گذشتہ دو دہائیوں سے دنیا میں
دہشت گردی کی فضا طاری ہے اور مغربی و امریکی میڈیا اپنے عوام اور دنیا بھر
کو یہ باور کرانے کی سر توڑ کوشش کرہا ہے کہ مسلمان ہی اس دہشت گردی کا
باعث ہیں اور اس وجہ اسلام کی تعلیمات ہیں جو انہیں انتہا پسندی پر اکساتی
ہیں۔ دنیا میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور میڈیا کے اس پروپوگنڈا
کے بعد کیا واقعی اہل مغرب مسلمانوں کو انتہا پسند اور دہشت گر سمجھتے ہیں
ان سوالوں کے جواب کی تلاش میں سٹاک ہوم کے نواحی علاقہ فتیا میں انتہا
پسندی کے موضوع پر ہونے والے اجتماع میں شرکت کے لیے جانے کا موقع ملا۔ یہ
اجتماع سویڈن میں مختلف ممالک کے تارکین وطن کی اٹھائیس تنظیموں کے اتحاد
نیشنل ایمگرنٹ فورم کی جانب سے مشترکہ طور پر منعقد کیا گیا۔ اس کے سربراہ
جعفر مغل اور پروگرام کے منتظم سائیں رحمت علی نے اس سلسلہ میں کافی تیاری
اور محنت کی ۔سویڈن کی اہم شخصیات کوڈسکشن پینل میں شامل کیا جنہوں نے
انتہا پسندی کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا اورجس کے بعد شرکاء نے اُن
سے سوالات بھی کیئے۔ پینل میں راقم (عارف کسانہ) کے علاوہ سویڈش رکن
پالیمنٹ اور گرین پارٹی کے سماجی و سیاسی امور کے ترجمان سٹیفن نیلسن،
پروفیسر جان یرپے، پروفیسر ماتھیاس گارڈل، سیاسی اور تنازعاتی امور کے ماہر
فیلیکس انوگواور امام حسنین گوانی تھے۔ سویڈش سوشل ڈیموکریٹ کی سابق سربراہ
اور انتہا پسندی کے تدارک کے لیے قومی کوآرڈینیٹر مونا سیلن سیکورٹی وجوہات
سے شرکت نہ کرسکیں۔ اس اہم پروگرام کی نظامت انتہا پسندی کے امور کے ماہر
پروفیسر مائیکل میک ایکرینس نے بہت خوبصورتی سے کی۔ پروفیسر جان یرپے سویڈن
میں اسلامک سٹیڈیز کے پہلے پروفیسر ہیں جو لند یونیورسٹی میں ۱۹۸۳ء تک
تعلیم وتحقیق میں مصروف رہے۔ انہوں نے اسلام کے بارے میں بہت سی کتب لکھی
ہیں جن میں پولیٹیکل اسلام اور اسلامی دنیا شامل ہیں۔ وہ سویڈن میں اسلام
اور مشرق وسطیٰ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور وہ سویڈش وزارت خارجہ کے مشیر
بھی رہے ہیں۔ پروفیسر ماتھیاس گارڈل سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی میں تقابل
ادیا ن کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور بہت سی کتب کے مصنف ہیں جن میں اسلام
فوبیا اور اسامہ بن لادن ہمارے دلوں میں شامل ہیں۔ وہ حقوق انسانی کے
علمبرادر ہیں اور تین دفعہ غزہ کی ناکہ بندی توڑنے والے بحری جہاز میں سوار
ہوکر وہاں پہنچنے کی کوشش کی۔ انہیں سویڈن کا سب سے بڑا ادب کا انعام بھی
مل چکا ہے۔ اس اہم پینل کے ساتھ انتہا پسندی کے حوالے سے پروگرام میں شرکت
بہت اہمیت کی حامل رہی اور شرکاء نے بھی دلچسپی لی۔
کیا سلام میں انتہا پسندی کی گنجائش ہے اور اس سلسلہ میں قرآنی تعلیمات کیا
ہیں۔ اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے راقم نے بہت سی قرآنی آیات پیش کیں
جن میں واضع طور پر کہا گیا ہے کہ کسی پر کوئی جبر نہیں اور جب اﷲ تعالیٰ
نے انسانوں پر اپنی مرضی مسلط نہیں کی تو کسی اور کو کیا حق پہنچتا ہے۔
قرآن حکیم میں رسول پاک ؐ سے بھی کہا گیا کہ آپ کو داروغہ نہیں بنا کر
بھیجا گیا اور نہ ہی آپ کسی پر زبردستی کرسکتے ہیں۔ اﷲ نے حکم دیا ہے کہ
زمین پر فساد مت پھیلاؤ ۔ دوسروں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرو۔ کسی کی جان
لینے کا کسی کو کوئی حق نہیں۔ ہر ایک اپنے عقیدہ کے مطابق زندگی بسر کرے۔
ان تعلیمات کے باوجود کچھ مسلمان کیوں انتہاپسندی میں ملوث ہیں۔ اس کی
مختلف وجوہات ہیں جن میں سے اہم یہ ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن حکیم اور اسوہ
حسنہ پرعمل پیرا نہیں۔ جو لوگ دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہیں ان کا
اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ فتنہ خوارج کا تسلسل ہے۔مسلمانوں میں سے
ایک فی صد سے بھی کم لوگ ایسی کاروائیوں میں ملوث ہیں جس مطلب ہے کہ
مسلمانوں نے دہشت گردی کو مسترد کیا ہے۔خود مسلمان دہشت گردی کا شکار ہیں
اور ان کاروائیوں میں جان بحق ہونے والے مسلمان ہیں۔ یہ سب اسلام دشمنوں کی
کارستانی ہے جس کا آلہ کار کچھ مسلمان ہونے کے دعویٰ دار ہیں دنیا میں
ناانصافی انتہا پسندی کو جنم دیتی ہے جس کا نتیجہ دہشت گردی ہے۔ امن کے لیے
دنیا میں عدل و انصاف لانا ہوگا۔ عام مسلمانوں کا خیال ہے کہ دنیا کے وہ
مسائل جو مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں انہیں حل نہیں کیا جاتا جیسے فلسطین
اور کشمیر جو کہ ۱۹۴۸ء سے اقوام متحدہ کیایجنڈا پرہیں۔ لاکھوں کشمیریوں کی
قربانیاں عالمی ضمیر کو کیوں بیدار نہیں کرسکیں۔ ساٹھ لاکھ کشمیری اب بھی
مہاجر ہیں۔ عالمی طاقتیں کیوں مسئلہ کشمیر اور فلسطین حل نہیں کرتیں۔ اقوام
عالم کیوں دہرا معیار رکھتی ہیں۔ پیرس کی دہشت گردی کی بھرپور مذمت ہورہی
اور ہونی بھی چاہیے لیکن گذشتہ سال پشاور میں ۱۴۱ افراد جن میں ۱۳۲ بچے تھے
اس پر دنیا نے کیوں ایسا رد عمل نہ دیا۔ افغانستان میں سویت یونین کی
مداخلت سے پہلے دنیا میں اس نوعیت کی انتہا پسندی اور دہشت گردی نہیں تھی۔
طالبان، القائدہ، داعش اور دوسروں کو بنانے والے پشت پناہی کرنے والے کون
ہیں۔ انہیں اسلحہ، جدید ترین فوجی سازو سامان، طبی اور دیگر سہولتیں کون
مہیا کرتا ہے۔ افغانستان ، عراق، لیبیا اور شام میں فوجی مداخلت سے کیاحاصل
ہوا ہے۔ اب طالبان سے دوستی کرکے انہیں داعش کے خلاف استعمال کرنے کی باتیں
ہورہی ہیں تو کل کس کی باری ہوگی۔شرکاء نے میرے ان خیالات کو پسند کیا اور
بعد میں یہ سویڈش پریس میں شائع ہوئے ہیں۔
حسنین گوانی نے کہا کہ یہ مسلمانوں کو کیوں کہا جاتا ہے کہ وہ اسلام کی نئی
تعبیر کریں۔ اس کا مطالبہ دیگر مذاہب سے کیوں نہیں کیا جاتا حالانکہ اُن کے
لوگ بھی دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ انہہوں نے کہا کہ سویڈن میں مساجد یہاں کے
ٹیکس کے پیسوں سے بنیں اور بیرونی امداد بند ہونی چاہیے۔ پینل کے شرکاء اس
بات پر متفق تھے کہ حالیہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجوہات مذہبی نہیں
بلکہ سیاسی ہیں۔ مسلمان دہشت گرد نہیں۔ پیرس میں ہونے والے واقعہ پر بھی
کئی سوالیہ نشانات ہیں۔ ہمیں معاشرہ سے انتہا پسندی کو ختم کرتے ہوئے بھائی
چارہ کو فروغ دینا ہوگا۔ معاشرہ میں رواداری، مکالمہ اور باہمی رابطے
بڑھانا ہوں گے۔ مقامی اور تاکین وطن کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہنے سے مزید
دوریاں اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں پروفیسر جان یرپے نے
کہ کہ داعش کی دولت اسلامیہ کو دولت ابلیس کہنا چاہیے۔ سویڈش رکن پارلیمنٹ
سٹیفن نیلسن نے سویڈش حکومت کی ان کوششوں کا ذکر کیا جو وہ انتہاپسندی کے
خاتمہ کے لیے کررہی ہے۔ حاضرین میں موجود کامن گراونڈ تنظیم کے بانی اور
مسیحی مبلغ اور مصنف ایمانویل راتق نے کہا کہ قرآن حکیم امن اور بھائی چارے
کی تعلیمات دیتا ہے اور اہل کتاب ملت ابرھیمی ہونے کی وجہ سے آپس میں امن
اور دوستی سے رہیں۔ پروگرام کے منتظمین جعفر مغل اور سائیں رحمت علی نے کہا
کہ سویڈن کے دور دراز علاقوں سے شرکاء کی آمد اور دلچسپی سے شرکت اس بات کا
مظہر ہے کہ انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے سب کوشاں ہیں ۔ سویڈش معاشرہ ایک
پر امن معاشرہ رہا ہے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ اسے قائم رکھیں۔ انہوں نے
کہا مستقبل میں مزید ایسے پروگرام منعقد کئے جائیں گے۔ شرکاء میں پاکستان
کے سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر غلام حسین بھی شامل تھے۔ |