بےنظیر بھٹو کی شہادت کی تحقیقات کرنے والے
اقوام متحدہ کے کمیشن نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کی ذمے داری حکومتوں اور
اداروں پر عائد کر کے تحقیقات کی گیند ایک بار پھر حکومت کی کورٹ میں پھینک
دی ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق بے نظیر بھٹو کو مشرف حکومت کی جانب سے مناسب
سیکیورٹی فراہم کی جاتی تو ان کی جان بچ سکتی تھی۔ ملکی تاریخ کا پہلا کیس
ہے جس کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرائی گئی ہے۔ کمیشن نے تو کئی ماہ کی
کوششوں، اداروں اور افراد کے عدم تعاون اور دیگر رکاوٹوں کے باوجود اپنی
رپورٹ جاری کر دی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس رپورٹ کے تناظر میں اصل قاتلوں
تک پہنچنے میں کامیابی حاصل ہوتی ہے یا ماضی کے ایسے کئی دوسرے سانحات کی
طرح یہ بھی محض ایک تاریخی واقعہ بن کر رہ جاتا ہے
اقوام متحدہ کے بے نظیر کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بے نظیر کے قتل میں افراد
کے ملوث ہونے کے امکانات رد کرتے ہوئے سابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور
پیپلز پارٹی کی سیکیورٹی کو ذمے دار قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا
ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس اداروں اور پاکستانی حکام نے قتل کی تحقیقات کی
راہ میں بہت زیادہ رکاوٹیں ڈالیں۔ بے نظیر پر کراچی اور راولپنڈی میں جو
حملے ہوئے حکومت نے اس بارے میں کوئی مؤثر تحقیقات نہیں کیں۔ سکیورٹی کے
حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس کوئی واضح پلان نہیں تھا جبکہ
راولپنڈی پولیس نے بھی سکیورٹی کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کئے اور نہ
ہی بعد میں شواہد محفوظ کرنے کیلئے کوئی اقدامات کئے گئے۔ کمیشن کے سربراہ
ہیرالڈو منوز نے شواہد ضائع کرنے اور سکیورٹی میں ذمہ داری کا مظاہرہ نہ
کرنے پر راولپنڈی پولیس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ قتل
کا ذمہ دار بیت اللہ محسود اور القاعدہ کو قرار دے کر تحقیقات آگے نہ
بڑھائی گئیں بلکہ ایک روز بعد ہی جائے قتل کو دھو کر صاف کر کے شکوک کو
مزید بڑھایا گیا حالانکہ کئی شواہد اکٹھے کئے جا سکتے تھے۔ بے نظیر بھٹو کی
شہادت کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے کمیشن پر 550 کروڑ روپے کے
اخراجات آئے، لیکن اس کے باوجود اس کمیشن کے دائرہ اختیار میں بے نظیر بھٹو
کے قتل سے متعلق حالات اور حقائق کی تحقیقات کرنا ہی تھا، مجرموں کا سراغ
لگانا نہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں اور بھی کئی قتل ہو چکے ہیں جن کے سراغ آج تک نہیں
لگائے جا سکے۔ لیاقت علی خان اور ضیاءالحق کے قتل کے متعلق عام طور پر یہی
تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کے قاتل وہ لوگ ہیں جنہیں بعد میں فوائد ملے۔
لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات کرنے والے دو افسران کا ہیلی کاپٹر جہلم
کی پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہوگیا اور فائل بند ہوگئی۔ ضیاء الحق کے قتل کی
سازش آج تک بے نقاب نہیں ہو سکی، اس کے باوجود پوری قوم کو لیاقت علی خان٬
ضیاءالحق اور ذوالفقار علی بھٹو کے قاتلوں کا پتہ تھا اور لواحقین بھی
برملا قاتلوں کے ناموں کا اعلان کرتے رہے لیکن مجرموں کو گرفتار نہ کیا گیا۔
1951 میں لیاقت باغ کے جائے وقوعہ پر جس طرح لیاقت علی خان کے قاتل کو ختم
کر کے یہ قصہ ہی تمام کر دیا گیا تھا کہ نہ رہے قاتل اور نہ اس سے پوچھا جا
سکے کہ اسے کس نے بھیجا تھا، اسی طرح ایک بار پھر لیاقت باغ میں پرانی
تاریخ دہرا دی گئی اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے چند گھنٹوں بعد موقع
واردات سے خون کو صاف کر دیا گیا۔ سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ نے تو
بینظیر بھٹو کے قتل کا الزام امریکا کی کمپنی بلیک واٹر پر لگا دیا تھا،
کیونکہ ان کے بقول بے نظیر نے کچھ معاہدوں کی خلاف ورزی کی تھی۔ امریکا کے
سابق نائب صدر ڈک چینی کا بھی اس میں ہاتھ بتایا جاتا ہے۔
پاکستان میں سینکڑوں پر اسرار قتل بھی ہو چکے ہیں جن کے بارے میں پتہ نہیں
چل سکا کہ ان کے پیچھے کس کے ہاتھ تھے۔ ان میں لیاقت علی خان، گورنر امیر
محمد خان نواب آف کالا باغ، ملک کے پانچویں وزیر اعظم حسین شہید سہروردی،
جن کا انتقال حرکت قلب بند ہونے سے ہوا لیکن انہیں زہر دیا گیا تھا، نواب
محمد احمد خان قصوری، خواجہ محمد رفیق، ڈاکٹر نذیر احمد، ضیاءالحق، شاہنواز
بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو، غلام حیدر وائیں، حکیم محمد سعید وغیرہ۔ اگر لیاقت
علی خان سے لیکر جنرل ضیاءالحق کے قتل کی تحقیقات کر کے ہماری ایجنسیاں اور
ادارے مجرمین کو قرار واقعی سزا دلوانے میں کامیاب ہو جاتے تو شائد آج بے
نظیر بھٹو کی شہادت کی تحقیقات کے لئے اقوام متحدہ سے رجوع نہ کرنا پڑتا،
اور اس واقعہ کے ذمے داروں کو سزا بھی مل چکی ہوتی۔ |