یوں تو پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت
کا کوئی گوشہ نہیں جو کمال انسانیت کا آئینہ دار نہ ہولیکن اس کے دو اہم
پہلو ایسے ہیں جو سب سے زیادہ بنیادی اور سب سے اہم ہیں(1)ایک تو یہ کہ آپ
ﷺ کے پاس جو حق تھا اسے آپ نے خلق تک و قت کے وقت جوں کا توں پہنچا دیااور
کبھی اس بات کو روا نہ رکھا کہ اس کا کوئی جز و لوگوں پر واضح ہونے سے رہ
جائے۔
(2)دوسرے یہ کہ آپ نہایت سچے وعدہ نبھانے والے اور امین یعنی دیانت دار
ہیں۔قرآن کریم ،حدیث پاک وعلماء کی لکھی ہوئی قدیم و جدید کتب کا جس نے بھی
اچھی طرح مطالعہ کیا ہے۔نیر اعظم ﷺ کی سیرت کے بارے میں سیر حاصل تحقیق کی
ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ نبی اعظم ﷺ اس دنیا میں آنے والے سب سے بڑے
وعدہ نبھانے والے تھے اور کئی صدیوں کے گذر جانے کے باوجود یہ حقیقت دھندلی
ہونے کے بجائے زیادہ روشن اور صاف ہو گئی ہے۔
ساری دنیا اور معاشرے کی تعمیر و تکمیل میں جہاں اور بہت سی چیزیں اہمیت
رکھتی ہیں ان میں اہم چیز ایفائے عہد(قول وقرار کا پورا کرنا)بھی ہے اس کے
ذریعے معاشرے میں ایک توازن پیدا ہوتا ہے جس سے ماحول خوشگوار بن جاتا ہے
اور وقتی رنجش ہو یا دائمی سب کا ازالہ ہوجاتا ہے کوئی بھی ملک ہو یا کمپنی
یا قبیلہ یا انسان کسی بات پر کوئی عہد(Agreement) کرے یا کسی طرح کا وعدہ
کرے لیکن بر وقت اس کی تعمیل و تکمیل نہ کرے تو ایسی صورت میں ایک قسم کی
بد مزگی پیدا ہو جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ایفائے عہد (وعدہ) کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے
قرآن و حدیث میں بہ کثرت یہ حکم ملتا ہے کہ جو معاملہ کرو یا کسی سے وعدہ
کرو اسے بر وقت پورا کروبندوں کو بتایا جارہا ہے کہ سارے عہدوں (وعدوں) کو
پورا کرو خواہ خالق کائنات سے کریں یا مخلوق سے۔
پارہ 2؍ رکوع 6؍ سورہ البقرہ آیت نمبر 177(ترجمہ کنزالایمان) اور نیک وہ
لوگ ہیں کہ جبعہد کریں تو اسے پورا کریں پھر وعدہ مجبور۱ً پورا نہ کریں
بلکہ قرآن فرما رہا ہے عہد کرتے وقت وفا کی نیت ہونا چاہیئے عہد اﷲ تعالیٰ
کی صفت ہے اﷲ تعالیٰ نے اپنے متعلق متعدد مقامات پر فرمایا ہے پارہ 13؍
رکوع 10؍سورہ رعد آیت نمبر 31؍اِنَّ اللّٰہ لاَ یُخْلِفُ الْمِیْعِاد
(ترجمہ کنزالایمان )یقینا اﷲ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا (4)پارہ 11؍
رکوع 2؍ سورہ توبہ آیت نمبر 111؍ وَ مَنْ اَوْفیَ بِعَہَدِہ مِنَ اللّٰہٖ
(ترجمہ کنزالایمان)اور اﷲ سے زیادہ اپنے عہد پورا کرنے والا کون ہے۔عہد کا
پورا کرنا اﷲ تعالیٰ کی صفت ہے اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں میں اس صفت کو جلوہ گر
دیکھنا چاہتا ہے اس لئے اس نے عہد (وعدہ)(Promise)کی بار بار تاکید کی
ہے۔پارہ 15رکوع3؍سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 37؍وَاَوْفُوْبِالعَہْداِنَّ
الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُولاَ (ترجمہ کنز الایمان) اور عہد کو پورا کرو عہد
کے بارے میں( اﷲ کے یہاں)ضرور باز پُرس ہوگی۔ بہت سی آیتیں ہیں (مضمون طویل
ہو جائے گا) ۔
اﷲ وعدہ خلافی نہیں کرتا اور انبیاء کرام کی صفت بھی وعدہ پورا کرنے والی
ہے رب العزت فرماتا ہے اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ کَانَ
رَسُوْلاًنَبِیاً(ترجمہ) جتنے بھی رسول آئے سب سچے وعدہ پورا کرنے والے ۔
اور آگے رب کریم ارشاد فرماتا ہے اِنَّہٗ کَانَ صِدِیْقاً نَبِیاً سورہ
مریم آیت نمبر 56(ترجمہ) بے شک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔
جو لوگ حج کی سعادت عظمیٰ و روضۂ رسول ﷺ کی حاضری سے سرفراز ہو چکے ہیں
انہوں نے روضۂ رسولﷺ کی جالیوں میں لکھا ہوا دیکھا ہوگا (الحمد ﷲ ثم الحمد
ﷲ ناچیز نے اسی سال یہ سعادت پائی ہے) محمد رسول صادق الوعدالامین․․․․․․․
ہیں حضور سچے وعدہ نبہانے والے اور امین ہیں یعنی امانت دار ہیں÷ وعدہ
خلافی شیطانی عیب ہے ابلیس قیامت میں کہے گا سورہ ابراہیم آیت نمبر 21؍
وَوَعَدْتَّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ ․․․․․․․الخ (ترجمہ) میں نے جو تم کو وعدہ
دیا تھا وہ میں نے تم سے جھوٹا کیا ․․․․․․․․(1)وفائے عہد ایمانی صفت ہے
(2)جھوٹا آدمی دین ودنیا میں کہیں کا میاب نہیں ہوتا (3)وعدہ نبہانے عہد کی
پابندی کرنے والے سے اﷲ خوش ہوتا ہے اور دوست رکھتا ہے (4)وعدہ خلافی کرنے
والے پر سخت عذاب کی وعید ہے (5) ایفائے عہد وعدہ نبہانے والے سے اﷲ محبت
فرماتا ہے ۔ پارہ 3؍ رکوع 15؍ سورہ آل عمران آیت نمبر 75(ترجمہ) ہاں کیوں
نہیں جس نے پورا کیا اپنا وعدہ اور پرہیزگار بنا تو بے شک اﷲ محبت کرتا ہے
وعدہ نبہانے والوں اور پرہیز گاروں سے۔
عہد کی پابندی نہ کرنے والے پرسخت عذاب کی وعید ہے۔۔ اسلام نے محض ایفائے
عہد کی تعلیم و تلقین ہی پر (کفایت)اکتفا نہیں کیا۔ اس کی پابندی نہ کرنے
کی صورت میں اﷲ کے عذاب کی وعیدیں بھی آئی ہیں۔ پارہ 3؍ رکوع 15؍ سورہ آل
عمران آیت نمبر 77؍ (ترجمہ کنز الایمان) بے شک جو لوگ خریدتے ہیں اﷲ کے عہد
اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑی سی قیمت یہ وہ (بد نصیب) ہیں کہ کچھ حصہ نہیں
ان کے لئے آخرت میں اور بات نہ کرے گا ان سے اﷲ تعالیٰ اور دیکھے گا بھی
نہیں اﷲ ان کی جانب قیامت کے روز نہ پاک کرے گا انہیں اور ان کے لئے دردناک
عذاب ہے۔
عہد (وعدہ) پورا نہ کرنے اور جھوٹی قسم کھانے پر بہت سی وعیدیں قرآ ن پاک و
حدیث شریف میں آئی ہیں وعدہ نہ نبہانے والے کی طرف اﷲ پاک دیکھے گا بھی
نہیں اور گناہ بھی معاف نہ فرمائے گا (استغفر اﷲ) ۔ تفسیر ضیاء القرآن جلد
اول صفحہ 245 سے 246تک کبیرہ گناہوں کی فہرست بہت طویل ہے لیکن اس میں عہد
شکنی وعدہ خلافی کو نمبر 3 پر رکھا گیاہے اور جو سزا مقرر کی گئی ہے وہ کسی
دوسرے گناہ کے لئے تجویز نہیں کی گئی ۔عہد شکنی کے لئے پانچ سزاؤں کایہاں
ذکر کرتا ہوں ملاحظہ فرمائیں غور کریں اور اپنا محاسبہ فرمائیں(1)وہ آخرت
کی نعمتوں سے یکسر محروم کرد یا جائے گا (2)رحمٰن و رحیم خدائے پاک اس سے
بات تک نہ کرے گا (3)اس کی نظر کرم و رحمت سے بھی محروم رہے گا (4)گناہوں
کی آلائشوں سے بھی وہ پاک نہیں کیا جائے گا (5)اس کے علاوہ اسے درد ناک
عذاب دیا جائے گا۔
ہے کوئی ایسے دل گردے والاجو ان سزاؤں میں ایک کو بھی برداشت کرنے کی طاقت
رکھتا ہو۔ قرآن پاک کو اﷲ تعالیٰ کا کلام ماننے والی قوم اگر اس ہیبت و
جلال والی آیت کے بعد بھی وہ وعدہ کی پابندی نہ کرے (استغفراﷲ-استغفراﷲ)عہد
شکنی نفاق کی علامت ہے ۔نبی اکرم ﷺ نے عہد شکنی کو نفاق کی خصلتوں میں شمار
کیا ہے اور وعدہ خلاف شخص کو منافق قرار دیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا آیۃ المنافق ثلاث اذا
احدث کذب واذا وعداخلف واذا اُتمئن خان(ترجمہ)منافق تین باتوں سے پہچانا
جاتا ہے ٭ جب بات کرے تو جھوٹ بولے٭جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے٭جب امانت
سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے٭(بخاری شریف کتاب الایمان باب علامت
منافق حدیث نمبر 2682-2633 )اسی مضمون کی ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں ․․
عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے چار خصلتیں ہیں جس کے اندر
پائی جائیں وہ خالص منافق ہوگا (1)جب بولے تو جھوٹ بولے(2)جب وعدہ کرے
(Promise)تو ا س کی خلاف ورزی کرے(3)جب معاہدہ کرے (Agreement)کرے تو توڑ
دے (4)جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے۔ اﷲ کے رسول ﷺ جو ظاہری طور پر اعلان نبوت
کے پہلے بھی صادق الامین کے لقب سے مشہور تھے وعدہ کی اہمیت پر ارشاد
فرماتے ہیں اَلْعِدَّۃُدَیْنٌ وعدہ ایک قسم کا قرض ہے جس طرح قرض ادا کرنا
واجب ہے اسی طرح وعدہ پورا کرنا واجب ہے۔
ایفائے عہد (وعدہ)پورا کرنے کی نیت پر سرور کائنات ﷺ فرماتے ہیں ایفائے عہد
کے نیت کے باوجودوعدہ پورا نہ کر سکے تو یہ وعدہ خلافی نہیں۔
حضور پرنور ﷺ فرماتے ہیں ایفائے عہد( وعدہ پوراکرنے) کی نیت ہو اور آدمی
وعدہ وفا نہ کر سکے تو یہ خلف وعدہ نہیں ہے۔ہاں خلف وعدہ(وعدہ خلافی) یہ ہے
کہ آدمی وعدہ کرے اور ایفائے عہد (وعدہ پورا نہ کرنے کی نیت نہ ہو (مولف
کنزالعمال جلد 3؍ صفحہ 200)صادق الوعد الامین محمد رسول اﷲ ﷺ کا وعدہ وفا
کرنا ملاحظہ فرمائیں ۔ صلح حدیبیہ میں کفار و مشرکین کی من مانی کے باوجود
اﷲ کے رسول نے معاہدہ فرمایا صحابہ کو شرائط سن کر غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ
پڑا ۔ ابھی معاہدہ لکھا جا رہا تھا کہ کفار کے نمائند ے سہیل بن عمرو کا
لڑکا - ابو جندل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو ایمان لا چکے تھے انہیں زنجیروں میں
جکڑ دیا گیا تھا زنجیروں کو گھسیٹتے ہوئے میدان میں آگئے مسلمانوں نے بڑے
پُر تپاک سے خوش آمدید کہا ان کا باپ سہیل بن عمرو ابھی وہیں موجود تھا اس
نے ببول کی ٹہنی توڑ کر حضرت ابو جندل رضی اﷲ عنہ کے منھ میں مارنے لگا
چہرہ لہو لہان ہوگیا اور سہیل بن عمرو نے کہا اے محمد ﷺ یہ پہلا آدمی ہے
اسکی واپسی کا مطالبہ میں آپ سے کرتا ہوں حضور نے فرمایا ابھی معاہدہ لکھا
جا رہا ہے -ابھی دستخط نہیں ہوئے ہیں معاہدہ اس وقت واجب العمل ہوتا ہے جب
فریقین کے دستخط ہو جاتے ہیں اس ظالم نے کہا اگر آپ میریلڑکے کو واپس نہیں
کریں گے تو سارے معاہدے کلعدم قرار دیں گے حضور رحمت عالم نے فرمایا اے
سہیل اسے (ابو جندل) کو میرے لئے چھوڑ دو لیکن اس نے حضور کی بھی پرواہ
نہیں کی اور ضد کرنے لگا ۔ابو جندل رضی اﷲ عنہ جان رہے تھے کہ ہم کو اپنے
پاس لے جائیں گے تو یہ اور زیادہ ظلم کریں گے آپ رونے لگے حضور رحمت عالم ﷺ
نے ابو جندل رضی اﷲ عنہ کو بلایا اور فرمایا ابو جندل صبر کرو اور اﷲ سے اس
کے اجر کی امید رکھو یقینا اﷲ تمہارے لئے اور تمہارے کمزور ساتھیوں کے لئے
نجات کا راستہ بنانے ہی والا ہے ہم نے قوم کے ساتھ صلح کی ہے اور ان کے
ساتھ عہد و پیمان کیا ہے اب ہم عہد شکنی نہیں کریں گے سُبحان اﷲ سُبحان اﷲ
اس چیز نے صحابہ کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا لیکن ادب سے کسی نے کچھ
بھی نہیں کہا(حوالہ سیرت ضیاء النبی پیر کرم شاہ ازہری رحمۃ اﷲ علیہ جلد 4؍
صفحہ 153؍سیرت خاتم النبین جلد 2؍ صفحہ 852)۔
وعدہ کی پاسداری : حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہ مشہور صحابی ہیں یہ جب
ایمان لاچکے تھے حضورﷺ کی محبت میں بے چین تھے مکہ سے مدینہ آرہے تھے حضور
ﷺکو دیکھنے راستے میں ابو جہل اور اس کے لشکر سے ملاقات ہوگئی تو پکڑلیا
چونکہ اسلام و کفر کی سب سے پہلی جنگ بدر کی تیاری کرکے لشکر لیکر ابو جہل
مدینے کی جانب آرہا تھا ۔ پوچھا کہاں جا رہے ہو تو آپ نے کہا حضور ﷺ کا
روئے زیبا دیکھنے وہ نہ مانا کہا تم جنگ میں جارہے ہو انہوں نے کہا نہیں ہم
وعدہ کرتے ہیں جنگ میں حصہ نہیں لیں گے حضور کی زیارت کریں گے ابو جہل نے
وعدہ کرواکر چھوڑ دیا آپ مدینہ آئے جنگ کی تیاریاں شباب پر تھیں حذیفہ رضی
اﷲ عنہ نے حضور ﷺ سے واقعہ بتا دیا حضور ﷺ نے جنگ بدر میں حصہ لینے کی
اجازت نہیں دی ۔ فرمایا تم وعدہ کرکے آئے ہو اور اسی شرط پر ابو جہل نے رہا
کیا ہے لہٰذا اس پہلی جنگ میں میں تمہیں اجازت نہیں دیتا وعدہ کی پاسداری
کرو اسلام میں اس کی سخت تاکید ہے سبحان اﷲ سبحان اﷲ (الاصابۃ جلد 1؍ صفحہ
316)اور اس اعلیٰ وصف (وعدہ پر) عامل کے لئے جنت کی اعلی قسم جنت فردوس کی
خوشخبری ہے عہد کو پورا کرنا مومن کا وصف ہے ۔
ارشادباری ہے سورہ مومنون آیت نمبر 8-11(ترجمہ کنز الایمان) اور وہ جو اپنی
امانتوں اور اپنے عہد (وعدہ) کی رعایت کرتے ہیں اور وہ جو اپنی نمازوں کی
نگہبانی کرتے ہیں یہی لوگ وارث ہیں کہ فردوس (جنت) کی میراث پائیں گے وہ
ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
عام طور پر لوگ عہد کے معنی صرف قول و قرار کو سمجھتے ہیں اسلام میں اس کے
معنی بہت وسیع ہیں یہ حقوق اﷲ ،حقوق العباد،معاشرت،تجارت،اخلاق ومعاملات کی
ان تمام صورتوں کو محیط (گھیرے ہوئے) ہے جس کی پابندی انسان پر عقلاً
،شرعاً ،اخلاقاً فرض ہے امام قرطبی الجامع الاحکام القرآن جلد 12؍ صفحہ
107میں فرماتے ہیں امانت و عہد دینی و دنیاوی معاملے پر حاوی ہے چاہے وہ
قولی ہو یا فعلی اور جس کا پابند اور متحمل ہو علامہ الوسی بغدادی رحمۃ اﷲ
علیہ (تفسیر روح المعانی جلد 18؍صفحہ 11)میں فرماتے ہیں یہ آیت مبارکہ اکثر
مفسرین کے نزدیک ہر قول و قرار کے لئے عام ہے چاہے وہ اﷲ اور بندے کے مابین
ہو یا دو انسانوں کے درمیان ہو ۔
وعدہ نبہانہ اﷲ کا محبوب بن جانا ہے جس شخص سے معاہدہ (Agreement)ہے چاہے
وہ کافر مشرک ہی کیوں نہ ہو اگر وہ وعدہ خلافی نہ کرے تو اس کے لئے وعدہ کی
پابندی و استواری اور اس کا پاس و لحاظ رکھنا نا گزیر ہے اور یہی تقوے کا
تقاضا ہے ۔ مولائے رحیم فرما رہا ہے سورہ توبہ آیت نمبر 7؍ (ترجمہ) ان
مشرکین کے لئے اﷲ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی عہدآخر کیسے ہو سکتا ہے بجز
ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا ۔تو جب تک وہ
تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیوں کہ اﷲ متقیوں کو
پسند فرماتا ہے ایک جگہ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے سورہ آل عمران آیت نمبر
76؍ (ترجمہ) جو بھی اپنے عہد(وعدہ) کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے
گا وہ اﷲ کا محبوب بنے گا کیوں کہ پرہیز گار لوگ اﷲ کو پسند ہیں۔
عہد کے بارے میں پوچھ گچھ ہونا ہے: سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 33؍ وَ
اَوْفُوْ بِالْعَہْدِ ج اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُوْلَا(ترجمہ کنز
الایمان) اور عہد (وعدہ) پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے اﷲ سے وعدہ
پورا کرو اور بندوں سے بھی۔
پیارے اسلامی بھائیوں و بہنوں متذکرہ بالا آیتوں و حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا
ہے کہ عہد کا ایفا یعنی وعدہ پورا کرنا اﷲ کی خوشی و مسرت اور محبت و
رضامندی کا سبب ہے اﷲ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندے کے لئے عظیم انعام و
اعزاز ہے اس سے بڑھ کر کوئی اکرام نہیں ۔اﷲ ہم تمام اہل ایمان کو عہد(وعدہ)
کی اہمیت سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔ |