پاکستان کی سرزمین قدرتی حسن سے تو مالا مال ہے ہی لیکن
یہاں متعدد تاریخی مقامات بھی موجود ہیں جن میں قابلِ ذکر وہ حیرت انگیز
قلعے بھی شامل ہیں جو مختلف ادوار میں تعمیر کیے گئے- یہ قلعے سکندراعظم٬
مغلوں٬ عربوں٬ اور برطانوی دورِ حکومت کے دوران تعمیر کیے گئے لیکن آج بھی
یہ کسی حد تک اپنی باقیات کے ساتھ موجود ہیں- ان قدیم عجائبات میں ان کے
ماضی کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے-
|
Ramkot Fort
یہ قدیم قلعہ آزاد کشمیر میں منگلہ ڈیم کے نزدیک واقع ہے- آزاد کشمیر کے
علاقے دینا سے 13 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس قلعے تک رسائی صرف کشتی کے
ذریعے ہی ممکن ہے جبکہ سڑک کے ذریعے یہاں تک رسائی آزاد کشمیر کے علاقے میر
پور سے ممکن ہے اور یہ فاصلہ 79 کلومیٹر بنتا ہے- 16ویں اور 17ویں صدی کے
درمیان کشمیر کے حکمرانوں نے کئی مضبوط قلعے تعمیر کروائے٬ یہ قلعہ بھی
انہی میں سے ایک ہے- |
|
Throtchi Castle
یہ قلعہ آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کے قصبے گل پور میں واقع ہے- یہ مقبول
ترین قلعہ 1460 میں تعمیر کروایا گیا تھا- 1947 میں کرنل محمود کی سربراہی
میں ایک مقامی دستے نے ڈوگرہ فوج کا پیچھا کیا اور انہیں شکست دی- ڈوگرہ
فوج کو اس قلعے میں اس وقت تک محصور رہنا پڑا جب تک کہ انہوں نے جموں کشمیر
دوڑ جانے کا فیصلہ نہیں کرلیا-
|
|
Baghsar Fort
یہ قلعہ بھمبر گاؤں کے شمال میں Baghsar نامی مقام کے نزدیک وادی Samahni
میں واقع ہے- یہ وادی پاک بھارت سرحد کے انتہائی نزدیک واقع ہے- یہ قلعہ
مغل حکمرانوں نے تعمیر کروایا تھا- یہ قلعہ گرینائٹ سے تعمیر کیا گیا ہے-
اور اس قلعے کی مقبولیت کی وجہ یہاں موجود ایک خوبصورت جھیل بھی ہے-
|
|
Kalat Fort
قلات قلعہ کو مِیری قلعہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے- یہ قلعہ 15ویں صدی
میں بلوچوں نے فتح کیا- یہ خوبصورت قلعہ بلوچستان کے قلات میں واقع ہے-
|
|
Mir Chakar's Fort
میر چاکر نامی یہ قلعہ صوبہ بلوچستان کے شہر سبی کے مضافات میں واقع ہے- اس
قلعے کی تاریخ 15ویں صدی سے جا ملتی ہے- یہ قلعہ اونٹوں کے قافلوں کے لیے
روایتی رہائش گاہ کے طور پر بھی اپنی خدمات سرانجام دیتا رہا ہے- یہ قلعہ
قبائلی سردار صحبت خان نے تعمیر کروایا تھا-
|
|
Skardu Fort
گلگت بلتستان کے علاقے سکردو میں واقع اس قلعے کو قلعوں کا بادشاہ بھی کہا
جاتا ہے- یہ قلعہ سکردو کی مرکزی مارکیٹ یادگار چوک سے آدھے گھنٹے کے فاصلے
پر واقع ہے- یہ قلعہ قدیم فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے- اس قلعے میں ایک
قدیم مسجد بھی موجود ہے-
|
|
Altit Fort
یہ قلعہ گلگت بلتستان کی ایک قدیم ترین یادگار ہے اور اس کی تاریخ تقریباً
1100 سال پرانی ہے- یہ قلعہ خوبصورت ہنزہ وادی کے التت نامی قصبے میں واقع
ہے- اس قلعے کے اردگرد بروشو قوم آباد ہوا کرتی تھی جو بروشکی زبان بولتی
تھی-
|
|
Shigar Fort
شگر کے معنی چٹان کے ہیں یعنی یہ ایک چٹانی قلعہ ہے- یہ قلعہ بلتستان کے
علاقے شگر میں واقع ہے- یہ قلعہ 17ویں صدی میں شگر کے راجہ نے تعمیر کروایا
تھا- تاہم 1999 اور 2004 میں اسے دوبارہ بحال کیا گیا ہے- اس وقت یہ قلعہ
ایک میوزیم اور پرتعیش ہوٹل میں تبدیل کردیا گیا ہے-
|
|
Bala Hissar
بالا حصار خیبرپختونخواہ کے شہر پشاور میں واقع ہے اور یہ ایک بہت بڑا قلعہ
ہے- اور یہ پاکستان کے سب سے زیادہ پرانے تاریخی مقامات میں سے ایک ہے-
1834 کے آغاز میں سکھوں نے اس قلعے کا نام تبدیل کر کے سمیر گڑھ رکھ دیا
گیا تھا لیکن یہ اس کے آخری نام نہیں تھا- تاہم 1949 سے یہ قلعہ فرنٹئیر
کور کے ہیڈکوارٹر کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے- |
|
Kohat Fort
یہ قلعہ برطانوی حکومت نے فوجی استعمال کے لیے تعمیر کروایا تھا- آج یہ
قلعہ پاکستان آرمی کا ایک ہیڈ کوارٹر ہے- اس قلعہ کے داخلی راستہ ایک سرنگ
میں داخل ہونے کے بعد آتا ہے اور یہی اس کا واحد راستہ بھی ہے- یہ قلعہ آج
تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہے- |
|
Rohtas Fort
روہتاس قلعہ پاکستان کی انتہائی متاثر کن یادگاروں میں سے ایک ہے- اس قلعے
کی تعمیر بادشاہ شیر شاہ سوری نے 1540 سے 1547 عیسوی کے درمیان کروائی- یہ
دریائے جہلم کے نزدیک قصبہ دینا میں واقع ہے- اس قلعے کی تعمیر کا مقصد
مقامی قبائلیوں کی طرف سے ہونے والی مزاحمت کو کچلنا تھا- اس قلعے کے بارہ
دروازے تھے اور یہاں 30 ہزار افراد کی فوج ہوا کرتی تھی- اس قلعے کے زیادہ
تر حصے ashlar کے پتھر سے تعمیر کیے گئے- اس کی دیواریں بہت بڑی اور مضبوط
ہیں- |
|
Red Fort Muzaffarabad
لال قلعے کو مظفر آباد قلعے کے طور پر بھی جانا جاتا ہے- یہ قلعہ کشمیر کے
ضلع مطفر آباد میں دریائے نیلم کے گرد واقع ہے- اس قلعے کی تعمیر ابتدائی
طور پر چک حکمرانوں نے کروائی تاہم اس کو مکمل سلطان مظفر خان نے کروایا-
یہ قلعہ کشمیر کے مغلیہ دور میں اپنی اہمیت کھو چکا تھا کیونکہ ان مغل
حکمرانوں کی دلچسپی کابل٬ بخارا اور بدخشاں میں تھی- درانی حکمرانوں کے دور
میں اس کی اہمیت دوبارہ اجاگر ہونا شروع ہوئی- دریائے نیلم کو تین اطراف سے
گھیرے اس قلعے کا ڈیزائن اور ساخت انتہائی منفرد ہے-
|
|
Derawar Fort
دراوڑ قلعہ بہاولپور کے علاقے ڈیرہ نواب شاہ سے 48 کلومیٹر کے فاصلے پر
واقع ہے- یہ قلعہ پاکستان کے کے بڑے رقبے پر پھیلے قلعوں میں سے ایک ہے اور
اب تک بہترین حالت میں موجود ہے- اس قلعے میں 40 گڑھ موجود ہیں اور اسے
چولستان میں میلوں دور سے بھی دیکھا جاسکتا ہے- اس کی دیواریں 30 میٹر
اونچی ہیں- اس قلعے کی تعمیر ہندو راجپوت رائے جاجا بھٹی نے کروائی- یہ
قلعہ اس وقت تک شاہی خاندان کی رہائش گاہ رہا جب تک کہ 1733 میں بہاولپور
کے نوابوں نے اس پر قبضہ نہ کرلیا- اس قلعے میں نوابوں اور ان کے خاندانوں
کی قبریں بھی موجود ہیں-
|
|
Ranikot Fort
رانی قلعے کو دیوارِ سندھ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے- یہ قلعہ جامشورو ضلع
میں کیرتھر کے علاقے میں لکی پہاڑوں کے سلسلے میں واقع ہے- یہ دنیا کا سب
سے بڑا قلعہ بھی ہے جو کہ 26 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے- یقیناً یہ پاکستان
کے عجائبات میں سے ایک ہے- ممکنہ طور پر یہ قلعہ فارسی معزز فرد عمران بن
موسیٰ نے تعمیر کروایا جو کہ 836 میں سندھ کے گورنر تھے- 1812 میں میر کرم
علی خان تالپور اور ان کے بھائی میر مراد علی نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا
تھا-
|
|
Royal Fort Lahore
لاہور میں واقع یہ قلعہ شاہی قلعے کے نام سے مشہور ہے- اس کا موجودہ ڈھانچہ
مغل شہنشاہ اکبر نے تعمیر کروایا- مغل٬ سکھ اور برطانوی راج میں اس قلعے کی
باقاعدگی سے دیکھ بھال کی گئی- 20 ہیکٹر سے زائد رقبے پر پھیلے اس قلعے کے
2 دروازے ہیں- عالمگیری دروازہ شہنشاہ اورنگزیب نے تعمیر کروایا جو کہ
بادشاہی مسجد کی طرف کھلتا ہے جبکہ مسجدی دروازہ شہنشاہ اکبر نے تعمیر
کروایا لیکن فی الحال یہ گیٹ مستقل طور پر بند کر دیا گیا ہے- اور عالمگیری
دروازے کو ہی داخلی دروازے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے- |
|