توحید اسلامی تعلیمات کا سرچشمہ
ہے ، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی کو اس کی ذات وصفات اورربوبیت
والوہیت میں ایک جانا جائے ، اسی سے لو لگایاجائے ،اسی پر بھروسہ کیا جائے
،اسی سے ڈرا جائے ،اسی کے سامنے ہاتھ پھیلایا جائے اور اسی کو نفع ونقصان
کا مالک سمجھا جائے ۔ جب توحید کے اس تصور میں کمی آتی ہے تو انسان کا رشتہ
اپنے خالق ومالک سے کمزور پڑنے لگتا ہے اور اسی کے ساتھ بدشگونی ،بدفالی
اور نحوست پیداہوتی ہے ۔ بدشگونی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کام کے کرنے کاپختہ
ارادہ کرچکاہوں لیکن کوئی بات سن کر یا کوئی چیز دیکھ کر وہ کام کرنے سے رک
جائے ۔ بدفالی کی یہ روایت زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے ،انبیاءورسل کے
دشمنوں نے حق وہدایت کو رد کرنے کے لیے اسی ہتھیار کو استعمال کیا اور
بدشگونی لی کہ ان کی دعوت قبول کرنے کے نتیجے میں ہم پر مصیبتیں اور آفتیں
نازل ہوںگی ۔ زمانہ جاہلیت میں مشرکین جب کوئی کام کرنا چاہتے یا سفر کا
ارادہ کرتے توصبح تڑکے پرندوں کے گھونسلوں کے پاس جاکر اسے اڑاتے ،اگر
پرندہ دائیں جانب اڑتا تو نیک فال تصور کرتے ہوئے ارادے کو عملی جامہ
پہناتے اور اگر بائیں جانب اڑتا تو بدشگونی لیتے ہوئے سفر سے گریز کرتے ۔
جب اسلام آیا اور لوگوںنے اسلام کو گلے لگاکر توحید خالص پر تربیت حاصل کی
تو ان کے اندر سے اس طرح کی تمام بدشگونیا ںخود بخود جاتی رہیں ۔ لیکن
صدحیف جب قوم مسلم اسلامی تعلیمات سے دور ہوئی اور غیرقوموں کی معاشرت
اختیار کی تو ان کے اندر جہاں بہت ساری خرابیاں پیدا ہوئیں ان میں بدشگونی
کے جاہلی طریقے بھی درآئے جودر حقیقت برصغیر پاک وہند میں ہندو معاشرت کے
اثرات کا نتیجہ ہے ۔ آج مسلمان بھی سمجھتے ہیں کہ بلی راستہ کاٹ دے تو سفر
ملتوی کردینا چاہیے ،الو کا بولنا نحوست کی علامت ہے ،اگر بہو کے گھر آنے
کے بعد سسرال میں کسی کا انتقال ہوجائے تو بہو کو منحوس سمجھاجانے لگتا ہے
۔ گھر کی تعمیر شروع ہو تو ناریل پھوڑے جاتے ہیں ،گاڑی خریدی جائے تو چند
لیموں لٹکائے جاتے ہیں ۔ ایک بچے کی موت کے بعد دوسرا بچہ پیدا ہوتو اس کے
ناک میں سوراخ کردیاجاتا ہے مباداکہ وہ بھی مرجائے ۔ بعض افریقی ممالک میں
بچے کی ولادت کے بعد چہرے کو داغدار کرنے کی نحوست بڑے پیمانے پر اب تک
پائی جاتی ہے ۔ بعض علاقوںمیں شب برات میں اچھی ڈشیں تیار کی جاتیں اور
تھالیاں نکال کراس عقیدے کے ساتھ اندرون خانہ رکھی جاتی ہیں کہ مردے
آباءواجداد اس رات گھر تشریف لاکر کھانے سے تناول فرماتے ہیں اگر ایسا نہ
کیا گیا تو گھر میں نحوست داخل ہوجاتی ہے ۔ بعض مقامات پر دنوں اور مہینوں
کو منحوس سمجھاجاتا ہے ، کچھ لوگ بدھ کے دن کو منحوس سمجھتے ہیں تو کچھ لوگ
صفر کے مہینے سے بدفالی لیتے ہیں ۔ ہندوستان کے بعض علاقوں میں ماہ صفر کا
چاند دیکھتے ہی انڈے اور کالی مرغیاں نکال کر غریبوں میں صدقہ کرنا شروع
کردیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر ایسا نہ کیاجائے تو گھرمیں کسی طرح کی
آفت آسکتی ہے ۔ کچھ لوگ محرم اور صفر ان دو مہینوں میں شادی بیاہ کو نحوست
کی علامت سمجھتے ہیں ۔
حقیقت خرافات میں كھوگئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
زمانہ جاہلیت میں ماہ شوال میں شادی بیاہ کو منحوس سمجھاجاتا تھا ،ان کا
تصور تھا کہ اس مہینے میں جو شادیاں ہوتی ہیں ان سے میاں بیوی کے تعلقات
اثر انداز ہوتے ہیں اور ان میں آپسی الفت ومحبت پیدا نہیں ہوپاتی ۔ اس
سلسلے میں حضرت عائشہ رضى الله عنها فرماتی ہیں : مَا تَزَوَّجَنِی رَسُو
لُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم اِلاّ فِی شَوَّالَ وَمَادَخَلَ بِی اِلّا
فِی شَوَّالَ فَمَن کَانَ اَحظٰی مِنِّی عِندَہ (رَوَاہُ مُسلِم) ”رسول
اکرم صلى الله عليه وسلم نے مجھ سے شوا ل میں شادی کی اور شوال ہی میں میری
رخصتی ہوئی ، اب ذرا بتاؤ (ازواج مطہرات میں) آپ صلى الله عليه وسلم کے
نزدیک مجھ سے زیادہ قریب کون تھیں؟ “۔ مائی عائشہ صدیقہ رحمها الله کی
خواہش ہوتی تھی کہ ان کے گھر کی لڑکیا ں ماہ شوال میں بیاہی جائیں ۔
بدفالی کے نقصانات
بدفالی انسان کے دین اور دنیا دونوں کے لیے بہت زیادہ خطرناک ہے ، یہ انسان
پر وساوس وخطرات کے مختلف دروازے کھول دیتی ہے، چنانچہ وہ ہر چیز سے ڈرنے
لگتا ہے، ہر چھوٹی بڑی چیز اس کے لیے ڈراونی بن جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ
اپنی پرچھائی سے بھی خوف کھانے لگتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ دنیا کی ساری
بدبختی اور شقاوت اسی کے گرد جمع ہوچکی ہے اور دوسرے لوگ پرسکون زندگی گزار
رہے ہیں، ایسا شخص دوسروں کو بھی توہم کی نگاہ سے دیکھتا ہے جس سے دلوں میں
کدورت پیدا ہوتی ہے ۔ اسی لیے امام ماوردى رحمه الله لکھتے ہیں: اِعلَم
اَنَّہ لَیسَ شَیء اضَرُّ بِالرَّائیِ وَلَا افسَدُ لِلتَّدبِیرِ مِن
اِعتَقَادِ الطِّیَرَةِ ”جان لو! کہ بدشگونی سے زیادہ فکر کو نقصان پہنچانے
والی اور تدبیر کو بگاڑنے والی کوئی شے نہیںہے “۔ (ادب الدین والدنیا ص
376) یہ نقصانات تو اپنی جگہ پر ‘تاہم بدشگونی کا سب سے پہلا ضرب عقیدہ
توحید پر پڑتا ہے ،کیونکہ بدشگون لینے والے کا اعتماد اللہ سے اٹھ جاتا ہے
اور اس سے بڑھ کر مصیبت اور کیا ہوگی کہ انسان اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو
بھی نفع ونقصان کا مالک سمجھ بیٹھے ۔اسی لیے علماءنے صراحت کی ہے کہ بدفالی
کبیرہ گناہوں میں سے ایک عظیم گناہ ہے بلکہ شرک ہے ، اللہ کے رسول صلى الله
عليه وسلم نے فرمایا: الطِّیَرَةُ شِر (ابوداؤد، ترمذی ) ” بدفالی شرک ہے “
۔ اور رسول پاک ا نے بدفالی لینے والوں سے اپنی برأت کا اظہار فرمایا:
لَیسَ مِنَّا مَن تَطَیَّرَ أو تُطُیِّرَ لَہ (رواہ البزار باسناد جید) ”جس
نے بدشگون لیا یا جس کے لیے بدشگون لیا گیا وہ ہم میں سے نہیں ہے “۔
البتہ بدفالی لینے والے کے حالات کے اعتبار سے اس پر حکم کا انطباق ہوگا
(1) جب بدفالی کا خیال آیا اور اس کی پرواہ کیے بغیر اپنا کام کر گذرا تو
ایسی صورت میں بدفالی کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ اس طرح کے خیالات کا پیدا
ہونا عام بات ہے۔ اسی لیے حضرت ابن مسعود رضي الله عنه نے فرمایا: وَمَا
مِنَّا اِلاَّ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یُذ ھِبُہ بِالتَّوَکُّلِ (رواہ ابوداؤد
والترمذی وصححہ)” ہم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جسے ایسا وہم نہ گذرتا ہو
لیکن اللہ تعالی توکل سے اس کو دفع کردیتا ہے “۔
(2) بدفالی کا خیال آیا تو اس نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور اپنا کام
کرگذرا البتہ اس کے دل میں ایک طرح کی بے چینی پیدا ہوگئی کہ مبادا اس کا
اثرظاہر ہوجائے تو یہ مکروہ ہے تاہم شرک کے زمرے میں نہیں آتا ۔
(3) بدفالی کا خیال آتے ہی ڈرکر اپنے کام سے رک جائے تو یہ سراسرشرک ہے ۔
اللہ کے نبی ا نے فرمایا: مَن رَدَّ تہُ الطِّیَرَةُ عَن حَاجَتِہ فَقَد
اشرَکَ ( احمد) ”جسے بدفالی اپنے کام سے روک دے اس نے شرک کیا“ غرضیکہ
بدشگونی انسان کی انفرادی اوراجتماعی زندگی اور سب سے پہلے عقیدہ توحید کے
لیے ناسور کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ والوں نے بدشگونی کی سختی
سے مذمت فرمائی اور اس سے بچنے کی تاکید کی ۔
حضرت عکرمہ رحمه الله كہتے ہیں :” ایک دن ہم لوگ حضرت ابن عباس رحمهما الله
کے پاس بیٹھے تھے ۔ ہمارے پاس سے ایک چڑیا چہچہاتی ہوئی گذری ۔ مجلس کے
حاضرین میں سے کسی نے کہا: خیر ہی ہوگا ۔ آپ نے فورا ً نکیر فرمائی اور کہا
: نہ خیر ہوگا نہ شر ہوگا ۔ یعنی ایک پرندہ چہچہاتے ہوئے اڑ رہا ہے تو اس
میں خیر اور شر کی کیا بات ہے“ ۔ (التمہید12/194)
امام طاؤس رحمه الله اپنے کسی ساتھی کے ہمراہ سفرمیں تھے ،ان کے ساتھی نے
کوے کی آواز سنی تو کہا: خیر ہوگا ۔یہ سنتے ہی آپ کے چہرے پر ناگواری کے
آثار ظاہر ہوگئے ، آپ نے فرمایا: ا یُّ خَیرٍ ھٰذَا ، لَاتَصحَبنِی ”آخر اس
میں خیر کی کونسی بات ہے ، میرے ساتھ مت جاؤ “۔
خلافت فاروقی کے زمانہ میں دریائے نیل ہرسال خشک ہوجایا کرتا تھا ،جہالت کی
بنیاد پر لوگ بدشگون لیتے کہ سمندر کو جان کی طلب ہے ۔ مصر کے گورنر حضرت
عمروبن عاص رضي الله عنه نے صورتحال کی نزاکت سے امیر المؤمنین کو باخبر
کیا : آپ نے دریائے نیل کے نام ایک مکتوب لکھا اور تاکید کی کہ اسے سمندر
میں ڈال دیاجائے ۔ آپ نے لکھا تھا ”اے سمندر! اگر تو اللہ کے حکم سے جاری
ہے تو تجھے حکم دیتا ہوں کہ جاری ہوجا، اور اگر اللہ کے حکم سے جاری نہیں
تو ہمیں تمہاری ضرورت نہیں “ ۔ قاصد مکتوب لایا اور اسے دریا میں ڈال دیا ۔
پھر کیا تھا ، دیکھتے ہی دیکھتے سمندر پانی سے بھر گیا ، تب سے مسلسل اب تک
جاری وساری ہے ۔
کیا بیماری متعدی ہوتی ہے ؟
اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : لَا عَد وَی
وَلَاطِیَرَةَ وَلَا ھَامَةَ وَلَا صَفَرَ (متفق علیہ ) ”ایک کی بیماری
دوسروں کو نہیں لگتی ،نہ بدفالی کوئی چیز ہے ، نہ اُلو کا بولنا کوئی اثر
رکھتا ہے ، نہ صفر کی کوئی حقیقت ہے “۔ اس حدیث سے کسی کو یہ اشکال پیدا
ہوسکتا ہے کہ آج اطباءنے بعض بیماریوں کے متعدی ہونے کا اثبات کیا ہے جبکہ
حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایک کی بیماری دوسروں کو نہیں لگتی تو اس کا جواب
یہ ہے کہ حدیث میں بیماری کے متعدی ہونے کی نفی نہیں بلکہ جاہلی دور کے اس
تصور کی نفی ہے کہ بیماریاں خود بخود متعدی ہوتی ہیں،ان میں اللہ کی مرضی
کا کوئی دخل نہیں ہوتا ،اللہ کے رسول ا نے اس تصور کی سراسر نفی کردی اور
کہا کہ کوئی بھی بیماری بذات خود متعدی نہیں ہوتی بلکہ اللہ کی مرضی کے
تابع ہوتی ہے ۔ حافظ ابن رجب رحمه الله لکھتے ہیں : ”لاعدوی کے معنی میں
علماءکا اختلاف ہے،اور اس سلسلے میں راجح قول یہ ہے کہ اس میں اہل جاہلیت
کے اس عقیدے کا انکار ہے کہ بیماریاں خود بخود متعدی ہوتی ہيں، اس میں اللہ
کی مشیت کا کوئی دخل نہیں ہوتا “ ۔ لہذا اگر کسی کو بیماری لگتی ہے تو اس
میں بھی اصل سبب اللہ کی مشیت ہی کو سمجھنا چاہیے نہ کہ کسی بیماری کو ‘
کیونکہ اگر بیماری ہی اصل سبب ہوتو پھر ایک گھر میں متعدی مرض میں مبتلا
ایک شخص کی وجہ سے گھر کے تمام افراد کو اس بیماری میں مبتلا ہوجانا چاہیے
جبکہ واقعتا ایسا نہیں ہوتا ، صرف ایک دو شخص ہی بیمار ہوتے ہیں جس کے صاف
معنی ہیں کہ متعدی مرض میں بھی اصل سبب بیماری نہیں اللہ کی مشیت ،اس کی
تقدیر اور فیصلہ ہی ہے ۔ لیکن اسلام نے اسباب کو نظر انداز نہیںکیا اور
بیماریوں کے اسباب سے بچنے کی تاکید فرمائی ۔ چنانچہ اللہ کے رسول انے
بیمار اونٹوں کی بابت فرمایا: لَایُو ردُ مُمرِض عَلٰی مُصِحٍّ (متفق علیہ)
یعنی بیمار اونٹ تندرست اونٹ کے پاس نہ لائے جائیں ۔ اور طاعون کی بابت
فرمایا:اِذَا سَمِعتُم بِالطَّاعُونِ بِاَرضٍ فَلَا تَدخُلُوا بِھَا(متفق
علیہ) ”جب تم سنو کہ کسی سرزمین میں طاعون کی وبا پھیل چکی ہے تو وہاں مت
جاؤ “۔ اسی مصلحت کے تحت مجذوم کے ساتھ نشست وبرخواست کرنے سے بھی روکا گیا
جیساکہ ارشاد نبوی ہے فٍرِّمِنَ المَجذُومِ فِرَارَکَ مِنَ
الاَسَدِ(مسنداحمد، صححہ الالبانی ) ”مجذوم سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے
بھاگتے ہو “ ۔ یہ دراصل شریعت کے احتیاطی تدابیر ہیں تاکہ کسی کو یہ شبہ نہ
ہو کہ ایسا کرنے کی وجہ سے اسے فلاں بیماری لاحق ہوئی ہے ۔ بدشگونی سے
نجات کیسے پائیں ؟
اب سوال یہ ہے کہ بدشگونی سے نجات پانے کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟تو آئیے ذیل
میں ہم اس کا علاج ڈھونڈتے ہیں
(1) اس بات پر پختہ یقین کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اللہ رب العالمین کی طرف سے
ہوتا ہے ،اللہ جو چاہے وہی ہوگا ،جو نہ چاہے وہ نہیں ہوسکتا ۔ وہی نفع اور
نقصان کا مالک ہے ، وہی بخشنے والا اور محروم کرنے والا ہے ۔ اس کے علاوہ
کوئی ایسی ذات نہیںجو ہمارے مسائل حل کردے یاہماری بگڑی بنادے ۔ (اس نکتے
کی مزید وضاحت کے لیے اس شمارے میںشائع شدہ محترم ڈاکٹر حافظ محمداسحاق
زاہد صاحب کے مضمون ”نفع ونقصان کامالک کون؟“کا مطالعہ کریں )
(2) جب اس طرح کے خیالات دل میں پیدا ہوں تو فوری طورپر اس کا کفارہ
اداکریں جس کا ذکر مسند احمد کی ایک حدیث میں آیا ہے ،اللہ کے رسول ا نے
فرمایا: ”جسے بدفالی اپنے کام سے روک دے اس نے شرک کیا “ لوگوںنے پوچھا:
”اس کا کفارہ کیا ہوگا ؟“ آپ نے فرمایا : یہ کہے : اللّٰھُمَّ لَاخَیرَ
اِلَّا خَیرُکَ وَلَاطَیرَ اِلَّا طَیرُکَ وَلَااِلٰہَ غَیرُکَ۔ ”اے اللہ !
تیری بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں اور تیرے نقصان کے سواکوئی نقصان نہیں
“۔ (رواہ الاما م احمد وحسنہ الارناؤوط)
(3) جب کسی بات کو سن کریاکسی کام کو دیکھ کر ایک شخص کے دل میں بدشگونی کے
خیالات پیدا ہورہے ہو ں تو اسے چاہیے کہ وہ بدفالی لینے کی بجائے اس سے نیک
فال لے اور حسن ظن پر محمول کرے ۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کو نیک
فال پسند تھا ۔ حضرت انس رضي الله عنه کا بیان ہے اللہ کے رسول صلى الله
عليه وسلم نے فرمایا: لَاعَدوَی وَلَاطِیَرَةَ وَیُعجِبُنِی الفَألُ ”یعنی
ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی نہ بدفالی کوئی چیز ہے البتہ نیک فال
مجھے پسند ہے۔لوگوں نے پوچھا : نیک فال کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا: عمدہ
لفظ جو انسان دوسرے سے سنتا ہے “۔ (بخاری ومسلم ) مثلاً ایک بیمار شخص لفظ
”سالم“ سن کر اپنی بیماری سے شفایابی کا خیال کرتا ہے ،یا ایک شخص کوئی کام
کررہا ہے اور اسی اثناء”سہل“(آسان) یا افلح(کامیاب) سنا اور اپنے معاملہ کے
آسان ہونے کا خیال کیا تو ایسا کرنا صحیح ہے بلکہ مطلوب ہے ۔ کیونکہ نیک
فال اللہ تعالی سے حسن ظن کی علامت ہے جبکہ بدفالی اللہ تعالی سے سوءظن کی
علامت ہے ۔ اسی طرح نیک فال سے دل میں سکون پیدا ہوتا ہے ،طمانینت حاصل
ہوتی ہے |