سردی کے مزے

سردیاں ہوں اور بازاروں میں رش نہ ہو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ ہوتا ہے نا رش۔ کوئی رضائی،کمبل کی دکان میں گھس کر ناپ تول کر رہا ہے تو کوئی کوٹ جرسی کی دکان پر کھڑا حسرت بھری نگاہوں سے دکان دار کو دیکھ رہا ہے کہ شاید کوئی سستا سا آئیٹم دکھا دے۔ اور کوئی استاد جی بن کر درخواست نما حکم دیتا ہے کہ بھائی سردیاں آ گئی ہیں ، کچھ لکڑیاں ، کوئلہ وغیرہ اکٹھا کر لو اور ہم تڑ سے جواب دیتے ہیں کہ بھائی ڈائریکٹ حکم دو۔یہ کیا ڈپلومیسی شروع کی ہوئی ہے۔زبان سے حکم اور چادر کے نیچے سے ہاتھ باندھے ہوئے کہ بھائی مان جاؤ، کیونکہ بھابھی جو دیکھ رہی ہوتی ہیں ترچھی نظر سے۔ اب کوئی کہے کہ جب سردیاں شروع ہو گئیں تو ایسے میں اب کوئلہ، لکڑی اکٹھا کرنے کا کیا فائدہ۔ میرے ان الفاظ پر کہ بلاواسطہ حکم مانا جا سکتا ہے ، استاد جی انتہائی درجے کی معصوم صورت بنا کر کہتے ہیں، بھائی میں شریف آدمی ہوں اور میری شرافت ظاہر کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ میں شادی شدہ ہوں۔ یعنی کہ پھر توشیخ صاحب یا خان صاحب پر لے درجے کے شریف کے متضاد ہو گئے۔

بالکل اسی طرح جیسے شریف اور اسکا متضاد لفظ ہوتا ہے، سردیاں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں ایک وہ سردی کے موسم میں سردیاں ہوتی ہیں ، جن کے لیے پاکستان میں نومبر، دسمبر ، جنوری ، فروری کے ماہ عام طور پر ہوتے ہیں، اور باقی ملکوں میں انکے موسمی حالات کے مطابق مہینے ہوتے ہیں۔اس سردی میں کبھی کبھی کچھ ملکوں کے کچھ علاقوں میں برفباری بھی ہو جاتی ہے او ر کم عقل لوگ بلکہ نوجوان زیادہ کہیں برف کے مجسمے بنا کر اپنی یادیں چھوڑ آتے ہیں۔ اور جو دوسری قسم کی سردی ہوتی ہے وہ مجھے ہوتی ہے یا کسی کو بھی ہو سکتی ہے اور اس میں موسم کا کوئی سرو کار نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ ایسی سردی ہوتی ہے کہ جس بعد شاید ہر کوئی چاہتا ہے کہ گرمی لگے اور پسینہ زور و شور سے نکلے۔ اس سردی میں کوئی برف نہیں گرتی کہ جس پر روح افزاء کو چھڑک کراسکے گولے بنا کر کھایا جائے۔ اس سرد ی میں تو لحاف، رضائی پر رضائی کی ضررورت پڑتی ہے۔

سردی لگنے کی وجہ کوئی بھی نہیں ہوتی۔ بس سردی ہو جانی چاہیے۔ سردی خود بخود آپ کو گھیر لیتی ہے۔ اور جب آپ گھیراؤ میں آجاتے ہیں تو آپ کا حلیہ دیکھنے والا ہوتا ہے۔اگر شروعات پاؤں سے کروں تو پھر موٹی موٹی جرابوں کے دو عدد جوڑے ایک دوسرے کے اوپر نیچے پہنے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار تو ہوتے وہ ہی دو جوڑے ہوتے ہیں لیکن دیکھنے والوں کو مختلف لگتے ہیں کہ جلدی میں جو ڑے کا ایک حصہ اوپر نیچے ہو جاتا ہے۔ اسکے بعد پینٹ شلوار بھی بہترین قسم کے موٹے کپڑے کی اور اوپرسے پاجامہ جو کے شلوار یا پینٹ کے نیچے پہنا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں کبھی گھنٹا کھجایا جا رہا ہے تو کبھی پنڈلیوں کی شامت آئی ہوئی ہوتی ہے کیونکہ سردی میں گرمی لگنے لگتی ہے یا کانٹے چبھنے لگتے ہیں۔ اگر شرٹ یا قمیض کی طرف آئیں تو اس کے نیچے ایک عدد موٹی سی بازو والی بنیان اور اسکے اوپر بنا بازوؤں کے اونی جرسی، پھر اوپر قمیض یا شرٹ، اسکے اوپر ایک عدد جرسی اور پھر ایک عدد کوٹ یا جیکٹ۔ پھر گلے کے گرد ایک موٹا سا اونی مفلر لپیٹا ہوتا ہے جس نے کانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوتا ہے اور پھر سرپر وگ کی بجائے ایک عدد انتہائی موٹی ٹوپی پہنی ہوتی ہے۔ جب یہ حلیہ سامنے آتا تو یوں لگتا ہے جیسے بندہ آفس یا کالج ، سکول نہیں بلکہ سیاچن جا رہا ہو۔

یہ تو ہوا ایک سردی میں حلیہ۔ جب دوسری قسم کی سردی لگتی ہے تو پھر بندہ یا تو بستر کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے اونچی نیچی کراہوں سے گھر والوں کو تنگ کرتے ہوئے لیٹ جاتا ہے اور ایک زور کی آواز لگا تا ہے کہ ہائے میں مرا، کوئی میرے اوپر رضائی ڈال دے۔ رضائی ڈالی جاتی ہے لیکن اسکے دانتوں کے بجنے کی آواز پھر بھی نہیں دبتی۔ ایک اور رضائی، اس پر کمبل ڈالا جاتا ہے۔ لیکن چارپائی ہے کہ زور زور سے ہل رہی ہوتی ہے کہ بندے کے کانپنے میں اتنی شدت ہوتی ہے جیسے 9 ریکٹر سکیل کا زلزلہ آیا ہوا ہو۔ جب سردی کی شدت کم، آوازوں میں پستی اور کانپنے کی حالت ختم ہوتی ہے تو جو بندہ ان رضائیوں اور کمبل سے منہ باہر نکالتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی اپنا ساراخون کرائے پر دے کر آیا ہو۔ چہرہ پیلا بالکل اس لیموں کی طرح جس کو نچوڑ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ بال بکھرئے ہوئے جیسے برسوں سے کنگھی نہ کی ہو۔ آنکھیں سرخ جیسے کسی نے آنکھوں میں سرخی جما دی ہو۔ پھر تھوڑی دیر بعد یہ سردی لگا بندہ اگر باہر نکلتا ہے تو سخت گرمی میں ایک عدد کمبل لپیٹ کر نکلتا ہے اور دیکھنے والے کہتے ہیں کہ پاگل ہے اوئے۔

ویسے سردی کے موسم کابھی اپنا ایک مزہ ہے۔ہر شخص کو اس کی حیثیت کے مطابق فیشن کرنے کی توفیق ہوتی ہے۔ کوئی پینٹ کوٹ میچنگ پہن رہا ہے، یہ اور بات کہ براؤن سوٹ پر سبز رنگ کی ٹائی لگائی ہوتی ہے اور پاؤں میں جوتے سفید ہوتے ہیں۔ شلوار قمیض والے کوشش کر تے ہیں کہ اور کچھ نہیں تو جیکٹ یا جرسی ملتی جلتی استعمال کر لیں لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ میچنگ تو ہے لیکن ایک طرف کا بازو بغل سے تھوڑا ادھڑا ہوا ہے تو دوسری طرف کی آستین چوہوں نے کاٹ کھائی ہے۔ خیر ہم پر کبھی ایسا بھوت سوار نہیں ہوا کہ میچنگ کرتے پھریں، اسلیے جو سامنے آیا پہن لیا۔

سرد موسم والو ! آپ مالٹے استعمال کرو یا کینو۔ ایک بات ضرور ہے کہ سردی کے موسم میں جو سورج کی حرارت آپ کو سکون دیتی ہے وہ شاید گیس یا بجلی کے ہیٹر سے نہ مل سکے۔بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ سردیوں میں کینو مالٹے کھانے سے نزلہ زکام لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لیکن بات یاد رکھنے کی ہے اﷲ پاک نے اگر سردیوں میں مالٹے کینو پیدا کیے ہیں تو یقینا فائدہ مندہ ہی ہوں گے کہ اس کی کوئی تخلیق بھی رائیگاں نہیں۔ پھر سردیوں میں گڑ کے ساتھ مونگ پھلی کھانے جو سواد ہے وہ سونے پہ سہاگہ ہے۔کبھی کبھی بعض گھروں میں کافی بھی پی جاتی ہے، جو سردی کو بھگانے کا کام کرتی ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔ سردی سے اگر بچاؤ ممکن ہو تو ضرور احتیاطی تدابیر کرنی چاہییں۔ یہ ہر گز نہ سوچا جائے کہ زمانہ کیا کہے گا، محلے والے کیا کہیں گے۔ محلے والے، زمانے والے توانسان کو جینے نہیں دیتے اگر ان کا بس چلے۔ آپ کو سردی لگتی ہے تو موٹے کپڑے استعمال کریں، سر کو ضرور ڈھانپیں کیونکہ سردی میں لگنے والی ہوا سے سر میں شدید درد ہو سکتا ہے۔ اگر بائیک وغیرہ چلا رہے ہیں تو آنکھوں کو بھی عینک سے ڈھانپنے کی کوشش کریں کہ سخت ٹھنڈی ہوا آنکھوں کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اور کچھ نہ بھی ہو تو ہوا کی وجہ سے آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں جس کی وجہ سے سامنے دکھنے والی چیز دھندلی دکھائی دیتی ہے اور خدانخواستہ حادثے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ اﷲ پاک ہرایک کو حادثوں سے محفوظ رکھے، امین۔

سردی میں مرغ کی یخنی، سوپ سبزیوں کا ہو یا مرغی کا، کافی فائدہ دیتا ہے اور جسم کو گرم رکھتا ہے۔اگر گھروں میں گیس کا ہیٹر جلایا جاتا ہے تو کوشش کی جائے ہیٹر کے پاس کوئی نہ کوئی برتن پانی کا بھر کر رکھیں۔ اسکا فائدہ یہ ہو گا کہ فضا میں ہیٹر کی وجہ سے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی ہوئی ہے وہ پانی کی نمی جذب کرتا رہے گا۔ یوں آپ کو آکسیجن کی کمی محسوس نہیں ہو گی۔ اس موسم میں جلد کارنگ اکثر تبدیل ہوجاتا ہے یاجلد پر سرخ دھبے پڑجاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں سردی کے موسم میں اپنا زیادہ تر وقت ہیٹر‘ آتش دان یا انگیٹھی کے پاس بیٹھ کر گزارتی ہیں۔ سردیوں کے موسم میں جلد کی حفاظت کیلیے دن میں کوئی موسچرائزر چہرے پر لگائیں۔ اس سیچہرے پر نمی برقرار رہے گی اور حرارت سیچہرے کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ رات کو سوتے وقت کولڈکریم لگالیں اور دس منٹ بعد روئی سے پونچھ ڈالیں۔ نہ صرف خواتین یہ کام کریں بلکہ مرد بھی یہ ٹوٹکا استعمال کر سکتے ہیں۔

سردیوں سے بچاؤ ضرور کریں، لیکن سردی کے مزے بھی ضرور لیں کہ ہر موسم اﷲ نے ہمارے فائدے کے لیے ہی بنایا ہے۔ یہ ہم ہیں کہ کسی موسم سے نفرت کرتے ہیں اور کسی کو بہت پسند۔۔۔۔۔۔
Ibn e Niaz
About the Author: Ibn e Niaz Read More Articles by Ibn e Niaz: 79 Articles with 71389 views I am a working, and hardworking person. I love reading books. There is only specialty in it that I would prefer Islamic books, if found many types at .. View More