع حلقہ اس سے فیضیاب ہوتا ہے۔

اس تحقیق کی صرف چند کڑی شرائط ہیں، وہ یہ کہ یہ تحقیق بھرپور انداز میں بغیر کسی تعصب ، رشتہ داری، دباؤ، کسی معاشی وابستگی، سیاسی وابستگی کے ہو۔ نیز مطالعہ ، مشاہدہ کے ساتھ تدبر و عمیق فکر و باریک بینی کے ساتھ تجزیہ پر مشتمل ہو۔ نیز اس تحقیق سے ذاتی نجی زندگی سے لیکر سماج کی نجی زندگی ، سماجی معاشی و سیاسی زندگی مثبت، تعمیری انداز میں گذارنے کیلئے اصول و ضوابط اور قانون و قاعدے کا استخراج ہو۔ ایک ایسا قانون جو ہمہ گیر ہو اور تربیتی انداز اپنائے ہوئے ہو، جس میں بچے، خواتین، نوجوان، جوان، بوڑھے، ادھیڑعمر نیز نباتات و حیوانات کے حقوق ادا کرنے کے بھی رمز و رموز ، فرائض اور ذمہ داریاں بیان کئے گئے ہوں۔ایک طرف یہ غیر جانبدارانہ تحقیق جہاں انسان کو علم و حکمت سے منور کرتی ہے دوسری طرف خدا پر ایمان اور یقین پیدا کرنے کا بھی ذریعہ بنتی ہے۔ اگر خدا کی غیبی امداد اور فرشتوں کی مدد پر یقین نہیں پیدا کررہی تو ایسی تعلیم انسان کو حیوان بھی بنا سکتی ہے اور دُنیاوی سرکشوں اور طاغوتوں سے خوفزدہ بھی کرسکتی ہے اگر یہ علم انسان کے قلب کو قوی نہ بنائے اور کامیاب ہونے کے واسطے تدریجاََچھوٹی چھوٹی مشقتوں کو انجام دے کر بڑی بڑی مشقتوں کیلئے خود کو اور دوسرے انسانوں کو تیار نہ کرے تو یہ ایسا ہی جاہل ہے جیسے کہ اَن پڑھ۔ یہ مشقتیں بھی جہاں کم علم آدمی کو مشقت لگتی ہے وہیں ایک با معرفت شخص کو یہ مشقتیں فرائض ، ذمہ داری ،دلچسپی اور لذت بخش محسوس ہوتی ہیں، یہ کشف انسان کو لذیذ ترین لگتے ہیں۔

مگر یہ تدریجی لذت بخش و پرکیف سفر اور جدوجہد اُسی کیلئے ہے جو علم و حکمت کا متلاشی اور تعلیم و تربیت کرنے کا شوقین ہو، جو اپنی نجی زندگی میں بھی اور سماجی زندگی میں بھی اس تحقیق کے نچوڑ پر عمل پیرا ہو اور دوسروں کیلئے بھی مواقع فراہم کرے وہ بھی تدریجاََ ان عقلی و منطقی قوانین پر عمل پیرا ہوکر نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کیلئے بھی زندگی کو لذت بخش بنائیں/ تربیت کریں۔

خالق کائنات سے دعا ہے کہ ہم سب کے ایمان کو کامل فرمائے نیز انسانی سماج کی خدمت کی ایسی توفیق عطا فرمائے جس سے خدا اور اُس سے منتخب بندے راضی و خوشنود ہوں ،ہم کو عشق و تحقیق و جہاد کا نمائندہ قرار دے کر اپنے ولی کی نصرت کے قابل بنائے۔ آمین یا رب العالمین
تحریر: سید جہانزیب عابدی ۔۔۔۔20 ذی الحجه 1436 - 5 اکتوبر 2015، کراچی
 
سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 94 Articles with 71105 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.