حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نبی
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
اﷲ تعالیٰ نے جب عقل کو پیدا فرمایا تو اس سے فرمایا کہ کھڑی ہوجا ، تو وہ
کھڑی ہوگئی پھرکہا پیٹھ موڑ تو اس نے پیٹھ موڑ لی پھر کہا ادھر منہ کر تو
اس نے ادھر منہ کرلیا اس سے کہا بیٹھ جا تو وہ بیٹھ گئی ،فرمایا کہ میں نے
کوئی چیز ایسی پیدا نہیں کی جو تجھ سے بہتر ہو اورنہ ایسی جو تجھ سے بڑھ کر
ہو اور نہ ایسی جو تجھ سے زیادہ حسین ہو، تیرے ہی ذریعہ پکڑوں گا اور تیرے
ہی ذریعہ دوں گا تیرے ہی ذریعہ پہچا نا جاؤں گا، اورتیری ہی وجہ سے سزادوں
گا ،ثواب بھی تیری ہی وجہ سے ہے اورعذاب بھی تیری ہی وجہ سے۔(مشکوۃ شریف)
عقل دماغ کی اس قوت کا نام ہے جو ادر اک واحساس اورشعور کا مرکب ہے، عقل
انسان کو کام میں جلدی کرنے سے روکتی ہے اس کے برعکس کسی چیز کا علم ہوتے
ہی اس کو مان لینا اور فوراً اس کے مطابق کام کر بیٹھنا عقل کی کمی کی
نشانی ہے اس لیے کہ عقل کاکام ہے تحقیق کرنا ہر کام کے آغاز وانجام پر
غوروفکر کرنا اوربہت سوچ سمجھ کر اس کے مطابق عمل کرنا عقل مندی اوراس کی
بہتری کی نشانی ہے ۔حدیث شریف میں بتایاگیا ہے کہ آدمی کی عقل کھڑی بھی
ہوسکتی ہے یعنی اپنا کام کرنے کے لیے تیار اورمستعد رہتی ہے اسی طرح عقل
بیٹھ بھی سکتی ہے یعنی چھپی ہوئی اور سست جو اپنا کام کرنے کے لیے دیر میں
تیار ہوا ور عقل پیٹھ بھی پھرلیتی ہے یعنی فوراً توجہ نہیں کرتی اور منہ
سامنے بھی کرلیتی ہے یعنی فوراً کام کی طرف توجہ کرلیتی ہے اوریہ بھی صاف
کہہ دیا گیاہے کہ انسان میں عقل ہی سب سے اچھی سب سے بڑھ کر اورسب سے زیادہ
خوبصورت شے ہے آدمی میں جتنی عقل ہوگی اتنی ہی اسکی قدر ہوگی اسی کے مطابق
ثواب اورعذاب ملے گا غرض عقل پرانسان کی ہر چیز کادرومدارہے اگر عقل سے کام
نہ لیا تو دنیا میں بھی خسارہ رہیگا اورآخرت میں بھی نقصان ہوگا حدیث پاک
سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کی عقل تیز بھی ہوسکتی ہے اور سست بھی اس لیے
کسی بات کا فقط جان لینا ہی کافی نہیں بلکہ اسکی تحقیق اورچھان بین بھی
ضروری ہے اوریہی عقل کاکام ہے ۔
حضرت ابوذر ضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے سرکا ردوعالم صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ عقل کا کام اس سے بڑھ کر اورکوئی نہیں کہ انجام سوچ لے،
اوررک جانے سے بڑھ کر کوئی پرہیز گاری نہیں، اس سے بڑھ کر کوئی خوبی نہیں
کہ انسان کے اخلاق اچھے ہوں۔‘‘
تدبیر کے معنی ہیں انجام پر غور کرنا اس کے دومفہوم ہوسکتے ہیں ایک تو یہ
کہ جو کام کرنا ہو انسان پہلے اس کے نتیجہ میں غور وفکر کرلے جب تک یہ
اطمینان نہ ہوجائے کہ نتیجہ انشاء اﷲ اچھا ہی ہوگا کسی کام کو ہاتھ نہ
لگائے اوریہ بھی مفہوم ہوسکتاہے کہ انسان پہلے سوچ لے کہ اگر نتیجہ خراب
ہوا تو اس کے بعد کیا کرنا پڑے گا ، اس کامطلب یہ ہوا کہ عقل کاکام یہ ہے
کہ وہ برے نتائج پر پہلے ہی غور وفکر کرلے اور پہلے ہی یہ سوچ لے کہ اس
صورت میں اس کاکیا علاج ہوگا دونوں صورتیں عقل کے درست ہونے کی نشانیاں ہیں۔
اسلام میں بہت سے کاموں کے نتیجے بتلادیئے گئے ہیں اس لیے اب عقل کاکام بس
یہی ہے کہ قرآن وحدیث کے بتلائے ہوئے نتیجہ کا دل کو یقین دلائے اور کہے کہ
جوکچھ اسلام نے بتلایا ہے وہ درست ہے وہ ہوکر رہے گا اس لیے جن کاموں کے
نتیجے اسلام نے خراب بیان کئے ہیں انسان کو چاہیے کہ ان کے قریب نہ جائے
اورجن کاموں کے نتیجے اچھے بتلائے گئے ہیں انہیں پختہ ارادہ کے ساتھ اختیار
کرے ، اسلام کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کی تعلیمات میں مرنے کے بعد دوبارہ
زندہ ہونا یقینی بتایاگیا ہے اورموت کے بعد جوزندگی ملے گی وہی پائیدار
ہوگی اس لیے انسان کو وہی کام اختیار کرنے چاہیے جن کا نتیجہ آخرت میں اچھا
نکلے اوریہ یقینی بات ہے کہ دنیا کی عارضی زندگی بھی اچھے کاموں سے سنورے
گی بشرط یہ کہ اﷲ اوراس کے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور آخرت پر
ایمان لاکر انہیں کیا جائے بس انہی باتوں کا ماننا عقل کاکام ہے گویا پرہیز
گاری کا لب لباب یہ ہے کہ ان کاموں سے رکے جن سے قرآن وحدیث میں روک
دیاگیاہے اور انسان کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اس کے اخلاق اچھے ہوں یعنی
اسے نیک کاموں کے کرنے کی پختہ عادت ہوجائے جن کا انجام قرآن وحدیث میں
اچھا بتایاگیا ہے، خلق کے یہ معنی یاد رکھنے چاہیے ہر ایک سے خندہ پیشانی
سے پیش آئے۔
عقل اﷲ رب العزت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ۔جس کے پاس عقل نہیں وہ
بیکار زندگی گزارتا ہے ،عقل ایسی چیز ہے کہ اس پر ضرب الامثال کے انبار لگے
ہوئے ہیں ۔مثلاً بے وقوف دوست سے عقل مند دشمن بہتر ہے اس لیے عقل بھی
تقاضا کرتی ہے کہ اس کا استعمال جائز اور اچھے کاموں پر کیا جائے۔عقل کے
ذریعے انسان آج پرواز کر رہا ہے ،موبائل اوردیگر جدید پرنٹ میڈیا اور
الیکٹرانک میڈیا کی ایجادات اور ان کا استعمال سب عقل کے مرہون منت ہیں ،
بہت سے الیکٹرانک کاروبار بھی وجود میں آچکے ہیں یہ سب عقل کے کرشمے ہیں۔
اﷲ رب العزت کا ہم مسلمانوں پر یہ انعام ہے کہ ہمیں مسلمان کھرانے میں پیدا
فرمایا اور اس سے بھی بڑھ کر کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کی امت میں
پیدا فرمایا لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اپنی عقل کو درست سمت میں استعمال کریں
اور اس سے مستفید ہوکر اسلام کے پھیلاؤ اور جہالت کے اندھیروں کے خاتمے کے
لیے کردار ادا کریں۔اﷲ رب العزت سے دعا مانگنی چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں عقل
سلیم عطا فرمائے ۔آمین
٭……٭……٭
(بروز جمعتہ المبارک دینی ایڈیشن کے لیے) |