بہت سی اموات کی ایک واضح وجہ تو
ہمارے اہم اعضاء کا جواب دے جانا ہے۔ اگر ایسے اعضاء کو وقت پر تبدیل کیا
جا سکے تو کئی لوگ مزید کُچھ وقت دُنیا میں گزار سکتے ہیں۔ "مصنوعی" دلوں
پر ریسرچ اِسی کوشش کا حصہ ہے ( یہاں مصنوعی دلوں سے مراد خلوص سے خالی دل
نہ لیا جائے)۔ کہانی شروع ہوتی ہے 1967 جنوبی افریقہ میں جہاں ایک سرجن نے
پہلی بار ہارٹ ٹرانسپلانٹ کا کامیاب آپریشن کِیا جس میں ایک مریض کا دل ایک
اور انسانی دل سے تبدیل کیا گیا۔ اِس آپریشن کی کامیابی کے فوراََ بعد
دُنیا بھر میں ڈاکٹروں نے ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے آپریشن کئے۔ مگر جلد ہی سب کو
معلوم ہوا کہ 'کامیاب' آپریشنز کے تمام مریض آپریشن کے بعد زیادہ سے زیادہ
ایک سال تک ہی جی سے۔ اُن کے جسم ایک 'اجنبی' عضوء کو قبول نہیں کر رہے تھے۔
اِس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ڈاکٹروں نے اگلے مرحلے میں مریضوں کے جسم کے
دفاعی نظام کو کمزور کرنے کی کوشش کی، تا کہ یہ دفاعی نظام اجنبی دل کو
نقصان نہ پہنچائے۔ مگر جب انسان کا دفاعی نظام کمزور کر دیا جائے تو عام
بیماریاں بھی اُس کے لئے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔ دوسری طرف ایک اہم
مسئلہ یہ ہے کہ مریضوں کی تعداد دل عطیہ کرنے والوں سے کئی گنا زیادہ ہوتی
ہے۔ اِن مسائل کی روشنی میں سائنسدانوں نے دھیرے دھیرے ایسے حل تلاش کرنا
شروع کئے ہیں جن میں یا تو مکمل طور پر مصنوعی دل استعمال کیا جا سکے، یا
مریض کے دل کو ایسے سپورٹ دی جائے کہ خون کی گردش کا کام جاری رہے۔ پہلی
قسم کے دلوں میں جاروِک-7 اور سینکارڈیا نامی مصنوعی دل شامل ہیں۔ دوسری
قسم، جو اِس وقت کافی توجہ حاصل کر رہی ہے، ایسے نظاموں کی ہے جو باریک
ٹیوبوں کی طرح ہوتے ہیں اور دل کے ایک حصے میں خون کو ایک چھوٹے سے ٹربائن
کی مدد سے متواتر چلاتے رہتے ہیں۔ اِن کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اِن کے متواتر
خون کو گردش میں رکھنے کی وجہ سے مریض کی نبض "تھمی" ہوئی محسوس ہوتی ہے (نبض
کی دھم دھم دل کی طرف سے وقفوں میں 'جھٹکے' دے کر خون کو پمپ کرنے کی وجہ
سے ہوتی ہے)۔ اِن نظاموں میں امپیلا اور ہارٹ میٹ شامل ہیں۔
ایک طرف تو اِن مصنوعی اقسام پر کام جاری ہے، تو دوسری طرف سائنسدانوں کی
کئی ٹیمیں اصل گوشت پوست کا دل لیب میں 'اُگانے' کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ ایک اور کہانی ہے، اور اِس کی کامیابی میں ابھی بہت وقت لگے گا۔
- ابنِ مُنیب |