اردو کا نفاذ!

 پاکستانیوں کی ایک پرانی حسرت رنگ لانے کو ہے، ان کے خواب تعبیر پانے کو ہیں، امکان پیدا ہوچلا ہے کہ اب اردو کے دن پھر جائیں گے اور تقریباًسات دہائیوں تک اپنے ہی ملک میں اجنبی کے طور پر زندگی گزارنے کے بعد اب امید پیدا ہوچلی ہے کہ اردو کے بھاگ جاگ جائیں گے۔ عوام کی یہ خواہش ضرور تھی کہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے، ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کا بھی طریقہ یہی تھا کہ کبھی کسی تقریب میں اردو کے حق میں دوچار جملے بول دیئے۔ کچھ لوگوں نے اردو کے لئے تحریک بھی چلائی، مگر زیادہ کامیابی نہ ہو سکی، کیونکہ اردو کو سرکاری زبان کا رتبہ دینا عوام یا دیگر طبقات کا کام نہیں تھا، یہ اختیارات صرف اور صرف حکومت کے پاس تھے، مگر بدقسمتی ملاحظہ فرمائیے کہ حکومتوں نے بھی اپنے عوام کو لاروں اور وعدوں پر ٹرخا کر اپنا کام نکالنے کی کوشش کی ہے، کسی بھی حکمران نے سنجیدگی سے اس طرف توجہ نہیں دی۔ یہ بھی حقیقت ہی ہے کہ اپنے حکمران بھی انگریزی کے اس قدر دلدادہ نہیں تھے کہ وہ اردو کو ناپسند کرتے تھے، چونکہ حکمران طبقہ ایک ہی طرح کے لوگ ہیں، ان میں سے بھی بہت سے ایسے ہیں، جو انگریزی سے نظریں چراتے ہیں، مگر کیا کریں کہ مجبور ہیں۔

اپنے حکمرانوں کی اس قدر بھی کیا مجبوری ہے کہ وہ اردو کو بطور سرکاری زبان نافذ کرنے سے اتنے خوفزدہ ہیں؟ اس ’خوفزدگی ‘کی وجہ تو وہ مغربی ممالک ہیں، جن کے قبضے میں ہمارے حکمرانوں کی جان ہے۔ حکمرانوں کا خیال ہے کہ ہم اپنے مغربی بڑوں کو کیا منہ دکھائیں گے، یعنی کس منہ سے ان کے سامنے اردو میں بات کریں گے اور وہ ترجمہ کروانے کے پابند ہونگے۔ حالانکہ اس معاملے میں منہ کا کوئی مسئلہ نہیں، ہر کام اسی منہ سے ہوتا ہے، اسی سے بیان دے کر انکار کیا جاتا ہے، اسی منہ سے پارٹیاں تبدیل کی جاتی ہیں اور اسی سے سابق لیڈروں کی مخالفت میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں، اور نئے لیڈر کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں، اسی منہ سے ظاہری اور باطنی کرپشن ہوتی ہے۔ لیکن امریکہ اور برطانیہ کے سامنے جاتے ہوئے پریشانی کا سامنا ہے، حالانکہ وہاں پہلے بھی انگریزی کی ایسی تیسی ہی پھیری جاتی ہے، ورنہ وہ بھی مروت میں ہی خاموش ہورہتے ہیں، ورنہ کہہ سکتے ہیں کہ جناب اگر انگریزی نہیں آتی تو کوئی اچھا انگریزی بولنے والا رکھ لیں جو مترجم کے فرائض سرانجام دیتا رہے۔

اب اردو کی بات بننے کو ہے تو ایک بہت بڑی پریشانی یہ بیان کی جارہی ہے کہ جناب جو الفاظ ہیں ہی انگریزی زبان کے تو ان کی ادائیگی کیسے ہوگی؟ یعنی ہم موبائل کو کیا کہیں گے، کمپیوٹر کوکس نام سے پکاریں گے، ہم تو وہ بیچارے ہیں جنہوں نے ٹیلی ویژن کا اردو میں کوئی نام ہی نہیں رکھا۔ اسی طرح تکنیکی تعلیم میں ایسی اصلاحات ہیں، جن کا اردو میں وجود ہی نہیں۔ ایسے ہی سیکڑوں الفاظ ہیں جو ہماری روزمرہ کی زندگی میں شامل ہیں اور معمول بن چکے ہیں۔ اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ اردو میں بہت سے الفاظ عربی کے بھی ہیں، جن کی ہم اردو تلاش نہیں کرسکے، بعض الفاظ ترکی زبان کے ہیں۔ فارسی تو محاوروں سمیت اردو میں موجود ہے۔ اسی طرح ہندی نے بھی اردو پر اپنے اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس سے قبل بھی انگریزی کے ایسے الفاظ موجود ہیں، جو اردو میں بھر پور طریقے سے استعمال ہوتے ہیں۔ اگر انگریزی کے کچھ الفاظ بھی اردو میں جگہ بنا چکے ہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ خاص طور پر ایسے الفاظ جن کا استعمال اس قدر زیادہ اور عام ہوچکا ہے کہ ہر کس و ناکس اس کو درست طریقے سے بولتا اور اس کے مفہوم کو سمجھتا ہے، تو ایسے الفاظ کو اردو سے دیس نکالا دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ تو ادیبوں، شاعروں اور دیگر لکھاریوں کا فرض ہے کہ وہ کوشش کرکے ایسے الفاظ استعمال کریں جن کی اردو میں بھی قاری کو آسانی سے سمجھ آجائے۔ چونکہ انگریزی بھی فارسی وغیرہ کی طرح ہماری حکمران زبان رہی ہے، اس لئے اس کے بہت سے الفاظ اردو میں جگہ بنا چکے ہیں، ایسے الفاظ کو طنز وغیرہ کا ذریعہ بنانے کی بجائے ان کی جگہ اردو کے معقول لفظ استعمال کئے جاسکتے ہیں ، اور انگریزی کے بعض معروف الفاظ کی جگہ اردو کے الفاظ استعمال کئے جائیں تو سماعت کو بہت بھاتے ہیں، جیسے ٹشو کو ’کاغذی رومال‘ کہنا۔ ایسے الفاظ کو تلاش کرکے اردو میں انگریزی کی بہتات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ نہ تو انگریزی کو دیس نکالا دینے کی ضرورت ہے اور نہ ہی یہ کوئی دانش مندی ہے۔ اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے مطلب ملک کی اکثریتی آبادی کے دل کی آواز کو سننا ہے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473217 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.