دی اسٹوری آف khan

ہم سب کیا کرنا چاہتے ہیں سب کا مشترکہ جواب باآواز بلند ہوتا ہے ترقی۔اس کے برعکس ہم کر کیا رہے ہیں دن رات لوٹ مار ،ظلم کے سسٹم کی آبیاری ۔ایک دوسرے کی جڑیں کھودنے کا کام ہم سے بہتر شاید ہی کوئی قوم کر سکتی ہو۔شریف اصول پسند لوگ ہمارے ہمارے سسٹم کے لیئے زہر قاتل ہیں ۔اس لیئے ان کا قتل عام مختلف حیلوں بہانوں سے جاری ہے۔آج ایک اور ستارہ اندھیری رات میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔خان کی کہانی سننے کے لیئے پتھر سے سخت جگر چاہئے۔ہم پاکستانی ہر کہانی سے عبرت کی بجائے مزہ کشید کرنے کے ایکسپرٹ ہو چکے ہیں۔سو ایک کہانی اور سہی تھوڑی چس بھی اور سہی۔خان کی کہانی اس کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے۔وہ ہوش سنبھالنے سے آج تک اس فرسودہ مکڑی کے جالے سے بدنما سسٹم سے لڑتا آیا ہے۔اس بے چارے کی سچائی اور سیدھے پن کا یہ حال ہے کہ ایام طالب علمی میں جب ماسٹر نے پوچھا کہ میاں تم نے تو کبھی چھٹی نہیں کی خیریت تو تھی دو دن بن بتائے اسکول نہیں آئے۔خان نے بڑی معصومیت سے جواب دیا کہ میرے دالد کی شادی تھی۔سب لڑکوں نے قہقہے لگائے ۔دنیا ہنس رہی تھی اس پر جو سوتیلے پن کی اندھی کھائی میں جا گرا تھا۔ماسٹر نے خان کو پاس بلا کر پیار کیا اور بولے بیٹا ایسی باتیں سر عام نہیں بتاتے۔کوئی سا جھوٹ بول دیتے دادی کو بیمار کر دیتے نانی کو بخار میں مبتلا کر دیتے اور کچھ نہیں تو فدوی کو بخار کے پنجوں میں ڈال دیتے جیسا ک روز اردو کی درخواست میں لکھتے ہو۔خان مسکرایااور ہمارے ساتھ آ کر تین ٹہنی کھیلنے لگ گیا جو ک ہم ماسٹر سے نظر بچا کر اکژ وقت گزاری کے لئے کھیلتے۔وہ ذہین تو تھا ہی سو میٹر ک بورڈ میں پانچویں پوزیشن لی۔پھر کالج میں میرٹ بنا کر انجینئرنگ کرنے جا پہنچا۔سچ بولنا اسٹریٹ فارورڈ ہونا کالج لائف تک تو اس کی خوبی شمار ہوتی رہی یونیورسٹی پہنچ جانے کے بعد یہی خوبی اس کے لیئے وبال جان بننا شروع ہوئی ۔بندہ لگن کا پکا تھا یونیورسٹی کے ماحول میں بھی سروائیو کر گیا۔گو مالی حالات اچھے نہیں تھے لیکن جیسے تیسے انجینئرنگ کر ہی گیا۔ڈگری لینے کے بعد خان کی زندگی کا سنہری دور ختم ہو گیا۔یونیورسٹی کے گیٹ پر اچھے نصیب نے بھی اسے گڈ بائی کہہ دیا۔گیٹ کے باہر دفتروں محکموں کی جھوٹ منافقت ننگے مفادات کی دنیا اور مفادات کی مٹی سے گندھے برہنہ دولت اور اقتدار کے پجاری خان کے منتظر تھے۔شریف آدمی نوکری کے لئے بھاگ دوڑ کرنے لگا۔چند ماہ پرائیویٹ نوکری کی پھر سرکاری تحویل میں خود کو دے دیا۔دوسرے یار دوست وقتا فوقتا ملک چھوڑ کر باہر پرواز کے گئے لیکن یہ بے چارہ وہی وطن کی مٹی اپنا ملک مٹی کی خوشبو جیسے جذبوں سے چمٹا رہا۔میں نے بارہا اسے سمجھایا کہ میاں یہ جھوٹ کا جہان ہے یہاں تم جیسے بندے کا گزارہ نہ تھا نہ ہو گا۔میری تمام باتیں بغور سنتا اور آخر میں یہ نعرہ لگا کر اٹھ کھڑا ہوتا کہ اس ملک میں پیدا ہوا ہوں اس ملک نے مجھے پڑھایا لکھایا اب چھوڑ کر بھاگتے ہوئے شرم آتی ہے۔ایسا کرنا بیغیرتی ہے اور مجھ میں بے غیرت بننے کا حوصلہ نہیں ۔تین سال خان نے ڈیفنس کی جاب کی سچ بولنے والا بھلا کیا جانے کہ Apple polishing کیا بلا ہے۔خان کام سے کام رکھنے والا بندہ تھا۔کام کرنے والے بندے کی کم از کم پاکستان میں نہ ضرورت ہے نہ عزت ہے۔خان تین سال یہی گنگناتا رہا اسلام آباد کی فضاؤں میں
ہم نے اقبال کا کہا مانا اور فاقے کے ہاتھوں مرتے رہے
جھکنے والوں نے رفعتیں پا لیں اور ہم خودی بلند کرتے رہے

اس کا یہ شعر ذہنی حالت اور دفتری معاملات کا بھر پور عکاس تھا۔اسلام آباد کی فضاؤں میں جب محبت روٹھ گئی دل بھی اکتا گیا تو گھر اور بچپن کے یاروں کی تلاش میں ایک اور سرکاری نوکری تلاش کی۔محکمے کا نام بدل گیا ۔لوگوں کے نام بدل گئے۔باقی سب پہلے سے بھی ابتر تھا۔یہاں بھی صرف کام پر فوکس کرنے والے کو بیکار خوشامد کرنے والے کو کامیاب قرار دیا جاتا تھا۔کبھی ٹرانسفر تو کبھی جونیئرز کا جونیئر بنا دیا جانا۔کبھی آفس سے محروم کر دیا جانا تو کبھی او ایس ڈی بنا دیا جانا۔الغرض کمینگی کے جتنے کھیل بے حس سرکاری دنیا کے لوگ جانتے تھے اس شریف آدمی کے ساتھ کھیلے گئے۔سب کھیل اپنی جگہ خان کا ایک ہی نعرہ تھا کہ رزق کا مالک میرا رب ہے۔عزت اور ذلت سب اسی کے ہاتھ میں ہے۔سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والوں کے مفادات کے راستے میں آجانا وہ عبادت سمجھتا تھا۔ایک دفعہ میرے ساتھ جاتے ہوئے سڑک پر ایک ایکسیڈنٹ ہو گیا ۔خان دیوانہ وار سڑک پر گرے نوجوان کی مدد کے لیئے لپکا تو میں نے اسے روکا کہ کیوں گواہی ہسپتال تھانے کچہری کے چکر میں پڑتے ہو ۔اس کا چہرہ لال ہو گیا اس کے جواب نے مجھے لاجواب کر دیا۔آج بھی اس کے الفاظ سوچتا ہوں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔"اگر آج اس کو سڑک پر تڑپتا چھوڑ جاؤں تو کا اتنا بے حس ہو جاہونگا کہ تمہیں بھی سڑک پر خون میں لت پت پڑا دیکھ کر تم جیسے کسی دوست کے کہنے پر چھوڑ کر سائیڈ سے نکل جاؤنگا۔اس کی جگہ کل تم میں ہمارا کوئی پیارا بھی ہو سکتا ہے۔" یہ جواب دے کر وہ مجھے اپنی ہی نظروں میں ہمیشہ کے لیئے شرمندہ کر کے زخمی کی مدد کے لئے دوڑ پڑا ۔چند دن پہلے سرراہ ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ میاں کہاں ہوتے ہو آج کل۔تو اس کا جواب بڑا دلچسپ تھا۔کہنے لگا"یار یہ دنیا ہے یہاں فرعون بھی ہو گا موسی بھی ہو گا یہاں جھوٹ بھی پروان چڑھے گا ۔سچ کا بھی بول بالا ہو گا۔ہم جیسے لوگ ہوا کے جھونکوں کی طرح ہوتے ہیں ان کے ذمہ معاشرے کا کفارہ ادا کرنا ہوتا ہے۔اس میں ہمارا کوئی ذاتی کمال نہیں ہوتا یہ سب خدا کی دین ہوتی ہے۔جسے خدا کوئی فرض ادا کرنے کے لئے چن لے وہ اپنی قسمت پر ناز کرنے اور اس فرض کو ادا کرنے کے علاوہ کچھ اور کرنے کا سوچتا بھی نہیں۔"وہ تو چند بھنٹے گپ شپ لگا کر ہوا کے جھونکے کی طرح اڑ گیا لیکن میں فرصت کے لمحات میں اسے سوچنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پاتا۔ہم لوگ یہ کیا کر رہے ہیں ۔خان جیسے لوگوں کو رول ماڈل بنانے اور ان کی تقلید کرنے کی بجائے ہم الٹا اہنی کو عبرت کا نشان بنانے پر تل جاتے ہیں۔کسی نے کیا خوب لکھا ہےwho ever is trying to bring you down is already below you۔مجھے نہیں معلوم کہ اس فقرے کا خالق خان سے واقف ہے کہ نہیں لیکن میرا دل و جان سے ایمان ہے کہ یہ فقرہ خان کی گریٹنس اور ہمارے گھٹیا پن کا بھر پور عکاس ہے۔ہم لوگ اپنے اندر کے فرعون سے اسقدر مغلوب ہو چکے ہیں کہ ہم سچے اور کھرے لوگوں کو ذلیل کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان سے برتر اور عظیم ہیں۔ٹیلنٹڈ لوگوں کو ذلیل کر کے ہم دن رات اس دکھ میں گھلتے رہتے ہیں کہ اس ملک کا اس معاشرے کا ہمارے بچوں کے مستقبل کا کیا بنے گا۔رات کے ٹاک شوز اور خبرنامے کے حالات سن کر ہم روزانہ توبہ تائب ہو کر سوتے ہیں ۔اگلی صبح ہمیں کبر نہیں ہوتی کہ کب ہمارے ساتھ ہمارے اندر کا فرعون بھی جاگ اٹھتا ہے جسے رات کو ہم نے بڑی مشکل سے سلایا تھا۔یہ جنگ ہے جو ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ہمارے اندر موسی بھی ہے اور فرعون بھی کنڈل مارے بیٹھا ہے۔فیصلہ ہم پر ہے کہ ہم کسے جگانے اور کسے سلائے رکھنے کا فن سیکھتے ہیں۔
Rizwan Khan
About the Author: Rizwan Khan Read More Articles by Rizwan Khan: 24 Articles with 20049 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.