عوامی مسائل کا بڑھتا ہوا طوفان

عوام پر بوجھ در بوجھ ڈالا جارہا ہے ہر طرف ،ہرروز نت نئے ٹیکسز کے نام پر جگا ٹیکس حکومتیں وصول کر رہی ہیں ،اگر اس سے بھی حکومتوں کا پیٹ نہیں بھرتا تو منی بجٹ کے نام پر مہنگائی کی عذاب عوام پر مسلط کردیتے ہیں یہ حکمران۔انھیں کوئی پوپھنے والا نہیں رہا کہ عوام سے ہر طرح وصولیاں ہو رہی ہیں جو غریب کسی وصولی سے قاصر ہوتا ہے تو اسے جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے مگر ان غریبوں کو کیا ریلیف دیا جارہا ہے ؟
چندماہ پہلے لکھا تھا کہ قذافی کالونی مین بازار بادامی باغ لاہور کا مین بازار کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے کیونکہ اس بازار کی سڑک نیچے سے بالکل خالی ہے سیوریج کی خرابی کے باعث ایک بڑا گڑھا بن گیا ہے سڑک کئی جگہ سے بیٹھ بھی گئی ہے جسے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت عارضی طور پر مرمت کروایا ہے جبکہ اوپر لینٹر والی سڑک ہے جب بھی کوئی گاڑی گزرتی ہے تو مکانات لرزنا شروع ہوجاتے ہیں مگر کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں دی اب تو بلدیاتی انتخابات بھی ہوگئے ہیں حسب روایت یہاں سے بھی ن لیگ جیت گئی ہے بلدیاتی نمائندے بھی اس مسلے کے حل میں مخلص دکھائی نہیں دے رہے ۔وزیراعلیٰ ،ان کی ٹیم اور ان کی ن لیگ کے کسی فرد کو اگر ہماری تحریر پڑھنے کو ملے تو ان تک یہ بات ضرور پہنچائی جائے کہ حادثے کے بعد آپ کاسیاست چمکانے کیلئے یہاں آنے کا کوئی فائدہ مند نہیں ہوگا سڑک کی فوری از سر نوتعمیر کروائی جائے۔اسی طرح اب سردیوں کی آمد آمد ہے سوئی گیس غائب ہونا شروع ہوگئی ہے خواتین کیلئے کھانا پکانا ابھی سے محال ہوگیا ہے ،ملک کے بڑے شہروں،لاہور بالخصوص شمالی لاہورکا ایک اہم مسلہ گندے پانی کا صاف پانی کے پائیپس میں شامل ہوجانا ہے جسے لوگ گھروں میں استعمال کر رہے ہیں کھانے پکانے ،پینے،برتن دھونے میں بھی یہی پانی استعمال ہورہا ہے جس سے معدے ،ہپاٹائٹس ودیگر مہلک بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ہسپتال مریضوں سے بھرے نظر آتے ہیں اس کی بنیادی وجہ گندے پانی کا استعمال ہے ۔عوام کی صحت کو درست رکھنے کیلئے سینٹری کے پائپ ڈلوانے کی ضرورت ہے جس سے حکومت نے ہمیشہ چشم پوشی اختیارکی ۔ حکومت عوام کو سستے داموں اشیاء ضروریا ت فراہم کرنے میں بھی ناکام نظر آرہی کیونکہ ہر کوئی من پسند ریٹس سے اشیاء فروخت کر رہا ہے عوام کو ایک بہت بڑا طبقہ کی جیبوں پر اس طرح ڈاکا ڈالا جا رہا مگر حکومت مفلوک الحال عوام کو اس مسلے پر ریلیف دینے میں بھی ناکام ہو گئی ہے ۔روٹی ،کپڑااور مکان ،صحت وصفائی ،تعلیم کی سہولیات مفت عوام کی دہلیز پر پہنچانا حکومت کا فرض اول ہوتا ہے مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے تین وقت کی روٹی کیلئے غرباء اپنے بچوں ،جسم کو فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔اب جس غریب آدمی نے پانچ مرلے سے زیادہ کا مکان بنا لیا ہے مہنگائی کے اس دور میں خواہ اس کیلئے تین وقت کی روٹی کا انتظام کرنا ناممکن ہو اسے اب میاں نواز شریف صاحب کی عوام دوست حکومت پراپرٹی ٹیکس کے پروانے جاری کررہی ہے۔کسی نے ہم سے پوچھا یہ کیا بھائی صاحب،تو ہم نے بڑے ادب سے گذارش کی کہ جناب پانچ مرلے سے زیادہ مکان بنانے کا جرم کیوں کیا تھا؟ہاں اب جن کے مکانات پانچ مرلے سے زیادہ ہیں وہ بھی میاں نواز شریف صاحب کی دعاؤں سے انھیں ملے ہیں ان سے گذارش ہے کہ وہ ٹیکس ہر حال میں ادا کریں بصورت دیگر بے وفائی،احسان فراموشی پر جیل جانا پڑے گا۔اب کوئی غریب تین مرلے سے زیادہ مکان نہ بنائے کیونکہ ہوسکتا ہے یہ قانون پانچ سے ساٹھے تین مرلے پر آجائے کیونکہ میاں نواز شریف کی حکومت کی مزید غریب ہونے کے امکانات روشن ہوتے جارہے ہیں اسی لئے تو ان کے مقرر کردہ صدر ممنون حسین صاحب کا فرمان ہے کہ علمائے کرام سود کو حلال کرنے ،اﷲ ورسولﷺ سے جنگ کرنے کی گنجائش پیدا کریں ہم کنگلے ہوتے جارہے ہیں ۔مکان دینے کی بجائے حکومت غریبوں کے مکانات پر قبضے کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے ،ن لیگ والے بلدیاتی الیکشن میں جھاڑو پھیر کر کامیاب تو ہوگئے مگر مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام۔۔۔۔لوگوں نے ان پر سو فیصد کرپٹ زدہ کا الزام لگنے کے باوجود کلین چٹ دے دی ہے اب انھیں کوئی نہیں ہلا سکے گا اسی لئے تو نئے نئے پیسے بٹورنے کے بہانے تراشے جارہے ہیں۔صحت وصفائی کا حالت کا بھی خدا ہی حافظ ہے چند مخصوص علاقوں میں اوپر اوپر سے جھاڑومروایا جاتا ہے باقی اﷲ حافظ۔ تعلیم پر تو اب وائٹ پیپر شائع ہورہے ہیں ناقص کارکردگی ہے یا نہیں اس کا آئینہ دیکھنا ہے تو سرکاری ادروں کے رزلٹ ہی دیکھ لیں ایک سرکاری ادارے کے طالب علم پر کم ازکم آٹھ سے دس ہزار روپے حکومت کی طرف سے لگایا جا رہاہے مگر رزلٹ اتناشرمناک کہ جس کی کوئی حدنہیں،بعض تعلیمی اداروں سے سربراہان نے ملازمین کو اپنا غلام سمجھ رکھا ہے ان سے لاوارثوں والا سلوک کیا جارہا ہے دوسری طرف متوسط طبقہ کے پرائیویٹ سکولز کا گھیرا تنگ کیا جارہا ہے انھیں تعلیم یافتہ ہونے،نوکری نہ ملنے کے بعد قوم کے بچوں کو تین ،چار سو روپے میں معیاری ترین تعلیم اورسرکاری اداروں کی نسبت کئی درجے بہترین رزلٹ دینے والے ان تعلیمی اداروں جو سرداروں جیسی سوچ کے حامل حکمران سزادے رہے ہیں متوسط پرائیویٹ سکولز کو رجسٹریشن،سکول رقبے،ٹیکسز ودیگر لوازمات کے نام پر تنگ کیا جارہا ہے تاکہ یپرائیویٹ سکولز مالکان ادارے بند کرکے غریب عوام کو تعلیم دینا بند کردیں اس طرح غریب بچوں کو سکولز کے دروازے بند کئے جارہے ہیں تعلیم ان کے لئے ایک خواب بن جائے گی کیونکہ سرکاری تعلیمی اداروں کے پاس اتنے سٹوڈنٹس کو تعلیم دینے گنجائش ہی نہیں ہے ،پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کے صدر ملک خالد سے ملاقات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ اگر گورنمنٹ اپنے ظالمانہ اقدام سے باز نہ آئی تو سکولز بند کرکے سٹوڈنٹس کے ہمراہ سڑکوں پر آجائیں گے یعنی زیادتیوں کا سلسلہ بند نہ ہو اتو پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی احتجاج کا سلسلہ شروع کردیں گے ۔نقل ،ر شوت عام ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ان حالات میں بھی عوام نے ن لیگ پر اعتماد کیا لیکن میرا وجدان کہتا ہے کہ عوام کو ن لیگ سے مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں ملے گا ۔نوکریاں تو ہر صوبے میں ایک اہم شخصیت کے انڈر ہیں جس نے اپنے ایجنٹ مقرر کر رکھے ہیں جن کے پیسے آتے ہیں ان کو لیٹر جاری کروا دیتے ہیں غریبوں کے 10 فیصد بچوں کو بھی میرٹ پر نوکریاں نہیں مل رہیں جس کے باعث بے روزگاری کا اژدھا سر چڑھ کر بول رہا ہے کوئی ادارہ ان ایجنٹ مافیا کی گردنوں کو بھی دبوچنے کو تیار نہیں جو میرٹ پر آنے والے لوگوں کے روزگار کاقتل عام کرکے بدترین دہشت گردی،گنڈہ گردی کا ارتکاب کر رہے ہیں ،جس کے باعث جرام کی شرح بڑھ رہی ہے ۔عوام کے سامنے مسائل کا ایک سمندر ہے جو ان کی طرف بڑھتا ہی چلا جارہا ہے مگر حکمران ہیں لوٹ مار کے سوا کچھ نہیں کر رہے ،اپوزیشن فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرکے اپنا حصہ وصول کررہی ہے ۔اگر ہم غلط ہیں تو اصلاح فرمادیں اگر درست ہیں تو نظام بدلنے کیلئے نبی ؐ اکرم ﷺ کی سنت کے مطابق جدوجہد کرنا ہوگی بصورت دیگر یہ یہودوہنود کا پیدا کردہ مسائل کا سمندر اور ان کے ہم نوالہ ہم پیالہ سیاستدان عوام کے سروں پر چڑھتے ہی جائیں گے ۔ اﷲ تعالیٰ کا قرآن میں اٹل فیصلہ ہے کہ ہم کسی بھی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتے جسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245762 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.