یا اﷲ یا رسول،،،سردار عباس نہیں قبول

زیادہ پرانی بات نہیں بہت سے لوگوں کو بڑی اچھی طرح یا د ہوگا کہ جب بے نظیر بھٹو کے دور کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت آئی تو میاں صاحب نے احتساب کی زمام کار اپنے اس وقت کے دست راست سیف الرحمٰن کے ہاتھ میں دی،شیخ رشید جن کے معاون اور راہنما تھے ،سینٹر سیف الرحمٰن کا ون پوائنٹ ایجنڈا اپنے گرو کے ساتھ مل کر بے نظیر بھٹو کی کردار کشی تھا ،شاید کہیں بہت اوپر سے ہدایات تھیں کہ اس معاملے میں کسی بھی قسم کی رو رعایت نہ کی جائے اور ذلالت یا رذالت کی آخری حد کو ہی کراس کر نا پڑجائے تب بھی کوئی مضائقہ نہیں،اورپھر دنیا نے دیکھا کہ کس کس طرح جناب شیخ نے بی بی کے بارے میں شعلہ نوائی کی،واقفان حال بتاتے ہیں کہ اس وقت جوش و مستی کا یہ عالم تھا کہ سیف الرحمٰن ور شیخ رشید کو اپنی اوقات میں رہنے یا سرزنش کی بجائے باقاعدہ شام کو داد دی جاتی،شیخ رشید جلسے جلوسوں میں گرجتے تو سیف الرحمٰن روزانہ شام ڈھیروں فائلوں کے ساتھ اس وقت کے واحد سورس آف انفارمیشن پی ٹی وی پر جلوہ افروز ہوتے،انہی دنوں جیالوں کا ایک نعرہ بڑا مقبول ہو اجو غالباً کچھ یوں تھا کہ یا اﷲ یا رسول بے نظیر بے قصور،اس پہ شیخ صاحب نے تبصرہ کیا تھا کہ یا اﷲ یا رسول،،بے نظیر بے اصول،مجھے آج برسوں بعد یہ نعرہ لگانے والے اور ان کی بے بسی بے طرح یاد آئی جب گذشتہ روز ن لیگیوں نے ون پوائنٹ ایجنڈے کے تحت ایک کنونش منعقد کیا،اس ماتم داری ٹائپ فنکشن کا واحد مقصد وہی ایک یعنی یا اﷲ یا رسول،،سردار عباس نہیں قبول ،تھا،میں اس وقت سے اب تک حیران و پریشان ہوں کہ یہ کیسی سیاست اور کیسے سیاستدان ہیں جو لگ بھگ دس کی تعداد رکھنے،حکومت کا حصہ اور بھرپور پاور میں ہونے کے باوجود فقط ایک شخص جو عرصہ دراز سے باقاعدہ کسی پارٹی کا عہدیدار یا رکن تک نہیں سے اس حد تک خائف ہیں کہ جب سے یہ خدشہ لاحق ہوا کہ سردار عباس ن لیگ جوائن کر نے والے ہیں ،حال دہائی اور نہیں نہیں کی ہاہاکار ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی، ایک سے ایک بڑا جغادری سیاستدان کف کھول کربازو لہرا لہرا کے بیانات کے گو لے داغ رہا ہے کہ ہم کسی بھی غدار کو ن لیگ میں نہیں گھسنے دیں گے،اور اس زبانی سنگ باری میں وہ بھی شامل ہیں جو خود بیساکھیوں کے سہارے ن لیگ میں شامل ہوئے اور نجانے غداری کا مفہوم ان کے نزدیک کیا ہے ورنہ کون نہیں جانتا کہ بارہ اکتوبر 1999کے بعد چشم فلک نے کیسے کیسے منظر نہیں دیکھ رکھے،جو نواز شریف کو پیر و مرشد مانتے جانتے تھے قاف لیگ کے درجن بھرنائب صدوروں میں سے ایک پر اکتفا کر کے بیٹھ گئے،حالانکہ میاں صاحب کو کم از کم ان بزرگ ہستی سے کبھی بھی یہ امید نہ تھی کہ یہ بھی مہاجر پرندوں کی طرح موسم کے تیور ذرا سا بدلتے دیکھ کر فی الفور اڑان بھر کر ق لیگ کے آشیانے پر جا بیٹھیں گے،حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں ایک عورت کو کسی ایسے جرم میں اﷲ کے پیغمبرکے سامنے پیش کیا گیا جس کی سزا سنگ زنی تھی،سارا مجمع پتھر لیکر آن پہنچا موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا بے شک اس کی سزا سنگ زنی ہے مگر پتھر صرف وہی مار سکتا ہے جس کا اپنا دامن اس گناہ سے آلودہ نہ ہو، یہ سننا تھا کہ سوائے موسیٰ علیہ السلام کے تمام کے تمام چپ کر کے واپس کھسک گئے ،مگر وہ شاید پرانا دور اور پرانے زمانے کے لوگ تھے جن میں کم از کم اتنی اخلاقی جر ا ء ت تو ضرور تھی مگر اپنے ہاں کیا ہو رہا ہے اورحیرت اس بات پہ ہے کہ سردار عباس جو کبھی ن لیگ کا حصہ تھا ہی نہیں اس پہ غداری کا الزام کیسے لگا دیا یار لوگوں نے،غداراور غداری تو وہ کرتے ہیں جو چوری کھاتے ہیں اور جب ذرا سا مشکل وقت آتا ہے تو اپنا ٹھکانہ اور آشیانہ بدل لیتے ہیں،جو شخص کبھی کسی جماعت یا گروپ میں رہا نہیں وہ اس سے کیسے غداری کر سکتا ہے،اور دوسری اور اہم بات یہ کہ اگر آپ کے بقول آپ عوامی شخصیات ہیں آپ نے لوگوں کی خدمت کی ہوئی ہے تو پھر آپ کے اندر کے ریکٹر اسکیل پر 8.5کا زلزلہ کیوں برپا ہے پھر اتنا ڈر اور ٹانگوں میں تھر تھراہٹ کیسی،کسی بھی شخص کو کسی بھی پارٹی میں جانے کا حق ہے،جب آپ کا دل چاہتا ہے آپ ایک ڈکٹیٹر تک کے ہاتھ پہ بیعت کر لیتے ہیں اور جب چاہتا ہے میاں صاحبان کا دم بھرنے لگتے ہیں،اور ویسے بھی میاں صاحبان اس معاملے میں بڑے دریا دل واقع ہوئے ہیں ،اخلاقیات، وعدوں کی پاسداری اور دیگر ایسی فضولیات کو وہ قریب بھی نہیں آنے دیتے،پاکستان اور خصوصاً اقتدار میں آنے کے بعد ایک طرف ق لیگیوں سے بدلے اور انہیں کسی بھی صورت قبول نہ کرنے کا عزم جبکہ دوسری طرف خود سپردگی کا یہ عالم کہ جس جس نے بھی ہلکی سی بھی خواہش کا اظہا ر کیا تو دونوں بھائیوں نے دونوں بانہیں و ا کر دیں یہ سوچے بنا کہ یہ صاحب کون تھے ان کا کردار ان کے حقیقی ورکروں کے ساتھ کیسا رہا،نہ صرف ایسے لوگوں کو ن لیگ میں شامل کیا جن کا شمار مشرف کے قریبی دوستوں میں ہوتا تھا بلکہ انہیں اپنی جماعت میں اہم عہدے بھی تفویض کر دیے،ماریں کھانے والے اور جیلیں بھگتنے والوں میں سے جس میں تھوڑی بہت انا غیرت تھی وہ پی ٹی آئی میں چلا گیا یا چپ کر کے گھر بیٹھ گیا،تاہم سرجھکا کہ ـ؛ورنہ؛ والوں کی بھی کمی نہیں،اب اس کو سردار غلام عباس کی بد قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں کا محاورہ اگر کسی سیاستدان پہ فٹ بیٹھتا ہے تو وہ یہی صاحب ہیں،یہ وہ واحد شخصیت ہیں جو ہر صحیح فیصلہ غلط وقت پر کرنے کے ماہر ہیں اور اس میں اب انہیں کمال حاصل ہے،اب کی بار بھی نجانے یہ کس مصلحت کا شکار ہیں اور کس انتظار میں ہیں،یہ بنی بنائی دیگ کسی اور کے حوالے کر کے پھر اسی جگہ پہنچ جائیں گے جہاں گذشتہ کئی سالوں سے موجود ہیں،اقتدار کے بغیر یہ رہ نہیں سکتے اور اقتدار والے اب ان کو لینے کو تیار نہیں کم از کم مقامی لوگوں کو دیکھ کر تو یہ ہی لگتا ہے،اگر اقتدار کے بغیر رہنے کی عادت اور برداشت ہوتی تو پی ٹی آئی کو کبھی نہ چھوڑتے ثابت قدم رہتے تو آج ن لیگ کو گھٹنوں پسینا آیا ہو ا ہوتا،اب یہ ابھی گردش دوراں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں اور ن لیگ کے لوگ کسی بھی صورت انہیں اپنے درمیان برداشت کرنے کو تیار نہیں،تاہم یہاں ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ن لیگ میں ہر چیز صرف اور صرف میاں صاحب کے اشارہ ابرو کی منتظر ہے،باقی سب تھالی کے بینگن ہیں ،کل میاں صاحب سردار عباس کو ن لیگ میں لے لیں تو یہ فتویٰ باز گروپ جس کو سردار عباس میں خرابیاں ہی خرابیاں نظر آ رہی ہیں یقین کریں جہاں میاں صاحب کی فہم و فراست کے گن گائیں گے وہیں سردار غلام عباس کو ن لیگ کے لیے قیمتی اثاثہ قرار دیں گے،ہو سکتا ہے پھر اسی طرح کا ایک کنونشن دائیں بائیں کسی علاقے میں منعقد ہو اور تقریریں ہو رہی ہوں میاں صاحب آپ مہان ہیں آپ نے اتنا اچھا فیصلہ اتنی دیر سے کیوں کیا سردار کو ہم اپنے اندر موجود پا کر انتہائی توانا محسوس کر رہے ہیں کیوں کہ یہ غلام ابن غلام ہیں ،میجر طاہر ،جنرل مجید ،امیر مقام، زاہد حامد،اسلم سیتھی،ماروی میمن اور ان جیسے بے شمار نابغوں کی آمد پر بغاوت بغاوت کرنے والوں نے جس قسم کی بغاوت کی تھی وہ پاکستانی قوم کے سامنے ہے،عدالتوں سے مشرف دور کی کابینہ کے ایسے ایسے لوگوں کے خلاف فیصلے آ رہے ہیں جو آج ن لیگ کی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں،ن ان کو عہدے لیتے وقت شرم آئی نہ میاں برادران کو انہیں ان عہدوں پر بٹھاتے شرم آئی اور ن لیگ کا خمیر بغاوت سے اٹھا ہی نہیں،باغی روحیں اور ہوتی ہیں،بغاوت کا نام تو بڑا دل کو لبھاتا ہے مگر اس کے نتائج کا سوچ کے ہی ماتھے پہ پسینہ آجاتا ہے،اور یہ ن لیگ اور لیگئے کم از کم اتنے جوگے نہیں ہیں،ورنہ گیارہ بارہ سال ایک ڈرپوک سا شخص جو کولن پاول کی ایک کال نہ برداشت کر سکا ان کے سینے پر مونگ دلتا رہااور یہ اپنی کچھاروں میں دبکے رہے اور اس وقت تک باہر نہیں نکلے جب تک بے نظیر بھٹو واپس نہیں آ گئیں،ان کو تو بیگم کلثوم نواز کا شکر گذار ہونا چاہیے کہ اس دلیر خاتون نے ڈکٹیٹر صاحب کو فقط تین ماہ میں ناکوں چنے چبوا دیے اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنے میاں کو تو خاندان سمیت بچا لیجانے میں کامیاب ہو گئیں،ماریں کھانا اور ڈٹ جانا ہزار خامیوں کے باوجود پیپلز پارٹی کا خاصہ تھامگر وہ پیپلز پارٹی جو بھٹوز کی پارٹی تھی،اب صورتحال یہ ہے بن گئی ہے کہ ایک طرف سردار غلام عباس نے ن لیگیوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں مگر دوسری طرف خود ان کی اپنی اور حامیوں کی نیند بھی اڑی ہوئی ہے کہ نجانے ہمارا کیا بنتا ہے ہم نے کدھر جانا ہے اور کب جانا ہے،سردار غلام عباس اپنے حامیوں اور نو منتخب نمائندوں کو مزید آزمائش اورابتلا ء میں ڈال کر ان کے صبر کو اور نہ آزمائیں اور فوری آر یا پار کا فیصلہ کریں تا کہ وہ لوگ بھی مطمئن ہو کر انتخابات کے اگلے اور اہم مرحلے یعنی ضلع کی چئیرمین شپ پر اپنی توجہ فوکس کر سکیں اور آپ خود بھی مستقبل کی راہوں کا بہتر تعین کر پائیں مزید دیر مت کریں کہ مٹھی میں بند ریت کے غائب ہونے کا پتہ ہی نہیں چلتا اور ہوش آنے پر مٹھی خالی ہو چکی ہوتی ہے،،،،،اﷲ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔