منفی سوچوں کی ڈھال تعلیم ہے

 تعلیم ہی وہ ڈھال ہے جو ہر قسم کی منفی سو چ سے جنم لینے والے تیز دھار ھتیاروں کے وار کو روک سکتی ہے ۔تعلیم ہی وہ راستہ ہے جسکی راہ پر چل کر ہم صراط مستقیم یعنی ترقی کے ٹمٹماتے دیئے کو روشن کر سکتے ہیں ۔ پنجاب گروپ آف کالج نے انٹر میڈیٹ بورڈ کے حا لیہ امتحانات میں پنجاب کے 9بورڈز میں 119پوزیشنیں حاصل کر کے گرتی ہوئی تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کی نوید سنا کر قلب میں خوشی کے ستاروں کو روشن کر دیا ہے۔فیصل آباد،لاہور،گجرانوالہ،بھاولپور،ساہیوال،ملتان غرضیکہ پورے پنجاب میں انٹر بورڈز کی پوزیشن انتہائی خوش کن رہی جسکے لئے ہم حکومت پنجاب اور پنجاب کے عوام کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ،لیکن المناک بات یہ ہے کہ اب بھی پنجاب کے لاکھوں نو نہال تعلیم سے محروم ہیں او ر اس کے علاوہ پاکستان میں مزید تین صوبے اور بھی ہیں جنکی جانب سے مستقبل قریب میں ہمیں تعلیم کے شعبے سے ایسی خبر ملنے کی دور دور تک کوئی امیدنظر نہیں آ تی باقی ماندہ صوبوں میں تعلیم نام کی کوئی شے جیسے ہے ہی نہیں ہے ۔سندھ کی تعلیم کو سندھ کے کرتادھرتاؤں نے تباہ و برباد کردیا شاید یہ وہی لوگ ہیں جو دیہی علاقوں میں غریب لوگوں کی تعلیم کے خلاف ہیں انہی لوگوں نے اسکولوں کو بھینسوں کے باڑوں، اسکولوں کو اوطاق بنائے اور تعلیمی بورڈز کو کرپشن کا گڑھ بنا دیا۔ یہ بھلا تعلیم کی فروغ کے لئے کیوں قدم بڑھائیں گے، یہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ 2008ء میں اس حکومت نے آتے ہی سائنس اینڈ ٹیکنا لوجی کے بجٹ کو 6ارب سے کم کر کے 1ارب کر دیا تھا ۔ بلوچستان کی صورتحال اس سے بھی زیادہ ابتر ہے وہاں ناانصافیوں کے سبب منفی سوچوں کی بیل تیزی سے پھلی پھولی اب حالت جنگ کی صورتحال کے باعث تعلیم کی بیل مرجھا سی گئی ہے وزیر تعلیم کسی اندھیری کوٹھری میں دبکے ہوئے بیٹھے نظر آتے ۔خیبر پختونخواہ میں نسبتاً حالت بہتر ہے لیکن بچیوں کی تعلیم کی مخالفت تا حال موجودہے۔یہاں بھی وزارت تعلیم ،تعلیم کے فروغ کیلئے اتنے موثر نظر نہیں آتے جتنی کامیابی پنجاب میں نظر آرہی ہے۔ مختلف شعبوں میں بے شمارقومی اور بین الاقوامی ا یوارڈز اور گولڈ میڈل اپنے سینے پر سجانے والے" جناب ڈاکٹر عطا الرحمن " جنھوں نے2003سے2008تک اعلیٰ تعلیم کے میدان میں اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں بڑے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ وہ وفاقی وزیر و چیئر مین ہائیر ایجوکیشن تھے تو جنرل پرویز مشرف نے انھیں فری ہینڈ دیاجسکا نتیجہ ڈاکٹر صاحب نے HECکے معیار کو بین الاقوامی معیار کے طرز پہ ڈھالنے کی بھر پور کوشش کی اساتذہ،نصاب،طالب علموں کے داخلے،پی ایچ ڈی کی ضروریات ،تحقیق،تعلیم اور سروس،سائنس و ٹیکنالوجی میں مضبوط بنیادیں رکھیں ۔12-01-2013کو روزنامہ دنیا میں چھپنے والے ڈاکٹر صاحب کے آرٹیکل کے مطابق جامعات میں مقابلے کارحجان بڑھانے کے لئے 2007ء میں پہلی دفعہ جامعات کی درجہ بندی کی گئی۔اساتذہ کے تقرری اور ترقی کے مرحلے کو سخت کیا گیا تاکہ اساتذہ کے کام میں عمدگی پیدا کی جا سکے،اساتذہ کے معیار کی مضبوطی کے لئے تقریباً 1100وظائف جاری کئے گئے،تعلیم کے معیار کی بہتری کے لئے معیارکی گارنٹی کے 84سیل قائم کئے گئے2001ء اور2002ء میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (UGC)کے تحت سالانہ ترقیاتی فنڈ 0.4ارب روپے تھاجس کو 2007-08 ء میں35گنا بڑھا کر 15ارب کر دیا گیا تھاتحقیقاتی منصوبوں کے لئے 168ارب روپے منظور ہوئے جس سے 6جامعات دنیا کی 500چوٹی کی جامعات میں شامل ہوئیں۔تاہم اس خوش کن منظر نامے کا اختتام 2008کے بعد بھیانک انداز سے ہونا شروع ہوا۔ڈاکٹر صاحب کی تمام محنت کویک جنبش قلم سیاہی مل دی گئی 2008کے بعد سے تعلیم اور اعلیٰ تعلیم میں بجٹ کی کمی کے بعد منفی اثرات رونما ہوئے لیکن ڈاکٹر صاحب دور کا منفی پہلو یہ ہے کہ نچلی سطح کی تعلیم( جسکو ہم تعلیم کی بنیاد سمجھتے ہیں)پر قطعی کا م نہیں ہو ا ۔ رواں دور میں تعلیم کے ساتھ جو کھلواڑ ہو رہا ہے اسکے دکھ کو سندھ،بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے طالب علم اور اُنکے والدین خوب جھیل رہے ہیں۔حالیہ دور میں جعلی ڈگری بنانے کی فیکٹری ایگزٹ کا انکشاف بھی ہواسوشل میڈیا پر ایک کارٹون میری نظر سے گذرا کہ نوجوان کتابیں لیکر ایک کمرے میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ دوسرے کمرے سے گدھے کتابیں لیکر باہر آ رہے ہیں۔کیا انسان بنانے کی فیکٹریاں انسان بنا رہی ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر عطاالرحمن صاحب کو قومی اور بین الاقوامی تمغوں سے نواز کر گھر پر بیٹھا دینا تعلیم کی خدمت تو نہیں کی جارہی ہے بلکہ تعلیم کے ساتھ کھلواڑ ہی کیا جارہا ہے صرف اس بنیاد پر کہ وہ ایک ڈکٹیٹر کی کابینہ کا حصہ تھے تو یہ ڈاکٹر صاحب کیساتھ ہی نہیں تعلیم کیساتھ بھی نا انصافی ہو رہی ہے حالیہ یو نیسکو کی سر وے رپورٹ کے مطابق بھی تعلیم کے میدان میں کوئی خاطر خواہ انقلابی کام نہیں کیا جا رہا ہے پاکستان اسوقت دنیا میں تعلیم کے لحاظ سے 160ویں نمبر پر آتا ہے اسکا لڑیسی ریٹ 55فیصد ہے۔جبکہ پنجاب کے صرف 6 ضلعوں کا لٹریسی ریٹ 70 فیصد ہے جن میں لاہور ،ٖٖفیصل آباد،راولپنڈی،گجرانوالہ۔گجرات اور چکوال شامل ہیں باقی ضلعوں کی حالت بہت ہی تشویشناک ہے۔ سندھ کا لٹریسی ریٹ 50فیصد سے بھی کم ہے کراچی اس ریس میں کبھی دوسرے اور کبھی تیسرے نمبر رہتا ہے سندھ میں پڑھائی کا رحجان کراچی کے علاوہ حیدرآباد،میر پور خاص،لاڑکانہ،اور جامشورو تک محدود ہے۔ خیبر پختون خواہ میں لٹریسی ریٹ 50فیصد ہے یہاں والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ یا پبلک اسکولوں میں پڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں اس صوبے میں مانسہرہ،مردان،مینگورہ ایسے علاقے ہیں جہاں پڑھائی کا رحجان پایا جاتا ہے۔

بلوچستان کا لٹر یسی ریٹ گزشتہ دس سالوں سے صرف28فیصد ہے پاکستان کا یہ علاقہ زیادہ تر صحرا اور پہاڑوں پر مشتمل ہے بلوچستان ایک طویل عرصے نا انصافیوں کی زد میں ہے جسکی وجہ سے یہ صوبہ حالت جنگ میں رہتا ہے دوسری وجہ اس صوبے میں قبائلی نظام ، آپس کی دشمنی اور لڑا ئی جھگڑوں نے بھی یہاں کے تعلیمی رحجان کو پنپنے نہیں دیا۔ ( یونیسکو سروے رپورٹ ،فروری 2015)

اس سروے رپورٹ سے بھی قار ئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موجودہ حکومت تعلیم اور صوبوں میں تعلیم کو فروغ دینے میں کتنی سنجیدہ ہے ، تعلیم سب کا بنیادی حق ہے بنیادی حقوق سے چشم پوشی وطن پرستی کے بجائے وطن دشمنی کے زمرے میں آتی ہے۔ تعلیم کو اول ترجیح دیکر انقلابی اقدامات کریں اس شعبے کے لئے انقلابی شخصیات کو تعینات کریں ۔پاکستانی میڈیا بھی نجانے کیوں اپنے فرائض انجام دینے سے قاصر ہے؟ ہمیں نہیں پتہ کہ کب میڈیا نے تعلیم کے فروغ کی خاطر کوئی پروگرام پیش کیاہو۔ موجودہ دور میڈیا کاہے۔ میڈیا تعلیم کے فروغ میں اضافے کی سیڑھی بن سکتا ہے۔درج بالا سروے رپورٹ سے ایک منفی سوچ بھی جنم لے سکتی ہے ،جسطرح سندھ آجکل کرپشن اور دہشتگردی پر شور مچا رہا ہے کہ آپریشن پنجاب میں بھی کرایا جائے تو کل یہ آواز بھی بلند ہو سکتی ہے کہ تعلیم صرف پنجاب کے لئے کیوں باقی صوبے پاکستان کا حصہ نہیں ہیں کیا؟ لیکن اب ایسا ممکن نہیں کیونکہ جمہوریت کے جاری سفر کا ایک بڑا کریڈٹ سیاسی پارٹیاں 18 ویں ترمیم کو سمجھتی ہیں جس میں تعلیم کو وفاق سے صوبائی قرار دیا گیا تھا ۔ہمیں نہیں معلوم کہ وہ صوبائی خود مختاری جو ہمیں زمانہ جاہلیت میں دھکیل دے اُسے کریڈٹ سمجھا جائے یا کچھ اور،لیکن حقیقت یہی ہے کہ تعلیم کو صوبائی معاملہ قرار دینے کے بعد سے تعلیم میں بہتری کی بجائے ابتری ہی آئی ہے۔تعلیم کے فروغ کے نام پر سرمایہ کاروں کو پروفیشلز اسکول وکالج کھولنے کے اجازت ناموں کے اثرات نظر آرہے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف آپریشن یونیورسٹیوں میں داخل ہوچکا ہے۔ایگزٹ تو اب سمبل بن گیا ہے لیکن اگر مزید کھوج کی جائے تو قسطوں میں ادا کردہ رقم کے عوض ڈگریاں دینے کے کئی قانونی ادارے وجود میں آچکے ہیں۔ تعلیم کا جنازہ نکلنے کا ا س سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ صوبہ سندھHEC کے سربراہ دہشت گردی کی معاونت کے الزام میں ریمانڈ پر ہیں کیا یہ ا چنبھے کی بات نہیں کہ انہیں تعلیم کے سب سے بڑے ادارے کی عمارت سے گرفتار کیا گیا تھا۔

ـ"دنیا پاکستان میں بڑھتی دہشت گردی کی روک تھام کیلئے تعلیم کی ترقی کو خصوصی اہمیت دے رہی ہے "۔ پاکستان میں بھی USAIDاساتذہ کی بھرتی ،تربیت،وظائف،اسکولوں کی تعلیم اورHEC سمیت تعلیم کے کئی شعبے میں فنڈنگ کررہی ہے USAIDکی جانب سے 2009سے 1,90000بچوں کے لئے بہتر تعلیم اور بہتر سہولت فراہم کرنے کے لئے امداد کر رہی ہے 2018ء تک اسمیں 1,50000مزید بچوں کو شامل کیا جائے گا ،950اسکولوں کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش کے لئے ،56,975استادوں کی انتظامی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لئے شارٹ کورسس کے سلسلے میں ،5677طلبہ اور طالبات کے لئے اسکالر شپ کے سلسلے میں فنڈنگ کا سلسلہ جاری ہے اسکے علاوہ بھی کئی شعبے ہیں جن میں فنڈنگ آرہی ہے لیکن ہم کتنے بد قسمت ہیں کہ اس میں بھی ہماری سو چ ذاتی مفاد اور ہوس کے چنگل سے باہر نہیں نکل پا رہی ہیں ہم کل کے معماروں میں بھی اپنے مفاد کی تلاش میں ہو تے ہیں ،کرپشن ناسور بن کر ہمارے مستقبل کو گلا سڑا رہا ہے۔

دوسری جانب اتنا کچھ ہونے کے باوجود ہمارے سرکاری اسکولوں کی حالت زار پسماندہ ترین ملکوں سے بھی بد تر ہے یہ ہمارے لئے سازشی تحفہ ہے کہ پورے ملک میں پرائیوٹ اسکولوں کا جال سا بُن دیا گیا ہے انگلش میڈیم اسکول کا جھانسا دیکر ،معمولی تعلیم یافتہ خواتین کو ٹیچرز کا لبادہ اوڑھاکر، دیواروں پر کارٹونوں کے کردار پینٹ کرا کر ،نازک اور کمزور سے بچوں کے کاندھوں پر کتابوں کا بوجھ لاد کر،جون و جولائی کی چھٹیوں کی فیسیں زبردستی وصول کر کے ،ہر سال فیسوں میں اضافہ کر کے یہ کیا ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ بچوں کے مستقبل کی بنیاد کو مضبوط کر رہے ہیں یاکہ مجبور والدین کو بلیک میل کر رہے ہیں میرے نزدیک پرائیوٹ اسکول ایسوسی ایشن بھی پاکستان میں ایک مافیا ہے جن کو ہمارے نام نہاد سیاسی لیڈروں اور نمائندوں کی آشیر واد حاصل ہے۔اے کاتب تقدیر ہمیں بتا کہ ہم کہاں جائیں؟

Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 91455 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More