یہ ایک ڈرائیور کا بیٹا ہے۔۔۔۔

 یہ کہا نی اس شخص کی ہے جو ایک ایسے ملک ہے تعلق رکھتا ہے جہاں کبھی اس کا سو رج غروب نہیں ہو تا تھا، جہاں کسی زما نے میں دنیا ان کی مٹھی میں ہو تی تھی۔ لوگ ان کو " گریٹ بریٹن" کے نام سے جانتے تھے۔ ساجد جا وید نامی مسلمان شخص اس زمیں سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا باپ ایک ڈرائیور ہے ۔ دو ہزار چودہ کے ایک پو ل میں اس نے ۴۳ فی صد ووٹ حا صل کیئے ۔ دنیا کے مشہور ترین رسا لے " فوربز "نے اسے ا مریکصدر باراک اوبامہ سے مو ازنہ کر نا شروع کیا۔ ا سے برطانیہ کا باراک اوبامہ کہنا شروع کیا ۔ اس کے متعلق چہ میگو ئیاں شروع ہو ئی کہ وہ برطانیہ کا آئیندہ وزیر اعظم ہو سکتا ہے۔

عمر اس کی چھیالیس سال بنتی ہے۔پچیس سال کی عمر میں وہ امریکہ چلا گیا اورایک بینک میں وائیس پریزیڈنٹ بن گیا جو دنیا کی تاریخ میں سب سے کم عمر میں حا صل کیا گیااسکا بینک کا بڑا عہدہ تھا۔ برطا نیہ کے دو ہزار دس کے جنرل الیکشن میں اس نے با یس ہزار ووٹ لیئے اور اپنے مخالف کو دگنے ووٹ سے شکست دی۔ فوربز مشہور جریدے نے اسے باراک اوبامہ سے کمپیئر کرنا شروع کیا اور کچھ دن پہلے وہ برطانیہ کا ان گورے ، فرنگیوں کا ثقافتی وزیر بن گیا جو کھبی ہم پر راج کیا کرتے تھے۔۔۔۔

یہ تمام تمہید سا جد جا وید کے حق میں اس لیئے نہیں کی گئی کہ ہم اسے ہیرو کے روپ میں ڈال رہے ہین یا اس لیئے بھی نہیں کی گئی کہ وہ ایک مسلمان ہے اور مسلمان اب برطانیہ پر حکومت کر کے گو روں سے ایسٹ اینڈیا کمپنی کے تحت آنے والے دھوکہ باز گو روں سے بدلہ لے رہے ہیں، وہ اسلامی شعار کا اتنا پابند بھی نہیں اور اس کے ،متعلق یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو پسند بھی کرتا ہے۔ تو ہم ایسے شخص کو ہیرو کے روپ میں پیش تو نہیں کر سکتے مگر اس تمام تمہید میں ایک ہی نقطہ زیر غور ہے وہ ہے ڈرائیور کا بیٹا۔ہان جی ڈرائیور جو کہ ہمارے معاشرے میں ایک معمولی ترین آدمی سمجھا جاتا ہے، جو ہر راہ چلتے ہو ئے قریب سے گاڑی اوور ٹیک کر تے ہو ئے کو ایک مخصوص گا لی سے نو ازتا ہے۔ اور گاڑی میں اونچی اواز میں پردیسی پردیسی جا نا نہیں کے سونگز لگا تا ہے۔۔۔

ہم روزمرہ کی زندگی میں ڈرایؤر سے اچھے روئیے کی تو قع کم ہی رکھتے ہیں ۔ ڈرایؤر کے بچے بھی گھر میں پرانے ٹا ئرکے ساتھ کھلتے دکھائی دئتے ہیں وہ ٹائر کے پیچھے اسکو حرکت دیتے بھاگتے پھرتے ہیں اور اپنے اپ کو ڈرایؤر سمجھ رہے ہو تے ہیں۔ کھبی کھبی تو وہ بچہ بیک وقت ڈرایؤر، سواری، گاڑی تک بھی بن جاتا ہے اور ااگے پیچھے گئیر لگاتا ہو ا منہ سے ہنگ ہنگ کی آواز نکالتا رہتا ہے ، یہ سب کیوں۔۔۔۔؟ کیو نکہ اسکا باپ اسکے لیئے رول ماڈل ہوتا ہے ، اس کا باپ اسکی نظر میں ہیرو ہو تا ہے۔ اور وہ بھی بڑا ہو کر ایک" اعلیٰ پائے" کا ڈرایؤر بننا چاہتا ہے۔۔اس میں اس بے چارے کی کو ئی غلطی نہیں ، کیو نکہ جیسا دیس ویسا بھیس ۔۔ہمارا نطا م ہی کچھ ایسا ہے کہ ہم ڈرائیور کے بیٹے کو ڈرایئیور ہی بنا دئتے ہیں۔۔ مگر صرف ہم ۔۔ آئیں دیکھیں ، ملا حظہ کریں ،

ڈرایؤرر کا بیٹا آج برطانیہ کے پارلیمنٹ کا حصہ ہے اور وزیر با تدبیر بھی بن گیا اور اسے مستقبل کے اوبامہ سے سے بھی تشبہیہ دی جا رہی ہے۔۔۔۔ ایسی قومیں ترقی کیوں نہ کریں گے؟ ایسی ملکوں کا زوال بڑی مشکل سے ائے گا جو کرسی کو صرف اپنوں تک محدود نہیں رکھتی۔ وہ بلا امتیاز ملکی خدمت کے لیئے اہل لوگوں کو مواقع فراہم کرتی ہیں۔ اب ائے اپنے سو چ کے زاویوں کو دوبارہ اپنے سسٹم کی طرف لے کر ائیں۔۔ ۔۔۔ پاکستان میں چند بڑی پارٹیا ں ہے ۔ اپ ذرا اس کا سٹرکچر دیکھیں۔ ان سب نے اپنے جانشین اپنوں میں ہی سے چنا ہے۔۔۔ چا ہے وہ اس منصب پر پو را اترے نہ اترے کرسی کو اس کا حق سمجھ کر ان کو منتقل کیا یا ان کے گریجو یشن کا نتظا ر کر تے رہے ہیں تاکہ انہیں پارٹی کا اہم ترین عہدہ دے سکیں۔۔۔ ہمارے ہاں تو خاندانی نام تک بھی بدل لیئے جاتے ہیں۔۔۔۔۔

اب ذرا اپنے گریبان میں جھانکیں ، دیکھے اور اسے کھل کر دیکھے کہ میں نے کتنا ساتھ دیا ہے اس مو روثی سیاست کو امر کرنے میں۔ کیا ہم ہر وقت سیا ست دانوں کو کو ستے رہینگے ۔۔۔۔ ؟؟؟؟ نطام بدلنا ہے تو خو د بدلو۔ اپ کے پاس ووٹ کی طاقت ہے۔ ووٹ کی طاقت سے بدلو۔ اس مو روثی سیاست نے کیا دیا ہمیں۔ ڈرایؤ ر کا بیٹا ڈرایؤر ہی بن رہا ہے۔ سو چئے، سمجھئے، اور بدلیئے نظام کو۔ اپ بدل سکتے ہیں اس نظام کو مگر صحیح شخص کا نتخاب کر کے۔۔۔ اور اہل شخص کو مواقع دیکر۔
MUHAMMAD KASHIF  KHATTAK
About the Author: MUHAMMAD KASHIF KHATTAK Read More Articles by MUHAMMAD KASHIF KHATTAK: 33 Articles with 86270 views Currently a Research Scholar in a Well Reputed Agricultural University. .. View More