بادشاہ سلامت!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
جناب اسحاق ڈار کے مسلسل بیانات کے
بعد اب یہ بات یقین بن کر سامنے آرہی ہے کہ حکمران بادشاہت کے منصبِ جلیلہ
پر فائز ہوچکے ہیں، جب سے انہوں نے قومی خزانے میں چالیس ارب روپے کا اضافہ
کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس وقت سے انہیں ہر روز کوئی نہ کوئی بیان جاری کرنا
پڑتا ہے۔ اپوزیشن وغیرہ والوں نے اگر ایک دو بیانات دے کر اپنا فرض پور ا
کر ہی لیا ہے تو اس پر ڈار صاحب کو برداشت سے کام لینا چاہیے تھا، مگر وہ
مخالف کو ہر صورت میں شکست دینے پر تلے بیٹھے ہیں۔ ان کے بیانات مخالف کو
لاجواب کردینے والے ہوتے ہیں۔ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ’’ چالیس ارب روپے کے
ٹیکس سے عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا‘‘ تو اپوزیشن کو ہی برداشت
کرلینا چاہیے، کیونکہ اگر پاکستان کے خزانے پر مامور ایک امین وزیر جو بیان
دیتا ہے، وہ غلط بیانی تو کر نہیں سکتا، نہ ہی وہ جھوٹ بول سکتا ہے، کیونکہ
اس کا منصب دروغ گوئی وغیرہ کی اجازت نہیں دیتا، نہ ہی اسے جھوٹ بولنے یا
قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا مینڈیٹ ملا ہے۔ قوم کا فرض ہے کہ وہ
اپنے حکمرانوں اور ان کے قریبی رشتہ دار طاقتورو زیروں کی باتوں پر یقین
کریں اور زیادہ بحث نہ کریں، وہ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں، وہ ملک وقوم کے
مفاد میں ہی ہوتا ہے۔
وزیرخزانہ چونکہ ہر روز بیان دیتے ہیں، اس لئے انہیں ہر روز نیا تخیل تلاش
کرنا پڑتا ہے، نئے الفاظ اور نیا ماحول پیدا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے اسمبلی
میں پالیسی بیان جاری کردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ’’․․․ ہم نے جو فیصلہ بھی
کیا ہے یہ آئین اور قانون کی روشنی میں کیا ہے، اس لئے اسے اقدام کو ’منی
بجٹ‘ کا نام دینا زیادتی ہے، اس کا عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا،
کیونکہ ہم نے ایمپورٹیڈ چیزوں پر ٹیکس لگایا ہے، ہم نے کتے اور بلیوں کی
خوراک پر ٹیکس لگایا ہے، پالتو جانوروں کے ساتھ تصاویر بنانے والے ٹیکس بھی
دیں․․․‘‘۔ اس سے قبل بھی انہوں نے قوم کو بتایا تھا کہ یہ ٹیکس ’’آپریشن
ضربِ عضب‘‘ پر خرچ کیا جائے گا۔ پھر ان کا بیان آیا کہ یہ صوبوں کو حصہ تھا
، اگر یہ ٹیکس نہ لگایا جاتا تو صوبے بہت سے فنڈز سے محروم ہوجاتے۔ حتیٰ کہ
وزیر صاحب یہ باریک نکتہ بھی قوم کو سمجھا چکے ہیں کہ مہنگائی نہیں ہوئی،
کیونکہ اس ٹیکس کا عام آدمی پر فرق نہیں پڑا، ان کا کہنا ہے کہ اگر بچے
دکان سے چیز لینے جاتے ہیں اور واپسی پر بقایا والدین کو نہیں دیتے تو وہ
سمجھتے ہیں چیزیں مہنگی ہوگئی ہیں۔ اس قدر تفصیل اور وضاحت سے چالیس ارب
روپے کی صفائی پیش کردی گئی ہے، کہ قوم کے بچے بچے کو اس پر اطمینان ہے۔
ہم وزیر موصوف کے ایک ایک حرف کی تائید کرتے ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی
’’عام آدمی‘‘ احتجاج نہیں کررہا، صرف خواص ہی اپنی سیاسی دکان چمکانے کے
لئے بیان بازی کا سہارا لے رہے ہیں۔ حکومت بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے
کہ عام آدمی کو اس چالیس ارب روپے سے کوئی دلچسپی نہیں، عام آدمی کو معلوم
ہے کہ حکمرانوں نے بھی آخر زندگی کے دن پورے کرنے ہیں، انہیں خوراک اور
رہائش کی ضرورت ہے، انہوں نے ملک کے اندرونی اور بیرونی دورے کرنے ہوتے ہیں،
ان کے پروٹوکول کا مسئلہ ہے، ان کی سکیورٹی کے مسائل ہیں، ایسے قیمتی لوگوں
کی حفاظت پر تو ہم اپنا تن من دھن بھی قربان کرسکتے ہیں۔ ویسے بھی عام آدمی
نے حکومت کی بھر پور تائید کرکے ثابت کردیا ہے، کہ وہ دل وجان سے ان کے
ساتھ ہیں۔ عوام نے بلدیاتی انتخابات میں اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔
مزاجاً تو حکمرانوں کو ایک عرصہ سے ہی بادشاہ قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ ان
کے مزاج شروع سے ہی شاہانہ ہیں، ان کی عادتیں بادشاہوں والی ہی تھیں، جو
اُن کے آگے سے گزر جائے اسے ہیرے جواہرات سے نواز دیتے ہیں اور جو پیچھے رہ
جائے، وہ پیچھے ہی رہ جاتا ہے۔ مگر بلدیاتی الیکشن نے ان کو بادشاہ بننے کی
بھی چھوٹ دے دی ہے۔ اس سے قبل ضمنی الیکشنز میں حکومتی پارٹی کی کامیابی
اور اب بلدیاتی الیکشن میں سویپ سے شہ پا کر وہ مزید بادشاہ بن گئے ہیں۔ یہ
وہی وقت ہے جب ظالم حکمرانوں کے لئے فرانس کی تاریخ سے یہ جملہ سنایا جاتا
ہے کہ اگر بھوک لگی ہے تو کیا ہوا ، کیک کھائیں۔ حکمران معاشی لحاظ سے جس
مقام پر ہیں، وہ غربت کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے ، وہ بھوک ، افلاس،
بیماری اور غربت کے تصور سے ہی ناآشنا ہیں، مہنگائی کا بھی انہیں کوئی
ادراک نہیں، یہی وجہ ہے کہ اب حکمران طنز پر اتر آئے ہیں، اور یہ زوال کا
آغاز ہے۔ |
|