گدھے کی کھال!

گدھوں کی کھال اتارے جانے کی خبریں ایک تسلسل سے آرہی تھیں، کبھی معلوم ہوا کہ کھال اتارتے ہوئے باپ بیٹا گرفتار، کبھی دو بھائی گرفتار اور کبھی کھال اتارنے والے فرار۔ اس خبر میں ایک حیرانی بھی پوشیدہ تھی، وہ یہ کہ گدھے کی کھال اتارنے والے یہ کاروبار کسی شاہراہ کے کنارے بیٹھ کر نہیں کر رہے ہونگے، وہ بھی جانتے ہیں کہ آجکل یہ کاروبار کچھ بدنام ہوگیا ہے، اور اس پر قانون بھی حرکت میں آجاتا ہے۔ ایسے میں کوئی بے وقوف بھی ایسی جگہ بیٹھ کر کھال نہیں اتارے گا، جہاں سے اسے گرفتاری کا ڈر ہو۔ یقینا کوئی مخبری ہوتی ہے، جس کی بنا پر آئے روز باپ بیٹے گدھے کی کھال اتارتے پکڑے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ گدھے کی کھال بہت مہنگی ہوگئی ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے ذہین اور تیز لوگوں نے یہ کاروبار بنا لیا۔ گدھا ایسا جانور ہے جو اگرچہ بہت کام کا ہے، مگر بسا اوقات آوارہ گردی کرتا اور کچرے کے ڈھیروں پر کچرا شماری کرتا بھی دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’کھال اتار‘‘ طبقہ اس بھولے بھالے جانور کو ورغلا کر لے جاتا ہے، اور مار کر اس کی کھال اتار لیتا ہے۔ اگرچہ بذاتِ خود یہ دھندہ بھی مکروہ اور قابلِ گرفت ہے، مگر یہاں ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر کھال اتارے جانے والے گدھے کا گوشت کہاں ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ جب کڑیوں سے کڑیاں ملتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی مکروہ گوشت فروخت بھی ہوتا ہے۔ جب فروخت ہونے کی بات چلی تو یہ راز کھلا کہ یہ گوشت عام چھوٹی موٹی دکانوں پر دستیاب نہیں ہوتا، کیونکہ ایسے قصابوں کی دکانوں پر تو ذبح ہونے والے جانور کی کھال، اور سری پائے وغیرہ موجود رہتے ہیں، جس سے یہ بات یقینی ہوجاتی ہے کہ یہ اسی جانور کا گوشت ہے، جس کی کھال اور سری پائے وغیرہ ہیں۔ اسی لئے ایسا گوشت عام دکانوں کی بجائے بڑے ہوٹلوں وغیرہ پر سپلائی ہوتا رہا، کیونکہ وہاں گوشت سپلائی کا ٹھیکہ ہوتا ہے۔

یہ کہانی تکلیف دہ اور مکروہ ہے کہ بڑے ہوٹلوں اور ریسٹوران پر ہمیشہ بڑے لوگ ہی جاتے ہیں، یوں یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ کونسا بڑا آدمی کہاں کہاں جاکر گدھے کا گوشت کھا چکا ہے، اور اس پر اِس گوشت نے کون کونسے اثرات مرتب کئے ہیں۔ آیا ان کی عادتوں میں ضدی پن کا اضافہ ہوا، وہ بات بات پر کسی بحث یا کسی اور کام میں ضد کرکے تو نہیں بیٹھ جاتے، یا وہ کسی کے ماتحت ہوں تو بہت ہی جھاڑیں وغیرہ کھانے کے بعد بھی کام نہیں کررہے، یا اس وقت کام کرتے ہیں جب ڈانٹ ڈپٹ کی انتہا ہوجائے۔ یہ بھی جانچنے کی ضرورت ہے کہ آیا وہ دن کے مختلف اوقات میں زور زور سے چلّاتے تو نہیں، یا چیخنے اور چلّانے کا انداز تو نہیں اپناتے؟ یا کہیں اکیلے میں تنہائی پا کر گانے وغیرہ کی پریکٹس تو نہیں کرتے؟ یا یہ بھی کہ وہ گدھے کے گوشت کے زیراثر عادت سے مجبور ہو کرہینگنے کی کوشش تو نہیں کرتے؟ یہ بھی خیال کرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے اپنی کچھ سرگرمیاں کم یا ختم تو نہیں کردیں اور اب محض سرجھکائے گھر کے کسی کونے میں پڑے تو نہیں رہتے؟ جب اہلِ خانہ نے کوئی کام کہا بس منہ سا بنا لیا، کام کو بوجھ تصور کرلیا۔ اور یہ بھی کہ جب کام کرنے پر آئے تو سارا دن کام کرتے رہے۔ یہ تجزیہ تو صاحب کو خود ہی کرنا پڑے گا، یا ان کے دوست احباب کو یا زیادہ سے زیادہ ان کے اہلِ خانہ کو۔

اگر بڑے ہوٹلوں میں کھانا کھانے والے بڑے لوگوں میں مندرجہ بالا قسم کی تبدیلیاں یا ان میں سے کچھ اپنے اندر محسوس ہوں تو جان لیجئے کہ آپ نے جو گوشت مختلف ڈشوں کی صورت میں مزے لے لے کر کھایا تھا وہ اُسی بھولے جانور کا تھا جسے عرفِ عام میں گدھا کہتے ہیں اور آجکل جس کی شامت آئی ہوئی ہے، آجکل اس کے ساتھ وہ ہو رہا ہے، جس کا اس نے کبھی خواب بھی نہ دیکھا تھا۔ اس پر اینٹیں لادیئے یامٹی، کتابیں لادیئے یا کچرا، وہ سب کچھ اٹھا لے گا، مگر اپنی مرضی اور عادتوں کو تبدیل کبھی نہیں کرے گا۔ دراصل یہ ہمارا ہی کام ہے کہ گدھے کو نہ تو تہذیب سکھا سکے اور نہ ہی اس کی عادتوں میں کچھ تبدیلی لاسکے۔ یہ پورے معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ مگر اب سوچنے اور پریشان ہونے کا کیا فائدہ؟ اب تو اپنے ملک میں گدھے ہی گِنے چُنے رہ گئے ہیں، اب یا تو کھالیں اتار کر انہیں تہہِ خاک دفن کردیا گیا، یا بڑے ہوٹلوں کو ان کے گوشت کی سپلائی دے دی گئی۔ یہ اندازہ لگانے کی بھی ضرورت ہے کہ بیرونی ممالک گدھوں کی کھال کو کس مصرف میں لاتے ہیں؟
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472825 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.