کرموں موچی (حکایت)

 یہ کوئی پندہ سال پہلے کی بات ہے پروفیسر حاجی حافظ محمدحیات قائداعظم یونیورسٹی ،اسلام آباد سے نفسیات میں ایم ۔فل کر رہے تھے۔ چند ماہ پہلے ان کی تصنیف ’’نورِ حیات ‘‘شائع ہو ئی تھی۔اس کتاب کو معرفت کا خزینہ سمجھا جاتا ہے۔ نفسیا ت،سماجیات، ما بعد الطبیعات اورعلمِ بشریات سے انھیں گہری دلچسپی تھی،اب وہ اپنی نئی تصنیف ’’اسرارِ شش جہات‘‘ کے مسودے کو آخری شکل دینے میں مصروف تھے۔ایک دِن وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ قدرت اﷲ شہاب کی تصنیف ’’شہاب نامہ ‘‘ کے ما بعد الطبیعات سے تعلق رکھنے والے موضوعات پر بحث کر رہے تھے کہ اچانک انھوں نے ’’شہاب نامہ ‘‘ کھول کر اس کا نشان زدہ صفحہ52 ہمارے سامنے رکھا ۔اس صفحے پر عبداﷲ نامی ایک غریب کنجڑے کی زندگی کے تلخ اوقات کا احوال درج تھا ۔یہ فاقہ کش اور خستہ حال کنجڑا جوشہید روڈ جھنگ پر ایک ریڑھی لگا کر سبزیاں اور پھل بیچا کرتا تھا گزشتہ چار عشروں سے آلام روزگار کے مہیب پاٹوں میں پِس رہا تھا۔ عبداﷲ کی حالتِ زار دیکھ کر اس کا دیرینہ ساتھی اور محرمِ راز شہید روڈ کے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر غریب غربا کے پھٹے پُرانے جُوتے گانٹھنے والا معمر موچی بہت دِل گرفتہ تھا۔ ضعیف موچی کو اس بات کا قلق تھا کہ ساری دنیا بدل رہی ہے مگر عبداﷲ جیسے قسمت سے محروم، الم نصیب اورجگر فگار محنت کشوں کا حال جو ں کا تُوں ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں اس بے حِس معاشرے میں مجبوروں اور مظلوموں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ۔ ان مصیبت زدہ لوگوں کی زندگی کے گمبھیر حالات کو دیکھ کر مقتدر حلقوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔شہید روڈ جھنگ کے مصرو ف بازار کے فٹ پاتھ پر بیٹھے اس انتہائی پُر اسرار ضعیف اور ناتواں موچی کی جھنگ کے 1952 کے زمانے کے ڈپٹی کمشنر( قدرت اﷲ شہاب) کے ساتھ دبنگ لہجے میں معنی خیز گفتگو کی کیفیت کو خود قدرت اﷲ شہاب نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا:
’’ایک روز میں عبداﷲ سے ملنے شہید روڈ گیا۔اس کی ریڑھی پرباسی سبزیوں کا ڈھیر لگا پڑا تھا۔عبداﷲ نے بتایا کہ دوروزسے کاروبار مندا ہے اوراس کی ریڑھی پر سبزیاں پڑی پڑی گل سڑ رہی ہیں۔میں نے حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر ریڑھی کی ساری سبزیاں تُلوا کر کار میں رکھوا لیں۔پیسے ادا کرنے کے بعدوہاں سے روانہ ہونے لگا تو سڑک کے دوسرے کنارے زمین پر بیٹھے ہوئے ایک موچی نے ہاتھ کے اشارے سے مُجھے اپنے پاس بلایا۔میں اُس کے پاس گیا تو وہ دوسروں کے ٹُوٹے ہوئے جُوتے گانٹھنے میں منہمک تھا۔میری جانب نظر اُٹھائے بغیروہ بُڑ بُڑایا،’’ خُوب بچا بے سالے!ٹھہری تھی کہ یوں ہی گُزر جاتے توسالے کو کوڑھی کر کے اسی ریڑھی میں بٹھا دیا جائے۔‘‘ اس کے بعد میں متعدد باراُس پُر اسرار موچی سے باتیں کرنے اس کے اڈے پر گیا لیکن اُس نے پھر کبھی کوئی لِفٹ نہ دی۔‘‘

اس موقع پر سمیع اﷲ قریشی،نور احمد ثاقب،محمد شریف خان،مہر بشار ت خان،دیوان احمد لیاس نصیب ، اﷲ بخش نسیم،عباس ہادی ،عمر حیات بالی ، غلام علی خان چین ، جاوید اقبال،عاشق حسین فائق،گدا حسین افضل، حسین احمد ارشد،اظہر خان،محمدنواز سیال،محمد بخش گھمنانہ،فضل الہٰی خان اور عبدالحلیم انصاری بھی موجود تھے۔ یہ سب دانش ور بڑی توجہ سے پروفیسر حاجی حافظ محمد حیات کی فکر انگیز اورروح پرور باتیں سُن رہے تھے۔

’’ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو اس طرح مخاطب کرنا ایک غیر معمولی بات ہے۔‘‘ سجاول نے کہا’’ وقت کادھارا بہت ظالم ہے یہ ماضی کے کئی اہم واقعات اور اس سے تعلق رکھنے والے کرداروں کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے ۔ ہمارے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ اپنے عہد کے اِس پُر اسرار موچی کے بارے میں تمام حقائق پر ابلقِ ایام کے سموں کی گرد اس طرح پڑ ی ہے کہ سب حقائق اس میں اوجھل ہو چُکے ہیں۔اس قسم کی متعدد منفرد اورپُر اسرار ہستیوں اور اقلیم معرفت کی ممتاز شخصیات کا احوال تاریخ کے طوماروں میں دب گیا ہے ۔ ایسا زمانہ آگیا ہے کہ ہر کوئی اپنی فضا میں مست پھرتا ہے اوراب اس شہر ِ نا پُرساں میں نہ تو کوئی عبداﷲ کو جانتا ہے اور نہ ہی اس بُوڑھے موچی کا کسی کو کچھ علم ہے جس نے اپنے دبنگ لہجے سے ایک بڑے ضلع کے ذہین اورمستعد ڈپٹی کمشنر کوچونکا دیا اور اس کے بعد کبھی اس بڑے اور انتہائی بااثر بیورو کریٹ کو لائق اعتنا نہ سمجھا۔‘‘
’’یہ ایک ایسا معما ہے جو نہ تو سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی کسی کو جذب و مستی کے سوزِ دروں پر مبنی اس احوال کے پس پردہ کار فرما راز سے آگا ہ کیا جا سکتا ہے ۔‘‘بہاول نے کہا ’’یہ واقعہ دِل کی اتھاہ گہرائیوں اور سر چشمۂ عرفان سے پُھوٹنے والے جذبات کامظہر ہے۔فقر ،مستی اور عشق کی نگاہیں بھی عجیب ہوتی ہیں جن سے اِدھر کی دُنیا اُدھرہوجاتی ہے اورحالات کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ان نا قابل یقین واقعات کو دیکھ کر لوگ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔اس مقامِ شوق پر لاکھوں دانا ،کروڑوں فاضل اور ہزاروں فلسفی بھٹک جاتے ہیں۔‘‘

جلال نے کہا’’ میں سمجھتا ہوں کہ ’’شہاب نامہ ‘‘ میں مذکوربہ ظاہر یہ ایک مختصر سا واقعہ ہے لیکن ا س سدا بہار آپ بیتی کاہر لفظ گنجینۂ معرفت کا طلسم ہے۔ایک بڑے ضلع کے ڈپٹی کمشنر کا خود چل کر ایک فاقہ کش اور بے یار و مددگارخوانچے والے کی ریڑھی کے پاس جا کر کھڑا ہونا ،اُس کی عفونت زدہ ریڑھی سے بلاضرورت گلے سڑے پھل اور باسی سبزیاں اس سے منھ مانگے داموں خرید لینااور اِن مضرِ صحت پھلوں اور سبزیوں کو خود اُٹھاکر اپنی کارمیں رکھنا اور اس کے بعد فٹ پاتھ پر بیٹھ کر غریبوں کے بوسیدہ اور پھٹے پُرانے جُوتے گانٹھنے میں مصروف ایک خستہ حال موچی کے بُلانے پر اس کے پاس پیدل چل کر جا پہنچنا اور موچی کی انتہائی سخت اور اہانت آمیز باتیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنااور گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہونا بل کہ اس واقعہ کے بعد بھی اس سے ملنے کی تمنا رکھنا اور موچی کی بے اعتنائی کے باوجود دِل بُرا نہ کرنا سوچ کے انوکھے پہلو سامنے لاتا ہے۔‘‘

’’مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے ۔‘‘ سروش نے سب کو آنکھ بھر کے دیکھا اورآہ بھرکر کہا’’عبداﷲ بھی اپنی عزت نفس اور اپنی ذاتی انا کو ملحوظ رکھنے والاایک خود دار، محنت کش اور وضع دار انسان تھا جووضیع لوگوں سے ہمیشہ دُوررہتا تھا۔ وہ کسی نو دولتیے کی مالی امداد قبول کرنے پر آمادہ نہیں ۔اس کے کردار کی بلندی کا یہ عالم ہے کہ وہ رشوت اور بھتہ طلب کرنے والوں کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیتا ہے اور بلدیہ کے سنتری کے مجبور کرنے پر اپنی ریڑھی مصروف بازار سے ہٹا کر ایسی جگہ لاکھڑا کرتا ہے جہاں سبزیوں اور پھلوں کے گاہک کم کم آتے ہیں ۔فٹ پاتھ پر بیٹھاموچی بھی ایسا ہی ایک منفرد کردار ہے جو انتہائی پر اسرار ہے۔وہ جھنگ کے مصروف بازار شہید روڈ پر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی آمد،عبداﷲ کے ساتھ اس کے مروّت،خلوص اور درد مندی سے لبریز سلوک کو بہ نظر تحسین کی قدر کرتاہے ۔ کئی روز کے باسی اوربساند آلودہ گلے سڑے پھلوں اورخراب سبزیوں کو ٹھکانے لگتے دیکھتاہے تو وہ دل ہی دل میں مطمئن ہوجاتا ہے ۔غریب موچی اپنے پاس کھڑے ضلع کے حاکم اعلا سے مرعوب نہیں ہوتا بل کہ وہ ڈپٹی کمشنرکو خبردار کرتا ہے کہ اگر وہ آج عبداﷲ کی کئی روز کی باسی سبزیوں اور گلے سڑے پھلوں کا واحد گاہک بن کر نہ آتا تو وہ ڈپٹی کمشنر کو جذام اور کوڑھ کا مریض بناکر معذور بھکاری بنا دیتا جو عبداﷲ کی اسی ریڑھی میں بیٹھ کر زندگی بھر بھیک مانگ کر گزر اوقات کرتا۔ قدرت اﷲ شہاب ، عبداﷲ اور کرموں موچی تینوں جذب و مستی اور فقر و معرفت کے منفرد روپ کے مظہر ہیں ۔ جو عشق حقیقی کی دولت سے متمتع ہیں اور معرفت حقیقی کے اعجاز سے وہ مابعد الطبیعیات کی ان کٹھن منازل کو طے کر لیتے ہیں جہاں عقل اب تک محوِ تماشائے لبِ بام ہے۔شاید اسی لیے ممتاز پنجابی شاعر خواجہ غلام فریدنے مقام عقل سے آگے نکل کرمقامِ شوق میں سرگرداں معرفت کے متلاشیوں کو ان نازک معاملات کے بارے میں متوجہ کرتے ہوئے کہا تھا:
عشق کہانی بے انداز ہے او یار
من وِچ وجدا عشق دا ساز ہے او یار
غلام فرید کیہہ دسے راز ہے او یار
ایتھے کئی بُھل گئے نیں سُگھڑ سیانے او یار
ترجمہ :
عشق کی کہانی بے انداز ہے اے دوست
دل میں بجتا عشق کا ساز ہے اے دوست
غلام فرید کیا بتا ئے راز ہے اے دوست
یہاں بھول گئے بڑے سگھڑ سیانے اے دوست

حاجی حافظ محمد حیات نے یہ باتیں بہت توجہ اور دلچسپی سے سننے کے بعدکہا ’’ مافوق الفطرت عناصر اور مابعدالطبیعات کا ہماری سماجی زندگی سے گہرا تعلق ہے ۔انھیں محض توہم پرستی ،خام خیالی یا تخیل کی شادابی سمجھنا درست نہیں۔گزشتہ دوعشروں سے میرا اِن پُر اسرار کرداروں کے متعدد معاصرین سے معتبر ربط ہے۔مجھے یقین ہے کہ بہت جلد اس اُلجھے ہوئے پیچیدہ معاملے کی تہہ تک پہنچنے اور اِسے سُلجھانے میں کام یاب ہو جاؤں گا۔ناخن پہ قرض ہے گِرہ نیم بازکا۔‘‘

’’آپ نے نصف صدی سے بھی قدیم ان واقعات میں مذکور کرداروں کی اصلیت جاننے کے لیے کن لوگوں سے رابطہ کیا ہے؟‘‘ نہال نے سر کُھجاتے ہوئے کہا ’’ مجھے یقین ہے ان کرداروں کے چراغِ سحری معاصرین جو سب پُر اسرار واقعات اوران کے زمانے کے حالات اور چشم کشا صداقتوں کے امین ہیں وہی معتبر راوی ہیں۔‘‘
’’آپ نے صحیح تجزیہ کیا ہے ۔کسی بھی شخصیت کے مطا لعۂ احوال کے لیے اس کے ہم عصر ہی سب سے معتبر اوراوّلین بنیادی ماخذ ثابت ہوتے ہیں۔‘‘ حاجی حافظ محمد حیات نے کہا ’’میں نے چراغ مولائی،امیراختر بھٹی،رجب الدین مسافر،رانا سلطان محمود ،سردار باقر علی خان (سابق کمشنر ملتان)،محمد خان پوسٹ ماسٹر،سید مظفر علی ظفر،ماسٹر خالدحسین،حاجی احمد بخش،حکیم احمد بخش نذیر،اﷲ دتہ حجام،حاجی محمد یوسف ، ملک محمدیار ، ملک محمد رمضان ، ملک صالح محمد،ملک امام بخش اور چودھری ظہور احمد سے رابطہ کیا ہے۔ اب تو مجھے زندگی کی لرزہ خیز برق رفتاریوں سے ڈر محسوس ہوتا ہے ۔ اس سے پہلے کہ بیتے دنوں کا سراغ بھی نہ ملے میں بہت جلد میں اپنے تحقیقی سروے اور ان سے متعلقہ ملاقاتوں پر مبنی روداد ا کو بیتے دنوں کی ایک فریاد کی صورت میں پیش کروں گا۔‘‘

وقت نہایت برق رفتاری سے گزرتا رہا۔پرِ زمانے کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ تو پروازِ نُور سے بھی کہیں بڑھ کر تیز ہے۔ وقت کی اس بے وفائی اور گردشِ افلاک کی اس سفلگی کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کہ جب ہم مُڑ کر دیکھتے ہیں تو یہ ندا سنائی دیتی ہے کہ اب پُلوں کے نیچے سے پانی بہہ چُکا ہے اور ہمارا زمانہ اب بیت گیا ہے۔اتنے مخلص احباب کے ساتھ اس خوش گوارملاقات کے ایک سال بعد مجھے معلوم ہوا کہ حاجی حافظ محمد حیات عارضۂ قلب کے باعث زیرِ علاج ہیں۔ میں ان کی عیادت کے لیے ان کے آبائی گاؤں پہنچا لیکن ملاقات نہ ہو سکی کیونکہ وہ معالج سے مشورے کی غرض سے لاہور گئے ہوئے تھے۔ ایک دِ ن میں چند ساتھیوں کے ساتھ حالاتِ حاضرہ کے بارے میں گفتگو میں مصروف تھا کہ حاجی حافظ محمد حیات اچانک وہاں آ پہنچے۔میں نے انھیں بہت ہشاش بشاش پایا اور مجھے دلی مسرت ہوئی کہ وہ اب رو بہ صحت ہیں۔مجھے دیکھتے ہی وہ پُرنم آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگے اور بولے:
’’ قدرت اﷲ شہاب نے جس موچی کا ذکر’’ شہاب نامہ ‘‘میں کیا ہے اس کا نام کرم دین تھا ۔ واقفِ حال لوگ اسے کرموں موچی کے نام سے پکارتے تھے ۔ کرموں موچی 1865 میں جھنگ سے سرگودھا جانے والی سڑک پر چالیس کلو میڑکے فاصلے پر واقع اپنی آبائی بستی ’’موچی وال ‘‘میں پیدا ہوا ۔ ’’موچی وال ‘‘جو چند کھنڈر نما جھگیوں پر مشتمل ایک قدیم بستی ہے جہاں کا ماحول پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا ہے۔ اس قدیم بستی کی جُھگیوں کے سب کے سب مکین اہل حرفہ اور محنت کش ہیں ۔ شیر شاہ سوری کے زمانے میں ایک موچی جس کا نام خادم اور عرف میاں موچڑا تھا ۔ اس نے دریائے جہلم کے کنارے پر واقع اس مقام پر اپنے قیام کے لیے پہلی جُھگی بنائی ۔ اس بستی کانام اسی نسبت سے موچی وال پڑگیا ۔ اس کی کشف کرامات کا ایک عالم معترف تھا ۔ ان جُھگیوں سے کچھ دُور شیر شاہ سوری کے زمانے میں تعمیر کی گئی جرنیلی سڑک گزرتی ہے۔ اس زمانے میں یہاں سڑک پر تعمیر کیے گئے ایک بڑے پُل کے نیچے ’’بھاگو کراڑی ‘‘نام کی ایک ہندو آدم خور چڑیل نے بسیر ا کرلیااور اپنے ساتھیوں سے مل کر رہزنی ، قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم کردیا۔ ’’بھاگو کراڑی والی پل ‘‘کے آثار آج بھی اس علاقے میں موجود ہیں ۔ بھاگو کراڑی نے لُوٹ مار ،رہزنی ،قتل و غارت اور تباہی و بربادی پھیلانے میں رابن ہڈ کو بھی مات دے دی ۔شام کے سائے ڈھل رہے تھے ، دسمبر کا مہینا تھا میاں موچڑا اور اس کے عقیدت مند آگ تاپ رہے تھے ۔ جھگیوں کے سب مظلوم محنت کشوں نے میاں موچڑا کو جب بھاگو کراڑی کے مظالم اور شقاوت آمیز ناانصافیوں سے آگاہ کیا تو میاں موچڑا نے کیکر کی ایک خشک ٹہنی اٹھائی جس پر بے شمار خار مغیلاں تھے پھر اُس ٹہنی کو آگ میں پھینک دیا ، جوں ہی شعلے بھڑکے اور کا نٹے جلنے لگے انسانی چیخ پکار کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔ سب لوگ حیرت اوراستعجاب میں ڈوب کر یہ منظر دیکھ رہے تھے اور آگ کے شعلوں میں جلنے والوں کی آہ و فغاں سن رہے تھے ۔ جب لکڑی راکھ میں بدل گئی تو میاں موچڑا نے کہا:
’’اب آرام سے رہو ۔ بھاگو کراڑی اور اس کے سارے پالتو کتے جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے ہیں۔‘‘

اگلی صبح لوگوں نے یہ انہونی دیکھی کہ گزشتہ شب کی آتش زدگی میں بھاگو کراڑی والی پُل کے نیچے واقع درندوں کی آماجگاہ اور اس میں پناہ گزیں سب ننگ ِ وجود مُوذی و مکار قاتل جل کر خاکستر ہو چُکے تھے۔جان بچا کر بھاگنے والے ان بھیڑیوں کی مسخ شدہ لاشیں پُل کے اطراف و جوانب میں بکھری پڑی تھیں۔ رات بھر جنگلی درندے ان لاشوں کو کھاتے رہے اس کے بعد یہ سب لاشیں ملخ و مور کے جبڑوں میں آ گئیں۔صبح ہوئی تو زاغ وزغن اور کرگس ان پرٹوٹ پرے اور ان کو نوچتے اور بھنبھوڑتے رہے۔یہ استخوانِ شکستہ کئی روز سرِ راہ پڑے رہے ایک دِن کسی چرواہے نے ان لاشوں سے اُٹھنے والی عفونت و سڑاند سے نجات حاصل کرنے کی غرض سے مٹی کا تیل چھڑک کر انھیں سپردِ آتش کر دیا۔

سانولے رنگ کاایک ادھیڑ عمر کا شخص جس کا نام تو سو ہارا تھا لیکن اس کے سانولے رنگ کے باعث سب لوگ اسے میاں سانولاکہہ کر پُکارتے تھے وہ میاں موچڑا کا عقیدت مند اور خادم تھا۔میاں سانولا نے میاں مو چڑا کی طویل عرصہ تک خدمت کی ۔ سانولے رنگ کے باوجود اس کا درازقد۔ حسین چہرہ،موٹی آنکھیں اور سیاہ زلفیں اس کی جسمانی وجاہت اور حسن کو چا رچاند لگا دیتی تھیں۔ لوگ اسے آنکھ بھر کر دیکھتے اور دیکھتے ہی رہ جاتے۔ کئی مہ جبیں حسینائیں میاں سانولا کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار رہتیں لیکن دھیمے مزاج کایہ مرنجان مرنج اور تارک الدنیا شخص کسی کی طرفٖ آنکھ اُٹھاکر بھی نہ دیکھتا۔میاں سانولا پُر تجسس نگاہوں کی تاک جھانک سے ناخوش و بیزار تھا۔ ایک دِن میاں سانولا نے اپنے محسن میاں مو چڑا سے اجازت لی اور دنیا کی رنگینیوں سے کنارہ کش ہو کر دریائے جہلم کے مشرقی کنارے کے قریب واقع ایک ویرانے میں ڈیرے ڈال دئیے۔ میاں سانولا کے چلے جانے کے بعد بستی والوں کے دِل کی ویرانی کا کیا مذکور ہر شخص آہ بھر کر یہ پرُدرد لے الاپتا:
کدوں ولسو سوہنا سانولاوطن ساڈے غریباں تے
سوہنا سانولا تھی گئیوں راہی،تیر ماریا ای جانی بے جاہی
لکھی قسمت ساڈی ایویں آہی،اساں چھیڑیا نصیبا ں تے
ترجمہ:
اے حسین سانولا!ہم غریبوں کے وطن کب پلٹ کر آؤ گے
اے حسین سانولا!تم پردیس سدھارے،روتے ہیں ہم جدائی کے مارے
یہی ہماری قسمت میں لکھا تھا جسے ہم نے اپنی بد نصیبی سمجھ کر قبول کیا

ا س تارک الدنیا فقیر نے مستی و فقر کے عالم میں لبِ اظہار پر تالے لگا لیے اور خاموشی سے وقت گزارتا رہا۔ اس کی برداشت کا یہ حال تھا کہ جو بھی اس کے پاس آتا وہ خاموشی سے نہ صر ف اس کی باتیں سنتا بل کہ اس کے حق میں دعا بھی کرتا تھا۔ جو آئے وہ آئے میاں سانولا سب کے لیے دِل کشادہ رکھتا تھا۔کافی عرصہ گزر گیا ایک دن میاں مو چڑا جب اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو سب نے ایک آواز سُنی:
’’میاں موچڑا اب تو آ جاؤ میرادمِ آخریں بر سر ِ را ہ ہے ۔‘‘
سب لوگ پہچان گئے کہ یہ تو میاں سانولا کی آواز تھی۔یہ آواز سُن کر میاں موچڑا دھاڑیں مار کر رونے لگا اور بولا :
’’چلو ساتھیو!میاں سانولا اب کوئی دم کا مہمان ہے۔اس نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھتے وقت ہم سب کو الوداعی ملاقات کے لیے پُکارا ہے ۔‘‘

دشوار گزار راہوں سے گزرنے اور طویل مسافت طے کرنے کے بعد جب لوگ میاں سانولا کی کٹیا میں پہنچے تووہ بولا :
’’میں آپ سب کا احسان مند ہوں کہ میری ایک آواز سُن کر تم یہاں چلے آئے ۔ میرے نہ ہونے کی ہونی دیکھنے کے لیے آپ سب یہاں آئے ،یہ آپ کا مجھ پر احسان ہے ۔میرا آخری وقت آ پہنچا ہے ،میری موت کے بعدمجھے یہیں میری کٹیا ہی میں دفن کر دینا ۔‘‘یہ کہہ کر میاں سانولا نے کلمۂ طیبہ کا وِرد شروع کر دیا اور اس دوران اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔

میاں سانولا کی آخری آرام گاہ کے چاروں طر ف ایک شہرِ خموشاں بن گیا ہے جو ’’میاں سانولا ‘‘کا قبرستان کہلاتا ہے۔اپنے دیرینہ ساتھی اور معتمد رفیق میاں سانولا کی وفا ت کے بعد میاں موچڑا بہت دل بردشتہ سا رہنے لگا اور اگلے برس چل بسا۔ اہلِ درد یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ دائمی مفارقت دے کر جانے والے کبھی پلٹ کر نہیں آتے بل کہ صر ف ان کی یادیں ہی نہاں خانۂ دِل پر دستک دیتی ہیں۔یہی قضا کا فیصلہ اور نوشتۂ تقدیر ہے کہ انسان بے بسی کے عالم میں اپنے رفتگاں کو یاد کرکے اپنے دل کو ان کی یا دسے آباد رکھنے کی سعی کرتا ہے اور مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا ہے۔ آج بھی اس علاقے کے چرواہے جب اپنی پُر سوز آواز میں یہ لوک گیت الاپتے ہیں تو سننے والوں کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتی ہیں:
سوہنا سانولا کتھوں گئیوں چل
رو رو اکھیاں وے جانی تھی گئیاں چھل
تیڈی مرضی ول بھانویں نہ ول اساں چھیڑیا نصیباں تے
ترجمہ:
اے حسین سانولا! تم کس لیے ہم سے بیزار ہو گئے
تمھارے بعدہماری آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہے
اب تمھاری مرضی ہے واپس آؤ یا نہ آؤ، جدائی کوہم نے اپنی بد نصیبی سمجھ کر قبول کیا

میاں سانولا کی وفات سے ایک برس قبل اپنی زندگی کے آخری ایام میں میاں موچڑا نے اپنی قبر کی جگہ کی نشان دہی خود کر دی تھی۔ اس کا کفن لے کر نا معلوم سفید پوش افراد پہنچے ،اس کو غسل دیا ۔خود ہی اس کی پہلے سے بتائی گئی جگہ پر اس کی قبر تیار کی ،اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اسے لحد میں اُتارکر قبر کی مٹی پر پھول نچھاور کر کے اجنبی سی منزلوں کی جانب چل دئیے۔ قبر دریائے جہلم اور چناب کے دوآبے کے علاقے میں مشرقی جانب واقع ایک گاؤں سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ ایک کچی حویلی میں ایک خام سی قبر میں یہ پر اسرار بزرگ آسودۂ خاک ہے ۔اس شہر ِ خموشاں کو اسی کے نام کی نسبت سے ’’میاں موچڑا ‘‘کا شہرِخموشاں کہا جاتا ہے۔

علاقے کے لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ میاں موچڑا کے قبرستان میں جرائم پیشہ چور ، ڈاکو ، بد معاش اور منشیات کے عادی لوگ دن کی روشنی میں بھی نہیں گزرسکتے۔اس قماش کا کوئی درندہ میاں موچڑا کے قبر ستان میں اپنے سبز قدم رکھتا ہے تو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے ،اس کے پاؤں وہیں زمین میں گڑجاتے ہیں اور اُس کی جان پر بن آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ننگ انسانیت درندے ، منشیات کے عادی اور چور اُچکے اس مقام سے ڈرتے ہیں۔ وہ میاں موچڑاکے قبرستان کو سخت مقام سمجھتے ہو ئے اس سے کترا کر گزرجاتے ہیں۔ایک نیک دل ، عبادت گزار اور متقی انسان کی حیثیت سے میاں موچڑا کی بہت عزت تھی ۔ اس کی محفل میں بُرے اور کردار سے عاری لوگوں کو آنے کی اجازت نہ تھی ۔ ایساشخص جس کا گناہ سے دامن آلودہ ہو تاوہ جب میاں موچڑاسے ملنے کا قصد کرتا تو اس کی آنکھیں چُندھیا جاتیں،بینائی عارضی طور پر ختم ہو جاتی اور وہ اُلٹے پا ؤں گھر چلا جا تا۔میا ں مو چڑا کے انتقال کے بعد نواحی بستی میں ڈاکہ زنی کی ایک واردات میں سفاک ڈاکوؤں نے ایک معمر بیوہ پر تشدد کیا اور اس کی بیٹی کا جہیز لُوٹ کرفرار ہوگئے۔بستی کے بہادر نوجوانوں نے ڈاکوؤ ں کا تعاقب کیااور ایک ڈاکو پر پتھروں کی بو چھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں بدمعاش ڈاکو موقع پر ہلا ک ہو گیا۔کوئی بھی اس سفاک ڈاکو اور قاتل لٹیرے کی لاش کاوارث نہ بنا ۔اس کی آخری رسومات کے بعد جب میاں مو چڑا کے شہر خموشاں میں اس خطرناک درندے کودفن کرنے کے لیے قبر کی کھدائی شروع کی گئی تو گڑھے سے بے شمار عقرب ،سانپ ،حشرات اور اژدہا باہر نکل آئے۔علاقے کے پریشان حال لوگ لاوارث ڈاکو کی میّت کو اُٹھا کر میاں سانولا کے قبرستان جا پہنچے وہاں قبر کھودی ،لاش کو ٹھکانے لگایا اور چپکے سے گھروں کو چل دئیے۔اس واقعہ کے بعد سے یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ میاں موچڑا کا قبرستان اس قدر سخت ہے کہ یہاں سے کوئی منشیات کا عادی ،چور ،اُچکا یا بدمعا ش نہیں گزر سکتا یہاں تک کہ ہلاکت کے بعد بھی ایسے ننگِ انسانیت درندوں کا جسدِ خاکی اس شہر خموشاں کی زمین قبول نہیں کرتی۔کرموں موچی کا تعلق میاں مو چڑا کے خاندان سے تھا۔‘‘

عنصرنے کہا’’کرموں موچی کا تعلق دریائے چناب اور دریائے جہلم کے دو آبے کے جس علاقے سے تھاوہاں کی دست کاریوں کی بہت شہرت تھی۔ میاں گھماں اور میاں نتھا اس علاقے کے کہنہ مشق ،آزمودہ کار اور جہاں دیدہ جولاہے تھے جن کے بُنے ہوئے کھیس اوردُھسے اور کرموں موچی کے تیار کیے ہوئے کُھسے پُورے ہند،سندھ میں مشہور تھے۔ٹیکسٹائل ملز کی ترقی نے دُھسے اور کھیس کی دست کاری کو نگل لیا جب کہ جدید جوتے تیار کرنے والی سیکڑوں کمپنیوں کے نِت نئے نمونوں کے جُوتوں کی تیاری نے کُھسے کا رواج ہی ختم کر دیا۔پہلے تو شادی بیاہ کے موقع پر کُھسہ بہ قدرِ جُثہ تیار کرایا جاتا تھا مگر اب ان جوتا ساز کمپنیوں کے جوتوں کی ورائٹی کو دیکھتے ہوئے ستم ظریف لوگ یہ کہتے سُنے گئے ہیں کہ جُوتا پہننے والے کا سر سلامت رہنا چاہیے اُس کے لیے جوتا ساز کارخانے جُوتوں کی کو ئی کمی نہیں ہو نے دیں گے۔‘‘

حاجی حافظ محمد حیات نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’کُھسہ سازی کے کام کی جب پہلے جیسی مقبولیت نہ رہی تو کرمو ں موچی نے گاؤں سے اپنی دکان بڑھا کر سال 1900 میں جھنگ شہر کا رخ کیا اور شہید روڈ پر مسجد نُور کے دروازے کی سیڑھیوں کے نیچے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر پُرانے جُوتوں کی مرمت کر کے رزق حلال کمانا شروع کیا۔یہی پیشہ اور یہی مقام مسلسل سات عشروں تک اس کی مستقل شناخت قرار پایا۔ چشمِ فلک نے شہر میں بہت تغیر و تبدل دیکھے مگر اس پُر اسرار موچی کے مزاج اور مقام میں کوئی تبدیلی نہ دیکھی گئی۔‘‘
’’کرموں موچی کے خاندانی پس منظر پر یہ تحقیق بہت خوب رہی ۔‘‘اﷲ دتہ حجام نے کہا ’’اب کرموں موچی کے بارے میں کچھ چشم دیدواقعات کا بیان بھی ہو جائے۔یہاں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اس پُر اسرار موچی کو عملی زندگی میں فعال کردار ادا کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔کرموں موچی جیسے یگانۂ روزگار لوگوں کے کشف و کرامات کے واقعات سُن کر سب لوگ حیرت و استعجاب میں ڈُوب جاتے ہیں۔میرے دیرینہ ساتھی دانش نے ایک طویل عرصہ اس شہر میں گزارا ہے۔مجھے یقین ہے وہ اس پُر اسرار موچی کی زندگی کے ناخواندہ اوراق پر ضرور روشنی ڈالیں گے۔‘‘

دانش نے کہا ’’گزشہ سات عشروں سے شہید روڈ جھنگ کو شہر کے اہم تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔اس بارونق اور پُر ہجوم بازار کے وسط میں سڑک کے مغربی کنارے پر مسجد نُور واقع ہے۔اس عظیم الشان مسجد کا واحد بڑادروازہ شہید روڈ پر کُھلتاہے۔دروازے کی سیڑھیوں کی شمالی جانب فٹ پاتھ پر ایک دراز قد بُوڑھا موچی زمیں پر بیٹھ کر پُرانے جوتوں کی مرمت کیا کرتا تھا۔ اس کی کشادہ پیشانی،سفید بال ،موٹی آنکھیں اور ضعفِ پیری کے باعث کمر میں ذرا سا خم تھا۔ جیسا کہ آپ نے ابھی سُنا ہے اس بُوڑھے موچی کا نام کرم دین تھا لیکن سب لوگ اسے کرموں موچی کے نام سے پُکارتے تھے۔یہ موچی چھے عشروں تک اسی جگہ پر بیٹھ کر درد مندوں اور غریبوں کے پھٹے پُرانے جوتوں کو گانٹھتا رہا۔‘‘

’’ کرموں موچی کے ساتھ میری بھی شناسائی رہی ،‘‘فاضل نے ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہا’’ لکڑی کے ایک پرانے صندوقچے میں دھاگہ ،سوئی،قینچی اور پُرانے جُوتے مرمت کرنے کا سب سامان رکھے یہ معمر،خاموش طبع اورپُر اسرار بوڑھا موچی سارا دِ ن اسی مقام پر گزارتا تھا۔اس کے معمولات سے شہید روڈ کا ہر تاجر اور علاقے کا ہر شخص آگاہ تھا،وہ نمازتہجد مسجد نُور میں پہنچ کر ادا کرتا ۔اس کے بعد قرآن حکیم کی تلاوت اور درود ِ پاک میں مصروف ہو جاتا ۔نماز ِ فجر با جماعت ادا کرنے کے بعد وہ مسجد کی سیڑھیوں کے نزدیک اپنی مقررہ جگہ پر پہنچ جاتاتھا اور دن بھر اسی جگہ پر بیٹھ کر پُرانے جُوتوں کی مرمت کیا کرتا تھا۔ کرموں موچی کے پاس جُوتوں کی پالش تیار کرنے کا کوئی ایسا خود ساختہ فارمولا تھا کہ وہ جس جوتے پر وہ اپنی تیار کردہ پالش لگاتا اور برش سے رگڑتا وہ بالکل نئے جوتے کی طرح چمکنے لگتا۔ غریبوں کے پھٹے پُرانے جوتوں کی مرمت کرنے کے بعد ان پر پالش کرنے کا وہ کوئی معاوضہ نہ لیتا۔ اس دوران ظہر اور عصر کی نمازبھی وہ با جماعت مسجد نُورمیں ادا کرتا اور مغرب کی اذان سنتے ہی صندوقچہ بند کر کے اسے تالا لگائے بغیر وہیں رکھ دیتا اور نماز مغرب اور عشا کی با جماعت ادائیگی کے بعد وہ نا معلوم منزل کی جانب روانہ ہو جاتا ۔اگلی صبح وہ پھر نماز تہجد کے وقت اسی مسجد میں موجود ہوتا ۔ایک دِن اس کا ساتھی حکیم نور خان کہنے لگا :
’’ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

کرموں موچی فلکیات اور نجوم میں بھی دلچسپی رکھتا تھا ۔ وہ ایام کا مرکب نہیں بل کہ ایام کا راکب تھا اور وہ باطنِ ایام کی تمام کیفیات کا رمز آ شنا تھا۔ آنے والے دنوں میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں اس کی پیشین گوئی ہمیشہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوتی تھی۔ کئی لوگوں کی زبانی معلوم ہوا کہ کرموں موچی دُور بیٹھ کر بھی حالات کو دیکھنے کی استعداد رکھتا تھا۔ اس زمانے میں اپنے منھ میاں مٹھو بننے والاایک مغرب زدہ مسخرہ لُنڈابازار سے کسی مرے ہوئے یہودی کی اُترن جس میں کپڑے ، بوٹ، نکٹائی ، جرابیں اور کو ٹ وغیرہ شامل تھے انتہائی ارزاں نرخوں پرخریدکر لاتا اورچھیلا بن کر شہید روڈ جس کو جھنگ کی ٹھنڈی سٹرک بھی کہا جا تا ہے ،پر بے مقصد گُھومتا۔یہ بانکا اور بڑ بولا نو جوان جو حامد علی شاہ کا پڑوسی تھا اکثر اپنے ساتھیوں کو لے کر شہر کے بارونق بازاروں میں مٹر گشت کرتا۔ اتفاق سے ایک مرتبہ ایک تھری پیس سُوٹ لُنڈا بازار سے پچاس روپے میں اس کے ہتھے چڑھ گیا۔ جب یہ تھوتھا چنا لُنڈا بازار سے یہ سُوٹ خرید رہا تھا کہ عین اسی وقت اتفاق سے حامد علی شاہ قریبی پنسار کی دکان سے عرق گلاب اور معجون کے نسخے لے رہا تھا۔لُنڈا بازار سے سوٹ کی خریداری کایہ راز صر ف حامد علی شاہ ہی کو معلوم تھا ۔اگلے روز یہ بد طینت اوربڑ بولا نوجوان جسے سب لوگ چکنا گھڑا قرار دیتے تھے حسبِ عادت شہید روڈ پر آ دھمکا اور راہ چلتی تین حسین و جمیل دوشیزاؤں کو گُھورنے اور آوازے کسنے لگا۔اس خسیس سفلہ کی بُری حرکات سے عاجز آ کر یہ تینوں لڑکیاں اس پر ٹوٹ پڑیں اور جُوتوں سے اس کی خُوب دُھنائی کی ۔اس سے قبل کہ معاملہ طُو ل کھینچتا مقامی دکان داروں نے اس احمق نوجوان کو دھکے دے کر ان مشتعل لڑکیوں کے نرغے سے نکالا اور ان کی تڑ تڑ پیزاروں سے نجات دلائی۔وہ بُزِ اخفش ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بُڑ بُڑاتا ہوا کرموں موچی کے پاس آیا اور اپنے ساتھ ہونے والے ناگفتہ بہ سلوک اور ناقدری پر مگر مچھ کے آنسو بہانے لگااور کفن پھاڑ کر بولا:
’’ان لوگوں نے میری قدر نہیں پہچانی۔اب تم ہی بتاؤ کہ تمھاری نظر میں میر ی قدر و قیمت کیا ہے ؟‘‘
کرموں موچی نے بے توجہی سے کہا ’’ پچاس روپے۔‘‘
’’اُف ! میری اس قدر کم قیمت ۔پچاس روپے کا تو میں نے اس وقت سُوٹ پہن رکھا ہے۔‘‘

اس مسخرے کی یہ بات کرموں موچی نے خندۂ استہزا میں اُڑا دی اور کہا’’میاں صاحب زادے میں نے بھی اسی سوٹ کی قیمت بتائی ہے جو تم نے کل لُنڈے بازار سے ٹُلّے کباڑئیے سے خریدا تھا اور اس وقت آ نجہانی گراہم ڈیل کی وہ اُترن پہن کر اِتراتے پِھرتے ہو جو اس کے پس ماندگان نے دس برس قبل جون کے مہینے میں ہونو لولو میں کُوڑے کے عفونت زدہ ڈھیر پر پھینک دی تھی ۔ تمھارے دیدے ہوائی ہیں اور تمھیں کسی شریف زادی کی عزت وناموس کا کوئی خیال ہی نہیں۔ تمھارے جیسے بگلا بھگت اور آوارہ گرد جنسی جنونی کو تو بے داموں بھی کوئی نہ لے ۔تم جیسے ہزاروں تلنگے،رجلے خجلے اور لُچے یہا ں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں کوئی ان کو پُوچھتا بھی نہیں ۔ ہاں ایک بات کان کھول کر سُن لو اگر آئندہ کبھی اس راستے پر چلے اورایسی گِری ہوئی حرکت کی تو اپنے گھر واپسی کا رستہ بُھول جاؤ گے اور تمھارے گھر والے تمھاری راہیں تکتے رہیں گے۔‘‘
یہ سُن کر وہ ا بلہ وہاں سے ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔
وہاں موجود عبداﷲ ، حامد علی شاہ،دانش ،فاضل اور دوسرے احباب سوچتے ہی رہ گئے کہ کرموں موچی کوسمندر پارہلاک ہونے والے ایک یہودی کی اُترن اور اس کے ٹھکانے لگانے کے بارے میں یہ سب راز کیسے معلوم ہو گئے؟‘‘ سنا ہے اس مردِ خود آگاہ کی نگاہ کے اثر سے جلد ہی وہ نوجوان راہِ راست پر آ گیا اورتمام بُری عادتوں اور قباحتوں سے تائب ہو کر سچ اور نیکی کی پنا گاہ میں جا پہنچا۔

’’ ہر دور میں جھنگ شہرِ سدا رنگ میں ایسے کئی مردانِ خود آگاہ موجود رہے ہیں جو ایام کی باطنی کیفیات اورافراد کی سوچ کے تمام زاویوں اور زندگی کے سبھی نشیب و فراز سے آگاہ تھے۔ ایسے بے لوث خدمت گاروں اور فیض رساں لوگوں کا وجود کسی بھی معاشرے کے لیے ایک نیک شگون سمجھا جاتا ہے‘‘حاجی حافظ محمدحیات نے کہا ’’کرموں موچی چیتھڑوں میں ملبوس فاقہ کش مزدوروں ،غریبوں اور الم نصیبوں کے پھٹے پُرانے جوتوں کی مرمت کاکوئی معاوضہ وصول نہ کرتا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ بالعموم معاشی محرومیوں کے شکارفاقہ کش اورغریب لوگ ہی اس کے پاس پرانے جوتوں کی مرمت کرانے کے لیے آتے ہیں ۔اس لیے کرموں موچی نے ایسے لوگوں سے جوتا مرمت کرنے کا کسی قسم کا معاوضہ کبھی طلب نہ کیا ۔اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے جُوتے کی مرمت کے معاوضے کے طورپر موری والا ایک پیسہ یاٹکہ اس کے صندوقچے پر رکھ دیتا تووہ یہ سکے اُٹھا لیتا اورصندوقچے کے کُھلے دراز میں رکھ دیتا۔ یہ سکے بھی کسی معذور ،محتاج یایتیم بچے کو دے دیتا۔ کرموں موچی اور اس کے ساتھ مِل بیٹھنے والے فقیر منش ساتھی سب کے سب انتہائی پُر اسرار اور درویش منش لوگ تھے جو دنیاوی مال و دولت کو بُتان وہم و گُماں سمجھتے اور ہوسِ زر کی آلائش سے اپنا دامن کبھی آلودہ نہ ہونے دیتے۔ کرموں موچی کا ایک ساتھی احمد خان تھا جو علی گڑھ کا معمر گریجویٹ تھا۔وہ ہر جماعت کے طالب علم سے ماہانہ ایک روپیہ فیس وصول کرتا ۔ یتیم اور غریب طالب علموں کو نہ صرف بِلافیس پڑھاتا بل کہ ان کی مالی امداد بھی کرتا تھا۔ معمرمعلم احمدخان پہلی جماعت سے ایم ۔ اے تک تعلیم دیتاتھا ، مقابلے کے امتحانوں کی تیاری کراتااور فیس وہی ایک روپیہ تھی۔ اس کی وفات کے بعداُس کے بھتیجے عزیز احمد کی تحریک پر اس خادم خلق کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ’’احمد خان میموریل ثانوی مدرسہ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جہاں آج بھی غریب اور مستحق طلبا و طالبات کی بلا معاوضہ تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری ہے ۔ شہید روڈ پر مسجد نور کے دروازے کے جنوب میں مسجد کی سیڑھیوں کے پاس ایک بُوڑھا فوٹو گرافر خالی ٹین کو ایک گھڑونچی نما سٹینڈپر باندھتا،پھر ٹین کو کالی چادر سے اچھی طرح ڈھانپ دیتااور فٹ پاتھ پرسرِ عام کھڑاہوجاتا ۔ تصویر بنانے میں وہ اپنے فن کے جوہر دکھاتا اور ہتھیلی پر سرسوں جماتا۔ تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے جس طالب علم کو تصویر درکار ہو تی وہ بے خوف و خطر ا س کے پاس چلا آتا۔ یہ بُوڑھافوٹو گرافرنوعمر طالب علم کو ٹین کے سا منے کھڑا کرتا اورزیرِ ِ لب کچھ پڑھتا تھا ۔ طا لب علم کو بلیک اینڈوائٹ یا رنگین جس قسم کی تصویریں درکار ہو تیں وہیں اُسی وقت پلک جھپکتے میں اس طالب علم کے ہا تھ میں تھما دیتا ۔وہ محض ایک آنے میں چا رتصویر یں تیار کر کے دیتا۔ اس پُر اسرار فوٹو گرافر کے بارے میں یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ اس کے پا س نہ کو ئی سٹوڈیوتھا اور نہ ہی کوئی لیبار ٹری ۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اس کے پاس کیمرہ بھی نہیں تھا ۔ شہر کے اکثر لوگ پیار سے اُسے گھڑونچی والا فوٹوگرافر کہتے جوٹین کے ڈبے میں بازو ڈال کر سامنے کھڑے شخص کی ہو بہو تصویر کھینچ کر باہر نکا ل لیتا ۔ وہ اپنے بارے میں یہ مضحکہ خیز باتیں سنتا مگر کوئی جواب نہ دیتا اور نہ ہی کسی پُر تجسس شخص کواپنی حیران کُن تصویر کشی کا راز بتاتا۔جب بھی کوئی شخص اس کے پُر اسرار فن مصوری کے بارے حقائق جا ننا چاہتا تووہ مسکرا کر ٹال دیتا تھا ۔ متجسس لوگوں نے کئی بار کوشش کی کہ گھڑونچی والے فوٹو گرافر کا رازمعلوم کیا جائے لیکن کوئی بات ان کے پلے نہ پڑی۔ شہنی والی بستی کا مکین مولا بخش مالی جب کسی دیمک زدہ مرجھائے ہوئے بُوٹے کی شام کے وقت گوڈی کر کے اس میں خشک پتوں کی کھا د ڈال کر دم کیے ہوئے پانی سے اسے سیراب کر کے یہ کہتا ’’رب نوں بھاوے تے سُکّے وی ساوے ‘‘ تو اگلی صبح وہ پودا پھر سے ہرا بھرا ہو جاتا اور اس کی شاخوں پر پُھول کِھل اُٹھتے۔ان سب پُر اسرار شخصیات کے کشف و کرامات کے غیر مختتم سلسلے اور محیر العقول کرشموں کا تعلق ما بعد الطبیعات سے تھا اور اس کے پسِ پردہ ما فوق الفطرت قوتوں کا عمل دخل صاف دکھائی دیتاتھا۔ کرموں موچی کے معتمد ساتھیوں میں علاقے کے سب یتیم طلبہ و طالبات کو مفت درسی کتب ،یونیفارم اور سٹیشنری فراہم کرنے والادرویش منش کتب فروش حاجی محمد یوسف ،ایک آنہ اُجرت لے حجامت کرنے والا حجام بابا اﷲ دتہ ، چوّنی وصول کر کے علاج معالجہ کرنے والا حکیم احمد بخش نذیر اور اپنے گاہکوں میں عطریات کی شیشیاں مفت با نٹنے والا محسن تیلی بھی شامل تھا ۔محسن تیلی سے جب کو ئی شخص اس کے کوہلو میں تیار کیا ہواسرسوں کا خالص تیل خریدتاتو وہ گلاب ، چنبیلی ، موتیا، اور دھنیا کے عطر کی چھوٹی چھوٹی شیشیاں جو وہ خودکشید کرتا تھا مفت فراہم کر تا تھا۔ یہ مقربِ بارگاہ لوگ روحانیت کے جس بلند منصب پر فائز تھے وہ کسی سے پوشیدہ نہ تھا ۔اس کے باوجود انھوں نے زمانہ ساز لوگوں پر کبھی اپناحقیقی حال ظاہر نہ ہونے دیا اور دنیا داری کے پردے میں اپنی معرفت کے سب راز پوشیدہ رکھے ۔یہ وہ مقام جہاں انسان عقل سے آگے گزر کر سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہاں شوق کی نئی منزلیں دیکھ کر خرد کی گتھیاں مزید اُلجھتی چلی جاتی ہیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے موجودہ دور میں اس قسم کے ناقابل یقین واقعات ،کشف و کرامات اور کرشموں کی عقلی توضیح پیش کرنا سعیٔ لاحاصل ہے ۔ حیف صد حیف کہ مادی دور کی مسموم فضا میں روحانیت کے گلشن میں کِھلنے والے فقر ومستی کے گُل ہائے رنگ رنگ اب معدوم ہونے لگے ہیں۔‘‘

چراغ مولائی نے کہا ’’فقر و مستی اورمعرفت کی اقلیم کے د ستور نرالے ہوتے ہیں۔’’بھاگو کراڑی والی ‘‘ پل کے کھنڈرات آج بھی زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ جورو ستم کا پھریرا بالآخر سر نگوں ہوکر رہتا ہے ۔ایک حال مست فقیر کبھی قصرِ فریدوں یا در کسریٰ پر صدانہیں کرتاوہ یہ بات اچھی طرح جانتاہے کہ ان کھنڈرات میں موجودبد روحیں اس کے کام نہیں آ سکتیں۔وہ اپنی دنیا کا خود ہی حاکم ہوتاہے اس لیے وہی کام کرتا ہے جو اس کے ضمیر کی آواز ہو تا ہے۔ آلام روزگارکے بگولے عشق کے شعلوں کو کبھی بجھا نہیں سکتے ۔یہ وہ سخت مقام میں جہاں ذہن و ذکاوت اپنی تہی دا منی پر ہا تھ ملتی رہ جا تی ہے ۔1930 کی چنیوٹ کی دا ئی بھی ایک ایسا ہی کردار ہے ۔ الھڑ سوانی اس پر اُٹھتی جو ا نی ، چا ند ی کی گر دن میں سونے کی گانی اور سفید کلا ئیوں میں کالی چوڑیاں پہنے جب شام کے وقت سر راہ چتڑی (بھٹی )کے سا منے بیٹھ کر دانے بھون کر پُھلے فروخت کرتی تو ہرطرف سے اس شمع کے پروانوں کا ہجوم اُمڈ آتامگر یہ کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر کبھی نہ دیکھتی ۔میلی نگاہ سے دیکھنے والے اس کی آنکھوں کی تاب نہ لاسکتے اور خود ہی رفو چکر ہوجاتے ۔ ممتاز شاعرمحمد شیر افضل جعفری نے اسی پراسراردائی کے بارے میں کہاتھا ؂
سُندر، کو مل ، نا زک دائی
جِھلمِل جِھلمِل کر تی آئی
پھا گن کی سر شار فضا میں
لال پر ی نے لی اَنگڑائی
تِڑ تِڑ کر تِڑنے لگے پُھلے
تا روں کی دُنیا شر ما ئی

’’اس دا ئی کا نام نوراں تھا ‘‘۔ شیرخان نے کہا ’’یہ چنیوٹ سے پنڈی بھٹیاں جا نے والی سڑک پر نا رمل سکول کے سا منے فٹ پا تھ پر بیٹھ جوار ،مکئی اور چنے کے دانے بھون کر فروخت کر تی تھی ۔ یہ نوجوان لڑ کی یتیم تھی اور اس کی ما ں فا لج کی مر یضہ تھی اوراس کا کوئی بھائی نہ تھا او ر نہ ہی کوئی کفیل تھا۔ وہ دانے بُھون کر رزق حلال کماتی اور اس سے اپنے گھر کی دال روٹی کا سلسلہ چلاتی تھی۔ اس کی دلیری ،خود داری ،انا اور عزت نفس کا یہ حال تھا کہ اس کے ساتھ کوئی بھی شخص غیرضروری بات کرنے کی جسارت نہ کرتا۔ ایک مرتبہ ایک بگڑے ہوئے نواب زادے نے اسے کوئی نا زیبا بات کہی تو اس دائی نے گرم کُنڈی اس کے سر پر دے ماری ۔وہ مغرور نواب زادہ غراتا ہوا وہاں سے غائب ہو گیا ۔اس کے بعد اس نے پِھر کبھی اس دائی کی چتڑی کا رخ نہ کیا۔‘‘

’’مابعد الطبیعات کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت کُھل کر سامنے آتی ہے کہ ہماری سماجی اور معاشرتی زندگی میں فعال بہت سے کرداراس قدر پُر اسرار ہوتے ہیں کہ ان کی حقیقت کو سمجھنا ممکن ہی نہیں۔‘‘حاجی حافظ محمد حیات نے کہا’’اکثر لوگوں کا گُمان ہے کہ کئی موکل اور ہم زاد ان پُر اسرار کرداروں کے تابع ہوتے ہیں۔یہ لوگ یادگارِ زمانہ ہوتے ہیں اسی لیے ان کی زندگی ایک افسانے کا روپ دھا ر لیتی ہے۔جنس و جنوں اورہوا و ہوس کی آلودگیوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے یہ بتیس دانتوں میں زبانوں کی طرح رہتے ہیں۔تاریخ کے مسلسل عمل پر غور کریں توہردور میں لوحِ جہاں پر ایسے کرداروں کے انمٹ نقوش ملتے ہیں۔آج بھی دریائے چناب کے گرداب سے اُٹھنے والی مہیب لہریں اس دریا کے کناروں سے سر پٹخ کرسوہنی کے کچے گھڑے پر تیر کر دریاعبور کرنے کی کوشش میں جان کی بازی لگانے اور جذبۂ عشق اور پیمانِ وفا پر آنچ نہ آنے دینے کی تڑپ پر آہیں بھرتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ دریا ہمیشہ اپنی موج کی طغیانیوں سے غرض رکھتے ہیں لیکن دریا یہ نہیں جانتے کہ جذبۂ عشق کی جولانیوں کے سامنے دریاؤں کی طغیانیوں کی کوئی حقیقت نہیں۔بھنبھور کے بے آب وگیاہ ریگستان میں آج بھی سسی کی بے قرارروح جب پُنوں! پُنوں پکارتی ہے تو صحرا کا دِل دہل جاتاہے۔مشہور شاعرصاحب زادہ رفعت سلطان نے بھی اس نازک معاملے کو ایک ایسے راز سے تعبیر کیا جس کی گرہ کشائی کٹھن مرحلہ ہے ۔؂
کیوں سسی رُل گئی تھل وِچ
ہا راز کوئی اس گل وِچ
ترجمہ :
سسی کیوں اُجڑی ریگستان میں
تھا راز کوئی اس داستان میں

’’ان پر اسرار لوگوں کا ہماری قومی تاریخ کے اہم واقعات سے بھی گہرا تعلق رہا ہے مگر آج تک کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی۔‘‘ضیغم نے گلوگیر لہجے میں کہا ’’ آپ نے مسجد نُور اورشہید روڈ کاذکرتو کیاہے لیکن تحریکِ پاکستان میں جھنگ کی اس سڑک اور اس عظیم تاریخی مسجد کو جس اہم اور ابدآشنایادگار حوالے کی حیثیت حاصل ہے ،اس کے بارے میں شایدنئی نسل کو کچھ معلوم نہیں ۔آج میں ایک ایسے مردِ مجاہد کا احوال بیان کروں گا جس نے آزاد وطن کے لیے اپنی جان کی قربانی پیش کی اور اس کا لہو آزادی کے افسانے کی سُرخی بن گیا۔گورنمنٹ کالج جھنگ نے 1926میں روشنی کے سفر کا آغاز کیا۔جھنگ کے نوجوان طالب علموں نے تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کے بعد یہاں کے نوجوانوں کے دِلوں میں آزادی کے لیے ایک ولولہ ٔتازہ پیدا ہو گیا۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کے سیکڑوں طلبانے منٹو پارک میں1940 میں منعقد ہو نے والے مسلم لیگ کے اس تاریخی جلسے میں شرکت کی جس میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی۔ وطن کی آزادی کے حق میں اوربرطانوی استعمار ، اس کے مسلط کردہ فسطائی جبر اور جنگل کے قانون کے خلاف جھنگ کے طلبا نے کئی پُر امن احتجاجی جلوس نکالے۔جس سڑک کو آج شہید روڈ کے نام سے دنیا جا نتی ہے وہ پہلے کچہری روڈ کہلاتی تھی۔قرار دادِ پاکستان منظور ہونے کے بعد جھنگ کے طلباکے جوش و خروش میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ۔اسی زمانے میں گورنمنٹ کالج جھنگ کے ہزاروں طلبا کا ایک پُر امن جلوس آزادی کے حق میں فلک شگاف نعرے لگاتا ہوا جب مسجد نُور کے سامنے پہنچا تو بر طانوی پولیس کے لٹھ بردار دستے جن میں بھاڑے کے ٹٹو،پیشہ ور قاتل،جرائم پیشہ جنونی اور ضمیر فروش غدار شامل تھے اپنے غیر مُلکی آقاؤں کے اشارے پر دُم ہلاتے ہوئے آگے بڑھے اور انھوں نے نہتے اور پُر امن طالب علموں کو گھیرے میں لے لیااور ان پر اندھا دُھند لاٹھی چارج شروع کر دیا اور ساتھ ہی پُر امن معصوم طلبا کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے بھی پھینکے۔بر طانوی پولیس کی اس سفاکی پر طلبا مشتعل ہو گئے اور مسجد نُور کے سامنے سڑک پر دھرنا دے دیا۔ضلع جھنگ پولیس کاسر براہ رچرڈ جو جلیاں والا باغ کے سفاک قاتل کرنل ڈائر کا عزیز تھا،اس نے زمین پر بیٹھے طلبا پر فائرنگ کاحکم دے دیا۔ فائرنگ کے نتیجے میں سیکڑوں نو عمر طلبا گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہو ئے۔رچرڈ کے پستول کی گولی لگنے سے گورنمنٹ کالج جھنگ میں سال ِدوم کے طالب علم قاضی محمد شریف نے مسجد نُور کی سیڑھیوں کے قریب شمالی جانب موقع پر کرموں موچی کے سامنے جامِ شہادت نوش کیا۔یہ یتیم نو جوان طالب علم سات بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ایک گھر بے چراغ ہو گیا لیکن آزادی کی شمع فرزاں ہو گئی۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کے نوجوان شہیدطالب علم قاضی محمد شریف کی نماز جنازہ اسی شاہراہ پر پڑھائی گئی جس میں ملک بھر کے شہروں اورقصبات سے آنے والے آزادی کے لاکھوں متوالے جوق در جوق شریک ہوئے۔ پُھول جیسے ہو نہار شہید طالب علم کے جسد خاکی کو پھولوں کا کفن دے کر مسجد نور کے صحن کے جنوبی گوشے میں سپر دِ خاک کر دیا گیا ۔ اس کے بعد کچہری روڈ کو قاضی محمدشریف شہیدروڈ کے نا م سے شہرت ملی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سڑک کا نام سمٹ کر محض شہید روڈ رہ گیا ہے۔ہر سال ہزاروں طالب علم یوم آزادی کے موقع پر اپنے اس عظیم شہیدساتھی کے مرقد پر حاضر ہو کر پھول چڑھاتے ہیں اورشہید کے درجات کی بلندی کی دعا کرنے کے بعدسر جھکا کر ممنونیت اور سپاس گزاری کے جذبات کااظہار کرتے ہیں۔‘‘
’’جب قاضی محمدشریف نے جام ِ شہادت نوش کیا تو اس وقت کرموں موچی کس حال اور کس خیال میں تھا؟‘‘حاجی حافظ محمد حیات نے پُوچھا’’اس نو جوان طالب علم کی شہادت کے بعد ظالم و سفاک ،مُوذی و مکار برطانوی استبداد کے آلہ ٔ کار پولیس افسر پر کیا بیتی؟‘‘

’’ میں بھی اس جلوس میں شامل تھا،جب رچرڈ کی گولی نوجوان طالب علم قاضی محمد شریف کے سینے میں پیوست ہوئی تو نوجوان کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اس نے کلمۂ شہادت پڑھا اور خالق حقیقی سے جا ملا۔‘‘ضیغم نے روتے ہوئے کہا’’ کرموں موچی نے نوجوان طالب علم کی خون میں لت پت لاش کو اپنی آغوش میں لے لیااور آہ بھر کرآسمان کی طر ف دیکھا اور زیرِ لب کوئی دعا کی۔اس کے بعد سیکڑوں مسلح سپاہیوں کے جھرمٹ میں سامنے کھڑے ظالم پولیس افسر رچرڈ سے مخاطب ہو کر کہا کہ تو نے ایک ضعیف بیوہ ماں کی آنکھوں کا نُور اور دِ ل کا اُجالا چھین لیا، سات معصوم بہنوں کا گریہ فریاد ،آہ اور زاری تجھے جینے نہ دے گی ۔اب تجھے کہیں اماں نہ مِل سکے گی ۔چل بھاگ یہاں سے عبرت ناک موت اب تیرا تعاقب کرے گی توخارش زدہ باؤلے کتے کی موت مرے گا۔یہ سننا تھا کہ رچرڈ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگااور تھانہ صدر کے نزدیک واقع اپنے دفتر جانے کے بجائے بگٹٹ بھاگتا ہوا بہت آگے نکل گیا۔ اسلامیہ ہائی سکول جھنگ سے کچھ دُور بھکر روڈ پرچالیس فٹ گہرا اورایک ہزار مربع فٹ پر پھیلا ہوا گندے پانی کا صدیوں پرانا ایک جو ہڑ ہے جسے گنداٹوڑا کہتے ہیں ،رچرڈ نے گندے پانی کے اسی جوہڑ کا رخ کیا ۔رچرڈ کے منھ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور وہ خارش زدہ باؤلے سگِ راہ کی طرح غراتا ہوا، اپنی خارش زدہ کھال کو دونوں ہاتھوں کی اُنگلیوں سے زورزور سے کُھجاتا ہوامسلسل ہانپتا اور کانپتا ہوابھاگا چلا جا رہا تھا۔جوں ہی وہ گندے ٹوڑے کے کنارے پہنچا اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فی الفور اس متعفن گندے ٹوڑے میں چھلانگ لگادی۔ٹھہرے پانی میں ہلچل پیدا ہوئی اور بیسیوں خون آشام نہنگ جبڑے کھولے اس ننگِ وجود پرجھپٹ پڑے اوراس کی تکا بوٹی کر ڈالی۔اس کے بعد رچرڈ کی لاش کے ڈھانچے کا کوئی اتا پتا نہ ملا ۔‘‘

’’کرموں موچی سے میری کئی بار ملاقات ہوئی ۔اس سے مل کر زندگی سے پیار ہو جاتا اور اس کے دِ ل کے افسانے جب اُس کی نگاہوں کی زباں پر آتے تو ملاقاتی حیرت زدہ رہ جاتا کہ خاموش طبع اور سدا اپنی دُھن میں مگن رہنے والا کرموں موچی کچھ نہ کہتے ہوئے بھی سب کچھ کہہ جاتا اور راز و نیاز اور معرفت کی بات کہاں سے کہاں تک جا پہنچتی۔‘‘ جمال نے ماضی کے دریچوں سے جھانکتے ہوئے کہا’’آزادی سے پہلے ماضی کا شہید روڈ اہم تجارتی مرکز تھا جہاں سب کاروبار پر مہا بھارت کا راگ الاپنے والے حریص ہندو مہاجن ،سُودخور بنیے اور غاصب متمول ٹھاکر قابض تھے جن کی ٹھوکروں نے غریبوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ انسانیت کی توہین،تذلیل اور تضحیک کرنے والے ان درندوں نے اپنے مکر کی چالوں سے لُوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ یہ 1941کا واقعہ ہے، شہید روڈ پر ضلع جھنگ کا سب سے بڑا واحد سرکاری ہسپتا ل واقع تھا ۔یہ قدیم ہسپتال اب شہر سے باہر گوجرہ روڈ پر منتقل ہو گیا ہے ۔ شہید روڈ پر واقع اس قدیم ہسپتال کے عین سامنے انگریز حکام کی آشیر باد سے بسوں کے اڈے بنائے گئے تھے۔ ہسپتا ل میں جاں بہ لب مریضوں کی تکلیف سے بے نیاز سرمایہ دار ہندو ٹرانسپورٹروں کی بسیں یہاں سے زور سے ہارن بجاتی ملک کے تما م شہروں کو روانہ ہوتی تھیں۔ شہید روڈ پرکرموں موچی اور بُوڑھے فوٹو گرافر کے بیٹھنے کی جگہ کے نزدیک بسوں کے اڈے کے سامنے روپن مل وانی نامی ایک ہندو کی دکان تھی جہاں وہ پھل فروخت کیا کرتا تھا۔بھرے بازار میں وہ سب سے کم نرخ پر پھل بیچتا اور گاہک کو یہ اختیار تھا کہ وہ اپنی مرضی اور پسند کے مطابق پھلوں کا انتخاب کر لے ۔دُور دراز علاقوں کے مسافر روپن مل وانی کی دکان سے اپنے بچوں کے لیے پھل خریدتے ،انھیں کپڑے کے صاف تھیلوں میں ڈالتے اور تھیلے کا منھ بند کر کے اسے سنبھال کر گھروں کو روانہ ہو جاتے تھے۔‘‘

’’ یہ پھل فروش بھی عجیب تھا۔‘‘عزیز احمد نے کہا’’آج کا پھل فروش تو اپنی مرضی کے پھل گاہک کو دیتا ہے اور دام بھی اپنی مرضی کے وصول کرتا ہے۔‘‘

’’روپن مل وانی ایک جو فروش گندم نما بگلا بھگت عیار درندہ تھا۔‘‘جما ل نے کہا ’’یہ پھل فروش تو ایک بھیڑیا تھا جس نے بھیڑ کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔اس کی دکان پر آنے والے مسافر اپنی پسند کے پھل چُن کر اس کے ترازو کے پلڑے میں وزن کرانے کے لیے رکھ دیتے۔اس کے بعد وہ اجنبی مسافر پھلوں کی قیمت ادا کرنے کے لیے جب اپنی جیب ٹٹول کر رقم گننے میں مصروف ہوتے تو اسی اثنا میں روپن مل وانی ہاتھ کی صفائی دکھاتا اوراور پھلوں کا لفافہ بدل دیتا۔باسی اور گلے سڑے پھلوں سے بھرے مختلف اوزان کے خاکی لفافے وہ نیچے چُھپا کر رکھتا تھا۔وہ وہیں سے ایک لفافہ اُٹھاتا ،اسے ایک بڑے لفافے میں ڈالتااور مضبوط گانٹھ لگا کر دُور دراز مسافت پر روانہ ہوانے والے سادہ لوح گاہک کے ہاتھ میں تھما دیتا تھاجو اِس بات سے بے خبر ہوتا کہ اُس کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا ہے۔دور اُفتادہ اور دشوار گزار پس ماندہ علاقوں سے آنے والے دیہاتی لوگ پھلوں کا لفافہ اپنے کپڑے کے بورے میں ڈال کر اسے سنبھال کر رات گئے گھر پہنچتے توسر پیٹ کر رہ جاتے کہ لفافے میں سے عفونت زدہ ،گلے سڑے اور حشرات سے بھرے پھل بر آمد ہوتے۔لفافے میں سے وہ پھل بر آمد ہوئے جو انھوں نے کبھی چُنے ہی نہ تھے ۔کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ گاہک سیبوں کی قیمت ادا کر کے آتا اور جب گھر پہنچ کر لفافہ کھولتا تو اس میں سے کیڑوں والے امرود نکلتے۔بھکر،ماڑی اور منکیرہ کے تھل کے علاقوں میں پائے جانے والے خو درو حنظل اپنے سائزاور وضع سے خربوزے لگتے ہیں۔نا ہنجارروپن مل وانی کے عیار اور ٹھگ کارندے تھل سے مفت حنظل توڑ کربڑے بڑے بوروں میں بھر کر لاتے اور اس خسیس کی دکان میں ڈھیر لگا دیتے ۔یہ مکار بنیاخربوزے خریدنے والے ہر گاہک کے تھیلے میں چند حنظل بھی ڈال دیتا۔جب کم سِن بچے خربوزے کھانے کے شوق میں حنظل چکھ لیتے تو ان کی زبان کا ذائقہ ا س قدر کڑوا ہو جاتا کہ اُنھیں متلی اوراُبکائیاں آنے لگتیں۔بچوں کے والدین کواپنے مالی نقصان کا تو اتنا ارمان نہ تھالیکن اس عیار بنیے کی ٹھگی کے باعث معصوم بچوں کی پریشانی دیکھ کر وہ ہیجان اور خلجان کے باعث خفقان میں مبتلا ہو جاتے اور جھولیاں اُٹھا کر اجلاف وارذل کی اولاد اس سفلہ ٹھگ کے لیے بددعا کرتے۔سال چھے ماہ بعد جب کوئی اس کا ستم رسیدہ گاہک اس طر ف سے گزرتا اور اس ٹھگ کے روّیے پر احتجاج کرتا تو روپن مل وانی کے ابلیس نژاد حامی اور اس کے پروردہ بقال مل کر اس سادہ لوح دیہاتی کو مارتے اور بے عزت کرتے ۔اس کے بعد وہ مظلوم چُپ سادھ لیتااور اپنا معاملہ تقدیر کے حوالے کر دیتا۔‘‘

’’اس کے علاوہ مظلوم اور کیا کر سکتا ہے ؟‘‘سجاول نے آہ بھر کر کہا’’ اس وقت مجھے ممتاز شاعر رام ریاض کا یہ شعر یا دآ رہا ہے جو اس لرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحے پر دال ہے ؂‘‘
ہم تو چُپ ہیں کہ ہمیں مارنے والے تم ہو
خیر مانگو کہ زمانے کے حوالے تم ہو ‘‘
’’ سچ ہے زمانہ کسی کے ساتھ کبھی رعایت نہیں کرتا۔روپن مل وانی کی بہت بڑی سفاکی ،عیاری اورظلم پر فطرت کی تعزیریں اس کے تعاقب میں تھیں ۔‘‘ سجاول نے کہا ’’کیا کرموں موچی نے روپن مل وانی کی اس بے غیرتی ،بے ضمیری اور ٹھگی پر اس کی سر زنش نہ کی۔‘‘

’’ کر موں موچی نے کئی بار روپن مل وانی کو اس صریح ظلم اور لُوٹ مار سے منع کیا لیکن وہ باز نہ آیا ۔‘‘بر خوردار نے گلو گیر لہجے میں کہا ’’ آخر تھک ہار کر کرموں موچی نے صر ف اتنا کہا کہ اب فطرت کی تعزیریں ہی اس بے رحم لُٹیرے کا احتساب کریں گی۔جلد ہی یہ حالات کی زد میں آنے والا ہے ۔اس کے بعد اس کی آ نکھیں کُھلیں گی اوراسے آٹے دال کے بھاؤ اور سیلِ زماں کے بہاؤ کا سب پتا چل جائے گا۔روپن مل وانی ادھیڑعمر کا مہا جن تھا ۔ اس کی شادی کو تیس برس بیت گئے مگر اس کے گھر کے آنگن میں بہار نہ آئی اور وہ سٹھیایا ہوا بنیا اب تک اولاد سے محروم تھا ۔ لاہور ،کراچی، ممبئی ،کالی کٹ اوردہلی کی ماہرین امراض نسواں سے مہنگے علاج کے بعد روپن مل وانی کی بیوی شا نتی اُمید سے تھی۔ شدید سردی اور دُھند کا موسم تھا سال 1941 کے دسمبر کا مہینہ ختم ہو رہا تھا شانتی کو شہید رو ڈکے سرکاری ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا جہاں زچہ وارڈ میں بیس کے قریب عورتیں پہلے سے داخل تھیں۔ چیتھڑوں میں ملبوس ایک تنو مندخا نہ بدوش شودر عورت گا ئتری نے اسی شام ایک اند ھے اور معذور بچے کوجنم دیا۔چند لمحوں کے بعد ایک بڑے آپر یشن کے ذریعے شا نتی کا چندے آفتا ب چندے مہتاب بیٹا پیدا ہوا۔اس پیچیدہ آپریشن کے بعدڈا کٹر وں نے بتا یا کہ اب شا نتی کبھی ماں نہ بن سکے گی ۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد اچانک شا نتی کی طبیعت خراب ہو گئی اور اس کے لیے خون کی مز یدضرورت پڑ گئی ۔رو پن مل وانی اور سب عز یز پریشا نی کے عا لم میں خون کی چا ر بو تلوں کا انتظا م کر نے کی خاطر خون کا عطیہ دینے والے رضا کاروں کی تلا ش میں اپنے ہاتھوں میں کرنسی نوٹوں کی گڈیاں لیے دوڑے ۔ اس دوران اپنی قسمت اورآنے والے حالات سے ما یوس گا ئتری ایک بڑے سے تو لیے میں نو مولود بچہ لپیٹے دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی ہسپتال کے کمرے سے نکلی اور سامنے بسوں کے اڈے سے کسی باہر کے شہر کوروانہ ہونے والی ایک بس میں سوار ہو گئی ۔بس زور سے ہارن بجاتی ،تیز رفتاری سے شہر کی سڑکو ں سے گزرتی دُور نکل گئی۔ایک گھنٹے کے بعدروپن مل وانی اور اس کے عزیز بلڈ بنک سے مطلوبہ گروپ کے خون کی بوتلیں لے کر زچہ وارڈ میں پہنچے جہاں کم زوری سے نڈھال نیم جان شانتی بے ہوشی کے عالم میں بے سُدھ پڑی تھی۔لیڈی ڈاکٹر نے فی الفور شانتی کوخون لگا دیااور ساتھ ہی نرس کو ہدایت کی کہ نومولود بچے کے جسم کا ٹمپریچر معلوم کیا جائے اور اس کے بعداسے محلول غذا دی جائے۔جوں ہی نرس نے نومولود بچے کی بغل میں تھرما میٹر رکھنے کے لیے اس کے چہرے سے کپڑا اُٹھایاسب لوگ ہکا بکا رہ گئے،یہاں توگائتری کا نا بینا اور معذور بچہ لیٹا تھا۔ سب لوگ گائتری کی تلاش میں نکلے مگر اس کا کہیں سُراغ نہ مل سکا۔ صیاد خود اپنے ہی دام میں پھنس چُکا تھا۔اب روپن مل وانی اور شانتی کے پاس تلخ حالا ت اور جان لیوا صدموں سے سمجھوتہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔انھوں نے ایک اچھوت عورت کانا بینا اور معذور بچہ گود لینے کا فیصلہ کر لیا۔
روپن مل وانی نے علاقہ غیر سے تعلق رکھنے والے سُدرشن نامی ایک غیر محرم اور غیر ذات کے ہریجن کو اپنے گھر میں محافظ کے طو پر ملازم رکھا ہوا تھا۔روپن مل وانی اسے محرم راز خیال کرتا سب باتیں اسی سے کہتا اور اس کا ہر مشورہ پُوری توجہ سے سُنتا تھا۔کرموں موچی نے سُدرشن کے بارے میں کہا تھا کہ یہ چور محل میں جنم لینے والا سانپ تلے کا ایسا بچھو ہے جواپنے محسن کو ڈس لے گا۔اگست 1947 کے پہلے ہفتے میں روپن مل وانی نے کرناٹک جانے کا فیصلہ کر لیا۔اس نے اپنی بیوی اور سدرشن کو بُلایا اور تمام زیورات ،اشرفیاں،کرنسی نوٹ ،ہیرے جواہرات اور سونے چاندی کے برتن ایک بڑے صندوق میں بند کر کے صندوق کو تالا لگا کر اس کی چابی اپنی واسکٹ کی جیب میں ٹھونسی اور بھاری صندوق سدرشن کے سر پر رکھ دیا ۔اب یہ تینوں سودیشی ریل پر سوار ہونے کے لیے جھنگ ریلوے سٹیشن کی طر ف پیدل چل پڑے۔ سدرشن تیزقدم اُٹھاتا ہوا آگے نکل گیا۔دُورگلی کے ایک موڑ پر سدرش اچانک ان کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔روپن مل وانی اور اس کی بیوی شانتی نے سدرشن کو بہت آوازیں دیں لیکن وہ نہ جانے کس جہاں میں کھو گیا۔جلد ہی اُن کو اپنے ایک غریب مگر قریبی رشتہ دار کی زبانی معلوم ہوا کہ سدرشن نے زرو مال سے بھرا صندوق ایک کار میں رکھا اورکار فراٹے بھرتی ہوئی ا جنبی سی منزلوں کی جانب روانہ ہوگئی۔ان کا اپناقریبی رشتہ دار روتے ہوئے بولا :؂
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

سُدرشن کے بارے میں کرموں موچی کی پیشین گوئی سچ نکلی۔ سادہ لوح لوگوں کے ساتھ جعل سازی کا ناٹک کرنے والا روپن مل وانی جب چھے سال بعد کرناٹک جا رہا تھا تو کالا دھن کمانے کا ناٹک اب حقیقی رنگ دکھا رہا تھا ۔اُس نے نا بینا اور معذورلڑکے کو اپنے کندھوں پر اُٹھا رکھا تھا اور اس کے ساتھ اس کی بیوی شانتی عالمِ یاس میں بوجھل قدموں سے نئی منزل کی جانب سفر کو نکلی تھی۔ اس عالم ِ تنہائی میں گردشِ حالات ان کے شانہ بہ شانہ چل رہی تھی۔‘‘

کرموں موچی کی کتاب ِ زیست کے آخری باب کا احوال بیان کرتے ہوئے بہاول نے بتایا :
’’سال 1974 کے موسم گرماکا جون کا مہینا تھا ۔کرموں موچی خلاف ِ معمول علی الصبح جھنگ شہر میرے پاس پہنچا ۔اس نے ایک بڑی لاٹھی اپنے کندھے پر رکھی ہوئی تھی جس کے ایک سرے پر کپڑے کی ایک پو ٹلی تھی۔اس نے مجھے بتایا کہ اب وہ اس پوٹلی میں اپنا کفن لیے اپنے جد امجد میاں موچڑا کے بلانے پر اس کے پاس جا رہا ہے۔اس نے مجھے اﷲ بیلی کہا اور مسکراتاہوا باہر نکل گیا۔‘‘

اس کے آبائی گاؤں کے باشندے سجاول نے بتایا:’’کرموں موچی نے کافی عرصہ پہلے میاں مو چڑا کے شہرِ خموشاں میں اپنی قبر کی جگہ کی نشان دہی کر دی تھی۔ اس روز یہاں پہنچنے سے پہلے قصبہ موچی والا سے اس نے اپنی بہن اور رشتہ داروں کو بلا لیا تھا۔وہ ساری رات عبادت میں مصروف رہااور عزیزوں کو نصیحتیں بھی کرتا رہا ۔اگلی صبح وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ اس کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح پاکیزہ مسکراہٹ تھی ۔ا س کی نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوئے جن میں سے اکثر اجنبی تھے۔میاں موچڑا کے شہرِخموشاں کی کچی حویلی کے باہر ایک تنہا گوشے کی خام قبر میں میاں موچڑ اکے قدموں میں پیلوں کے ایک درخت کے سائے میں کرموں موچی آسودۂ خاک ہے۔ جب تک دنیا باقی ہے لوگ اس پُر اسرار موچی کی مستحکم اور مضبوط شخصیت کے حیران کُن واقعات اور کشف و کرامات کی داستانیں د ہراتے رہیں گے اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ سیرِ جہاں کاحاصل حیرت اور حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ ‘‘

یہ لکھتے ہوئے کلیجہ منھ کو آتاہے کہ کرموں موچی کی زندگی کے حالات کا رمز آشنا اب ہم میں نہیں رہا۔ ’’اسرار شش جہات ‘‘کے مسودے کو آخری شکل دینے کی تمنا دِل میں لیے حاجی حافظ محمد حیات نے سال 2000میں عالم شباب میں عدم کے کُوچ کے لیے اپنے آخری سفر کے لیے رختِ سفر باندھ لیا۔ سب یادیں اور حقائق اس طرح خیال و خواب ہوئے کہ ہجر کے ماروں کی فریادیں سننے والا کوئی محرم راز نہیں ملتا۔ کرموں موچی کی اس حیران کُن قدیم حکایت کے سب راوی بھی اپنی اپنی داستاں کہتے کہتے ابدی نیند سو چُکے ہیں۔فرشتۂ اجل نے حاجی حافظ محمد حیات جیسے زیرک،فعال اور مستعد تخلیق کار سے قلم چھین کر ادب کے طلبہ کو مفلس و قلاش کر دیا ۔ابد آشنا اسلوب کے حامل اس فقیر منش محقق ،نقاد ،ماہر نفسیات اور ماہر علم بشریات کے ساتھ ہونے والی ادھوری ملاقاتوں میں کئی ضروری باتیں یقیناً وضاحت طلب رہ گئی ہوں گی لیکن وہ صورتیں دیکھنے کے لیے آنکھیں ترستی رہیں گی۔ یاروں نے اس قدر دُور اپنی بستیاں بسا لی ہیں کہ اب تو یادِ رفتگاں کا بھی حوصلہ باقی نہیں رہا۔ماضی کے پر اسرار کرداروں کے بارے میں جوکچھ سُنا اور یاد رہا وہ من وعن لکھ دیا ۔حق مغفرت کرے حاجی حافظ محمد حیات بھی ایک پُر اسرار درویش تھا۔ضلع سرگودھا کی تحصیل سلانوالی کے ایک دُور اُفتادہ گاؤں ہریاں والی کے شہرِ خموشاں ’’بے ثبات‘‘ کے ایک تنہا گوشے میں جہاں پیلوں، کریروں اور ڈیہلوں کی فراوانی ہے یہ مرد ِفقیر آسودۂ خاک ہے۔کیا عجب مستقبل کا کوئی محنتی محقق حاجی حافظ محمد حیات کی پُر اسرار زندگی کے نا خواندہ اوراق سے ہمیں روشناس کر ا کے معرفت کی روشنی کا سفر جاری رکھنے کی سبیل پیدا کر سکے۔کرموں موچی اور اس کے ساتھیو! تم یہ مت سمجھو کہ ہم نے تمھیں بُھلا دیا ہے ۔لوح ِ دِل پر تمھاری انمٹ یادوں کے نقوش سدا قریۂ جاں کو معطر کرتے رہیں گے۔
لوحِ مزار دیکھ کر جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
Ghulam Ibn-e- Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e- Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e- Sultan: 277 Articles with 680172 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.