بھارت کے ساتھ مذاکرات کیلئے بے چین ہونے کی کیا ضرورت ؟
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
ہمیں آج دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ترکی نے روس جیسی سپرپاور کا طیارہ مار گرایا اور معافی مانگنے سے سرے سے انکار کر دیا۔ جبکہ دوسری طرف ہم ہیں جو کسی بھی ملک کے آگے لیٹنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کرکٹ سیریز کھیلنے کیلئے مرتے جا رہے ہیں، انہی کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں جن کو ہم اپنے ہاتھ کاٹ کر دے چکے ہیں۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ غیرت مند قومیں کبھی عزت، وقار اور خودداری پر سمجھوتہ نہیں کیا کرتیں کھیل تو بہت دور کی بات ہے۔ |
|
ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف
جنہوں نے 2 ماہ پہلے اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر اپنی تقریر میں بھارت کے
ساتھ مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کو اولین شرط قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ
کشمیر کو پس پشت ڈال کر بھارت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں کیے جا سکتے
اور اب ان کا یہ کہنا کہ وہ بھارت کے ساتھ ”غیر مشروط“ طور پر مذاکرات
کیلئے تیار ہیں، سمجھ سے بالا تر ہے۔ وطن عزیز کی 68 سالہ تاریخ کو چھوڑیے،
بھارت آج بھی ہمیں دنیا میں یکہ و تنہا کر کے مارنے کیلئے ایک بار پھر اپنی
ساری صلاحیتیں صرف کر رہا ہے۔
موجودہ حکمران شاید بھول گئے ہیں کہ پاکستانی شہری مولانا ذکی الرحمن لکھوی
کو جب پاکستانی عدالتوں نے سات سال کی طویل چھان پھٹک کے بعد باعزت رہا کیا
بھارت نے ہی امریکہ سمیت سلامتی کونسل کے سارے ملکوں کو اپنے ساتھ ملا کر
وہاں قرارداد پیش کر دی تھی کہ پاکستان کو عالمی دہشت گرد ریاست قرار دیا
جائے اور کہا تھا کہ افغانستان نہیں بلکہ پاکستان دہشتگردوں کی نرسری ہے۔
وہاں صرف چین ہی ایسا ملک تھا جس نے اس قرارداد کو ویٹو کرکے ہمیں اس سب سے
بڑے امتحان اور مشکل مرحلے سے باہر نکالا تھا بھارت نے تو ہم پر اتنا بڑا
حملہ کیا تھا کہ جو سقوط ڈھاکہ سے کسی طور بھی کم نہیں تھا لیکن وائے افسوس
کہ ہمارے ہاں تو اتنے بڑے حملے کو کسی نے کہیں زیربحث تک لانا گوارا نہ کیا۔
ہمارے ملک کے سبھی حلقے اتنے بڑے حملے پر اب تک خاموش ہیں۔ بھارت کا جب
یہاں داﺅ نہیں چل سکا تھا تو اس نے برسبین آسٹریلیا میں فنانشل ایکشن ٹاسک
فورس (FATF) کے اجلاس میں یہی مطالبہ دہراتے ہوئے ایک اور قرارداد پیش کر
ڈالی تھی۔ یہاں بھی امریکہ نے بھارت کی مدد کی تھی اور یہاں بھی بھارت کے
اس گھناﺅنے وار کو ناکام بنانے والا چین ہی تھا۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کا
تو میڈیا میں کہیں نہ کہیں تھوڑا بہت تذکرہ دیکھنے کو ملا لیکن برسبین
آسٹریلیا میں ہونےوالے حملے کا تو آج تک کسی کو ذرا علم بھی نہیں۔
موجودہ حکومت کے دور میں بھارت کے ہمارے اوپر یہ دو حملے اتنے بڑے اور اتنے
سنگین ہیں کہ جن کے بعد اگر ہم بھارت کے ساتھ تمام تر تعلقات ختم کر کے
حالت جنگ میں آ جاتے تو بھی شاید ازالہ ممکن نہ ہوتا۔ بھارت ہمارے ساتھ
ہماری سرحدوں پر جو کچھ کر رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں
یہی بھارت ہمارے خلاف پراپیگنڈا کر رہا ہے۔ساری دنیا کو مسلسل ہمارے خلاف
اکسا رہا ہے۔ سو ہمیں بھارت کے ساتھ مذاکرات کیلئے بے چین ہونے کی کیا
ضرورت ہے؟ ہمارے حکمران شاید یہ بھی بھول چکے ہیں کہ یہ وہی بھارت ہے جو
پاکستانی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیوں جو ہمہ وقت اس ملک کےخلاف ہونیوالی
ہر سازش کو ناکام بناتی آئی ہیں کو پوری دنیا میں بدنام کرنے کیلئے سالانہ
اربوں ڈالر صرف کرتا ہے۔۔۔ پہلی بات تو یہ کہ پاک بھارت مذاکرات ہمیشہ
نشستند، گفتند، برخاستند کا مصداق بننے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتے اور ان
مذاکرات میں بھی ہمیشہ پاکستان کی حیثیت صرف خاموش شریک کے طور پر سمجھی
جاتی ہے۔
اب جبکہ بھارتی وزیر خارجہ پاکستان آچکی ہیں تو اب کونسے غیر مشروط مذاکرات
کے دروازے کھلیں گے، کیا اب یہ سمجھا جائے کہ پاکستان کی طرف سے ان مذاکرات
میں کشمیر، پانی، پاکستان میں ”را“ کی سرگرمیوں اور مبینہ مداخلت، بھارت
میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم وغیرہ پر بات چیت کی کوئی شرط نہیں رکھی
جائیگی۔ اگر یہی مطلب ہے ”غیر مشروط مذاکرات“ کا تو پھر مذاکرات کس بات پر
ہونگے؟ یہ سمجھنے سے ہر پاکستانی قاصر ہے کہ کشمیر، پانی اور ’را‘ کی
پاکستان میں سرگرمیوں کے علاوہ مذاکرات ہوں تو کس بات کو لے کر ہوں؟یہ بات
خاصی مضحکہ خیز لگتی ہے کہ کشمیر جیسے ایشوز کو پاک بھارت مذاکرات سے نکال
کر بات کی جائے کیا کبھی پاکستانی قیادت نے یہ سوچا ہے کہ ایسا کرنے سے اس
کشمیری قیادت پر کیا گزرتی ہوگی جو ہر روز پاکستانی پرچم لہرا کر سینے پر
گولیاں کھا رہی ہے۔
ہمارے حکمران! نہ جانے انہیں کیوں پتہ نہیں چلتا کہ جس کشمیر کا انہوں نے
اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر بیان دیا تھا وہ کشمیرآج بھی آزادی کیلئے جہنم
زار صورت حال کا سامنا کر رہا ہے۔ کشمیری قوم کے جوان ہی نہیں بچے اور
عورتیں بھی بھارتی فوج کی گولیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہر روز کتنے کشمیری
آزادی اور پاکستان سے الحاق کی آرزو میں جانوں کی بازی لگا رہے ہیں۔ یہ
کشمیری ہر روز پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لے کر سینہ تانے بھارتی فوج کی
توپوں اور بندوقوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور لہو میں نہا جاتے ہیں۔ مظلوم
کشمیریوں پر زندگی تنگ کرنا اورانکی تحریک کو ختم کرنا، مسلسل بے گناہوںکا
قتل عام کرنا، مظاہرین پر آنسو گیس پھینکنا، شیلنگ کرنا، بے گناہوں کو
بلاوجہ گرفتار کرنا، خواتین کی عزتوں کو لوٹنا، بھارتی درندوں کا پسندیدہ
مشغلہ ہے۔
نوازشریف کو شاید اسکے مشیروں نے یہ خبریں دی بھی ہیں یا نہیں کہ کشمیری
قیادت نے ”غیر مشروط“ پاکستان بھارت مذاکرات کو مسئلہ کشمیر کی اہمیت سے
انحراف اور پانی سمیت دیگر ایشوز سے پاکستان کے انحراف کو قومی مفادات سے
پسپائی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ”غیر مشروط مذاکرات“
کی پیشکش اس عالمی ایجنڈا کے تحت ہے جسکے ذریعہ کشمیر سے پہلو تہی برتتے
ہوئے بھارت کی علاقائی بالادستی قائم ہو اور پاکستان کو دیگر ممالک کی طرح
اسکے تابع بنا دیا جائےبدقسمتی سے ہر بار دھوکہ کھانے کے بعد پاکستان کی
جانب سے بھارت سے ”غیر مشروط مذاکرات“ کیلئے مرے جانے کی خواہش نے مسئلہ
کشمیر کے حل کو متاثر کیا ہے۔ وزیراعظم کے اس بیان نے ہر محب وطن حلقے اور
شہری کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا کہ ہمیں آخر ایسی کون سی مجبوری اس وقت
آڑے آئی ہوئی ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ بغیر کسی وجہ کے یک طرفہ طور پر
مذاکرات کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔
ہمیں آج دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ترکی نے روس جیسی سپرپاور کا طیارہ مار
گرایا اور معافی مانگنے سے سرے سے انکار کر دیا۔ جبکہ دوسری طرف ہم ہیں جو
کسی بھی ملک کے آگے لیٹنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کرکٹ سیریز کھیلنے کیلئے
مرتے جا رہے ہیں، انہی کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں جن کو ہم اپنے
ہاتھ کاٹ کر دے چکے ہیں۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ غیرت مند قومیں کبھی عزت،
وقار اور خودداری پر سمجھوتہ نہیں کیا کرتیں کھیل تو بہت دور کی بات ہے۔
بھارت نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے
ہر طرح اور ہر ممکن اقدام کیا لیکن پھر بھی ہمارے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ
بھارت کے ساتھ امن اور دوستی ممکن ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کو
اسکی صحیح اوقات دکھائی جائے۔ مذاکرات کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ برابری کی
سطح پر بات کی جانی چاہیے، بھارت سے تجارت ہمیشہ گھاٹے کا سودا رہا ہے۔
کشمیر ، پانی اور عزت و نفس کے بغیر بھارت سے کوئی مذاکرات نہیں ہونے
چاہئیں، اس حوالے سے حکومت سخت رویہ اپنائے، تاکہ بھارت کو پاکستان سے ایک
واضع پیغام جائے کہ اب پاکستان میں ایک مضبوط لیڈر شپ ہے جو کسی قسم کا
سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔۔۔ حکمرانوں کو یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ پوری
قوم اس وقت پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ |
|