حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام کو 18ویں ترمیم مبارک ہو

قوم کی چھلاوا نما 17ویں ترمیم سے جان چھوٹی؟..... موسمی سیاستدانوں کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے
اَب 18ویں ترمیم کے بعد سیاست دان کس ایشو پر اپنی سیاست چمکائیں گے...؟

چلو اچھا ہی ہوا کہ قومی اسمبلی کے بعد سینٹ نے بھی 15اپریل 2010 کو 18ویں ترمیم کی متفقہ طور پر منظوری دے کر پوری پاکستانی قوم سمیت ملک کے اُن بے چین اور بیقرار سیاستدانوں کو بھی سُکھ اور چین کا سانس تو نصیب کردیا کہ جو 17ویں ترمیم کی وجہ سے خود کو کسی شکاری کے پنچرے میں قید اُس پرندے کے مانند تصور کرتے تھے جسے قید میں رکھنے کی وجہ سے اُس کی تمام آزادی کی حسرتوں پر اُس شکاری نے پانی پھیر دیا تھا گویا کہ اِن کی آزادی ختم ہو کر رہ گئی تھی اور یہ پَر پنکھنے والے ہوکر بھی اُڑنے کے قابل نہ تھے۔

اور آج یوں ملک کے ایوانوں نے اِن کی اِس حالاتِ زار پر ترس کھاتے ہوئے ہمارے یہاں ملک میں مختلف ادوار میں آنے والے آمروں کی پیدا کردہ ( جنم دی گئی) چھلاوا نما 17ویں ترمیم کا خاتمہ کر کے 1973 کا آئین اپنی اصلی حالت میں بحال کردیا جس کے لئے پوری پاکستانی قوم سمیت ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین سمیت اِن کے کارکنان بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ جن کی انتھک محنت اور جدوجہد سے آج قوم کو یہ دن دیکھنا نصیب ہوا ہے کہ اِسے اپنی آزادی اور خودمختاری کے لئے ایک بار پھر وہ آئین اور دستور اصلی حالت میں ہاتھ لگ گیا ہے جس کے لئے قوم اور ملک کے محب وطن سیاست دان ایک طویل عرصے سے اِس کی بحالی کے لئے اپنے تن من اور دھن کی بازی لگائے ہوئے تھے کہ ملک کا وہ واحد 1973 کا آئین جلد بحال ہوجائے اور 18ویں ترمیم کی منظوری سے مرکز سے47شعبے صوبوں کو خوش اسلوبی سے منتقل ہوجائیں کہ جس پر آمروں نے قدغن لگائی اور اِس کی اصل روح کو مسخ کر کے رکھ دیا تھا مگر آج پوری پاکستانی قوم سُرخرو ہوگئی ہے کہ ملک میں18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد خود بخود سترھویں ترمیم کو قوم نے منوں مٹی تلے دبا کر اِس سے چھٹکارہ حاصل کرلیا ہے اور اَب آئندہ 1973کے آئین کے مطابق ملک اور قوم کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار ہوگا۔

بیشک 15اپریل 2010 کا دن نہ صرف وطن عزیز میں بسنے والے ہر پاکستانی کے لئے شادمانی اور خوشیوں کا دن تھا بلکہ دنیا کے ہر خطے میں رہنے والے ہر اُس پاکستانی کے لئے بھی یہ دن خوشیوں اور مسرتوں کا دن ضرور رہا ہوگا جس کے دل میں اپنے دیس پاکستان سے دور رہ کر بھی اِس کی تڑپ اور اِس کی سانسوں میں اپنے وطن کی مٹی کی خوشبو رچی بسی ہوگی اُسے بھی جب پاکستان میں 18ویں ترمیم کی منظوری اور 1973 کے آئین کی بحالی کی یہ نوید پہنچی ہوگی تو یقیناً اِس کے دل سے بھی باآوازِ بلند پاکستان زندہ باد اورزندہ ہے بھٹو زندہ ہے، زندہ ہے بی بی زندہ ہے، جیے بھٹو اور صدر زرداری زندہ باد کے نعرے ضرور نکلے ہوں گے کیونکہ دور پردیس میں رہ کر ایک پاکستانی اِس کے سِوا اپنے وطن سے محبت کا اظہار اور کیسے کرسکتا ہے یہ انداز بھی اپنے وطن سے محبت کا بہت اچھا ہے کہ اِس نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا ہوگا اور اُس پاکستانی نے پردیس میں رہتے ہوئے بھی ایک پاکستانی ہونے کا حق ادا کردیا ہوگا۔

اگرچہ یہ بھی ایک انتہائی خوش آئند امر ہے کہ 100 کے ایوان میں بل کے حق میں90 اور اِس سے بھی زیادہ قابلِ تعریف بات تو یہ بھی ہے کہ جو ملک کی تاریخ میں سُنہرے حروفوں میں لکھی جائے گی کہ اِس بل کی مخالفت میں کوئی بھی ووٹ نہیں آیا اور اِس طرح اَب قوم کو یہ بھی اچھی اُمید رکھنی چاہئے کہ عنقریب 102شقوں پر مشتمل یہ اٹھارویں ترمیم انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ صدر مملکت جناب عزت مآب سید آصف علی زرداری کو دستخط کے لئے بھجوائی جائے گی پھر صدر مملکت کی جانب سے ترمیم کی توثیق کے بعد انشااللہ العزیز1973کا وہ آئین جسے ملک میں مختلف وقتوں میں آنے والے آمروں نے اپنے پیروں سے روندھ ڈالا تھا یہ آئین بھی بحال ہوجائے گا اور یہ اٹھارویں ترمیم بھی بڑی عزت و احترام اور ادب کے ساتھ اِس 1973 کے آئین کا حصہ بن جائے گی۔

اور اِس کے ساتھ ہی آج پوری پاکستانی قوم کا سر اِس لئے بھی فخر سے اُونچا اور تنا ہوا ہے اور اِس کا ماتھا چمک رہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم سے نہ ملک کے برسوں سے بگڑے ہوئے نظام میں بہتری آئے گی تو وہیں ملک کی بیچاری مفلوک الحال اور بھوک و افلاس کی چکی میں مہنگائی کے ہاتھوں پسی ساڑھے سولہ کروڑ عوام کے حالات زندگی میں بھی ایک بہتر تبدیلی آنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں اور جیسا کہ دنیا کی واحد اور ملک کی پہلی فرینڈلی اپوزیشن پاکستان مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے بھی قومی اسمبلی کے بعد گزشتہ جمعرات کو سینٹ سے بھی18ویں ترمیم کی واضح اکثریت سے منظوری کے بعد قوم کو اپنے ایک پیغام میں مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام جیت گئے اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ ملک سے آمریت اپنی آخری نشانیوں سمیت ہزاروں میٹر گہرے گڑھے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن ہوگئی ہے۔

اگرچہ نواز شریف کا اپنے اِس پیغام میں یہ بھی کہنا تھا کہ آج ملک میں جمہوریت کی فتح ہوگئی ہے اور شکست آمریت کا مقدر بن گئی ہے۔ تو اِس موقع پر راقم الحرف کا یہ خیال ہے کہ اَب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف بھی اَب اپنی سیاسی پنیترے بازیاں بدلنا اور اٹکھیلیاں کرنا چھوڑ دیں تو بہت اچھا ہوگا اِس حکومت کے لئے اِس ملک کے لئے اور اِس ملک کی غریب عوام کے لئے اور وہ بھی حکومت کے دھڑے میں شامل ہوکر جمہوریت کو ملک میں پوری طرح سے پروان چڑھانے میں اپنا کوئی مثبت اور تعمیری کردار ادا کر کے امر ہوجائیں اور ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور صدر زرداری کی حکومت کا ساتھ دیں تاکہ آپ اور آپ کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) کا نام بھی ملک کی تاریخ میں اچھی ناموں سے یاد کیا جائے ناں کہ صدیوں بعد بھی لوگ آپ اور آپ کی پارٹی کا نام کسی پنگے باز لیڈر اور سیاسی مفادات حاصل کرنے والی پارٹی کے نام سے یاد رکھیں۔

جبکہ یہ اور اچھی بات ہے کہ صدر مملکت عزت مآب جنابِ سید آصف علی زرداری نے بھی اِس موقع پر قوم کو اپنی جانب سے دیئے گئے مبارکباد کے پیغام میں اپنے بڑے والہانہ اور مخصوص انداز سے کہا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے 18ویں ترمیم کی پارلیمنان سے منظوری میں بالغ النظری سے کام لیتے ہوئے اِن سب نے اپنے اپنے سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر خالصتاً وسیع تر قومی مفاد کا مظاہرہ کر کے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہر محب وطن پاکستانی ملک میں جمہوریت کو پروان چڑھتا دیکھنا چاہتا ہے اور وہ اِس کے ساتھ یہ بھی چاہتا ہے کہ عوام کو بہت جلد اٹھارویں ترمیم کے ثمرات ملیں جس کے لئے نہ صرف سیاسی جماعتوں کے رہنما بلکہ عوام بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ملک میں آئینی پیکچ کی منظوری سے آئین آمروں کی تمام غیر جمہوری شقوں سے بھی پاک ہوجائے گا۔

مگر میرا خیال یہ ہے کہ ٹھیک ہے کہ آج پوری پاکستانی قوم اٹھارویں ترمیم کی منظوری اور 1973 کے آئین کی بحالی پر خوشی سے مست ہے مگر کیا....؟ اِس نے اپنی اِن خوشیوں کی گھڑیوں میں یہ بھی سوچا کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان جو آج اِس سے وعدے کررہے ہیں وہ اِن وعدوں کو پورا بھی کرپائیں گے ....؟ یا حسب روایت یوں ہی سبز باغ دکھا کر قوم کو بے وقوف بناکر اپنی اپنی رنگ ریلیوں میں مگن ہوجائیں گے اور ملک کی ساڑھے سولہ کروڑ غریب عوام 18ویں ترمیم کی منظوری اور 1973 کے آئین کی بحالی کے باوجود بھی ریلیف سے محروم رہ کر مسائل کی چکی میں پستے رہیں گے۔

اَب اِس کی فکر کرنے کا کام ہمارے حکمرانوں! سیاستدانوں اور اُن رہنماؤں کا ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے آمروں کی 17ویں ترمیم ...درترمیم کو اپنی خدمات اور فرائض کی ادائیگی کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا کرتے تھے اور اِسے چھلاوا کہا کرتے تھے اَب اُن حکمرانوں! اور سیاستدانوں کے کام کا امتحان شروع ہوچکا ہے کہ ......وہ کیا کرتے ہیں اور قوم دیکھے کہ یہ حکمران اور سیاستدان اپنے ملک اور اپنے عوام سے کتنے مخلص ہیں اور اَب یہ اٹھارویں ترمیم کی منظوری اور 1973 کے آئین کی بحالی کے بعد ملک اور قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔ یا یہ کہ اٹھارویں ترمیم کی منظوری اور 1973 کے آئین کی بحالی نے ملک اور قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے بڑے بڑے وعدے اور دعوے کرنے والے موسمی حکمرانوں! اور سیاستدانوں! کو کسی بند گلی میں لا کر کھڑا کردیا ہے ....یا یہ واقعی اپنے قول و فعل کے پکے بھی ثابت ہوں گے اور یہ وہ کچھ بھی کر گزریں گے جس کا اِنہوں نے قوم سے وعدہ بھی کیا ہے۔

اور اِس کے ساتھ ہی اَب دیکھتے یہ ہیں جیسا کہ حسبِ عادت ایک بار پھر ہمارے ملک کے معصوم مگر ذرا سے جذباتی وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد ایوان سے اپنے خطاب میں یہ کہا ہے کہ میثاق جمہوریت کو آج حقیقت میں تبدیل کردیا گیا ہے اور احتساب کا بل بھی جلد ہی پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائے گا یہ اپنے کہے ہوئے اِن الفاظ پر کب تک قائم رہتے ہیں ......؟اور اِن پر کب حقیقی معنوں میں عمل کر کے دکھاتے ہیں .......؟ اور اِس کے ساتھ ہی اِن کا اِس موقع پر یہ بھی کہنا تھا کہ پورے ملک کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں اور کوئی بھی احتساب سے بالاتر نہیں اور یہاں سب سے زیادہ تو حیران کُن بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے عوام کو خوش کرنے کے انداز میں ایک بار پھر عوام کو جھانسہ دیا اور اپنا سینہ ٹھونک کر اور اپنی آنکھیں پھاڑتے ہوئے کہا کہ عوامی مسائل حل کرنے کا وقت آگیا ہے۔

یہاں اگر یہ حقیقت ہے کہ بقول وزیراعظم عوامی مسائل حل کرنے کا وقت آگیا ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک کے حکمران اور سیاستدان اٹھارویں ترمیم کے منظوری اور 1973 کے آئین کی بحالی کے بعد واقعی ملک اور قوم کے لئے کچھ اچھا کر گزرنے کو تیار ہیں تو یہ بہت اچھی پیش رفت ہے اور اگر یہ اِس کے بعد بھی ویسے ہی رہے کہ جیسے پہلے تھے تو پھر اِس کے بعد سیاستدانوں کو عوام کو بے وقوف بنانے اور اپنے پیچھے بھگوانے کے لئے اور کسی نئے ایشو کو جنم دینا ہوگا کیونکہ اَب تو وہ ایشو اٹھارویں ترمیم کی منظوری اور 1973 کے آئین کی بحالی والا رہ ہی نہیں گیا جس کے بدولت ہمارے سیاستدان گزشتہ کئی سالوں سے قوم کو بے وقوف بناتے رہے ہیں اور وہ اپنی سیاست کے داؤ پیچ سے قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے رہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 893430 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.