بھیڑیے

کہانی لکھنا یا افسانہ لکھنا بھی ایک فن ہے۔ بے شک کوشش تو بہت لوگ کرتے ہیں لیکن کامیاب درحقیقت وہی لوگ کہلاتے ہیں جن کی تحریر کو عوام سراہتی ہے اور اس تحریر کا ان کی زندگی میں کچھ نہ کچھ اثر رہ جاتا ہے۔کہانی میں اثر ڈالنا کوئی مشکل نہیں، لیکن وہ اثر دیرپا ہو کمال یہ ہوتا ہے۔ یہ اثر زیادہ تر ناولوں میں سے ہی ہوتا دیکھا گیا ہے۔ بہت کم دیکھا ہے کہ کسی افسانے نے یا مختصر کہانی نے کسی کی زندگی میں انقلاب برپا کیا ہو۔ کیا لکھا جانا چاہیے؟ کیا وہ سعادت حسن منٹو صاحب کی طرح ہو کہ معاشرے میں جو منفی کام چھپ کر ہو رہے ہیں وہ سب کیسامنے لائے جائیں ۔جبکہ ہمیں ہمارا دین تو یہ کہتا ہے کہ اگر تم لوگوں کا پردہ رکھو گے تو اﷲ پاک قیامت کے دن تمھارا پردہ رکھیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں کافی عرصہ بارش نہ ہوئی۔انکی قوم ان کے پاس آئی اور ان سے عرض کیا کہ وہ اﷲ سے بارش کی دعا کریں۔ انھوں نے سب قوم کو اکٹھا کیا اور اﷲ کے حضور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ اﷲ نے وحی نازل کی کہ اے موسیٰ اس جھمگٹے میں ایک بہت گناہ گار شخص موجود ہے۔ اسے کہو کہ وہ اس جگہ سے نکل جائے تو بارش ہو جائے گی۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے یہ اعلان کیا کہ ایک شخص بہت گناہ گار ہے۔ اﷲ نے فرمایا ہے کہ وہ یہ جھمگٹا چھوڑ کر چلا جائے تو بارش ہو جائے گی۔ کوئی نہ نکلا۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے اعلان دہرایا۔ وہ شخص موجود تھا ۔ بہت شرمندہ ہوا ۔ دل میں اﷲ سے دعا کی کہ اے اﷲ اب تک تو نے میرا پردہ رکھا ہے ، جتنے بھی گناہ کیے۔ وہ توبہ کرتا ہے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرتا ہے۔ ابھی اس شخص کی دعا مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ بارش شروع ہو گئی۔ سب نے اﷲ کا شکر ادا کیا اور چلے گئے۔ لیکن حضرت موسٰی علیہ السلام نے اﷲ سے عرض کیاکہ اے اﷲ، وہ شخص تو باہر نکلا ہی نہیں تھا تو بارش کیسے ہو گئی؟ اﷲ نے فرمایا کہ اس نے اسی جگہ کھڑے کھڑے اپنے سارے گناہوں سے توبہ کی اور آئندہ نہ کرنے کا عہد کیا۔ میں نے اسے معاف کر دیا ۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرضی کی کہ اﷲ اسکا پتہ بتایا جائے ۔ تو اﷲ پاک نے فرمایا کہ جب وہ گناہ گار تھا تو میں نے اس کا پردہ رکھا ہوا تھا۔ اب جب کہ وہ میرا محبوب بندہ بن گیا ہے تو اسکا راز کیوں افشا کروں۔

تولوگ منٹو صاحب کو بہترین افسانہ نگار کا درجہ دیتے ہیں۔ بالکل وہ ہوں گے۔ لیکن ان کے واہیات قسم کے افسانے جب پنہاں راز عیاں کریں گے تو وہ قیامت کے دن اﷲ کا سامنا کیسے کریں گے؟ ہر گز نہیں۔ بانو قدسیہ اپنے ایک افسانے میں ایک کردارکے بارے میں لکھتی ہیں کہ اس کے لمبے بال اسکی گردن سے ہوتے ہوئے پتلی کمر سے نیچے نجانے کہاں کی سیر کر رہے تھے۔اب کوئی کہے بتائے کہ یہ کوئی اچھی بات ہے۔ بے شک لفاظی ہی افسانے کو بناتی ہے۔ لیکن کیا اس جملے کی جگہ یہ نہیں لکھا جا سکتا تھا کہ اس لڑکی کے بال بہت لمبے تھے۔ آج کل کی صورتحال بھی کچھ مصنفین کی یہ ہو گئی ہے کہ جب تک اپنی تحریر میں فحش گوئی کا، لچر پن کا تڑکا نہ لگائیں وہ سمجھتے ہیں کہ وہ مشہور نہیں ہوں گے۔ یقینا ہوں گے لیکن بدنام نہ ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا والی بات ہو جاتی ہے۔ بڑوں کے لیے تو تحریریں لکھی جاتی ہیں اور بڑے اس کو پڑھتے بھی ہیں اور واہیات ، فحش لٹریچر کا نام دیتے ہیں لیکن پڑھتے ضرور ہیں۔ دراصل بڑے پھر بھی اس حد تک بالغ النظر ہو جاتے ہیں کہ اچھی بری بات کو سمجھتے ہیں۔ لیکن بچوں کا کیا قصور ہوتا ہے جب ان کے لیے اس طرح کی تحریریں لکھیں جائیں۔ ان کے کچے اذہان کو فحش گوئی کی طرف لگایا جائے۔ لچر پن ان کے سامنے لایا جائے۔ لفظوں کا ہیر پھیر اس طرح کیا جائے کہ بچوں کی آنکھوں کے سامنے گویا پوری تصویر بن جائے۔پڑھیے اور بتائیے کہ کیا یہ چیز بچوں کے لیے جائز ہے؟ اور اس سے کیا سبق دیا گیا ہے؟

"شانو بری طرح رو رہی تھی اور مچل رہی تھی مگر ڈمبالو کی گرفت بے حد مضبوط تھی۔اسکے علاوہ شانو کے جسم پر ایک کپڑا بھی نہ تھا۔"

نرم و نازک لڑکی کے لیے اتنا ہی بہت تھا ۔ اس کے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔اور اسکے منہ سے خون جاری ہو گیا۔خوف کی شدت میں وہ اپنا ننگا پن بھی بھول گئی اور سیدھی کھڑی ہو گئی۔"

یہ اقتباس جس کتاب سے لیا گیا ہے اسکے سر ورق کے بعد دوسرے ٹائیٹل صفحے پر درج ہے : "بچوں کے لیے دلچسپ اور خوبصورت ناول۔" کیا ان اقتباسات سے بچوں کے کچے اذہان میں یہ بات نہیں بیٹھے گی کہ ننگا پن کیا ہوتا ہے اور دوسرے کیسے لگتے ہیں جب وہ ننگے ہوتے ہیں۔ خود کے بارے میں تو نہیں سوچیں گے لیکن دوسروں کے بارے میں خیال ضرور ان کے ذہن میں آئے گا۔ قارئین کرام! یہ سلیقہ، یہ طریقہ ہمارا نہیں ہے۔ نہ ہی ہمارے اسلاف کا تھا۔ مرحوم اشتیاق احمد کے سارے ناولز اٹھا کر دیکھ لیں جو انھوں نے بچوں کے لیے لکھے تھے، کسی ناول میں بھی شاید ہی ذکر ہو کہ بچوں نے کسی لڑکی کا ہاتھ پکڑا ہو۔ چہ جائیکہ کہ اس طرح کھلے عام ننگے پن کا ذکر ہو۔ یہ فحش گوئی اور عامیانہ پن در اصل ہمارے دشمنوں کا ایجنڈا ہے۔ انھوں نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہمارے بچوں کی تربیت میں اپنا حصہ ڈالنے کا سوچا ہے کہ وہ جب بڑے ہوں تو ان کا ذہن اس قابل ہی نہ رہے کہ وہ اسلام کی، پاکستان کی بہتری کے لیے کچھ سوچ سکیں۔کوئی تعمیری کام کر سکے۔

جو پاکستان کے دشمن ہیں ، چاہے وہ اندرونی غدار ہوں یا بیرونی سازش کرنے والے۔ انھوں نے اس طرح کی اور بھی بہت سی سازشیں کر رکھی ہیں۔ ہم کارٹون دیکھ لیں، ہم مختلف ڈرامے دیکھ لیں۔ کارٹون حالانکہ بچوں کے لیے ہوتے ہیں لیکن ان میں بھی باربی ڈول کا ڈریس اس طرح کا ہوتا ہے کہ شاید ہی کوئی شریف گھرانے کا فرد اپنے بچوں کو اس طرح لباس پہنانا گوارا کرے۔ ٹام اینڈ جیری کارٹون اگرچہ بہت دلچسپ ہوتے ہیں لیکن جب ان میں کوئی اور ٹام جیسی سفید بلی آتی ہے تو ٹام بلا اسکا دیوانہ بن جاتا ہے۔ اس سفید بلی کی ڈریسنگ اسطرح کی ہوتی ہے کہ مجھے ذاتی طور پر دیکھتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ بچوں کے ذہن پر کیا اثر ہوتا ہو گا۔ میں نے ایک چھوٹا سے ویڈیو کلپ دیکھا جس میں ایک سات آٹھ سال کی بچی نے نیکر پہنی ہوئی ہے اور پھر بلاؤز (انتہائی معذرت کے ساتھ کہ یہ لفظ لکھنا مجبوری ہے) پہن کر اس کو درست کر رہی ہے کبھی اوپر کبھی نیچے۔ کوئی بتائے کہ یہ اس نے کہاں سے سیکھا ہو گا؟ ظاہر ہے یا تو کارٹونز سے یا پھر کسی بچوں کی کہانیوں کی کتاب سے یا پھر کسی ایسے ہی فحش ڈرامے سے۔

کیا کوئی ماں ، کوئی باپ اپنے بچوں کو اس طرح کی کہانی پڑھنے کو دے گا جس میں لڑکی کو ننگا دکھایا جاتا ہے، یا کوئی لڑکا کسی لڑکی کو ناچتے ہوئے دیکھتا ہے۔ہر گز نہیں۔ لیکن یہ سب کچھ ہو رہا ہے، بچے اس طرح کی کہانیاں پڑھ بھی رہے ہیں اور ان کو پڑھانے میں قصور اگر مصنف کا ہے تو والدین کا بھی ہے۔ جنھوں نے بنا اس کہانی کو پڑھے اپنے بچوں کے ہاتھ میں دے دیا کہ بچوں کی کہانی ہے، پڑھ لیں۔ گویا یہ زہر ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کے ذہن میں اتار رہے ہیں۔ اور ہم ہی اس سے بے خبر ہیں۔ اس طرح کی لچر اور بیہودہ کہانیاں لکھنے والے مصنفین انسان ہر گز نہیں، بھیڑیے ہیں، خونخوار بھیڑیے۔ جو غیر محسوس انداز میں دشمن کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔ وہاں سے بھی ان کو پیسہ ملتا ہے اور کتاب بیچ کر بھی وہ کماتے ہیں۔یہاں پیسہ تو کما لیں گے لیکن شاید ہی کوئی ان کا ساتھ دے گا۔ یہی مصنف ہر گز نہیں چاہے گا کہ اس کی اولاد اس قسم کی کہانیاں پڑھے۔ یہ زہر صرف باہر کے لوگوں کے لیے ہے۔ وہ تحریر بڑوں کے لیے ہو یا بچوں کے لیے، اسکے اپنے گھر میں اس تحریر کا ایک پیراگراف بھی نہیں آئے گا۔ معذور اذہان کے احساسِ کمتری کے شکار مصنفین ہی اس طرح کا کام کرتے ہیں۔ مجھے تو یہ بھی شک ہوتا ہے کہ وہ شاید کھاتے پیتے بھی حرام ہی ہوں گے یعنی وہ اشیاء جو ہمارے دین میں حرام ہیں۔ تب ہی تو اس قسم کے خیالات ان کے ذہن کی سیر کرتے ہوں گے۔ ورنہ صاف دل و دماغ کے مالک حضرات ہر گز یہ باتیں کر سکتے، لکھنا تو درکنار۔

منافقین کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ جب اس کو امانت دی جائے تو وہ اس میں خیانت کرے۔ اب اﷲ نے ان لکھنے والوں کو اگر قلم کی طاقت عطا کر دی ہے تو گویا ان کو ایک امانت سپرد کر دی کہ اس قلم کی طاقت سے وہ دنیا میں مثبت پیغام پہنچائیں۔ لیکن جب وہ اس قلم سے منفی تحریریں لکھیں گے، فحش ، لچر پن، عامیانہ باتیں لکھیں گے تو وہ منافق ہی کہلائیں گے کہ انھوں نے اﷲ کی عطا کی ہوئی امانت میں خیانت کی ہے۔
"جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہوں میں فحاشی پھیلے، وہ دنیا و آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔ اﷲ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ـ " (سورۃ النور، آیت۔19)
 
Ibn e Niaz
About the Author: Ibn e Niaz Read More Articles by Ibn e Niaz: 79 Articles with 71392 views I am a working, and hardworking person. I love reading books. There is only specialty in it that I would prefer Islamic books, if found many types at .. View More