گالیاں جیسے موضوع پر لکھنا "ادب"
میں ادب کے خلاف ہوگا یہ تو فیصلہ قاری ہی کر سکتا ہے۔ لیکن کوئی بھی قاری
اِس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ پڑھنے کی حد تک یہ ایک (نامناسب) موضوع
ہو سکتا ہے لیکن گالیاں دینے اور سننے کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے۔
2 خاندانوں کی باہمی رضامندی ایک لڑکا لڑکی کے درمیان پسند کی شادی ہوئی
تواُنکی زندگی میں پہلے پہل تو کوئی ایسی ناچاکی نظر نہ آئی کہ کوئی ایسا
منفی رویہ سامنے آتا۔ لیکن پسند کی شادی میں زیادہ تر ایسا وقت آہی جاتا ہے
کہ شک و شبہات کا سلسلہ چل ہی نکلتا ہے اور گھر میں ناچاکی پیدا ہو نا شروع
ہو جاتی ہے ۔ اختلافی بحث میں جب کوئی نہیں مانتا تو " گالیاں "ہی کام آتی
ہیں۔بہرحال جب دونوں کے گھر والوں کو معلوم پڑا اور وہ صُلح صفائی کروانے
گئے تو دونوں طرف سے لڑکا لڑکی کو یہی سوال تھا کہ آپ دونوں اور "گالیاں" ؟اُن
دونوں نے یہ جواب دیا کہ ہم خود حیران ہیں کہ ہم "گالیاں" اپنی زبان پر
لائے کیسے!اسطرح کے مختلف نوعیت کے ہزاروں واقعات ہیں۔
"گالیاں" کس طرح کااظہارِ خیال ہے یہ ایک دلچسپ نفسیاتی مسئلہ تو کہلایا جا
سکتا ہے لیکن اس کا اندازِ بیان کسی کیلئے کتنا تکلیف دہ ہو سکتا ہے یہ
اُسی وقت جانچا جا سکتا ہے جس وقت وہ یہ احساس کر لے کہ اگر اُسکو کوئی
گالی دے تو اُس وقت اُسکا اپنا کیا حال ہو تا ہے۔ لیکن اگلی دلچسپ بات ہی
یہ ہے کہ وہ اپنا حال جاننے کے بعد بھی " گالیاں "دینے سے باز نہیں آتا
ہے۔بلکہ با ز تو ایسے کام کرتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ اُنکو گالیاں بھی پڑ
رہی ہوں گی لیکن ہاہاہا۔۔۔۔
"گالیاں " کب سے دی جارہی ہیں ؟ اب اسکا تاریخی فیصلہ تو کیا نہیں جاسکتا
لیکن بُرائی کی اس جاڑ کا آغاز انسانی فطرت سے باقاعدہ طور منسلک نظر آتا
ہے۔ لہذا ہر دور میں معاملات کی ناپسندگی کیلئے " گالیاں" ہی دینا فرد کا
اول رویہ واضح کرتا ہے۔
آج بھی کسی جھگڑے میں، لوگوں کی عام گفتگو میں، ازدواجی زندگی میں،اولاد یا
کسی قریبی پر غصہ نکالنے میں ، استحصال پر، موبائل ٹیلی فون پر کال وصول نہ
کرنے پر یا آگے سے نمبر بند ہونے پر اور سڑکوں پر ٹریفک کے دوران " گالیاں
" کُھلے عام دینے سے گریز نہیں کیا جاتا ہے۔ بلکہ کئی تو تکیہ کلام کے طور
پر استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بعض
مہذب لوگ جنکو معاشرے میں خصوصی اہمیت حاصل ہوتی ہے کبھی نہ کبھی ایسی
صورتِ حال سے ضرور گزرتے ہیں کہ اُن کو بھی یہ منفی رویہ اپنانا پڑتا ہے۔
تعلیمی درسگاہوں میں وقت گزرنے کے ساتھ جب بچوں کو اس منفی رویئے سے روکا
گیا تو اگلے کئی سالوں میں اسکے مُثبت نتائج نظر آنا ضرور شروع ہو ئے
ہیں۔نتیجہ میں والدین اور قریبی دوست احباب نے بھی بچوں کے سامنے احتیاط سے
کام لینا شروع کر دیا ہے۔ کیونکہ بچے اُن کو پسند نہیں کرتے تھے جو "
گالیاں" دیتے ہیں۔
دین اسلام بھی کسی پر لعنت کا لفظ استعمال کرنے کی ممانت کرتا ہے اور اُسکے
ساتھ برا بھلا کہنے سے بھی ۔ بلکہ دُنیا کی اخلاقی قدریں بھی اسی سے منسلک
ہیں کہ برے الفاظ والقاب بمعہ گالیاں دینے سے ہر ایک کو گریز کرنا چاہیئے۔
لیکن جیسے ہی انسان کا گزشتہ 2دہائیوں سے ایک دم کچھ زیادہ ہی مادی اشیاء
کی طرف رحجان بڑھنا شروع ہوا ہے اُسکا سکون سا چھین گیا ہے۔اُسکی بے چینی
کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ" جو اُسکے پاس ہے وہ میرے پاس ہونا چاہیئے"
۔احساسِ محرومیت کی حقیقت کا اگلا قدم ہے "حاصل کر لو" اور اسکے لیئے جس سے
تواقع ہے اگر وہ کام نہیں آیا تو پھر اُسکے لیئے ہیں "گالیاں"۔پھر اگلا
انتہائی قدم اُٹھانے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا یعنی قتل، ڈاکہ ،چوری اور
فریب۔
بہرحال موجودہ دور میں بھی یہ سلسلہ کم ہو تا ہو ا نظر نہیں آ رہا ہے لیکن
دینی و دُنیاوی سطح پر ایسے ماحول و محفلیں منعقد کی جاتی رہی ہیں اور یہ
سلسلہ آج بھی جاری ہے اور مستقبل میں بھی جاری رہے گا کہ لوگوں کو باور
کروایا جا سکے کہ:
" علم کی حکمت سے گندی زبان کے استعمال کو عملی طور پر روکا جاسکتا ہے"۔ |