مقامِ رسالتؐ: قرآن کی روشنی میں
(Aqeela Farnaz Khan, Lahore)
بلا شبہ قرآن مجید ہر اعتبار سے
ہدایت ہے ،لیکن یہ نہیں ہے کہ قرآن میں ہر معاملے سے متعلق ہدایت کو ایک
جگہ جمع کر دیا گیا ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلام کی سیاسی تعلیمات کسی ایک
سورت میں آ گئی ہوں۔ معاشی تعلیمات کسی دوسری سورت میں یکجا بیان ہو گئی
ہوں۔ بلکہ قرآن مجید کا اسلوب خطبہ کا ساہے۔ خطبہ میں ایک ہی موضوع کے اندر
کئی موضوعات آجاتے ہیں، اور کسی اہم واقعہ کے بین السطور میں ہی تبصرہ کرتے
ہوئے ایسی راہنمائی دے دی جاتی ہے، جو ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اسلامی
زندگی کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ جو کچھ رسول تمہیں عطا کر یں اسے خوشدلی
سے قبول کر لو اور جس چیز سے روک دیں، اس سے رک جائو۔ارشادِ ربانی ہے:’’سو
جو چیز تم کو پیغمبرؐ دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں(اس سے) بازرہو۔‘‘
(الحشر:۷) یعنی رسول جو کچھ تمہیں بتا رہے ہیں وہ سب کا سب دین ہے۔ وہ اللہ
کا فیصلہ اور اُس کا حکم ہے۔ اس لیے کہ آپؐ کوئی بھی بات اپنی طرف سے نہیں
فرماتے، بلکہ جو کچھ فرماتے ہیں وہ اللہ ہی کے اذن سے ہوتاہے۔ ’’اور نہ
خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں، یہ تو اللہ کا حکم ہے جو(ان کی طرف)
بھیجا جاتا ہے،‘‘ (النجم: ۳تا ۴) اللہ کے نبیؐ کی بات بھی وحی کی بنیاد پر
ہوتی ہے، اگرچہ وہ وحی غیر متلو ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ
رسولِؐ خدا نے جو حکم دیا ہے یہ قرآن میں کہاں آیا ہے؟کسی کو بھی یہ پوچھنے
کااختیار نہیں ہے۔ اس لئے کہ جس ہستی نے قرآن نازل کیا ہے، اُسی نے حضورؐ
کو یہ اتھارٹی عطا فرمائی ہے کہ آپ ؐ کی اطاعت کی جائے، اس لئے کہ آپؐ کی
اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہے ۔ اللہ فرماتا ہے: ’’اورہم نے کسی رسول کو نہیں
بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اُ س کی اطاعت کی جائے‘‘ (النسا:۴۶)
’’جو شخص رسولؐ کی فرمانبرداری کرے گا تو بے شک اس نے اللہ کی فرمانبرداری
کی۔‘‘ (النسا:۰۸) رسول( معاذ اللہ) ڈاک کا ہرکارہ نہیں ہوتا، جیسے کہ آج کل
منکرین حدیث کے ہاں تصور پایا جاتا ہے، بلکہ اللہ کا نمائندہ ہوتا ہے، جس
کی اطاعت لازم ہے۔ انکارِ حدیث کا فتنہ ہمارے ہاں سرسید احمد خان ہی کے دور
سے شروع ہو گیا تھا۔بعد ازاں یہ فتنہ بڑھتا رہا ۔ غلام احمد پرویز کی صورت
میں یہ کھل کر سامنے آیا۔آج اسی کا ظہورہم ایک ’’جدید سکالر‘‘ کی شکل میں
دیکھ رہے ہیں جو حدیث اور سنت کواُس کا اصل مقام دینے کے لیے تیار نہیں
ہیں۔ اسی وجہ سے دین کی عجیب و غریب تعبیرات کر رہے ہیں۔ داڑھی کے بارے میں
پوچھیں تو کہہ دیں گے کہ داڑھی کا قرآن میں ذکر نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا
کہ (معاذ اللہ)جو چیز قرآن میں نہیں ہے، اس کا دین میں کوئی مقام نہیں ہے۔
کیا حضورؐ کے اقوال، آپ ؐ کا عمل، آپ ؐ کی تائید دین نہیں ہے؟اگرچہ اطاعت
اصلاً اللہ تعالیٰ کی ہے جو رب العالمین ہے ، مالک الملک اور خالق وآقا ہے،
لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی بندے کو کامل اتھارٹی کے ساتھ اپنا
نمائندہ بنا کر بھیجا، تو اب کسی کے لیے یہ گنجائش نہیں ہے کہ اللہ کے
نمائندے کی بات کو حجت تسلیم نہ کرے۔ جب اللہ خود یہ کہتا ہے کہ میرا
نمائندہ جو کچھ کہے وہ میری ہی طرف سے ہوتا ہے، توپھر اُس کی اطاعت میں
کوئی شبہ نہ رہا۔ اِس آیت کی تشریح ایک حدیث سے ہوتی ہے، جس کے راوی حضرت
ابو ہریرہؓ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا :’’جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں توپھر
اس کو بجا لائو (اس پر عمل کرو) جتنی تمہارے اندر استطاعت ہے۔ اور جس بات
سے میں روک دوں اس سے باز آئو جائو۔ ‘‘ یعنی مجھے یہ اتھارٹی اللہ نے دی ہے
۔ لہٰذا میں جس چیز کا حکم دوں وہی دین ہے، اس کو تھام لو، اور جس سے روک
دوں اس سے باز آجائو ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں عہد صحابہؓ کا ایک دلچسپ واقعہ
ہے۔بخاری کا بیان ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اللہ کی لعنت
ہو گودنے والیوں اور گدوانے والیوں پر اور(سفید بال) نوچنے والیوں پر اور
خوبصورتی کے لئے دانتوں کی جھریاں بنانے والیوں پر اور تخلیق خداوندی کو
بدلنے والیوں پر۔‘‘ حضرت ابن مسعودؓ کے اس قول کی اطلاع بنی اسد کی ایک
عورت کو پہنچی تو وہ آئی اور حضرت ابن مسعودؓ سے کہا مجھے خبر پہنچی ہے کہ
آپ نے ایسی ایسی عورت پر لعنت کی ہے۔ ابن مسعودؓ نے فرمایا، اللہ کے رسول
نے جس پر لعنت کی ہے(اور جن کے احکام کی پابندی کی ہدایت اللہ کی کتاب میں
موجود ہے انہوں نے لعنت کی) میں ایسی عورتوں پر لعنت کیسے نہ کروں۔ اس عورت
نے کہا دونوں لوحوں کے درمیان جو کتاب موجود ہے میں نے وہ (ساری) پڑھی۔ اس
میں تو کہیں مجھے نہیں ملا۔ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا تو نے کتاب اللہ
پڑھی ہی نہیں۔ اگر پڑھتی تو تجھے(یہ حکم) مل جاتا۔ کیا تو نے نہیں پڑھا کہ
اللہ نے فرمایا ہے: ’’سو جو چیز تم کو پیغمبرؐ دیں وہ لے لو اور جس سے منع
کریں(اس سے) بازرہو۔‘‘(الحشر:۷) عورت نے کہا کیوں نہیں (یہ آیت تو میں نے
پڑھی ہے)۔ فرمایا تو اللہ کے رسولؐ نے(ایسا کرنے کی) ممانعت کر دی ہے۔
چنانچہ اس عورت نے آپؓ کے ساتھ کوئی بحث و مباحثہ نہ کیااوربات فوراً قبول
کر لی۔حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ایک شخص کو احرام کی حالت میں سلے ہوئے
کپڑے پہنے دیکھا تو حکم دیا کہ یہ کپڑے اُتار دو۔ اس شخص نے کہا کہ آپ اس
کے متعلق مجھے قرآن کی کوئی آیت بتا سکتے ہیں؟ جس میں سلے ہوئے کپڑوں کی
ممانعت ہو۔ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا، ہاں وہ آیت میں بتاتا ہوں۔ پھر یہی
آیت وَمَآ اٰتٰٹکُمُ الرَّسُوْلُ پڑھ کر سنا دی۔ اس آیت کی تفسیر میں
مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں: ’’یہاں رسول کا یہ درجہ جو واضح فرمایا
گیا ہے کہ جو کچھ وہ دے وہ لے لو اور جس سے روکے اس سے رک جائو،اگرچہ اس کا
ایک خاص محل ہے لیکن اس سے جو حکم مستنبط ہوتا ہے وہ بالکل عام ہو گا۔ یعنی
زندگی کے ہر معاملے میں رسول کے ہر حکم ونہی کی بے چون و چرا تعمیل کی جائے
گی ۔اس لئے کہ رسول کی حیثیت جیسا کہ قرآن میں تصریح ہے، اللہ تعالیٰ کی
طرف سے مقرر کیے ہوئے ایک واجب الاطاعت ہادی کی ہوتی ہے۔ فرمایا: ’’اور ہم
نے نہیں بھیجا کوئی رسول مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی
جائے۔‘‘ (النسائ: ۴۶) گویا اس ٹکڑے کے دو مفہوم ہوں گے: ایک خاص ،دوسرا
عام۔ اپنے خاص مفہوم کے پہلو سے یہ اپنے سابق مضمون سے مربوط ہو گا اور
اپنے عام مفہوم کے اعتبار سے اس کی حیثیت اسلامی شریعت کے ایک ہمہ گیر اصول
کی ہو گی۔‘‘ قرآن مجید کامل ہدایت نامہ ہے، اِس میں ہمیں ہر چیز کے حوالے
سے راہنمائی دی گئی ہے، لیکن کئی جگہوں پر یہ رہنمائی اصولوں کی صورت میں
دی گئی۔ جن کی تفصیل و توضیح حضورؐ کے ذمے لگائی گئی ہے۔ لہٰذا قرآنی ہدایت
سے استفادہ کے لیے ضروری ہے کہ آپؐ کی سنت و سیرت کو حجت مانا جائے۔ سنت
رسولؐ بھی حقیقت میں اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ قرآن مجید بھی اللہ تعالیٰ نے
ہمیں حضورؐ کی زبان مبارک سے عطا فرمایا اور آپؐ کی سنت، آپؐ کے اقوال و
اعمال کی صورت میں قرآن کی تشریح بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ آپؐ مطاع ہیں۔
آپؐ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ سچے اہل ایمان رسولؐ کی
اطاعت کو لازم جانتے اور مانتے تھے۔ وہ رسول سے یہ نہیں پوچھتے تھے کہ یہ
اللہ کا حکم ہے یا آپ کا ہے بلکہ وہ ہر وقت آپؐ کے اشارہ پر گردن کٹانے کے
لیے تیار رہتے تھے۔ اس کے برعکس منافقین کے حوالے سے قرآن نے بارہا یہ کہا
ہے کہ اُن پر رسولؐ کی اطاعت بہت گراں گزرتی ہے۔آج جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ
صرف قرآن ہی کافی ہے، ہمیں اس کی تشریح و تفسیر کے لیے سنت اور حدیث کی
ضرورت نہیں ہے، حقیقت میں وہ قرآن مجید ہی کو نہیں مان رہے۔ اِس لیے کہ اگر
وہ قرآن کو مانتے تو آپؐ کے اُس مقام کو تسلیم کرتے جو قرآن نے حضورؐ کو
دیا ہے اور آپؐ کی اطاعت کو لازم مانتے۔ قرآن پر ایمان کے دعویدار ان لوگوں
پر جو آپؐ کی سنت کی آئینی حیثیت کے قائل نہیں، اقبال کا یہ شعر صادق آتا
ہے کہ ؎
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجے فقیہان حرم بے توفیق!
حدیث و سنت رسولؐ کے بغیر تو دین کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ سنت کے بغیر
نماز جیسے بنیادی رکن اسلام کا نقشہ بھی ہمارے سامنے نہیں آسکتا۔ قرآن حکیم
میں باربار آتا ہے کہ نماز قائم کرو۔ لیکن ہم نماز کیسے پڑھیں، اس بارے میں
تفصیلات قرآن نہیں ہیں۔ یہ سب کچھ ہمیں حضورؐ نے سکھایا ہے۔ اور آپؐ کی
بتائی ہوئی ہیئت نماز روز اوّل سے چلی آتی ہے، اور اب تک قائم ہے۔ یہ ساری
تفصیلات آپ کو قرآن میں نہیں ملیں گی۔ نمازیں کن اوقات میں پڑھنی ہیں اس کا
ذکر بھی قرآن میں محض اشاروں کنایوں میں ہے، صراحتاً نہیں ہے۔ پھر نماز میں
قیام، رکوع اور سجود ہیں، لیکن ان کی ترتیب کیا ہو گی، اِس کا بھی قرآن میں
کہیں ذکر نہیں۔ اِسی طرح نماز کی رکعات کی تعداد قرآن میں نہیں آئی۔ نماز
کی رکعات، فرائض و سنن کا یہ پورا نظام ہمیں سنت نبویؐ سے ملا ہے۔ اگر سنت
کو حجت تسلیم نہ کیا جائے تو نماز ہی کے نظام پر امت کا اتفاق نہیں ہو
سکتا۔ منکرین سنت آج اِسی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ انکارِ سنت کی وجہ سے وہ
نماز کے کسی ایک مفہوم پر متفق نہیں ہو سکے۔ کسی کے نزدیک نماز کی شکل وہی
ہے جو ہم پڑھتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے نماز سے مراد یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ
قائم کرو۔ انہی میں سے کچھ وہ ہیں جو سات نمازوں کے قائل ہیں۔ بعض کہتے ہیں
کہ نمازیں تین ہیں۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو سنت کی آئینی حیثیت کو تسلیم
کرتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن و سنت ایک پیکج ہے، وہ سب کے سب نماز کی
ہیئت پر متفق ہیں۔ اِسی طرح سب کا اتفاق ہے کہ فرض نمازیں پانچ ہیں۔ پھر یہ
نمازوں کے فرائض پر متفق ہیں۔ نماز میں قیام، رکوع، سجدہ، قعدہ کی ترتیب
میں اُن میں اتفاق پایا جاتا ہے۔ دراصل امت مسلمہ روزِ اول سے سنت اور حدیث
نبویؐ کی وجہ سے مجتمع ہے۔ اگر سنت نہ ہوتی تو نماز جیسی بنیادی شے پر بھی
اتفاق نہیں ہو سکتا تھا۔ سنت ہی کی وجہ سے آج پوری امت ایک امام کے پیچھے
نماز پڑھتی ہے۔ بیت اللہ میں ایک امام ہوتا ہے اور دنیا کے کونے کونے سے
آئے ہوئے مختلف مسالک کے مسلمان اس کی اقتدا میں نماز ادا کرتے ہیں اور
فقہی اختلافات کی بنا پر نماز کی ہیئت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ کسی کے
رفع یدین کرنے یا نہ کرنے کے باوجود نماز کی ہیئت برقرار رہتی ہے۔ حنفی،
شافعی، حنبلی، مالکی اور اہل حدیث سب لوگوں کا ایک امام کے پیچھے ایک ہی
ہیئت نماز پر یہ اتفاق سنت کی وجہ سے ہے۔ قرآن کے ساتھ سنت اور حدیث کو
جوڑنے اور اس کو دل و جان سے تسلیم کرنے کی بنا پر امت میں وحدت قائم ہے
اور جزوی فقہی اختلافات اِس وحدت کی راہ میں آڑے نہیں آتے۔ ہمارے ہاں جزوی
فقہی اختلافات کو اگر کہیں پہاڑ بنا لیا جاتا ہے تو اس کی وجہ لاعلمی ہے۔
ورنہ ائمہ کرام نے خود کبھی ان اختلافات کو کفر و اسلام کا مسئلہ نہیں
بنایا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم نے قرآن حکیم اور احادیث کو سامنے رکھ کر
ایک رائے قائم کی ہے، اور اپنے طور سے بہتر سے بہتر رائے بنانے کی کوشش کی
ہے۔ لیکن یہ نہیں ہے کہ یہ حرفِ آخر ہے اور دوسروں کی رائے غلط ہے، نہیں،
بلکہ اس کا بھی امکان موجود ہے کہ دوسروں کی رائے صحیح ہو اور میری غلط ہو۔
بہر کیف قرآن حکیم کے ساتھ ساتھ سنت ِ رسولؐ بھی حجت ہے۔ حضورؐ نے امت کے
لئے قیامت تک یہ اُصول بیان فرمادیا: ’’تم پر میری سنت کی پیروی اور میرے
خلفائے راشدین کی سنت کی پیروی لازم ہے۔‘‘ قرآن حکیم اور سنت نبویہؐ دونوں
ایک پیکج ہیں۔ سنت دراصل قرآن مجید کی مستند ترین تفسیر ہے۔ |
|