نیشنل ایکشن پلان اور خطبہ جمعہ
یکم دسمبر کو تحصیل مفتی ہجیرہ آزاد کشمیرکے دفتر سے ایک چٹھی جاری ہوتی ہے
۔در اصل یہ ایک حکم نامہ ہے اس کا تعلق براہ راست اسلام آباد میں بننے والے
نیشنل ایکشن پلان سے ہے ۔اس کے مخاطبین آئمہ و خطباء ہیں ۔ اس پر عبارت درج
ہے ’’حسبِ ہدایت ناظم امورِ دینیہ زیر نمبر2398تحریرِ خدمت ہے کہ نیشنل
ایکشن پلان کے تحت نفرت انگیز مواد اور لٹریچر کی روک تھام کے علاوہ فرقہ
وارانہ منافرت کے خاتمے کے لیے مساجد میں سی سی ٹی وی کیمرہ جات لگائے جا
کر خاص طور پر جمعۃ المبارک کی ریکارڈنگ کا فیصلہ کیا گیا ہے لہذا بالا
جملہ مہتمم حضرات /ائمہ و خطباء مساجد سی سی ٹی وی کیمرہ جات کی تنصیب اور
خطبہ جمعہ کی ریکارڈنگ کا اہتمام فرمائیں ۔‘‘ نیچے درج ہے اندر دس ایام میں
میں اصلاحات کا قائل ہوں یہ ایک اچھا اقدام ہے لیکن ذار غور کی بات یہ ہے
کہ نیشنل ایکشن پلان کا جھکاؤ مدارس اور مساجد کی ہی طرف رکھنا اس بات کا
اعلان ہے کہ دہشتگردی کا تعلق مساجد اور مدارس ہے ۔حالانکہ آج تک یہ بات
ثابت نہیں کی جاسکی کہ کسی دہشتگرد کا تعلق مدارس و مساجد سے ہو۔ویسے ایک
طرف تو کہا جاتا ہے کہ دہشتگرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور دوسری طرف اسے
مساجد و مدارس سے بھی جوڑ دیاجاتا ہے ۔آج تک جتنے لوگ بھی پکڑے گئے ان کا
تعلق مدارس یا مساجد سے نہیں ثابت ہو سکا۔
مساجد اور مدارس اسلام کے قلعے ہیں ۔ ان سے ہمیشہ امن کی آواز ہی بلند ہوتی
ہے اور انسانیت کا درس ملتا ہے ۔اسلام امن کا داعی ہے اور ایک انسان کے قتل
کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے ۔ چہ جائیکہ عوامی اجتماعات ، مساجد
،مدارس اور بازار ان کا نشانہ ہوں ۔افسوس اس بات کا ہے اسلام کو بدنام کرنے
کے لیے دہشتگردی کو اسلام سے جوڑا جاتا ہے۔اور اس مغربی پروپگنڈے میں ہم
بھی شامل ہو جاتے ہیں ۔ ویسے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سوچ سمجھ
کر پالیسی نہیں بناتے ۔ہم سوچیں سمھجیں بھی کیا ۔عقل تو ہماری آئی ۔ایم۔ایف
کے پاس گروی ہے اور بدلے میں ہم مرسڈیز اور بلٹ پروف گاڑیاں کے جھرمٹ میں
گھومنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔اور اس پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ہماری سوچ تو
امریکی پارلیمنٹ سے ہی جنم لیتی ہے ۔مغرب کے دہشتگردی کے راگ ہم بھی الاپ
رہے ہیں ۔اور امریکی جنگ میں گھسنا ہم اپنا درینہ فرض سمجھتے ہیں۔یوں ہم نے
دہشتگردی کو امپورٹ کیا۔برحال آزاد کشمیر وہ خطہ ہے جہاں ابھی تک پختہ
سڑکیں نہیں بنائی جا سکیں ۔بازاروں میں سٹریٹ لائٹس کا بندو بست نہیں ہو
سکا ۔سکول اور کالجز میں طلبہ و طالبات کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر
مجبور ہیں ۔سرکاری سکولوں میں بچوں اور بچیوں کی تعداد برائے نام سی رہ گئی
ہے۔شہریوں کو صاف پانی پینے کے لیے میسر نہیں ۔سرکاری عمارات کھنڈرات جیسی
ہیں ۔ہسپتال بنیادی طبی سہولیات سے محروم ہیں ۔ڈاکٹر ناپید ہیں ۔بھوک اور
افلاس بپھری ہوئی ہے ۔زلزلہ متاثرین ابھی تک کیمپوں میں ہیں۔انفراسٹریکچر
بری طرح متاثر ہے ۔حکومت کو ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ہاں اسے صرف یہ
خیال رہتا ہے کہ ان مساجد اور مدارس کو فتح کرنا ان کے لیے ضروری ہے ۔ یاد
رہے کہ یہ خطہ ہمارے اباؤ اجداد نے جہاد کے ذریعے آزاد کروایا تھا۔جس کا
مقصد صر ف اور صرف یہ تھا کہ یہاں اسلامی دستور کے مطابق زندگی بسرکریں گے
لیکن اب اس خطے کی قوم کو امریکہ کا ذہنی غلام بننے پر مجبور کیا جا رہاہے
۔خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ یہاں فرقہ وارنہ فسادات کی شرح صفر ہے ۔حکومت
کو چاہیے کہ وہ اپنی توجہ قومی امور پر دے اور اپنی حثیت کا بھی تعین کرے
کہ اسلام آباد میں میں بننے والا ہو قانون یہاں کیسے لاگو ہوتا ہے کیوں کہ
ایک ملک کے دو صدور، دو وزاء اعظم اور اور دو سپریم کورٹس نہیں ہو سکتے اور
خطبہ جمعہ کی رکارڈنگ انتظامیہ لے کر کیا کرے گی ہاں۱ بہتر صورت تو یہ ہے
کہ انتطامی امور کے سربراہان تحصیلدار، اے ۔سی اور ڈی ۔سی خود ہی شہر کی
مرکزی مساجد میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا کریں ۔اس سے فرقہ وارانہ فسادات کا
اندیشہ بھی باقی نہیں رہے گااور نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی بھی نہیں ہو
گی ۔ |