انسان کی پیدائش سے ہی اُس کا
سلسلہ اس جہاں فانی سے رُخصتی کا بھی شروع ہو جاتا ہے۔بلکہ یہ کہا جانا
زیادہ بہتر ہو گا کہ انسان ہمیشہ سے نہیں تھا لیکن ہمیشہ رہے گا۔ کہاں ؟
یہاں نہیں وہاں جہاں کیلئے اس دُنیا کو امتحان گا ہ بنایا گیا ہے۔لہذا اس
حجت کو کہ ہمیں معلوم نہ تھاکہ ہم اُس مقام کو کیسے پا ئیں گے کیلئے اس
دُنیا میں انبیاء ؑ و کُتب آسماوی کا ایک سلسلہ جاری رہا ۔جن سے دُنیا میں
ایک ایسی زندگی گزارنے کے دینی و دُنیاوی اصلاحی واخلاقی اصول واضح کیئے
گئے جو ہمیشہ کی کامیابی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ خیر و بقاء اور حوادث و
شر کی اس دُنیا میں معاملات کے سلسلوں کا رُخ صرف اُس ذات کی طرف ہی ہو نا
چاہیئے جو اپنے بندے کیلئے صرف خیر کے معاملے کو ہی اہمیت دیتا ہے۔
اچھائی کی ترغیب دینا اور بُرے کاموں سے روکنا :
تما م معاملات کی جڑ قرار پایا اور اس کیلئے دوسروں کے حقوق ادا کرنے کو
اولین ترجیع دی گئی تاکہ جب معاشرے میں ایسا عمل تقویت حاصل کرے گا تو حق
مانگنے والے ڈھونڈے سے بھی نہ ملیں گے۔لیکن انسان کی نفسیانی خواہشات اور
شیطانی ترغیبات اُس پر غالب رہتی ہیں اور وہ دُنیا کے سحر میں ایسا مبتلا
ہو تا ہے کہ وہ اچھائی کی ترغیب تو دیتا ہے لیکن خود فیصلہ نہیں کر پاتا کہ
کیا وہ اُن بُر ے اعمال سے دُور ہے جن کی معاشرے میں ممانت ہے۔
یہ سحِر کیا ہے؟
اسکو یہاں بیان کر کے محدود کرنا مقصود نہیں ۔کیونکہ ہر کسی کا اس پر متفق
ہو جانا ممکن نہیں ۔ہاں موضوع کے مطابق کسی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ" خواہشات
کی کثرت"۔یعنی ایک عام مقولہ "سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں"۔بہرحال اس
میں سب سے پہلی خواہش وہ مقام و عہدہ ہے جسکے سحر میں فردِ واحد آ کر رہتا
ضرور ہے۔میری مانو!یہ اُس کا پہلا اصول ہوتا ہے اور اسکے لیئے وہ ہر حربہ
استعمال کرتا ہے تاکہ اپنے مقام کی اہمیت کو دوسروں کے سامنے قائم رکھ
سکے۔دوسرا دولت کی وہ ہوس جس کی وجہ سے حقوق العباد میں عام طور پر کوتاہی
ہو جاتی ہے۔یہی دونوں انسان کی آدمیت کو ظاہر کرتی ہیں اور پھر وہ حسد ،کی
آگ میں جلتا ہوا غیبت ،چغلی ،جادو ٹونااور دوسرے بے شمار غیر اخلاقی طریقوں
کو اپنانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
اعمال کی ٹوکوی:
بھرنی شروع ہو جاتی ہے اور فیصلہ کرنا مشکل ہوتا چلا جا تا ہے کہ کیا جس
راہ کا تعین کیا ہوا ہے وہ وہاں ہی جاتی ہے جہاں کی تیاری کیلئے اس دُنیا
میں آئے تھے۔کیونکہ یہاں تو ناقابلِ شکست کو بھی میدان میں اُترتے ہوئے اس
بات کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں اس دفعہ شکست ہو ہی نہ جائے۔لیکن اس کے باوجود
"میں ،میرا ،مجھے" ایک طرف اور دوسری طرف خاندانی مطالبات ،دوست احباب سے
تعلقات ہر وہ کچھ کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں جن سے الگ رہنا ہر ایک لیئے
ممکن نہیں۔یہ بھی جانتا ہے کہ سبق سب پڑے ہوئے ہیں اور سنتے بھی ہیں ۔یہ تو
منزل ہی کچھ نہیں "ایک عروج و زوال"کی کہانی ہے۔منزلیں تو آگے ہیں اور اُن
میں پہلی منزل!
قبر ۔اوہ ! جہاں سوالات کے جوابات میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں:
معاملات دُنیا کے دوران جب کسی کی موت کی خبر آتی ہے تو بڑے سخت دل کے دل
میں بھی اس حقیقت کی دیا سلائی جلتی ہے اور وہ بھی خوف کے اس پہلو کو نظر
انداز نہیں کر سکتا ۔بہرحال اُس خبر پر مرنے والے کے عزیز و اقارب میت کی
تجہیر و تکفین کیلئے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور سب سے پہلا معاملہ قبر تیار
کروانے کا ہی آتا ہے۔سخت سردی ہو اور کہیں برف بھی پڑھ رہی ہو ،بارش ہو رہی
ہو یا سخت گرمی اور اوپر سے ایسا وقت ہو کہ دھوپ کی شدت انتہاء کی ہو میت
کو سپردے خاک کرنے کیلئے آخر وقتِ مقررہ پر قبرستان لیکر جایا ہی جاتاہے
تاکہ اُس کے جستِ خاکی کو اُس مٹی کے سپرد کر دیا جائے جو پہلے دن سے اُسکے
مقدر کا اہم حصہ تھی۔
واہ!قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ جس مٹی میں اُ س کو دفن کرنے کا بندوبست کیا
جا رہا ہے ہر طرح کے موسم کے باوجود ٹھنڈی ہے۔پھر چند لمحوں بعدمیت کو لحد
میں اُتارنے کے بعد مٹی میں دفن کر کے افراد دُعا کر کے واپس مصروفیاتِ
دُنیا کی طرف قدم بڑھاتے ہیں اور قبر میں دفن ہونے ولا جان چکا ہوتا ہے کہ
سحِر ٹوٹ گیا اور اب وہ پہلی منزل آہی گئی جس میں سوالات کے جوابات میں
غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔باہر کا موسم کیا ہے وہ نہیں جانتا لیکن وہ یہ
جان جاتا ہے کہ ابھی چند لمحوں بعد اندر کا موسم اُس کیلئے موافق ہو گا کہ
نہیں؟
کافر کہے گا "کاش میں مٹی ہوتا" :
بس میت کو سپردے خاک کر کے جانے والوں میں سے بھی چند کے ذہین میں یہ ہی
سوال ہو گا کہ آج ہمارے ساتھی کے ساتھ قبر میں کیا ہو گا؟ اگر تو ٹھنڈی ہوا
کا رُخ ہوا تو قیامت کی گھڑی تک سکون کی نیند سوئے گا اور اگر گرم ہوا کی
لپٹ میں آگیا تو کتنا مشکل وقت ہوگا ۔بلکہ جیسا قرآنِ مجید میں واضح ہے کہ
قیامت کی گھڑی آنے پر جب قبر سے اُس کو اُٹھایا جائے گا تو کافر تو صاف کہہ
دے گا کہ "کاش میں مٹی ہوتا "۔یعنی یہ وقت جومیں نے قبر میں گزارہ ہے وہی
ناقابلِ برداشت تھا تو اب جو حساب کتاب کے بعد معاملہ ہونے والا ہے وہ کتنا
سخت گیر ہو گا؟کیسی پکڑ ہو گی؟ دُنیا میں غرور کرنا ناکامی کی وجہ بنے گایا
دولت کا نشہ، عہدے پر ناانصافی کے فیصلے لے بیٹھے ہیں یا حقوق العبادادا نہ
کرنے کی وجہ سے جو چند نیکیاں کی تھیں وہ بھی کھو دی ہیں؟
ہائے میں صرف قبر کی حقیقت ہی کو جان جاتا تو اُن اللہ تعالیٰ کے معزز
لوگوں کی پیروی کرنے کی کوشش کرتا جو کہا کرتے تھے کہ سنبھل جا۔خطا نہ کھا
جانا ۔
ایسے کیسے ہو گا؟
جدید معاشرہ مادیت پرستی کی پیداوار بن چکا ہے۔جا بجا حکومتیں و عوام اس کے
گھیرے میں آتی جا رہی ہیں۔اخلاص ،اصلاح ،اد ب و آداب سب کی قیمت مقرر کی
جارہی ہے۔رہن سہن میں تبدیلی اخلاقی اقدار سے دور کرتی جا رہی ہے۔میرا
کمرہ،میرا باتھ روم، جیسے الفاظ نے والدین کی اہمیت تک کم کر دی ہے۔بلکہ آج
تو یہ عام ہوچکا ہے کہ جن والدین نے اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلوا کر
بہترین مقام پر پہنچایا ہے وہ اُن کو ہی چھوڑ کر اپنے بیوی بچوں کو لیکر
دوسرے ممالک میں ملازمت کر رہے ہیں ۔کہتے ہیں اپنے بچے کے مستقبل کیلئے۔
کیا اُنکے والدین نے اُنکا مستقبل بنانے کیلئے زندگی میں یہ سوچا تھا کہ آج
وہ اکیلے میاں بیوی صرف اولاد کا انتظار ہی کریں گے۔
آگے بڑھتے ہیں تو ہمیں ایک بڑی تعداد میں وہ طبقہ پیدا ہوتا ہوا نظر آرہا
جو اس مادیت پرستی کے دور میں دوسروں کا مال کھانا اپنا حق سمجھ رہا ہے۔
لہذا اب سوال یہ ہے کہ یہ ٹھیک کیسے ہو گا؟ جبکہ دین پر بھی سب ہی ہیں۔بس
یہی ہے وہ اہم معاملہ جوا س بحث میں زیرِ غور رہا ۔ دین پر ہونا اور دین کو
اپنانا میں فرق کرنا پڑے گا۔اپنانے والوں کو ڈھونڈ کر اُنکی علم وذکر کی
محفلوں کی رونق بڑھانی پڑ ے گی۔ دل روشن ہونگے تو معاملات کو ٹھیک کرنے کی
فکر لاحق ہو جائے گی۔ پہلے ایک قدم بڑھائے گا اور پھر دوسرا اور پھر ایک
مجمع۔
آئیں یہ فیصلہ کریں کہ پہلا قدم بڑھانے والا میں ہی ہوں ! |