ڈاکٹر معین الدین عقیل اردو ادب کی ان معروف شخصیات میں
سے ایک ہیں جنہوں نے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کے بعد ڈی لیٹ کی ڈگری حاصل
کی۔ انکا دوسرا اعزاز یہ ہے کہ انھوں نے نہ صرف پاکستان کی جامعات میں بلکہ
بیرون ملک اٹلی بالخصوص جاپان میں اردو تعلیم و تدریس اور تحقیق میں نمایاں
کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور عالمی سطح پر اردو کو روشناس کروانے کے لئے
اپنا ذخیرہ کتب جاپان منتقل کر دیا۔
آپ کے والدین کا تعلق مسلم ترکستان سے تھا۔ آپ کی پیدائش ریاست حیدرآباد کے
ایک شہر اودگیر [نزد بیدر] میں ۲۵ جون ۱۹۴۶ء کو ہوئی۔ والد سرکاری ملازم
تھے آپکا خاندان مارچ ۱۹۵۳ء میں ہجرت کرکےپاکستان آگیا اور کراچی میں سکونت
اختیار کرلی۔ ابتدائی تعلیم ایک سرکاری اسکول سے حاصل کی۔ یہیں سے ۱۹۶۳ ء
میں میٹرک کیا۔ جامعہ کراچی سے ماسٹرز ۱۹۷۰ء میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں
کیا۔ جس پر انجمن ترقی اردو سے بابائے اردو ایوارڈ ملا۔ پی ایچ ڈی کے مقالے
کی نگرانی ڈاکٹر ابوللیث صدیقی نے کی۔ یہ ۱۹۷۵ء میں مکمل ہوا۔ "تحریک
پاکستان کا لسانی پس منظر" مقالہ کا موضوع تھا۔
۱۹۷۰ء میں ایم اے کے بعد پاکستان شپ اونر کالج سے ملازمت کا آغاز کیا۔۱۹۸۴ء
سے جامعہ کراچی سے منسلک ہوئے۔یہیں سے ۱۹۰۶ء میں پروفیسر کی حیثیت سے
سبکدوش ہوئے۔اسکے بعد بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی سے منسلک ہوئے۔اسی
دوران بیرون ملک کی پانچ نامور یونیورسٹیوں سے باقاعدہ مہمان پروفیسر اور
ریسرچ فیلو کی حیثیت میں وابسطہ رہے۔ ہر ادارے میں اردو زبان کی ترقی اور
فروغ کے لئے کوشاں رہے۔ اور آج تک یہ تحقیقی سفر جاری ہے۔
آجکل آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس کراچی میں تصوف سیریز کے مدیر ہیں۔ اردو
کتابوں کے بارے میں مشاورت اور ادارت کرتے ہیں۔ جامعہ کراچی شام کے پروگرام
میں شعبہ تصنیف و تالیف کے ڈائریکٹر بھی رہے۔
۲۰۱۳ء میں شہنشاہ جاپان کی جانب سے "آرڈر آف رائزنگ سن" جیسے اعلیٰ ترین
اعزاز سول ایوارڈ سے نوازا گیا۔۱۹۸۲ء میں علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی۔
اسلام آباد سے "بیسٹ ٹیچر" کا ایوارڈ ملا۔۱۹۶۹ء میں "بابائے اردو ایوارڈ"
انجمن ترقی اردو کی جانب سے وصول کیا۔
بھارت کے مقابلے میں خاص طور پر اردو زبان و ادب میں ہمارے ہاں زیادہ بہتر
تحقیقی و تخلیقی کام ہوا۔ جیسے پنجاب یونی ورسٹی کی مثال ہے۔ جہاں یہ روایت
تو سو سال سے قائم تھی لیکن جب کراچی یونی ورسٹی قائم ہوئی تو یہاں تحقیقی
سر گرمیاں بہت بڑھی ہیں۔ خاص طور پر پر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے دور میں
بہت فروغ ہوا۔شعبہ تصنیف و تالیف نے مناسب تدریسی مواد مرتب اور شائع
کیا۔فاضل اساتذہ نے تحقیق اور ترجمے کو فروغ دیا۔ سندھ یونی ورسٹی سے معروف
علماء نے بھی تحقیق کو فروغ دیا۔ ایچ ای سی نے اساتذہ کے لئے تحقیق کو لازم
قرار دیا۔خاص طور پر ڈاکٹر عطاالرحمن کا دور اس سلسلے میں مثالی ہے۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل نے ادبی موضوعات پر مطالعہ کیا لیکن پی ایچ ڈی کے
بعد زیادہ تر تحقیقی موضوعات پر لکھا۔ کلاسیکی ادب سے دلچسپی رہی اور جنوبی
ایشیا کے مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب انکی دلچسپی کے خاص موضوعات ہیں۔۷۵ میں
سے ۴۰ کتابیں تاریخ و تہذیب پر ہیں۔ پانچ چھ کتابیں زیر طبع ہیں جو ادب و
تاریخ کا احاطہ کرتی ہیں۔ اپنے تحقییقی موضوعات کے حوالے سے انکا تعلق تمام
جامعات سے ہے۔تحقیقی سرگرمیوں میں اساتذہ اور طلبا سے مشاورت اور مدد کرتے
ہیں۔ ادارہ غالب سے نوجوانی سے رابطہ رہا۔ انجمن ترقی اردو سے تعلق رہا۔
اقبال اکیڈمی پاکستان کے تاحیات رکن ہیں۔ متعدد اداروں سے مشاورت کا تعلق
ہے۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل نے بچپن میں اپنے دوستوں کی طرح اپنے مستقبل کے لئے
دو منصوبے بنائے تھے۔ایک یہ کہ ایک بڑا سا ذاتی کتب خانہ قائم کروںگا اور
دوسرے یہ کہ ساری دنیا کی سیاحت کروں گا۔ اللہ نے انکی یہ دونوں خواہشیں
قابل رشک حد تک پوری کیں۔لیکن جب کتب خانہ بن گیا اور انھوں نے اپنے اکابر
کے ذاتی کتب خانوں کی کتابیں فٹ پاتھوں سے خود خریدنی شروع کیں اور
یونیورسٹیوں کے کتب خانوں میں اکابر کے ذاتی کتب خانوں کو برباد ہوتے بچشم
خود دیکھا توایک اضطراب ہی میں ہمیشہ رہے کہ انکے اس کتب خانے کا بھی کیا
ہوگا؟کیا یہ ہی انجام نہ ہوگا؟پھر یہ ہی سوال انھوں نے ہر ایسے شخص کے ذہن
میں تڑپتا دیکھاہے جس کا اپنا ایک کتب خانہ ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر سید معین الدین عقیل نے ذاتی کتب خانہ جاپان کیوں منتقل کیا
؟
جاپانی قوم ایسی قوم ہے جو ساری دنیا سے اچھائیاں قبول کر رہی ہے جب کہ خود
اس میں بے پناہ اچھائیاں ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا میں تجارتی
مقاصد سے پھیلنا ہے۔ دنیا کے ہر ملک سے وہ اپنا رشتہ بڑھا رہے ہیں۔اسی لئے
دنیا کو سمجھنا،تہذیب کو سمجھنا اور تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر تہذیب
اور تاریخ کو سمجھنا ہے تو اس قوم کو سمجھنا ہوگا۔ قوم کو سمجھنے کے لئے اس
کی زبان کو سیکھنا پڑتا ہے۔اس لئے جاپان کی جامعات کے نصاب میں علاقائی
مطالعات بھی شامل ہیں جیسے جنوب مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا، مشرقی وسطیٰ،
یورپ، امریکہ و افریقہ۔مشرقی وسطیٰ کے تحت عربی زبان اور مطالعہ اسلام میں
بھی انکی دلچسپی ہے اسی طرح اگر جنوبی ایشیا کا مطالعہ کرنا ہے تو یہاں کی
تاریخ، تہذیب اور زبانیں بھی پڑھنا اور سیکھنا ضروری ہے۔ اس خطہ میں
مسلمانوں کا بڑا کردار رہا ہے۔ اسلئے مسلمانوں کی تاریخ اور تہذیب کوبھی
پڑھنا ان کے لئے اہم ہے۔ مطالعہ پاکستان بھی اس میں شامل ہے اور ہندی بھی
سیکھتے ہیں۔اب وہ بنگالی بھی سیکھ رہے ہیں۔
ساوتھ ایشین اسٹڈیز کے لئے چار چھ یونیورسٹیاں تو ایسی ہیں کہ جہاں خصوصی
طور پراسکا اہتمام ہے۔ ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز ہے، اوساکا یونی
ورسٹی اور دائتو بنکا یونی ورسٹی ہیں اور کئی یونیورسٹیاں ہیں جہاں مطالعہ
اردوہے، مطالعہ پاکستان ہے اور وہاں ریسرچ کا بھی بڑا اہتمام ہے۔ ہمارے
موضوعات پر وہاں بہت کام ہو رہا ہے جسکا یہاں علم نہیں۔جاپانی طلبا
یونیورسٹیوں میں دو چار سال تک اردو پڑھتے ہیں۔ زبان بھی سیکھتے ہیں اور
ادب بھی پڑھتے ہیں۔ ادب و تاریخ کے ساتھ اخبارات بھی پڑھتے ہیں اور لکھتے
بھی ہیں۔ تحقیق میں آتے ہیں تو متنوع موضوعات پر تحقیقی منصوبوں پر کام
کرتے ہیں۔ اردو کے مقابلے میں مطالعہ اسلام کے زیادہ شعبے ہیں اور چھ سات
جامعات میں ہیں۔ وہاں ایسی کئی جامعات ہیں جہاں مطالعہ اسلام کے لئے زیادہ
اہتمام ہو رہا ہے۔
ٹوکیو یونی ورسٹی ایک بہت بڑی جامعہ ہے جو دنیا کی چند بڑی جامعات میں شامل
ہے۔ یہاں مطالعہ اسلام کا شعبہ بہت پرانا ہے یعنی ۵۰ سال سے قائم ہے۔وہاں
سے جو نسلیں جاپانیوں کی نکلتی ہیں وہ خود اپنی جگہ اسلا م کے علما ہیں۔
عربی سے واقف ہیں، عربی بول اور لکھ سکتے ہیں۔ تحقیق کرتے ہیں، تراجم کرتے
ہیں، قرآن اور حدیثوں کے بھی ترجمے ہوتے ہیں ۔ مسلمان مفکرین پر بھی وہاں
تحقیق ہوئی ہے۔مطالعہ اسلام پر کئی تحقیقی رسائل نکلتے ہیں۔
جاپان میں آجکل زیادہ بڑے پیمانے پر کام کیوتو یونی ورسٹی میں ہو رہا ہے۔
ایشیا اور افریقہ ایریا اسٹڈیز کا وہاں کلیہ ہے جس میں پورا ایشیا اور
افریقہ آگیا ہے اس میں مطالعہ اسلام بھی ہے بہت سے نوجوان ہیں جنہوں نے اس
مضمون میں ایم اے کیا ہے اور اب پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل جاپان کی چار جامعات میں تدریس اور تحقیق کے حوالے
سے باقاعدہ منسلک ہیں۔ تحقیق کی نگرانی و معاونت بھی کی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب یہ
محسوس کرتے ہیں کہ وہاں طالب علم بہت ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں اسکی ایک مثال
یہ کہ انھوں نے طالبعلموں سے بار ہا پوچھا کہ آپ اردو کیوں سیکھ رہے ہیں
؟یہ ٹھیک ہے کہ ریڈیو میں چلے جاتے ہیں، تجارتی کمپنیوں سے منسلک ہوتے
ہیں،صحافی بن کر پاکستان آجاتے ہیں، وزارت خارجہ میں چلے جاتے ہیں،قونصلٹ
میں کام کرتے ہیں اسی طرح بھارت بھی چلے جاتے ہیں۔ اس سے قطع نظر بعض طالب
علموں نے کہا کہ جس چیز کو ہم نہیں جانتے اسکو جاننا چاہتے ہیں۔آپ اس سے
اندازہ لگائیں کہ علم کی جستجو کیا ہوتی ہے۔ڈاکٹر معین الدین عقیل کو اس
بات کی خوشی ہے کہ وہاں انکو ایسے نوجوانوں اور اساتذہ کے ساتھ متنوع
موضوعات پر انکی رہنمائی اور انکے ساتھ تحقیقی کام کرنے کے مواقع ملے اور
بہت خوش کن تجربات رہے۔
میرے ایک سوال کے جواب میں فرمایا، "میں اپنے ذاتی کتب خانے کا ذکر کرنا
چاہتا ہوں کیونکہ جاپانیوں میں مطالعہ پاکستان اور مطالعہ اسلام کے بڑھتے
ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے جاپان میں یہ قلق مجھے ہمیشہ رہا کہ وہاں ان
موضوعات پر مناسب مآخذ اور کتابیں موجود نہیں۔ دنیا بھر سے وہ کتابیں
خریدتے اور جمع کرتے ہیں۔انکے کتب خانے بہت باثروت ہیں لیکن پاکستان سے
مفید مطلب کتابیں حاصل کرنا ہمارے زیادہ تر تاجران کی بد دیانتی کی وجہ سے
انکے لئے ناممکن رہتا ہے۔ اس کی کمی کو دور کرنے کے لئے جاپانی محققین
پاکستان کا رخ کرتے ہیں اور یہاں کے کتب خانوں سے استفادہ کرنے پر مجبور
رہتے ہیں۔ میرے کتب خانے کے ان ذخائر کی ،جو جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی
تاریخ و سیاست اور تحریکات اسلامی کے مآخذ پر مشتمل ہے ان محققین اور
اساتذہ کی وجہ سے جاپان میں خاصی شہرت رہی ہے۔چنانچہ کیوتو یونی ورسٹی کی
جانب سے رسمی طور پر مجھ تک دبے لفظوں میں یہ خواہش پہنچی کہ کاش ایسا کتب
خانہ جاپان میں کہیں ہوتا تو وہاں تحقیقات میں بڑی آسانی مئیسر آتی۔میں
زندگی کے اس مرحلہ میں ہوں کہ اپنے کتب خانے کے مستقبل کے لئے مجھے سوچنا
ہی تھا۔ پھر ایسی صورت میں کہ یہاں بڑے بڑے قیمتی اور نادر ذاتی کتب خانے
ہماری آنکھوں کے سامنے برباد ہو چکے، ردی میں اور فٹ پاتھوں پر بکتے رہے۔
منظم اور قومی کتب خانوں میں بھی اب ذاتی کتب خانوں کی گنجائش نہ رہی ، میں
نے یہ مناسب سمجھا کہ اپنا کتب خانہ جاپان کی جامعہ کو ہدیہ کر دوں تاکہ تا
قیامت وہ وہاں حقیقی استفادہ میں آتا رہے"۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اپنے کتب خانہ کا ۸۰ فیصد یعنی ۲۷ ہزار کتابیں
۲۰۱۲ء میں جاپان کی کیوتو یونی ورسٹی کو ہدیہ کردیں جو اب وہاں ایک وقیع
کتب خانے کے ایک گوشہ میں "عقیل کلیکشن"کے نام سے تیکنیکی مراحل سے گزر رہی
ہیں اور جلد ہی اسکین ہو کر ساری دنیا کے استفادے کے لئے آن لائن آجائیں
گی۔ ہم یہاں بیٹھے بھی ان کتابوں کو پڑھ سکیں گے ۔ڈاکٹر صاحب کا ضمیر اس
فیصلے پر نہ صرف مطمئن ہے بلکہ آپ فخر محسوس کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپکو
جزائے خیر دے آمین۔ |