فرانسیسی شہری کا دہشت گردوں کو پیغام
(Syed Anwer Mahmood, Karachi)
تم کون ہو میں نہیں جانتا اور میں جاننا بھی نہیں چاہتا،میری زندگی (جیسی بیوی) کے جسم کو چھیدنے والی ہر گولی اس کے دل میں ایک زخم کی صورت دھار چکی ہو گی! اسی لئے میں تمہیں اپنی نفرت کا تحفہ بھی نہیں دوں گا ۔ |
|
|
میں نے اپنے دوست خوشی محمد سے
پوچھا کہ پہلے لوگ مرزا، رانجھا اور مجنوں کے قصے سناتے تھے لیکن اب نہیں،
کیا لوگوں کا دل محبت سے بھر گیا ہے یا لوگوں نے محبت کرنی چھوڑ دی ہے۔
خوشی محمد نے بڑی اداسی سے جواب دیا کہ اب مرزا کی جگہ القاعدہ، رانجھا کی
جگہ طالبان اور مجنوں کی جگہ داعش آگئے ہیں۔ مرزا، رانجھا اور مجنوں کا
نیا نام دہشت گرد ہے، اور اب الگ الگ صاحبہ، ہیر اور لیلیٰ سے عشق کی جگہ
سب ایک ہی محبوبہ سے عشق کرنے لگے ہیں، محبوبہ کا نام ہے "دہشت گردی"۔ اب
دہشت گرد اور دہشت گرد ی اپنی محبت کا اظہار انسانی خون کی ہولی کھیل کر
کرتے ہیں۔ تیرہ نومبرکو خوشبووں کے شہر پیرس میں دہشت گردوں کے دھماکوں اور
فائرنگ سے 129 افراد ہوئے اور 300 کے قریب افراد زخمی ہوئے تھے۔ دہشت گرد
گروہ داعش نے اس دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ خوشی محمد نے ایک بار
پھربڑی اداسی سے کہا کہ اب جو کچھ لکھا جاتا ہے، اُس میں مرزا صاحبہ، ہیر
رانجھا اور لیلیٰ مجنوں کے قصے نہیں ہوتے بلکہ دہشت گرد اور دہشت گردی کے
قصے ہوتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پیرس حملے کے فوری بعد اپنے
بیان میں کہا کہ سانحہ پیرس انتہائی افسوس ناک ہے۔ دکھ کی اس گھڑی میں ہم
فرانس کے ساتھ ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر
کردار ادا کریں گے۔ 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں
کے حملے میں 150 پاکستانی شہید ہوئےجن میں 132 بچے شامل تھے۔ فرانسیسی
خبررساں ایجنسی نے اپنی ایک رپورٹ میں شدت پسندوں کی جانب سے نیویارک تا
پیرس کھیلی جانے والی خون کی ہولی سے متعلق واقعات کو علیحدہ علیحدہ کرکے
بیان کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 11 ستمبر 2001ء کے بعد سے فرانس، کینیا،
لبنان، مصر، تیونس، ترکی، بھارت، برطانیہ، اسپین اور انڈونیشیا میں دہشت
گردی کے واقعات ہوئے۔ حیرت انگیز طور پرفرانسیسی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ
میں پاکستان میں 16 دسمبر 2014ءکو پشاور کے اسکول میں اور پاکستان میں ہونے
والے دہشت گردی کے دیگر واقعات کا ذکر نظر نہیں آتا حالانکہ پاکستان دہشت
گردی سے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں سے ایک ہے، جس کے تقریباً 60 ہزار لوگ
دہشت گردی کی وجہ سے شہید ہوچکے ہیں اورمعاشی طور پر کمزور اس ملک کے اربوں
ارب ڈالر اس دہشت گردی کو ختم کرنے میں خرچ ہوچکے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان
کے وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ پیرس حملوں سے بیرونِ ملک
پاکستانیوں کی مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا۔ وزارت خارجہ اور ایف آئی اے
ایسی پالیسی وضع کریں جس سے تارکین وطن کی مدد کی جاسکے۔
بغیر مالی معاونت کے دہشت گردوں کا زندہ رہنا مشکل ہے، اس لیےدہشت گردوں کی
مالی معاونت کے حوالے سے یہ جاننا اہم ہے کہ اُن کی مالی معاونت کہاں سے
ہوتی ہے اور حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے اب تک کیا کیا ہے۔ داعش کے پاس
القاعدہ یا دیگر تنظیموں کے مقابلے میں زیادہ وسائل موجود ہیں۔ پاکستان اس
وقت دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف اپنے بقاء کی جنگ لڑرہا ہے، ان
حالات میں پاکستان کو اپنی خارجہ اور داخلی پالیسی کو ہنگامی بنیادوں پر از
سرنو ترتیب دینا ہو گا۔ جو کچھ پیرس میں ہوا، یہ دنیا کے لیے دوسرا 9/11 ہو
گا اس کے اثرات پاکستان جیسے ممالک اور مسلمانوں کے لیے اچھے نہیں ہوں گے۔
ہمارے آس پاس کی صورتحال بھی خراب ہے۔ داعش نے ہر اس جگہ پیر جمائے ہیں
جہاں ریاست ناکام ہوئی ہے جس میں عراق، شام اور لیبیا شامل ہیں۔ خطے میں
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تلخ تعلقات کا فائدہ داعش جیسی تنظیمیں
اٹھا سکتی ہیں۔ ہمارے خطے میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی شدید ضرورت ہے، ہم ہر
معاملے میں پہل کرتے ہیں لیکن افغانستان کی حکومت کو بھی سوچنا چاہیئے کہ
وہ داعش کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے خطے میں کس طرف جانا چاہتے
ہیں۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں
داعش کا کوئی وجود نہیں اس حوالے سے قیاس آرئیاں محض غیرمصدقہ حوالوں
پرمبنی ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستانی سیکیورٹی ادارے کے اس حوالے سے
پوری طرح چوکس ہیں جو داعش سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ اب سے کچھ
عرصہ پہلےتک عسکری ادارے داعش کے وجود سے انکاری تھے۔ مولانا عبدالعزیز اور
جامعہ حفصہ کی طالبات کا داعش کا کھلے عام حمایت کرنا اور اب دوبارہ مولانا
عبدالعزیز کا دوبارہ فعال ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستان میں کسی
نہ کسی سطح پر داعش کا تنظیمی ڈھانچہ اور حمایت موجود ہے۔ سیکرٹری خارجہ
صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد بہت سی دہشت
گرد تنظیمیں سرحد کی دوسری جانب چلی گئی ہیں جہاں داعش اور طالبان بھرتیوں
اور قدم جمانے میں مشغول ہیں۔ مستقبل میں دولت اسلامیہ اور طالبان کے بڑھتے
ہوئے اثرونفوذ سے خبردار رہنا ضروری ہے۔ دہشت گردی کے تمام واقعات خواہ وہ
نیویارک کے جڑواں ٹاورز پر حملہ ہو، لندن میٹرو سٹیشنوں پر حملہ ہو، ممبئی
حملہ ہو، آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ ہو یا پیرس میں ہونے والا حالیہ
حملہ ہو سبھی اندوہناک ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دہشت گردی اب کسی ایک
ملک یا قوم کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔
پاکستانی عوام ایک عشرہ سے زائد عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہیں، 60 ہزار سے
زیادہ لوگ شہید ہوچکے ہیں، دہشت گردوں نے ملک کے ہرادارے کو نشانہ بنایا
ہے، مسجد، امام بارگاہ اور چرچ بھی دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ دو نومبر
2014ء کو واہگہ باڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب کے بعد خود کش دھماکا ہوا جس
میں خواتین اور بچوں سمیت 60 افراد شہید ہوئے، 16 دسمبر 2014ء کوپشاور میں
اسکول کے 132 معصوم بچوں کو شہید کیا گیا، 13 مئی کو کراچی میں 18خواتین
سمیت 46 بے گناہوں کو شہید کیا گیا۔ اس کے علاوہ اور بھی لاتعداد واقعات
ہیں لیکن پاکستانی قوم تاحال دہشت گردوں کے ساتھ ان کی فکر کو رد کرنے کو
تیار نہیں۔
پاکستانی بلند ہمت لوگ ہیں، دو نومبر کو واہگہ باڈر پر خود کش حملہ ہوا اور
تین نومبر کو واہگہ بارڈرپرپرچم اتارنےکی تقریب میں شریک ہزاروں پاکستانیوں
کے حوصلےبہت بلندتھے۔ پشاور میں بچوں کے والدین نے جس طرح صبروتحمل کا
مظاہرہ کیا اس کی شاید ہی کوئی دوسری مثال ہو۔ 12 جنوری 2015ء کو جب اسکول
کو دوبارہ کھولا گیا تو تمام بچے اور اُن کے والدین موجود تھے۔ کراچی میں
ہونے والی دہشت گردی کے صرف نو دن بعد 22 مئی 2015ء کولاہور کے قذافی
اسٹیڈیم میں پاکستان اور زمبابوے کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان پہلا ٹی ٹوئنٹی
میچ کھیلا گیا، اسٹیڈیم پوری طرح سے بھرا ہوا تھا اورپوری پاکستانی قوم
پرجوش تھی۔ اپنے شہید ہونے والے بچوں اوربہن بھایوں کا غم سب کو تھا لیکن
قوم اور کھلاڑیوں کی طرف سے دہشت گردوں کو واضح پیغام دیا گیا کہ ہمیں
تمہارا کوئی خوف نہیں، تمہارا تعلق کسی بھی مہذب سے نہیں اور نہ ہی تم
انسان ہو، تم صرف درندے ہو۔
کہا جارہا ہے کہ پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد بعض یورپی حلقوں کی
جانب سے مسلمانوں اور شامی مہاجروں پر سوالیہ نشان اٹھائے جارہے ہیں اور
مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یورپ اور
فرانس کی اکثریت نے مسلمانون سے نفرت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پیرس کے
رہنے والے ایک فرانسیسی شہری آنتوئن لیریس نے ساری انسانیت کی طرف سے اور
خاص کر اُن لوگوں کی طرف سے جن کے پیارے دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کا
شکار ہوئے ہیں دہشت گردوں کو ایک پیغام دیا ہے جس میں اُس نے داعش کو مخاطب
کیا ہے، وہ کہتا ہے:۔
"تم مجھے نفرت پر مجبور نہیں کر سکتے، تم نے چوری کی ہے ایک غیر معمولی
ہستی کی زندگی، میرے جیون کا پیار میرے بیٹے کی ماں، لیکن تم میری نفرت سے
بھی محروم رہو گے، تم کون ہو میں نہیں جانتا اور میں جاننا بھی نہیں چاہتا،
جس خدا کے نام پر تم قتل و غار ت کررہے ہو اگر اس خدا نے ہمیں اپنی شبیہ پر
پیدا کیا ہے تو پھر جان لو کہ میری زندگی (جیسی بیوی) کے جسم کو چھیدنے
والی ہر گولی اس کے دل میں ایک زخم کی صورت دھار چکی ہو گی! اسی لئے میں
تمہیں اپنی نفرت کا تحفہ بھی نہیں دوں گا، تم نے یہی (نفرت) چاہی تھی ناں
لیکن نفرت کا جواب غصے سے دینے کا مطلب ہو گاکہ میں نے اسی بےسمجھی کے آگے
سپر ڈال دی ہے جس نے تمہیں آج اس حالت میں لا کھڑا کیا ہے! ہم صرف دو ہیں،
میرا بیٹا اور میں لیکن ہم دنیا بھر کی افواج سے زیادہ طاقتور ہیں تم پر
ضائع کرنے کے لیے میرے پاس مزید وقت نہیں، مجھے واپس اپنے بیٹے میلول کے
پاس جانا ہے جو اب اپنی سہ پہر کی نیند لینے کے بعد بیدار ہو رہا ہے وہ صرف
17 ماہ کا ہے ہر روز کی طرح آج بھی وہ اسنیک کھائے گا پھر ہر روز کی طرح
ہم کھیلنے جائیں گے اپنی زندگی میں ہر دن یہ بچہ اپنی خوشی اور آزادی سے
تمہاری تذلیل کرتا رہے گا کیوں کہ تم اس کی نفرت سے بھی محروم رہو گے!"۔
امید ہے پیرس میں دہشت گردی کا منصوبہ بنانے والے درندوں نے انسانیت کا یہ
پیغام ضرور پڑھ لیا ہوگا جو خود انسانیت سے کوسوں دور ہیں۔ دہشت گرد کا
کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ صرف دہشت گرد ہوتا ہے۔ لیکن انسانیت کی خدمت یا اس
کی بات کرنے والا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھ سکتا ہے، وہ ایک مسلمان بھی
ہوسکتا ہے، ایک ہندو بھی اور ایک عیسائی بھی۔ ابھی دنیا میں انسانیت باقی
ہے اور فرانسیسی شہری کا پیغام انسانیت کےلیے بہت سبق آموز ہے جو دہشت
گردوں کو اپنی نفرت دینے کو بھی تیار نہیں۔ |
|