ہر طرف افراتفری کا عالم ہے جدھر دیکھو صرف
بھاگم بھاگ اور بے چینی نظر آتی ہے آج ہم جتنا جدید سے جدید تر ہوتے جا رہے
ہیں اُتنے ہی اکیلے سے اکیلے تر ہوتے جا رہے ہیں ۔ لاکھوں میں ہونے کے
باوجود ہر انسان خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے۔
ایک ہی گھر میں ایک ہی چھت تلے رہنے والے ایک دوسرے کے حالات سے نا واقف
ہوتے جا رہے ہیں۔ محاورہ مشہور ہے ـ ـ :ڈوبتے کو تنکے کا سہاراـ: مگر بے
حسی اور خود غرضی کا یہ عالم ہوگیا ہے اگر کوئی شخص سڑک پر زخموں سے چور
پڑا ہے اسے ہمدردی اور طبی امداد کی اشد ضرورت ہے مگر ہم تصویریں بنانے میں
مصروف ہیں کیونکہ ہم نے فیس بک پراپ لوڈ کر کے لاکھوں لائیکس لینے ہوتے ہیں
۔ لاکھوں لائیکس تو مل جاتے ہیں مگر انسانیت کی دھجیاں اُڑاد دتے
ہیں۔عیدِقربان ہمیں اخوت بھائی چارے اور قربانی کا درس دیتی ہے مگر افسوس
ہم سنتِ ابراہیمی کو بھی ایک فنکشن کے طور پر لیتے ہیں اس میں بھی سٹیٹس کو
مقدم رکھتے ہیں دکھاوا کرتے ہیں اور جو لوگ اس سنت کو پورا کرنے کی طاقت
نہیں رکھتے ان کی دل آزاری کرتے ہیں حالانکہ قرآنِ پاک میں اﷲ فرماتے
ہیں’’پس بربادی ہے اُن لوگوں کے لیئے جو ریا کاری(دکھاوا) کرتے ہیں․اور اس
سے ایک اور افسو س کی بات قربانی کا گوشت ان غریب لوگوں تک پہنچتا ہی نہیں
جو اصل میں حقدارہوتے ہیں ،رواج بن چکاہے صر ف ان لوگوں کو گوشت دیتے ہیں
جن کے گھر سے آنے کی توقع ہوتی ہے اس عید قربان پر بھی غریبوں ناداروں کو
نظر انداز کیاجاتا ہے قربانی صرف گوشت کی تقسیم نہیں بلکہ غریب نادار اور
مفلس لوگوں کا خیال رکھنے کا نام ہے۔ہمارے اردگرد کافی سفید پوش غریب لوگ
ہوتے ہیں جو قربانی کرنے کی ہمت نہیں رکھتے اور یہ کسی کو بتاتے بھی نہیں
اپنی غربت چھپا نے اور اپنی عزت بچانے کی خاطر سارا دن گھر میں سو کر عید
گذار دیتے ہیں ، ہمیں چاہیے کہ ایسے لوگوں تک بھی عید کی خوشیاں پہنچایں ۔
پاکستان میں جب بھی کوئی اسلامی تہوار ہو یا آزادی کا دن ہم کوئی موقع جانے
نہیں دیتے مویشی منڈیوں میں جیب تراش، سڑکوں پر پولیس اہلکار ، سبزی فروش،
چھری تیز کرنے والے کاریگر سب کے سب اپنے اپنے ٹوکے تیز کر لیتے ہیں کوئی
جانے نہ پائے اگر کوئی متوسط طبقے کا بندہ ہمت کر کے جانور لینے چلا ہی
جاتا ہے تو ایسے تمام لوگ جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اپنے اوزار تیز کر کے
اس کا استقبال کرتا ہے۔ قصائیوں کے ریٹ آسمانوں سے باتیں کرتے ہیں سبزی
والا سبزی مہنگی کر دیتا ہے ایسے میں غریب آدمی جو عید نہیں کرتے دال روٹی
کھانے سے بھی قاصر نظر آتے ہیں۔
دشمن اپنے مضموم مقاصد میں ہر روز نئی چال کھیل کر کامیاب ہوتا جا رہا ہے
ہر روز نئی مصروفیت میں لگا کر نئی نسل کو تباہ کر رہا ہے ۔ کوئی سیلفی
سیلفی کھیل رہا ہے تو کوئی فیس بُک پر جانو جانو۔ہم اپنا مقصد ِحیات بھول
کر ایسے کاموں میں مگن ہو گئے ہیں جو صرف گمراہی کی منز ل ہے۔
کسی مسلم ملک میں اگر کسی درندہ صفت انسان کو پھانسی دی جائے تو امن کے
علمدار اس کی پھانسی کو انسانیت کی تذلیل کا بہانہ بنا کر رکوا دیتے ہیں ۔
اور تو اور مسلم ممالک کے اندر NGO,sجو انسانی حقوق کی ٹھیکہ دار ہوتی ہیں
وہی سب سے زیادہ شور مچاتی ہیں۔کشمیر میں سالوں سے ہندؤؓں کی درندگی دیکھ
کر خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔
فلسطین میں انسانوں کے قتل عام پر بھی اقوام عالم کے امن کے سفیر خاموش ہیں،
برما میں لاکھوں مسلمان بچوں ، بوڑھوں ، عورتوں کا قتل ِعام ہو رہاہے اور
تمام انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش بُت بنی ہوئی ہیں۔اگر پاکستان میں کسی
اقیلتی شخص کا قتل ہو جائے تو پوری دنیا شور مچاتی ہے اور ایک تہلکہ مچ
جاتا ہے اور حکومتوں کو بھی پریشرائیز کیا جاتا ہے اور ہمارے حکمران بھی
اپنے ان خداؤں کے سامنے ماتھا ٹیک دیتے ہیں۔لیکن جب مسلمانوں کا قتل عام
ہوتا ہے تو ہمارے حکمران اپنے ان خداؤں کے سامنے بولنے کی جسارت نہیں کر
پاتے۔
مسلمانوں کو دہشت گرد گردانتے ہیں حالانکہ اسلام تو نام ہی سلامتی کا ہے
۔حضور پُر نور رحمتِ عالم ـؐکا فرمانِ عالی شان ہے ! اگر کافر سے جنگ لڑو
تو ان کی عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں اور خوراک دینے والے درختوں کا بھی خیا ل
رکھنا۔ اسلام تو اتنا انسانیت کا خیال رکھتا ہے ، پھر مسلمان انتا زلیل او
ر رسوا کیوں؟
صرف اس لئیے کہ اس نے قرآن کو پڑھنا چھوڑ دیا اور وہ راہ حق چھوڑ دی جو اس
کی اصل منزل تھی۔ہم نے اسے چھوڑ دیا ۔انسانیت کہا ں چلی گئی۔ اگر مسلمان آج
بھی خوابِ غفلت میں پڑا رہا اور یونہی فرقوں میں بٹا رہا تو غیرکو اور موقع
ملے گا اور وہ اس نا اتفاقی سے فائدہ اٹھائے گا ۔ بس صرف اتنا سوچنا ہے کہ
اب سونا ہے یا جاگنا ہے۔۔۔۔۔(محمد طاہر تبسم دُرانی) |