ایک تھے داعی دو تھے مدعو مصباحی

(ایک مشاہداتی سفر کی روداد)

از: محمد میاں مالیگ(لندن)

۱۰؍ ستمبر۲۰۱۵ء جمعرات کی شام کے پانچ بجے سفر اور سواری کی مسنون دُعائیں پڑھ پڑھ کر ہم باپ بیٹے(محمد ارشد مصباحی اور محمد میاں مالیگ) گوجرانوالے کے محمد یاسین کی کار سے منکرین فضائل رسالت کو کوثر و سلسبیل کی سی دُھلی، لکھنوی اور دہلوی زبان میں مومن فضائل رسالت بن کر جہنم کے ابدی اور لافانی عذاب سے بچ جانے اور ہمیشہ ہمیشہ کی عیش و عشرت بھری جنت کے مالک بن جانے کی نہایت ہی مفید اورمخلصانہ اور واقعی دعوت دینے والے سیاحِ ممالک عرب و عجم حضرت اقدس علامہ قمر الزماںخاں صاحب اعظمی مصباحی مدظلہ العالی کے ہمراہ مانچسٹر ایئر پورٹ پہنچے تھے ۔ دونوںمصباحیوں کو لیڈی اسمتھ جنوبی افریقہ کے دارالعلوم قادریہ کے مہتمم حضرت علامہ پیر سیّد محمد علیم الدین صاحب اصدق اعظمی مصباحی نے اپنے مدرسے کے ختم بخاری اور تکمیل حفظ قرآن اور تجوید و امامت کورس کے جلسے میں شرکت کی دعوت دی تھی ، جسے حضرت قمرالزماں صاحب اعظمی نے اپنی مانچسٹر کی مسجد کی توسیعی تعمیر نو کی مصروفیت کے سبب صرف تین چار دن کے لئے قبول فرمائی تھی پھر مانچسٹر سے دو گھنٹے کے ہوائی سفر کے بعد دو سرا جہاز لینے کے لئے ہمیں فرینکفرٹ کے ہوائی اڈے پر اُترناپڑا تھا اور یہاں سے ایک بہت بڑے دو منزلہ A380 طیارے کے ذریعے ساری رات ۹؍ گھنٹے کے بغیر تعطل کے مسلسل سفر کے بعد ہم جوہانسبرگ ( جنوبی افریقہ ) پہنچے تھے ۔ اس دوران جہاز کی آرام دہ بیٹھک پر نیم دراز ہو کر سونے کی ہم نے لاکھ کوششیں کیں لیکن فرش زمین پر مکمل دراز ہونے کا جو لطف و سرور ملا کرتا ہے وہ نصیب نہ ہوا ۔ اللہ اللہ! مالک کون و مکاں خلاق عالم نے مخلوق کو آرام و سکون کے کیسے کیسے انعامات عطا فرما رکھے ہیں ،لیکن بستر پھر بھی اس کا شکر گذار نہیں ہوتا، ہائے رے انسان کا کفرانِ نعمت …جوہانسبرگ کے ہوائی اڈے پر ہمارے میزبان کٹھور ضلع سورت گجراتی باپ دادائوں کے سپوت ڈاکٹر محمد منصور اپنے چھ سات سالہ بیٹے محمد حسین اور حیدر آباد کے باپ دادائوںکے سپوت ملاوی کے مولانا محمد نبیل کے ساتھ پہلے سے موجود تھے ۔ لہٰذا اُن کی کار میں بیٹھ کرہم ڈاکٹر صاحب کے گھر پہنچے یہاں طہارت و وضو اور تیار شدہ ناشتے سے فراغت کے بعد ہم نے حضرت اعظمی صاحب قبلہ کی ہدایت کے مطابق طیارے کی بیٹھک پر بیٹھے بیٹھے پڑھی ہوئی مغرب اور عشاء کی نمازوں کے اعادےکے بعد فجرکی نماز پڑھی اور پھر نیند کے غلبے اور سخت تھکے ہارے ہونے کے سبب بستروں پر دراز ہو کر میٹھی نیند کی گود میں پہنچ گئے ۔ لیکن ابھی تین چار گھنٹے سوپائے تھے کہ جمعہ شریف کی نماز کے لئے پھر اُٹھا دئیے گئے ۔

ڈاکٹر صاحب اور مولانا نبیل نے حضرت قبلہ اعظمی صاحب کے بیان کا انتظام سلطان باہو مسجد جوہانسبرگ میں کر رکھا تھالیکن ایثار وقربانی کے پیکر اور خلوص کے مجسمے اعظمی صاحب نے خورداں نوازی اور حوصلہ افزائی کےلئے جہاں عزیزم محمد ارشد مصباحی کو بیان کا حکم دیا وہیں مجھے بھی جمعہ شریف کی نماز پڑھانے کے شرف سے مشرف کیا ۔ فالحمدللہ ۔ ہمیں فراہم کی گئی حقیقت کے مطابق جوہانسبرگ کی یہ مسجد شریف ایک دیوانے شیخ اسمٰعیل علی چوبدار کی محنتوں اور خواب کی تعبیر ہے ۔خداوند کریم ہر مومن فضائل رسالت کو ان کے جیسی فرزانگی عطا فرمائے ۔

نماز کے بعد امام مسجد مولانا اسلم سلیمان نے سیّدنا امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا محبت بھراوہ صلوٰۃ و سلام پڑھا یا جو دُنیا بھر میں پڑھا جاتا ہے ۔ پھر حاضرین سے مصافحہ ومعانقے کے بعد ہم دوبارہ ڈاکٹر منصور کے دولت خانے پر لائے گئے۔ یہاں ان کے اہل خانہ اور والدہ ماجدہ نے قبلہ اعظمی صاحب اور ہم کہتروں کے لئےاپنے مقدور بھر بڑا اچھا اچھا کھاناتیارکر رکھاتھا ،اس لئے کھانے سے فراغت کے بعد اب چوںکہ ہمیں ہمارے اصل میزبان حضرت سیّد محمد علیم الدین صاحب اصدق کے یہاں لیڈی اسمتھ پہنچنا تھا،لہٰذا مولانا محمد نبیل صاحب کے ہمراہ ہم اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے ۔ راستے میں عصر کی نماز ایک قصبے کے چھوٹے سے بازار میں واقع آٹھ دس نمازیوں کی گنجائش والے جماعت خانے میں ہم سب نے پڑھی، یہاں ہمیں افریقہ کے اصل باشندوں کی غریب خواتین کو شام کے وقت سروں پر گٹھری اُٹھائے دُکانوں سے نکلتے دیکھ کر اپنےوطن کی غربت کی زندگی یاد آگئی، اس دوران پانچ چھ متشرع نوجوان بھی یہاں آ پہنچے جو لیڈی اسمتھ کے اجلاس میں شرکت کے لئے ہمارے شریکِ سفر بن گئے ۔ شاید یہ پروگرام پہلے سے طے تھا لیکن ہماری منزل چونکہ ابھی کافی دور تھی اس لئے راستے میں مغرب کا وقت آجانے کے سبب ہم نے چاروں طرف سے پہاڑیوں میں گھرے ایک ایسے گائوں کے ویسے ہی چھوٹے سے جماعت خانے میں مغرب پڑھی جس کا نام حضرت سیّدنا عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیدائشی مقام کے نام پر بیت اللحم تھا، اور اسی مناسبت سے ایک پہاڑی پر بلب کی روشنیوں میں ڈوباہوا کراس (+) کا نشان واضح طور پر نظر آرہا تھا ۔ نماز کے بعد مولانا نبیل نے قافلے کو جماعت خانے سے ملحق ایک مسلم ہوٹل سے گرم گرم بھنے گوشت اور آلو کے چپس کا بھر پور ناشتہ کرایا اور پھر ایک آدھ گھنٹے کے مزید سفر کے بعد ہم اپنی منزل لیڈی اسمتھ پہنچ آئے ۔ یہاں حضرت اقدس مولانا سیّد محمد علیم الدین صاحب اصدق نے اپنے اعزاء و اقرباء اور صاحب زادگان کے ہمراہ قبلہ علامہ قمر الزماں خاں اعظمی صاحب کا بڑے خلوص اور پیار کے ساتھ استقبال کیا۔ پھر خیر و عافیت دریافت کرلینے کے بعد ہم لوگوں نے طہارت و وضو کر کے عشاء کی نماز پڑھی، پھر ہلکی پھلکی چائے کا ناشتہ کرکے دارالعلوم قادریہ میں ہورہے الحاج محمد اویس رضا قادری کے نعتیہ اجتماع میں لے جائے گئے، جہاں ایک دیڑھ گھنٹے تک ہم نے اُن کی میٹھی اور سریلی آواز میں ’’حدائق بخشش شریف‘‘ کی وجد آور نعتیں سنیں پھر ختم اجتماع کے بعد دوبارہ حضرت اقدس مولانا سیّد محمد علیم الدین اصدق کے دولت خانےپر لائے گئے جہاں ہمیں رات کا کھانا پیش کیا گیا اور اس کے بعد سب کو سونے کی فہمائش کی گئی ۔

دوسرے دن فجر کی نماز کے بعد اہل علم احباب نے حضرت قبلہ قمر الزماں اعظمی صاحب کے ساتھ چائے کی محفل جمائی اور حالاتِ حاضرہ خصوصاً امریکی شیخ نینوی کی ایصال ثواب اور مسئلہ نور سے متعلق کچھ باتیں پیش کیں تو حضرت نے فرمایا کہ: آج عشاء کے بعد علماء حضرات کے ساتھ ایک ملاقات رکھ لی جائے اس میں ہم ان مسائل پر غور و فکر کرلیںگے۔ حاضرین کی تائیدکے بعد حضرت اقدس سیّد اصدق نے بتایا کہ آج عصر کے بعد ختم بخاری کی محفل ہو گی لہٰذا اس وقت تک کے لئےباہر سے تشریف لانے والے مہمان حضرات آزاد ہیں آرام فرمائیں یا ضروری کام انجام دیں ۔ لہٰذا ہم نے موقع کو غنیمت جانا اور بستر پر پہنچتے ہی نیند کی آغوش میں پہنچ گئے ۔ ظہر کے وقت ہمیں جگایاگیا، پھرظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعدکھانا کھلایا گیا ۔ معلوم ہوا کہ ہم تو بڑے مزے سے سو رہے تھے لیکن حضرت اعظمی صاحب قبلہ کو کم ہی سونا نصیب ہوا کہ احباب خصوصاًحضرت شیخ الحدیث مولانا افتخار احمد قادری اعظمی صاحب مصباحی مدنی ان سے ملاقات کے لئے تشریف لائے تھے ۔

عصر کی نماز کے بعد ہمیں دارالعلوم قادریہ لے جایا گیا، جہاں حاضرین اور درس نظامی کی تکمیل کرلینے والے چار طلباء فیجی کے مولانا ریاست گُل ، موزمبیق کے مولانا محمد ایوب عبدالمجید ، انڈیا نوساری سورت کے دارالعلوم انوار رضا کے ناظم مولانا غلام مصطفیٰ برکاتی کے صاحبزادے مولانا غلام مرتضیٰ اورملاوی کے اصل باشندے مولانا عمران کبانغا (جوغالباً افریقی نومسلم ہیں ) کے سامنے حضرت علامہ قمر الزماں خاں صاحب اعظمی نے مختصراً حضرت امام بخاری علیہ الرحمۃ الباری کی سوانح عمری بیان فرمائی ۔خصوصاً یہ کہ بچپن میں چیچک یا کسی اور بیماری کے سبب آپ مکمل طور پر آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے تھے لیکن پھر اللہ کے ایک نبی ، ایک رسول اور دوست سیّدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو تین چار ہزار سال پہلےگذر چکے تھے آپ کی والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کو خواب میں تشریف لاکر خوش خبری سنائی تھی کہ آپ کے صاحبزادے اب بینا ہو چکے ہیں، لیکن یہ تو ایک ایسے خواب کی بات تھی، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق اور کوئی رشتہ نہیں ہوتا لیکن پھر ہوا کیا ؟ ہوا یہ کہ صبح سویرے جب آپ بیدارہوئیں تو واقعی طور پر حقیقت میں اپنے پیارے پیارے ، چہیتے ، نابینا ، بیٹے کو ایسا ، دانا اور بینا پایا کہ اب جس کی لکھی ہوئی کتاب بخاری شریف کو قرآن کے بعد ’’سند ‘‘ کی حیثیت حاصل ہے اور جو ۱۲ ، ۱۳؍ صدیوں سے مسلمانوں کی آنکھوں کا تارہ بنی ہوئی ہے ۔ اللہ اکبر ! اللہ کے دوست و خلیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اللہ کے یہاں جب یہ مقام اور مرتبہ ہے تو ایمان سے کہئے کہ پھر اللہ کے محبوب ﷺ کا اللہ کے یہاں کیا مقام اور کیا مرتبہ ہو گا ؟ ﷺ ۔ اسی لئے تو کہنے والے کہتے ہیں اور سچ کہتے ہیں کہ:
گفتۂ او گفتۂ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

یا یہ کہ دیدۂ کور کو کیاآئے نظر کیا دیکھے ۔پھر حضرت اعظمی صاحب قبلہ کے اس ایمان افروز اورمنکرین فضائل رسالت سوز بیان کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا افتخار احمد قادری نے حاضرین کے سامنے چاروں معزز طلباء کو بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دے کر انہیں علماء کی صف میں کھڑے ہونے کا اعزاز بخش دیا ۔ الحمدللہ رب العلمین ۔ دراصل لیڈی اسمتھ کا یہ دارالعلوم ہمارے ناقص خیال سے جنوبی افریقہ ہی نہیں بلکہ دُنیا بھر کے مومنین فضائل رسالت کے لئے مولیٰ تبارک و تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ بلاشک اور بلاشبہ اہلِ سنت کے دوسرے مدارس بھی ہمارے سر کے تاج ہیں ۔ ہم ان کے منکر نہیں، یہ لایعنی اور بیکار ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمریں اور خدمات کو دراز سےدراز فرمائے ۔لیکن نہایت ہی خاموش طبع سیّد علیم الدین اصدق کے اس دارالعلوم کی اس خوبی نے ہمیں بے حد متاثر کیا ہے کہ اس کے طلباء اور فارغ شدہ علماء اپنے اسلافِ کرام کی علمی و قلمی خدمات خصوصاً منکرین فضائل رسالت کے تعاقب میں لکھی جانے والی کتب کو انگلش میں منتقل کرنے کا بے مثال کارنامہ انجام دینےلگے ہیں ۔ خدا وند کریم یہ خوبی اور یہ فضیلت دوسرے مدارس کے طلباء اور علماء خصوصاً امریکہ اوربرطانیہ کے تعلیم یافتہ مومنین فضائل رسالت ڈاکٹروں ،انجینئروں اور وکلاء میں بھی بیدار فرمادے ، تو بارگاہِ خداوندی میں یہ ضرور کامیاب اورسرخرو رہیں گے کہ کتابیں باقی و جاری و ساری رہتی ہیں، جب کہ تقاریر ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہیں ۔

اندریں حالات جنوبی افریقہ کے مومنین فضٗائل رسالت عوام و علماء کو بیچارے مخلص و بے لوث سیّد محمد علیم الدین اصدق کی کمزوریوں اور خامیوں کو نہیں کہ معصوم صرف اور صرف انبیاء و رُسل اور ملائکہ ہیں۔ علیہ الصلوٰۃ و السلام ۔ فضائل و کمالات اور خوبیوں کو دیکھتے ہوئے تن من دھن سے ہر ہر طرح ان کا معاون و مددگار بن جانا چاہئےکہ اسی میں ہماری دُنیا و آخرت کی فلاح اوربہبودی ہے ۔ کاش مومنین فضائل رسالت علماء اور عوام اپنےدنیوی اور اخروی نفع و نقصان کو مد نظر رکھ کر کسی کو دوست اور دشمن بنانےکی راہ اختیار کرلیں ۔

ختم بخاری شریف کی اس افریقی محفل میں جہاں قرب و جوار کے بہت سارے علماء اور مومنین فضائل رسالت نے شرکت فرمائی تھی وہیںہمیں ان مولانا عبدالہادی رضوی کی زیارت بھی نصیب ہوئی جنہوں نے افریقہ سے مرکز عشق و محبت ’’بریلی شریف‘‘ حاضر ہو کر درس نظامی کی تکمیل فرمائی، بلکہ برسوں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے سفر حضر کے خادم اور منظورِ نظر بھی رہے تھے۔ نمازِ مغرب کے بعد یہ مجلس ختم ہوئی تو ہمیں قیام گاہ پر لاکر کھانا پیش کیا گیا، پھر ایک آدھ گھنٹے بعد دوبارہ دارالعلوم کی جلسہ گاہ کے منڈپ میں لایاگیا، جہاں ایک دیڑھ گھنٹے تک عالی جناب اویس رضا قادری نےپھر سیّدنا امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کی پیاری پیاری دل کو لبھاتی نعتیں اپنے مخصوص انداز میں سنائیں ۔ ان کے بعد عزیزم محمد ارشد مصباحی اور حضرت علامہ قمر الزماں خاں صاحب نے قرآن و احادیث کی تعلیم کے فضائل پر بیان فرمایا اور بارہ بجے یہ محفل بھی ختم ہوئی ۔ پھر نماز عشاء پڑھ کر ہم لوگ سو گئے ۔
جی ہاں ! ہم بتانا بھول گئے کہ آج مغرب کی نماز کے بعد حسب تجویز حضرت علامہ قمر الزماں خاں صاحب اعظمی کے ساتھ سائوتھ افریقہ کےدس بارہ نوجوان حضرات علمائے کرام خصوصاً مولانا عبدالہادی کی ایک ملاقات حاجی محمد ہارون تار کے مکان پر ہوئی تھی، جس میں آپ نےشیخ نینوی اور دوسرے احبابِ شریعت و طریقت سے متعلق حالات کی سماعت کے بعد نصیحت و ہدایت ارشادفرمائی تھی کہ، بنیادی اختلافات کے سبب تو نہیں لیکن اپنے اسلافِ کرام کی طرح حنفی ، شافعی ، حنبلی اور مالکی جیسے اختلافات کے سبب افہام و تفہیم کے بعد ہم مومنین فضائل رسالت کو ایک دوسرے سے کٹ نہیں جانا چاہئے ۔ سلام و دُعا بند نہیں کردینا چاہئے ۔ ورنہ ہمارا وجود تک معدوم ہوکر رہ جائے گا اور ہم تاریخ میں عنقا ہوجائیںگے، دیکھئے! مسلمانوں کے مقابلے میں ہنودو بدھشٹ اور یہود و نصاریٰ یک جان دو قالب بن جاتے ہیں، بلکہ سنی مسلمانوں کے مقابلے میں منکرین فضائل رسالت سبھی ایک ہوجاتے ہیں، جس کے سبب ہم شاید ہر ہر میدان میں دُنیا بھر میں مات کھاتے جارہے ہیں ۔ لہٰذا قرآن پاک ( ۲۹ : ۴۸ ) کے مطابق ہمیں بھی آپس میں رحماء بینھم بن کر واقعی مومنین فضائل رسالت ہونےکا ثبوت دینا چاہئے ۔ … پھر دوسرے دن اتوارکی نماز فجر اور ناشتے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ آج دس بجے تا تین بجے محفل نعت و بیانات کے دوران درس نظامی کی تکمیل کر لینے والے چاروں علماء حضرات کے علاوہ حفظ قرآن کی تکمیل کر لینے والے سات حفاظ کرام؛ موزمبیق کے فرید صدیق اور ملاوی کے اسمٰعیل ابو اور حمزہ عبداللطیف اور حمزہ عبدالمالک اور موسیٰ جیمس اور عیسیٰ سنیک اور یاسین لکس اور قراءت کورس کی تکمیل کر لینے والے چھ قراء حضرات، ملاوی کے رسول عرفات اور عمران جمبو اور دائود سلیمان اور یوسف عبداللہ اور یوسف سویدی اور یحییٰ اسماء اور امامت کورس مکمل کر لینےوالے ڈربن کے محمد فیاض خان کی دستار بندی کی جائےگی ،انہیں سندیں دی جائیں گی، چنانچہ حضرت اویس رضا قادری نے دس تا ساڑھے گیارہ بجے نعت پاک کی روحانی اور کیف آور محفل سجائی اور سیّدنا امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ’’حدائق بخشش شریف‘‘ صرف پڑھی ہی نہیں بلکہ اُن کے اشعار کی حسب ضرورت قرآن و احادیث کی روشنی میں تشریحات بھی نہایت عالمانہ انداز میں بیان فرمائیں، پھر درج بالااٹھارہ علماء ، حفاظ ، قراء اور امام صاحب کی دستار بندی کی گئی ۔ انہیں سندیں عطا کی گئیں ۔ ان کے بعد عزیزم محمد ارشد مصباحی کی تقریر ہوئی پھر مفکر اسلام سیاح عرب و عجم حضرت علامہ قمر الزماں خاں صاحب اعظمی کا حالاتِ حاضرہ پر نہایت پُر مغز اور عالمانہ بیان ہوا جس میں آپ نے فرمایا کہ:
آج دُنیا میں برائے نام چھپن چھپن اسلامک ممالک موجود ہونے کے باوجود مسلمانوں کا حال ہر جگہ بہت ہی خراب ہے، یہ اپنے ممالک میں بھی اطمینان اور چین کی زندگی سے محروم ہیں کیوںکہ غیر مسلم طاقتیں ان کو فرقوں میں تقسیم کراکر یقیناً ایک دوسرےسے الاماشاء اللہ اپنے غلام بےدام عربی و غیر عربی بادشاہوں اور حکمراں گماشتوں کے ذریعے بڑی کامیابی اور ہوشیاری سے جہاں لڑا رہی ہیں، وہیں افریقہ کے اسلامی ممالک بلکہ دُنیابھر میں غریب مسلمانوں کے بال بچوں کو این جی اوز اور منکرین فضائل رسالت کی مساجد اور مدارس اور اسکولوں میں پڑھا پڑھا کر عیسائی اور منکر فضائل رسالت بنارہی ہیں، اس لئے ہمارے پیارےاور اچھے اچھے بھائی بہنو! ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی خواب سے جاگیں، بیدارہوں اور مقدور بھر اپنی مساجد اور مدارس بنا بنا کر اور بنے ہوئے مدارس اور مساجد کی ہر ہر طرح مدد کر کے ان کو خوب خوب مستحکم و مضبوط بنائیں ۔ تاکہ خدا کے یہاں کچھ تو منہ دکھانے کےقابل رہیں …

سنیچر اور اتوار دونوں دنوں کے ان اجلاس میں قرب و جوار ہی نہیںبلکہ دوسرے ممالک ملاوی ، فیجی اور موزمبیق وغیرہ سے بھی کافی تعداد میں حضرات علمائے کرام اور سیّد اصدق قبلہ کے ارادت مند خصوصاً عبدالمجید نوری، مفتی شمس الحق، ملاوی سے مولانا محمد نبیل ، جوہانسبرگ سے مولانا موسیٰ رضا ، بنیونی سے مولاناسیّد ارشد اقبال ، مافیکن سے عبدالقادر اور دوسرے بھی دس پندرہ مقتدر حضرات علمائے کرام اور شخصیات جن سے تعارف نہ ہونے یا جن کے اسمائے گرامی ذہن سے محو ہوجانے کے سبب ہم لکھنے سے قاصر ہیں، یہ ہمیں معاف فرمائیں، تشریف لائے تھے، جن کی رہائش اور خور د و نوش کا نہایت معقول انتظام سیّد والانے ہوٹلوں میں کر رکھا تھا، جب کہ حضرت علامہ قمر الزماں خاں اعظمی ، الحاج اویس رضا قادری اور عزیز محمد ارشد مصباحی وغیرہ کو اپنے دولت خانے کا مہمان بنا کر ان کے خورد و نوش اور آرام و احترام کا اتنا خیال رکھا تھا کہ ہم سمجھ رہے تھےکہ حضرت نے شاید خورد و نوش کے لئے کسی باورچی کو بلالیا ہے، لیکن ہمیں بڑا تعجب ہوا جب یہ معلوم ہوا کہ یہ ساری خدمات حضرت سیّد صاحب قبلہ کے اہل خانہ اور دونوں وفاشعار صاحبزادیاں اور دونوں صاحبزادگان سیّد محمد سمرہ اور سیّد محمد علی اور دونوں برادرانِ نسبتی مولانا سیّد فہیم احمد قادری معینی اور سیّد محمد افضل معینی انجام دے رہے ہیں، بلکہ صحیح معنوں میں سر و قد کھڑے ہو کر اس طرح انجام دے رہے ہیں کہ ایک مرتبہ تو حضرت قبلہ اعظمی صاحب کو کہنا پڑ گیا کہ میاں صاحبزادے ! یا تو آپ بھی ہماری طرح اب بیٹھ جائیںیا پھر ہمیں بھی اپنی طرح کھڑے رہنے کی اجازت دے دیں ۔ اللہ اللہ ! حضرت سیّد محمد علیم الدین مصباحی اور ان کے سپوتوں کی شاید انہیں سچائیوں اور خلوص کا نتیجہ ہے کہ ابھی ابھی ۱۹۹۷ء میں صرف ایک مکان سے سرنکالنےوالایہ پودا اب ایک ایساسر سبز و شاداب تن آور درخت بن چکا ہے؛ جہاں سے کم و بیش دو سو کے قریب ایسے علماء و حفاظ ، قراء اور ائمہ فارغ ہو چکے ہیں جن کا تعلق برطانیہ ،انڈیا ، تنزانیہ ، ملاوی ،فیجی ، ویسٹ انڈیز اور سائوتھ افریقہ سےہے اور جو اب ہمہ تن دین کی خدمت میںمحو و غرق ہیں، بلکہ اب تو ۲۰۱۲ء سے بچیوںکے جامعہ فاطمہ میں بھی کام شروع ہو گیا ہے، جہاں کم و بیش ایک سو کے قریب بیرونی طالبات اور بہت ساری مقامی بچیاں بھی علم دین کے نورسے آراستہ ہورہی ہیں، بلکہ دارالعلوم کے اشاعتی شعبے احسن العلماء پبلی کیشنز سےایک سہ ماہی انگلش رسالہ بھی باقاعدگی سے نکل رہا ہے اور منکرین فضائل رسالت کی سرکوبی سے متعلق اُردو کتابوں کو انگلش کا جامہ بھی پہنایا جارہا ہے ۔
ہمیں بتایاگیا کہ بر صغیر کے ماضی قریب کے مشہور محدث حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مشہور تصنیف ’’سیرت مصطفیٰ‘‘صلی اللہ علیہ وسلم، اور حضرت شیخ الحدیث علامہ افتخار احمد اعظمی مصباحی کی مایہ ناز تصنیف ’’اسلامی تعلیمات‘‘ شائع بھی کی جا چکی ہیں ۔ … بلکہ ہمارے لئے اس سلسلے کی یہ خبر بڑی تعجب خیز رہی ہے کہ لیڈی اسمتھ کے اسی دارالعلوم کے تعلیم یافتہ عالم دین ملاوی کے مولانا محمد نبیل نے ایک دو اجلاس کے اپنے تعارفی بیان اور نجی محفلوں میںحاضرین کو جب یہ بتایا کہ:
دارالعلوم کےان اجلاس میں برطانیہ سے آئے ہوئے تین نفری قافلے میں مان نہ مان میںتیرا مہمان کے طور پر غیر مدعو وہ بشر بھی شامل ہو گیا ہے جس نے وہاں کے تین تین بڑے بڑے یا چھوٹے چھوٹے منکرین فضائل رسالت علماء سے ، توحید خالص اور شرک و بدعات سے متعلق اس شرط پر تحریری گفتگو کی تھی کہ اس میں کوئی بھی ردو بدل یا کسی بھی کمی بیشی کے بغیر ہم اور آپ دونوں ہی اس گفتگو کو کتابی شکل میں شائع کرنے کے ذمہ دار اور پابند رہیں گے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے، اور جسے ان لوگوں نے بڑے طمطراق اور بڑے کرو فر سے قبول و منظور بھی کر لیاتھا، بلکہ اس مومن فضائل رسالت بشر کو مرعوب کرنے اور اس پر دھونس جمانے کے لئے تعلیاں اور یہ بڑھکیں بھی ہانک ڈالیں تھیں کہ ہماری یہ گفتگو مالیگائوں (مہاراشٹر ) کے اے محمد میاں ! اب انڈیا سے نہیں برطانیہ سے شائع ہو گی اور تمہارے نہیں بلکہ ہمارے پیسوں سے شائع ہوگی، لیکن مگر پھر اس کے بعد ہوا کیا ؟ ہوا یہ کہ اس مومن فضائل رسالت کے بار بار کے مطالبے کے باوجود ان منکرین فضائل رسالت نے جب اس گفتگو کی اشاعت کو اپنی ذلت و رُسوائی یا کچھ اور سمجھ کر روک رکھا، چھپا رکھا تو اس مومن نے اوبدا کر پھر خود ہی اسے ۲۰۰۳ء ۔ ۱۴۲۴ ھ میں اپنے خرچ سے بڑےمعنی خیز اور تیکھے طنزیہ نام ’’مولانا! اندھے کی لاٹھی ‘‘ کے عنوان سے شائع کردیا، لیکن پھر بھی یہ منکرین فضائل رسالت آج تک اس سے متعلق ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے رہے ہیں، گویا وہی بات کہ ؎
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیھنے ہم بھی گئے تھےپہ تماشہ نہ ہوا
یا یہ کہ
خامشی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

حالاںکہ توحید خالص اور شرک و بدعات کے خصوص میں ان مولانائوں کی جرأت و بےباکی کا پہلے یہ عالم تھا کہ ۱۹۹۴ء میں مدینہ یونیورسٹی کی تراویح میں قرآن سنانے والے حافظ طارق محمود نے ان میں سے ایک کے بارے میںلکھا تھاکہ: (مفہوم ) حافظ عبدالاعلیٰ درانی دہری عائلی ذمہ داریوں میں مصروف ہو نے کے باوجود اپنے فرائض منصبی یعنی نشرو اشاعت کا کام کرتےہوئے بھی اہل قبور اور بدعتیوں کو خوب ناکوںچنے چبوار ہے ہیں ۔ اور دوسرےکے بارے میں یہ کہ: (مفہوم ) مولانا شفیق الرحمٰن شاہین کے ذوق کرکٹ کے مظاہر اور قائدانہ اخباری بیانات دیکھ اور پڑھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ آیا جناب پہلے کرکٹر ہیں یا مولانا ابن اولانا ۔ (ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم کی سولہویں جلد کا تیسرا شمارہ ) ۔جب کہ تیسرے بشر کے بارے میں اتنا ہی بتادینا بہت ہے کہ آپ آج سے ساٹھ، ستر ، برس پہلے بر صغیر کے منکرین فضائل رسالت کے بلامبالغہ سب سے بڑے مناظر مانے اور سمجھے جانے والے مولانا منظور احمد نعمانی کے لائق و فائق سپوت مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی ہیں …

لیکن ان حقائق کے باوجود کتنے تعجب اور اچنبھے کی ہے یہ بات کہ محمد میاں مالیگ تو ہر ہر مسئلے میں طوطے کی طرح قرآن و حدیث کی رٹ لگائے رکھنے والے ان منکرین فضائل رسالت کو قرآنِ پاک (۱۲، ۷ : ۹ / ۵۶ : ۸ / ۱۵ : ۳۳ /۳۴ : ۱۷ ) اور احادیث لکھ لکھ کر بتاتا رہا ہے کہ: (مفاہیم )عہد توڑنےوالے بھی بدترین جانور ہیں کا فروں کی طرح ۔ مومنو! عہد توڑنے والے ائمۃ الکفر سے لڑو ۔ عہد پورے کرو بیشک عہد کا سوال ہوگا… پیٹھ نہ پھیرنے کا عہد کرنے والے بشر سےعہد کےبارے میں پوچھا جائے گا … منافق کی ایک نشانی عہد کو توڑنا بھی ہے … پھر بھی یہ بلکہ دُنیا بھر کے اردو داںمنکرین فضائل رسالت ہیں کہ ان قرآنی اور احادیثی بیانات و احکامات کی یاددہانی کرائی جانےکے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوتے ہیں، یعنی کوئی ایک بھی پوچھ نہیں رہا ہے کہ محمد میاں ! تیرے منہ میں کتنے دانت ؟

لیکن بہر حال اور بہر صورت مقام شکر ہے کہ ان حقائق کے سننے کے بعد لیڈی اسمتھ کے اسی دارالعلوم میں دس گیارہ برس رہ کر حافظ اور قاری ہی نہیں بلکہ امسال عالم دین بھی بن جانے والے فیجی کے مولانا ریاست گُل نےچار سو سولہ صفحات کی اس کتاب کو دیکھے بغیر اس عزم کا اظہار کرڈالاہے کہ اللہ نے توفیق بخشی اور قابلیت و صلاحیت عطا کی تو یہ ’’مولانا! اندھے کی لاٹھی‘‘ کا مفہوم انگلش میں لکھنے کی ضرور کوشش کریں گے ۔ اندریں حالات ہم یہ کہنے اورلکھنےمیں حق بہ جانب ہیں کہ عزیزم مولانا محمد ریاست گل سلمہ جس دن ہماری اس کمترین کتاب کو انگلش کتاب کی شکل و صورت دینے میں کامیاب و کامراں ہوجائیں گےوہ دن ہمارےلئے صحیح معنوں میں ’سچی عید‘ کا دن ہوگا، اور ہم فخر کے ساتھ گنگنا سکیںگے کہ: ’’ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کنند ‘‘ ان شاء اللہ عزو جل۔ اس لئے کہ ہم اسے منکرین فضائل رسالت کو صدق دل سے مسلسل اور لگاتار آئینے دکھانے کی اپنی کوششوں اور محنتوں کے ٹھکانے لگ جانے کے مترادف سمجھیں گے۔ یایہ کہ ؎
شکست دل کی گئی دور دور تک آواز
کھلا جو پھول تو خوش بو کہاں کہاں پہنچی
یا یہ کہ ؎
اصول تم نے بنائے الٹے ملیں گے تم کو جواب پلٹے
حساب لوگے حساب دیں گے ، جواب دو گے جواب دیں گے
یا یہ کہ ؎
اُدھر منہ پھیر کر کیوں ذبح کرتےہو اِدھر دیکھو
کوئی اک جان بھی باقی بچی ہے ذبح ہونے سے
یا یہ کہ ؎
کرسی ہے کوئی تیرا جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے

دوسرے دن سوموار کو نام وکام و تن و جان و حال و مقال سب میں اچھے سیّدنا محمد عربی ﷺ کے سچے اور کھرے غلام مومن فضائل رسالت حضرت قمر الزماں خاں صاحب اعظمی کےلئے چوںکہ نارتھ مانچسٹر برطانیہ کی اپنی مسجد شریف کی توسیعی تعمیر نو کی بھاری ذمہ داری کی بجا آوری کی خاطر لیڈی اسمتھ سے جوہانسبرگ کے ہوائی اڈے مستقر پہنچنے کے لئے بارہ بجے نکل جانا ضروری تھا، لہٰذا حسب پروگرام لیڈی اسمتھ کے شاہ سوداگر محمد ہارون تار اپنے کاروں کے کاروبار کے شو روم کی توسیعی تعمیر والی زمین پر ہم سب کو صبح ۹ بجے حضرت اعظمی صاحب قبلہ کی زبان مبارک سے دُعائے خیر و برکت کے حصول کے لئےلے گئے، یہاں پہلے مشہور و معروف مومن فضائل رسالت الحاج اویس رضا قادری نے قرآن پاک کی وہ مبارک اور مخصوص سورۃ و آیات پڑھیں جو عام طور پرایصالِ ثواب کی محافل و مجالس میںپڑھی جاتی ہیں، پھرمکمل شجرۂ قادریہ رضویہ شریف پڑھا، ان کے بعد حضرت اعظمی صاحب قبلہ نےدُعا فرمائی، پھر پانچ دس منٹ کے لئے محمد ہارون ان کو اور ہم سب کواپنی آفس میں لے گئے، یہاںبھی دُعائیں ہوئیں پھر بارہ بجنے سے پہلے ہم کو حضرت سیّد اصدق مدظلہ کے دولت کدے پر لایا گیا اور پھر سب نے بادیدۂ نم حضرت اقدس اعظمی صاحب قبلہ کو الوداع کہا ۔

Gulam Mustafa Razvi
About the Author: Gulam Mustafa Razvi Read More Articles by Gulam Mustafa Razvi: 277 Articles with 281553 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.