ایان علی ہم شرمندہ ہیں۔ !
(ajmal malik, faisalabad)
میں جب بھی ایان کو کچہریوں میں خوار ہوتے دیکھتا تو خوف کے مارے ’’تانگہ آگیا کچہریوں خالی سجناں نو ں قید بول گئی‘‘ والا گانا یاد آجا تا ۔دشمنانِ ایان کےدل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہےکہ وہ ہر پیشی پر مہنگے سوٹ اور اعلی ترین میک اوورکرتی ہے۔پولیس اہلکارگارڈ بن جاتے ہیں ۔مجھے اُن سارے کم ظرفوں سے رقابت ہے ۔ مجھے ایان علی کادبئی کے بجائے اڈیالہ جیل جانا گھڑے پر بیٹھ کر چناب پار کرنے جیسا لگتا تھا۔ایان کی ضمانت ہو ئی تو اڈیالہ جیل میں ’’پُھوڑی‘‘بچھا دی گئی اورپاسپورٹ واپس ملا تو احاطہ کچہری میں کالے کوٹ کی فضا طاری ہو گئی۔ٹی وی چینلز کی رنگین سکرین پھر سے شوگرفری ہو گئی۔ اور۔اردو ادب ایک کتاب سےمحروم ہو گیا۔ایان علی ہم شرمندہ ہیں۔ |
|
|
ایان علی کی فائل فوٹو |
|
غدر کے بعدمرزاغالب پکڑے گئے۔ انہیں جب
کمانڈنگ آفیسر کے سامنے پیش کیا گیا تو کرنل براؤن نے پوچھا :ویل۔ ٹُم
مسلمان ہے؟
مرزا: جناب۔ آدھا مسلمان ہوں۔
کرنل : کیا مطلب؟
مرزا : جناب شراب پیتا ہوں۔ سؤر نہیں کھاتا۔کرنل ہنس پڑا اور مرزا کو چھوڑ
دیا۔
میں یقین سےنہیں کہہ سکتا کہ کرنل نے جس حق حاکمیت کو استعمال کرکے مرزا کو
جانے دیا۔ مرزا کی حس لطافت اس کی وجہ بنی یا پینے پلانے کا اعتراف۔لیکن
مرزا غالب کے ایسے ہی درجنوں قصے ان کے شعروں کی طرح مقبول عام ہیں۔عاشقان
ِمرزا جانتے ہیں کہ وہ رج کے پیتے تھے۔شراب مرزا کے حواس اور کلام دونوں
پرغالب تھی لیکن غالب کا ادبی احترام آج بھی برابر۔ برقرار ہے کیونکہ
احترام ۔کوئی پٹرولیم پراڈکٹ نہیں وگرنہ اب تک تو اوگرا۔ اتار چڑھاوکر چکا
ہوتا ۔بقول مرز ا۔
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شر م تم کو مگر نہیں آتی ۔
شرم کی بات تو یہ ہے کہ ایک شرابی سوچ رہا ہے کہ کعبےکس منہ سے جانا ہے۔شرم
ایسی نزاکت ہے جو چلی جائے تو لوٹ کر نہیں آتی ۔۔ عمیرہ احمد کہتی ہیں کہ
’’پتہ نہیں وقت زیادہ بے شرم ہے یا انسان۔۔ جو رنگت بدلنے میں اپنا ثانی
نہیں رکھتا۔۔ خونی رشتے بعض دفعہ طوائف جیسی اور جتنی وفاداری بھی نہیں
دکھاتے۔۔ کتابیں لکھ لیں مادہ پرستی پر یا بیچ بازار میں مجمع اکٹھا کر کے
مذمتی تقریریں کر کے نعرے لگوالیں یہ وہ بیماری ہے جس کا کوئی حل نہیں۔۔
جسم کی بیماریاں ہوں تو کوئی علاج کوئی حل نکلتا جو نفس کو لگ جائے وہ کیسے
ختم ہو۔ ناول ’’عکس‘‘سے اقتباس
محترمہ عمیرہ کے نظرئیے سے جزوی اور کُلی دونوں اتفاق ہوسکتے ہیں۔ ہو سکتا
ہےشرم کا تعلق ضمیر سے ہو ۔ اورشرم کا اٹھ جانا بے ضمیری ہو۔ممکن ہے باشرم
کے اندرضمیر۔ دل کی طرح دھڑکتا ہواور۔دھڑک دھڑ ک کا مطلب ضمیر کی ملامت
ہو۔لیکن شرم چلی جائے تو جسم عجائب گھر میں رکھی ممی جیسا ہوتا ہے ۔ بحثیت
معاشرہ ہم ایک بہت بڑے عجائب گھر کی ممیاں ہیں۔۔ مادام تساؤ کے میوزیم جیسا
معاشرہ ۔جہاں نامور لوگوں کے مومی مجسمے رکھے جاتے ہیں۔ہمارے’’ بڑے ‘‘
چونکہ بڑے کرپٹ ہیں اوراُن کی’’ بڑائی‘‘میں ہم شریک جرم ہیں اس لئے مادام
تساو کے معاشرے میں ہم مٹی کے باوے موم کی پتلیاں بن کر کھڑے ہیں بلکہ ہمیں
کیل ٹھونک کرٹھوک دیا گیا ہے ۔ہمارے اوپر ٹکٹ لگی ہوئی ہے۔لوگ ہمارے اوپر
ہنستے ہیں اور عالم ِ۔خود سپردگی میں ہم مزید مومی ہوگئے ہیں۔ بقول غالب
آگے آتی تھی حال دل پر ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی۔
مجھے تو غالب کا یہ شعر اس بے شرم ضمیر کے لئے لگتاہے جو دم توڑ گیا
ہے۔معروف ماڈل ایان علی ۔۔ مادام تساوکے معاشرے میں نیا مجسمہ ہیں۔۔ہزاروں
دیکھنے والے بھی ہیں۔ایان علی کو14 مارچ 2015 کو منی لانڈرنگ کے جرم میں
پکڑا گیا تھا ۔5 کروڑ روپےبرآمد ہوئے تھے۔رقم دبئی منتقل کرنےکے عوض ایان
کو 4 فیصد یعنی 20 لاکھ روپے ملنا تھے ۔لیکن وہ اڈیالہ جیل پہنچ گئی ۔
’’مہمان خانے ‘‘ میں اسے ۔ ۔ٹی وی، فریج اور جدید وارڈ روب ،موبائل،منرل
واٹر، تازہ جوس اور مزیدار کھانوں کے ساتھ میں ایک مشقتی بھی ملا۔ ۔ ایان
کے تانے سابق صدر زرداری سے بانے جاتے ہیں۔ ۔قصہ عام ہو ا تو پیپلزپارٹی کی
سند ھ حکومت نے امان مانگنے کے بجائے پنجاب حکومت سے ایان مانگ لی۔۔اچانک
ایک دن ایان علی کی ضمانت ہوگئی اورپھراسےپاسپورٹ بھی واپس مل گیا۔ عید
سعید کے اس پُرمسرت موقع پر دعوتِ ایان تو ہو ئی لیکن دعوتِ عام نہیں
ہوئی۔میں تومحو حیرت اس لئے ہوں کہ ایان نے تومرزا غالب کی طرح کوئی اعتراف
بھی نہیں کیا۔ ۔بقول غالب
ہے کچھ ایسی ہی بات، جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی ۔
مرزا غالب کو ایک بار قرض خواہوں نے مزید قرض دینے سے انکار کر دیا ۔پینے
کے لئے پیسے نہیں تھے۔اذان مغرب ہوئی تومرزا مسجد پہنچ گئے ۔
مرزا کے ایک باخبر دوست کو صورتحال کا پتہ تھا وہ ’’انتظام ‘‘ کرکے مسجد کے
باہر پہنچ گیا۔بوتل مرزا کو دکھائی تو وہ نماز کے بغیر ہی باہرآگئے۔
نمازیوں نے پوچھا۔مرزا ابھی تو نماز بھی نہیں پڑھی اور چل دئیے؟
مرزا:جس مقصد کے لئے آیا تھاو ہ نماز پڑھے بغیر ہی پورا ہو گیا ہے۔
ایان علی جب احاطہ کچہری پہنچی تو ’’انتظام ‘‘ہو چکا تھا۔پاسپورٹ ملا تو
مقصد بھی پورا ہو گیا۔انتظام اور مقصد مومی معاشرہ کی اساس ہوتے
ہیں۔یہاں’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘والا قانون ہوتا ہے ۔میں جب بھی ایان
کو کچہریوں میں خوار ہوتے دیکھتا تو خوف کے مارے ’’تانگہ آگیا کچہریوں
خالی سجناں نو ں قید بول گئی‘‘ والا گانا یاد آجا تا ۔۔دشمنانِ ایان کےدل
یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہےکہ وہ ہر پیشی پر مہنگے سوٹ اور اعلی ترین
میک اوورکرتی ہے۔پولیس اہلکارگارڈ بن جاتے ہیں ۔وہ جیل سے عدالت تک کیٹ واک
کرتی ہے۔مجھے ان سارے کم ظرفوں سے رقابت ہے۔میں حسن کا مداح ہوں ۔ مجھے
ایان علی کادبئی کے بجائے اڈیالہ جیل جانا گھڑے پر بیٹھ کر چناب پار کرنے
جیسا لگتا تھا۔احاطہ کچہری میں اور بھی کئی مومی مجسمے قطار اند ر
قطاردیدارِ پیشی کےمنتظر رہتے تھے ۔جو کیٹ واک دیکھ دیکھ باگڑ بلے بن چکے
ہیں۔کسی نے ایان کو ہار پہنائے کسی نے پھول دئیے۔ ایان کی ضمانت ہو ئی تو
اڈیالہ جیل میں ’’پُھوڑی‘‘بچھا ئی گئی اورپاسپورٹ ملا تو احاطہ کچہری میں
کالے کوٹ کی فضا طاری ہو گئی۔ ٹی وی چینلز کی رنگین سکرین پھر سے شوگرفری
ہو گئی۔ اور۔اردو ادب ایک کتاب سےمحروم ہو گیا ۔ایان علی ہم شرمندہ ہیں۔
منی لانڈرنگ کیس میں وہ قصور وار قرار دے دی گئی ہیں۔ لیکن ایان علی کہتی
ہیں کہ مجھے ملک کے عدالتی نظام پربھروسہ ہے جلد ہی بری بھی ہوجاؤں گی۔ جون
ایلیا کہتے ہیں۔’’اگر میں اپنے جھوٹ کے ساتھ خوش ہوں تو پھر تم میرے اوپر
اپناسچ مسلط کرنے والے کون ہوتے ہو‘‘اور پیپلزپارٹی کے منحرف رہنا ذوالفقار
مرزا کہتے ہیں ایان سے برآمد ہونے والی رقم آصف علی زرداری کی تھی۔ ایان
اگر ۔گرفتار نہ ہوتیں تو فریال تالپور اور ہماری بھابھی ہوتیں۔ایان علی ہم
شرمند ہ ہیں ۔ریحام خان کے بعد قوم ایک اور بھابھی سے محروم ہو
گئی۔ذوالفقار مرزا خواہ کچھ بھی کہیں لیکن مرزا غالب کہتے ہیں ۔
کیوں نہ چیخوں؟ کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز ، گر ، نہیں آتی۔
مادام تساو کےمعاشرے میں سابق وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم کانیا مجسمہ آیا
ہے۔ مٹی دا باوا بول پڑا ہے۔اُن کے اعتراف جرم کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما
روف صدیقی، وسیم اختر اور انیس قائم خانی کی مومی ڈمیاں بھی تیار ہو رہی
ہیں۔مادام تساو کے معاشرے میں سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور صوبائی
وزیر رانا مشہود کے مجسموں کے لئے بھی جگہ بنا جا رہی ہے۔
مومی معاشرے میں ایک مجسمے نے بزرگ مجسمے سے پوچھا : دنیا فانی ہے ؟”پیسہ
کی میل ہے؟۔تو پھران فانی چیزوں کے لیے دوست۔دشمن کیوں بن جاتے ہیں۔؟
مجسمہ مسکرایا۔ اورسارے سوالوں کا جواب ایک خوبصورت جملے میں دیا۔’’جا بھئی
اپنا کام کر‘‘
مجسمے کاجواب سن کر مجھے مرزا غالب کا مسجد والا واقعہ پھر یاد آگیا۔ ! |
|