اخترؔ جونا گڑھی ،شاعر و ادب کا سانحۂ ارتحال
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
اردو کے شاعر و ادیب اختر جونا گڑھی کراچی میں رحلت فرماگئے۔ وہ شاعر، نثر نگار اور صحافت کے پیشہ سے وابستہ رہے۔ کراچی معروف افسانہ نگار پروفیسر رئیس فاطمہ کے شوہر تھے۔ اللہ تعالٰیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔ ہماری ویب رائیٹرز کلب مرحوم کے سانحہ ارتحال پر دلی دکھ اور افسس کا اظہار کرتا ہے۔ |
|
|
اخترؔ جونا گڑھی |
|
اردو کے شاعر، ادیب، کالم نگار محمد اختر
جونا گڑھی کراچی میں 5 نومبر2015 ء کو انتقال کر گئے۔ ان کا نام قاضی محمد
اختر ، تخلص اخترؔ کیا کرتے تھے۔ ہندوستان کی سرزمین جونا گڑھ سے تعلق
رکھتے تھے اس لیے جوناگڑھی ٹہرے۔ وہ معروف محقق، ادیب و دانشور قاضی احمد
میاں اختر جونا گڑھی کے صاحبزادے تھے۔ علم و ادب سے رغبت اورشعر و شاعری سے
لگاؤ انہیں وراثت میں ملا تھا۔ اخترؔ جونا گڑھی8جون 1943ء کو ہندوستان کے
صوبے گجرات کی سرزمین کاٹھیاواڑ کی ریاست جونا گڑھ میں عالم وجود میں آئے۔
قیام پاکستان کے بعد اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو
اپنا مسکن بنا یا۔ ان کے والد نے کراچی کی علمی ، ادبی اور شعر و ادب کی
سرگرمیوں میں اہم کرادا ادا کیا۔ وہ انجمن ترقی اردو سے بھی منسلک رہے۔
اخترؔ جونا گڑھی نے اپنے گھر کی علمی، ادبی ، شعر و شاعری کی فضاء میں بچپن
سے جوانی میں قدم رکھا ۔ اس علمی و ادبی ماحول نے اخترؔ جونا گڑھی کو شعر
گوئی کی جانب راغب کیا اور وہ باقاعدہ شعر کہنے لگے، ساتھ ہی نثر لکھنے کی
جانب بھی راغب ہوئے۔ وہ ابھی کالج ہی میں تھے کہ ان کی تحریریں اردو کے
معیاری ادبی رسائل کی ذینت بننے لگیں جس نے اخترؔ جونا گڑھی کو حوصلہ
دیااور وہ باقاعدہ شعر کہنے لگے۔ ان کا مجموعہ کلام ’’ہم تو پتھر ہوگئے‘‘
شائع ہوا۔ ان کی نثر کی کتاب ’’آج کا بھارت‘‘ بھی منظر عام پر آچکی ہے۔
اخترؔ جونا گڑھی کو علم وادب سے وابستہ افسانہ نگار اور استاد خاتون کی
رفاقت نصیب ہوئی۔ ان کی شریک حیات پروفیسر رئیسؔ فاطمہ کراچی کے ایک مقامی
کالج میں اردو کی پروفیسر تھیں ۔ افسانہ نگار ان کی خاص وصف ہے۔ عمدہ
افسانے لکھتی ہیں۔ میرا ان سے تعلق کالج کے حوالے سے رہا۔ کالجوں کی انجمن
کی سرگرمیوں میں انہیں دیکھا اور پھر انجمن ترقی اردو میں بھی انہیں دیکھا۔
اخترؔ جونا گڑھی شاعر ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ صحافی بھی تھے ۔ وہ روزنامہ
جنگ سے وابستہ رہے۔ اخترؔ جونا گڑھی کے بارے میں زیادہ معلومات باوجود کوشش
کے نہ مل سکیں۔ کراچی کی ادبی و علمی سرگرمیوں کے متحرک ادیب راشد اشرف نے
ازراہ عنایت اخترؔ جونا گڑھی کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کیں۔ ان کے
بارے میں دوصفحات کا تعارف احمد حسین صدیقی صاحب کے شاعروں، ادیبوں اور
دانشوروں کے تذکرے ’’دبستا نوں کا دبستان‘ (کراچی)میں موجود مختصر تعارف
مجھے میل کردیا ۔اخترؔ جونا گڑھی کے حوالے سے میری یہ مختصر سی تحریر راشد
اشرف اور دبستانوں کا دبستان کی بنیاد ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں نے احمد حسین
صدیقی صاحب کے اس تذکرہ پر تفصیلی مضمون بھی لکھا تھا جو انجمن ترقی اردو
کے جریدے
’قومی زبان‘ میں شائع ہوا۔ اس تذکرہ کا یہی فائدہ ہے کہ یہ فوری طور پر کسی
بھی شاعر، ادیب کا تعارف کرادیتا ہے۔ آخر میں اخترؔ جونا گڑھی کے دو اشعار
یہ تو نہیں کہ مجھ کو رفاقت نہ مل سکی
پھر تیرے بعد ایسی محبت نہ مل سکی
تجھ سے بچھڑ کے میں نے محبت تو کی‘ مگر
پھر ویسی جسم و جاں کی وہ وہ چاہت نہ مل سکی
ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘ کے تمام لکھاری ساتھیوں کے جانب سے اخترؔ جونا
گڑھی کی رحلت پر دلی افسوس اور دکھ کا اظہار کرتا ہوں۔ دعا گو اﷲ تعالیٰ
مرحوم کی مغفرت فرمائے ، جملہ لواحقین کو صبر جمیل سے نوازے، خصو صاً ادیب
و دانشور ، افسانہ نگار پروفیسر رئیس فاطمہ کو اپنے شاعر و دانش ور شوہر
اخترؔ جونا گڑھی کی جدائی کو برداشت کرنے کی ہمت عطا فرمائے ۔آمین۔راشد
اشرف صاحب کا بھی خصوصی شکریہ۔
(6دسمبر2015ء)
|
|